ہجری جنتری کے مطابق آج سے 69 سال قبل آج کے دن پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور اُس روز جمعجہ تھا ۔ آج بھی رمضان المبارک کی 27 تاریخ ہے لیکن جمعہ ایک دن قبل تھا
کبھی ہم نے سوچا کہ پاکستان کو ہم نے کیا دیا ؟
کیا اُن شہداء کی روحیں جنہوں نے اس کے حصول کیلئے اپنے خون کا نذرانہ دیا پریشان نہیں ہو رہی ہوں گی ؟
کیا مسلمان دوشیزاؤں کی عزتیں لُٹنے کا علاج ہم نے اس طرح کرنا تھا ؟
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے چند سال بعد لکھی گئی نظم پر ذرا غور کیجئے
آؤ بچو، سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد
دیکھو یہ سندھ ہے یہاں ظالم داہر کا ٹولہ تھا
یہیں محمد بن قاسم ” اللہ اکبر“ بولا تھا
ٹوٹی ہوئی تلواروں میں کیا بجلی تھی کیا شعلہ تھا
گنتی کے کچھ غازی تھے لاکھوں کا لشکر ڈولا تھا
یہاں کے ذرے ذرے میں اب دولت ہے ایمان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد
یہ اپنا پنجاب سجا ہے بڑے بڑے دریاؤں سے
جگا دیا اقبال نے اس کو آزادی کے نعروں سے
اس کے جوانوں نے کھیلا ہے اپنے خون کے دھاروں سے
دشمن تھرا جاتے ہیں اب بھی ان کی للکاروں سے
دُور دُور تک دھاک جمی ہے یہاں کے شیر جوان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد
یہ علاقہ سرحد کا ہے سب کی نرالی شان یہاں
بندوقوں کی چھاؤں میں بچے ہوتے ہیں جوان یہاں
ٹھوکر میں زلزلے یہاں ہیں مٹھی میں طوفان یہاں
سر پہ کفن باندھے پھرتا ہے دیکھو ہر اک پٹھان یہاں
قوم کہے تو ابھی لگا دیں بازی یہ سب جان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد
ایک طرف خیبر دیکھو سرحد کی شان بڑھاتا ہے
شیرِ خدا کی قوت کا افسانہ یہ دہراتا ہے
ایک طرف کشمیر ہمیں جنت کی یاد دلاتا ہے
یہ راوی اور اٹک کا پانی امرت کو شرماتا ہے
پیارے شہیدوں کا صدقہ ہے دولت پاکستان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد
بالکل . . لمحہء فکریہ ہے لیکن اب فکر کہاں رہی؟
آپ کی یاد دہانی پہ یہ ملی نغمہ ذہن میں تازہ ہوگیا . . یہ ہمارے بچپن کے عہد کے ملی نغمے تهے. . ہر قومی دن اور قائد و اقبال کے حوالے سے پاکستانی کمیونٹی ہائی سکول کے درودیوار ان نغموں سے گونجا کرتے . . اور اوپن انٹری ہوا کرتی. . جن کے بچے سکول میں نہیں پڑهتے تهے وہ پاکستانی خواتین اور مرد بهی وہاں ہوتے. . سکول کے باہر سڑک بلاک ہوجاتی . . اللہ بهلا کرے آپ کا
ثروت عبدالجبّار صاحبہ
ایک قومی جذبہ ہوا کرتا تھا جو 1966ء میں بیمار ہوا اور 1971ء یا 1972ء میں مر گیا اور اب تو قوم ہے ہی نہیں ۔ جنگلی جانوروں کے بھی جنگل میں رہنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں ۔ شیر کا جب پیٹ بھرا ہو تو اُس کے قریب سے ہرن گذرے اُسے کچھ نہیں کہتا لیکن میرے ہم وطن تو اور کوئی نہ ملے تو بہن بھائیوں کو بھی رگڑا دینے سے نہیں چُوکتے
جی بالکل. . . کچھ جنریشن کی بات بهی ہے. . .نوے کی دہائی میں انٹر کرنے والے ہم پاکستانی کمیونٹی سکول کے بچوں کو پوری طرح اپنے وطن کا احساس دلایا جاتا، بتایا جاتا لیکن . . آج کا ٹین ایجر بہت دور تک رسائی رکهتا ہے.. . ایک کلک پہ اس کے سامنے تمام اعداد و شمار کهل جاتے ہیں کہ اس کے ملک میں ایمانداری کا کیا بھاؤ ہے . . اور یہ کہ اس کی پچھلی جنریشن نے نہ ڈیم بنائے نہ زراعت کا مستحکم نظام، نہ تعلیمی نظام نہ معاشرتی ڈھانچہ. . تو دلیل دینے والے کیسے قائل کریں اور احساس کیسے اُجاگر کریں . . آپ ایک بچے کو کیسے ثابت کریں گے کہ رشوت کے بغیر بهی کام ہو سکتا ہے……جب کہ آج کا نوجوان پہلے کی نسبت زیادہ حقیقت پسند ہے. . .
ایک امید ہے کہ یہ بے لاگ اور دوٹوک نسل شاید ترقی اور بہتری کا راستہ تلاش کرلے . . انشااللہ
ثروت عبدالجبار صاحبہ
سکول کے بچے تو ابھی ناسمجھ ہیں موجودہ جوان نسل سے پچھلی نسل میں میں اور میرے سینیئر ساتھی آتے ہیں ۔ جب پاکستان بنا تو جاتے ہوئے ہندو کئی بجلی گھر جلا گئے تھے ۔ ہم لوگوں کے لڑکپن کے پہ؛ے چند سال لاٹین کی روشنی میں گذرے پہر اندھیروں پر قابو پا لیا گیا ۔ مستقبل کا خیال رکھتے ہوئے وارسک ڈیم بنایا گیا جو مع پاور جنریشن و ٹرانسمشن لائینز 1960ء میں مکمل ہوا ۔ اس کے بعد منگلا ڈیم مع جنریشن و ٹرانسمشن لائینز 1967ء میں مکمل ہوا ۔ یہ بھی مستقبل کی ضروریات کیلئے تھا ۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست چمکانا شروع کی اور کالا باغ ڈیم نہ بننے دیا گیا ۔ اس کی بجائے تربیلا ڈیم بنایا گیا جو 1976ء میں مکمل ہوا لیکن کالاباغ ڈیم کے مقابلے میں بہت کم مفید ثابت ہوا ۔ اس کے بعد کوئی ڈیم نہ بنا ۔ پرویز مشرف کی غلط سوچوں کے نتیجہ میں بھارت نے چناب اور جہلم دریاؤں پر سات ڈیم بنا کر چناب کو خشک کر دیا ۔ پچھلی پی پی پی کی حکومت جیسی کیسی بھی تھی اسے پانچ سال پورے کرنے دیئے گئے تو اُمید تھی کہ پی ایم ایل این کی حکومت بھی پانچ سال پورے کرے گی ۔ اس طرح سلسلہ چل نکلا تو حالات بہتر ہوں گے اور گورننس بھی بہتر ہو گی لیکن نجانے عمران خان کے دماغ میں کیا ہے کہ اُسے حکومت چلتی اچھی نہیں لگ رہی ۔ لوگوں سے چندے یا زکات جمع کر کے ایک ہسپتال بنا کر شاید وہ سمجھتا ہے کہ اُس جیسا مُصلح کوئی پیدا نہیں ہوا ۔ شریف فیملی نے اپنی جیب سے دو ہسپتال بنائے اور اپنی جیب سے چلا رہے ہیں مگر اُنہوں نے کبھی ان کا نام نہیں لیا