وسط 1966ء میں مجھے مشین گن پروجیکٹ دے کر ابتدائی پلاننگ کا کہا گیا جو میں نے کی اور ستمبر تک ہر قسم کی منظوری پاکستان آرڈننس فیکٹریز بورڈ (پی او ایف بورڈ) سے لے لی ۔ اکتوبر میں اچانک ایک صاحب کو میرا باس بنا دیا گیا جنہیں ویپنز پروڈکش کا کچھ علم نہ تھا بلکہ شاید ویپنز فیکٹری کا کام کبھی دیکھا بھی نہ تھا ۔ وہ اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے تھے اور باتوں سے ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے ۔ آج کسی اور واقعہ نے اُن کی یاد دلا دی ۔ سوچا کہ قارئین کی تفننِ طبع کیلئے متذکرہ باس کے چند معرکے بیان کئے جائیں
ڈھبریاں اور کابلے
ہم نومبر 1966ء میں جرمنی گئے ۔ کوٹیشنز طلب کرنا ۔ سپلائرز سے گفت و شنید کر کے درست مشینوں کا چناؤ اور قیمتیں کم کروانا ۔ تفصیلی مطالعہ کر کے مشین کا تکنیکی اور فنانشل موازنہ کا چارٹ بنانا ۔ مشین خریدنے کے جواز پر دلائل لکھنا ۔ یہ سب میرے ذمہ تھا ۔ باس صرف دستخط کرتے پھر میں سارا کیس پاکستان پی او ایف بورڈ کو بھیج دیتا
بڑی مہنگی مہنگی مشینیں خریدنے کے کیسوں پر باس نے بلا چوں و چرا دستخط کر دیئے ۔ ایک سستے سے ایکسینٹرِک (eccentric) پریس کے کیس پر باس نے اعتراض کیا ”سب سے سستا پریس کیوں چھوڑ دیا ہے ؟“ استفسار پر معلوم ہوا کہ کرینک (crank) پریس کی بات کر رہے تھے جس کی کوٹیش شاید غلطی سے کسی کمپنی نے بھیج دی تھی ۔ میں نے کہا ” ایکسینٹرِک پریس اور کرینک پریس کے کام میں فرق ہوتا ہے“ اور فرق سمجھانے کی کوشش بھی کی ۔ اس پر باس شور مچانے لگے اور بولے ”میں پریسز کی ڈھبریاں اور کابلے جانتا ہوں (I know nuts and bolts of presses)“۔ اُسی وقت ایک جرمن انجنیئر ہمارے کمرہ میں داخل ہوا تو اُس سے بولے ”یہ تمہارے دوست مسٹر بھوپال نے ایکسینٹرِک پریس اور کرینک پریس کو فرق فرق کر دیا ہے“۔ وہ جرمن بہت چالاک آدمی تھا بولا ” میں اس کا ماہر نہیں ہوں ۔ پریس شاپ کے فورمین سے جا کر پوچھتے ہیں“۔ وہاں پہنچ کر جونہی جرمن انجیئر نے بات کی اُس نے انجنیئر کو کھری کھری سنا دیں“۔ باس صورتِ حال بھانپ کر ہم سے پہلے ہی رفو چکر ہو گئے ۔ باس شاید صرف ڈھبریاں اور کابلے ہی جانتے تھے
انگلش کیک
ہم چند جرمن انجیئروں کے ہمراہ ٹرین میں ڈوسل ڈورف سے میونخ جا رہے تھے ۔ ٹرین میں کافی منگوائی گئی تو باس بولے میں چائے پیئوں گا ۔ ساتھ کھانے کیلئے مقامی کیک منگوایا گیا تھا ۔ باس کہنے لگے ”انگلش کیک جیسا کوئی نہیں ۔ میں انگلش کیک کھاؤں گا“۔ انگلش کیک خُشک ہوتا ہے ۔ مقامی کیک پر تھوڑی کریم اور کافی زیادہ پھل کا مربہ لگا ہوا تھا ۔ جرمنوں کو معلوم نہ تھا کہ انگلش کیک کیسا ہوتا ہے سو میں اور ایک جرمن انجنیئر جا کر انگلش لے آئے ۔ باس نے انگلش کیک کھانا شروع کیا تو گلے میں پھنس گیا ۔ باس کا بُرا حال ہوا ۔ بعد میں جرمن انجیئر کہنے لگا ”بلڈی انگلش کیک“۔
روک دو ۔ Stop it
