ماضی میں ایک قاری صاحب نے فرمائش کی ” اگر آپ اپنے والدین کی ہجرت کی کہانی ناول کے طور پر لکھ سکیں تو اس میں اور بہت کچھ اسرائیل کے متعلق عیاں ہو جائے گا“۔ میں ناول تو لکھنے سے رہا البتہ آج کی نشست میں دو دلچسپ واقعات پر اکتفا کروں گا ۔ اس کے بعد اِن شاء اللہ ہجرت کے چیدہ چیدہ واقعات لکھوں گا
اباجان جنگِ عظیم دوم کے دوران فلسطین میں تھے ۔ جنگِ کے دوران کا ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے ۔ مصر کے ایک شہر پر ایڈولف ہٹلر کی ہوائی فوج نے بمباری کی ۔ جس سے ریلوے لائین اُڑ کر قریبی مکانوں کے اُوپر سے ہوتی ہوئی کافی دُور جا گری ۔ اُنہی دنوں افواہ پھیلی کہ جرمن جنرل رومَیل مصر پر حملہ کرنے آ رہا ہے ۔ جنرل ایروِن رومَیل کے متعلق مشہور تھا کہ جہاں جاتا ہے فتح کے جھنڈے گاڑتا ہے ۔ برطانوی فوج کا ایک میجر والد صاحب کے پاس آیا ۔ وہ متفکّر تھا ۔ بولا ”سُنا ہے رومَیل آ رہا ہے“۔ والد صاحب دل سے انگریزوں کے خلاف تھے بولے”ہاں بالکل درست ہے ۔ رومَیل بس پہنچا ہی چاہتا ہے اور تُم نے سُنا ؟ جرمنوں نے بمباری کی ہے اور ریلوے لائین اُڑ کر آدھا میل دور جا گری ہے ۔ تم اپنا کچھ بندوبست کر لو“۔
یہ کہہ کر والد صاحب میجر کیلئے چائے کا بندوبست کرنے گئے ۔ واپس آئے تو میجر بولا ”اُف میرا پیٹ“ اور پوچھا ”تمہارا باتھ روم کس طرف ہے ؟“ اُسے اسہال ہو گیا تھا ۔ والد صاحب نے بتایا کہ بار بار باتھ روم جا کے اُس کا حال خراب ہو گیا تو والد صاحب اُسے ہسپتال لے گئے
فلسطین میں والد صاحب جس بیکری سے ڈبل روٹی کیک بسکٹ لیتے تھے ایک دن گئے تو وہاں کیک پڑا تھا جس پر قیمت لکھ کر لگائی ہوئی تھی جو کافی کم تھی ۔ والد صاحب نے پوچھا ”یہ کیک اتنا سستا کیوں ہے ؟“ بیکری والے نے جواب دیا ۔ کیک اور بسکٹ وغیرہ کا جو چورا جمع ہو جاتا ہے وہ اکٹھا کر کے اس کا کیک بنا دیتے ہیں اور اسے سستا بیچ دیتے ہیں ۔ بلاشُبہ بیکری کا مالک یہودی تھا