ایک دن کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھے باس ۔ دو جرمن انجنیئر اور میں چائے پی رہے تھے ۔ باس گویا ہوئے ”میرے ماتحت ورکشاپس میں ایک میں ایک ایکسٹرُوژن پریس (Extrusion Press) تھا ۔ ایک دن میں اُس ورکشاپ میں داخل ہوا ۔ ایکسٹرُوژن پریس چل رہی تھی ۔ میں نے دیکھتے ہی کہا ” روک دو “۔ اور پریس روک دیا گیا ۔ جرمن ہکّا بکّا باس کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ باس کچھ سانس لے کر بولے ”اگر پریس نہ روکا جاتا تو حادثہ ہو جاتا“۔ جرمن ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ وجہ ظاہر ہے ۔ یہ تو بتایا نہ تھا کہ حادثہ کیوں ہو جاتا ۔ میں جانتا تھا کہ باس نے ساری زندگی کبھی کوئی مشین یا پریس کو نہیں چلایا تھا ۔ پھر باس کو کیسے معلوم ہوا کہ حادثہ ہو جائے گا ؟
اُسی ورکشاپ میں ایک ہاٹ رولنگ مِل تھی جسے اسسٹنٹ منیجر یا اُوپر کے افسروں میں سے صرف 3 نے چلایا تھا ۔ میں نے اور میرے ایک ساتھی نے 1963ء میں تربیت کے دوران ہاٹ رولنگ مِل کو چلایا تھا جس کیلئے پی او ایف کے ٹیکنیکل چیف سے اجازت لینا پڑی تھی ۔ تیسرا وہ اسسٹنٹ منیجر تھا جو برطانیہ سے اس کی تربیت لے کر آیا تھا ۔ وہ 1964ء کے آخر میں پی ایف کو خیرباد کہہ گیا تھا ۔ ہمیں ایکسٹرُوژن پریس چلانے کی اجازت نہیں ملی تھی
ایک اہم واقعہ
ابھی ہم جرمنی میں ہی تھے کہ ایک دن دفتر میں ایک خط کی آفس کاپی مجھے دے کر کہا ”اسے فائل کر دو“۔ وہ خط چیئرمین پی او ایف بورڈ کے خط کا جواب تھا ۔ باس نے 2 دن قبل خود ہی جواب لکھ کر ٹائپ کرا کے بھیج دیا تھا ۔ ساری ڈاک میں ہی پڑھتا اور جواب لکھتا تھا لیکن چیئرمین صاحب کا خط میں نے نہیں دیکھا تھا ۔ باس سے چیئرمین صاحب کا خط مانگ کر لیا ۔ جب پڑھا تو میں پریشان ہو گیا ۔ باس نے جو جواب لکھا تھا وہ درُست جواب کا اُلٹ تھا ۔ میں نے باس کو بتایا تو مجھ پر چیخنے لگے ۔ اسی اثناء میں سفارتخانے کے ٹیکنیکل اتاشی آ گئے جو ہفتہ میں 3 دن سفارتخانہ میں اور 3 دن ہمارے ساتھ کام کرتے تھے ۔ باس نے خط اورُ جواب اُنہیں دیا ۔ اُنہوں نے خط پڑھا اور بولے ”اجمل درست کہہ رہا ہے“۔ معاملہ سیکرٹ تھا اسلئے باس نے جی پی او جا کر خط کا جواب بذریعہ رجسٹری سفارتخانہ کو بھیجا تھا کہ ڈپلومیٹک بیگ میں پاکستان چلا جائے ۔ سفارتخانہ بون میں تھا اور ہم ڈوسلڈورف میں ۔ باس بہت پریشان بار بار کہہ رہے تھے ”اب کیا کریں ؟“ میں نے کہا ”سفارتخانہ سے بیگ جا چکا ۔ وائرلیس سسٹم غیر معینہ مدت کیلئے بند ہے ۔ آپ مجھ پر چھوڑ دیں ۔ اللہ کوئی صورت نکال دے گا“۔ میں قریبی چھوٹے ڈاکخانہ میں گیا اور ایک ایروگرام لے آیا ۔ اس پر اپنے قلم سے چیئرمین کے خط کا درست اور تفصیلی جواب لکھا ۔ پہلے اُوپر ایک ممبر پی ایف بورڈ کے نام لکھا”یہ خط ملتے ہی چیئرمین صاحب کو پہنچا دیں“۔ ایروگرام کے باہر ممبر پی او ایف بورڈ کا نام اور گھر کا پتہ لکھا ۔ عہدہ وغیرہ کچھ نہ لکھا اور عام ڈاک کے ذریعہ جی پی او جا کر پوسٹ کر دیا ۔ اگر رجسٹری کرتا تو پہنچنے میں 2 سے 4 دن زیادہ لگتے اور خط ہر ایک کی نظر سے گزرتا ۔ دوسرے دن باس بار بار پوچھتے رہے پھر شور مچانے لگے تو میں نے جو کیا تھا بتا دیا ۔ باس کرسی سے اُچھل پڑے اور میرے پیچھے پڑ گئے ۔ میں خاموش رہا ۔ پاکستان واپس آ کر فیکٹری گئے تو پہلے ہی روز باس بولے ”چلو میرے ساتھ“۔ ہم چیئرمین صاحب کے دفتر جا پہنچے ۔ چیئرمین صاحب سے کہنے لگے ”اس نے کی تھی وہ حرکت“۔ چیئرمین صاحب نے کہا ”کون سی ؟“ بولے ”وہ خط“۔ چیئرمین بولے ”اس نے بہترین راستہ اختیار کیا جو ان حالات میں محفوظ بھی تھا“۔ پھر چیئرمین صاحب مجھ سے مخاطب ہو کر بولے ”جائیں جا کے اپنا کام کریں“۔
سوت کا کٹ
پاکستان آنے کے بعد 1968ء میں ایک ملنگ (Milling) مشین کی ضرورت تھی ۔ باس مجھے اپنے گورو کے پاس لے گئے جو کئی سال قبل پی او ایف چھوڑ گیا تھا ۔ چند نجی کمپنیوں سے نکالے جانے کے بعد بے روزگار تھا تو یاروں نے اُسے کنٹریکٹ پر پی او ایف میں بطور ایڈوازر بھرتی کروا لیا تھا ۔ گورو بولے ”فلاں ورکشاپ میں درجنوں ملنگ مشینیں بیکار پڑی ہیں ۔ اُن میں سے لے لیں“ ۔ میں اس ورکشاپ کو کو کئی بار دیکھ چکا تھا ۔ میں نے کہا ”وہ مشینیں بہت ہلکے کام کیلئے ہیں ۔ مطلوبہ کام نہیں کر سکتیں“۔ گورو بولے ”آپ ابھی بچے ہیں ۔ میں اپنے زمانے میں اُن مشینوں پر ایک سوت کا کٹ (cut) لگواتا رہا ہوں“ (سوت اِنچ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے)۔ میں نے کہا ” از راہِ کرم ساتھ جا کر مجھے ایسی مشین دکھا دیجئے“۔ دوسرے دن میں باس اور گورو اُس ورکشاپ میں گئے ۔ مستری کو بُلایا ۔ گورو نے اُسے کہا ”میٹریل اس مشین پر باندھو اور ایک سوت کا کٹ لگاؤ ۔ مستری اُچھل پڑا اور بولا ”آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ مشین برباد کروائیں گے ۔ اس ورکشاپ میں کسی مشین پر چوتھائی سوت بھی نہیں کاٹا جا سکتا“۔ باس اور گورو دُم دبا کر بھاگ لئے
جہادِ کشمیر
باس کئی بار مجھے کہہ چکے تھے ”تم نے کشمیر کیلئے کیا کیا ؟ میں نے کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا“۔ میں نے 1947ء میں تیسری جماعت کا امتحان پاس کیا تھا ۔ میں سوچتا کہ باس اُن دنوں کالج میں ہوں گے ۔ ایک دن باس حسبِ معمول محفل جمائے اپنے کچھ اور معرکے بیان کر رہے تھے کہ اُن کے ایک ہم عصر نے پوچھا ”آپ بندوق چلانا جانتے ہیں ؟“ بولے ”نہیں“۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ باس نے جہاد کیسے کیا ہو گا ۔ آخر ایک دن جب باس بہت چہچہا رہے تھے مجھے دیکھ کر جہادِ کشمیر کی بات کی تو میں نے پوچھا ”آپ نے آزاد کشمیر کے کس علاقے میں جہاد کیا تھا ؟“ باس جواب گول کر کے کوئی اور قصہ سنانے لگے ۔ مجھے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ 1947ء میں باس انجنیئرنگ کالج فرسٹ ایئر میں تھے ۔ تھوڑی دیر بعد میں نے کہا ”جہاد کی وجہ سے آپ نے پڑھائی کے ایک سال کی قربانی دی“۔ بولے ”میں واپس آیا تو امتحان ہو چکے تھے ۔ مجھے استثنٰی دے کر سیکنڈ ایئر میں بٹھا دیا تھا“۔ یہ بات ماننے والی نہ تھی لیکن باس تھے اور باس ہمیشہ درست ہوتا ہے اسلئے خاموش رہا
دلچسپ جناب