اچھی یادیں اسلئے لکھا ہے کہ سُہانی رات ہوتی ہے اور آنے والا نہیں آتا
میں کم ظرف ہوں گا اگر سب سے پہلے ” نورین تبسم صاحبہ “ کا شکریہ ادا نہ کروں جو بزور گھسیٹ گھساٹ کے مجھے میرے اُس ماضی میں لے گئیں جسے میں اپنی نوجوانی کا دور کہہ سکتا ہوں اور جس سے کچھ اچھی یادیں وابسطہ ہیں ۔ میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں یکم مئی 1963ء کو ملازمت شروع کی ۔ یکم مئی 1963ء سے 31 دسمبر 1963ء تک مطالعاتی دوررہ تھا جس میں مجھے پورے ادارے میں گھمایا گیا یعنی انجنیئرنگ فیکٹری انجنیئرنگ فیکٹری (جو فیرس گروپ ۔ نان فیرس گروپ ۔ فیرس فاؤنڈری ۔ نان فیرس فاؤنڈری ۔ سمال آرمز ایمیونیشن ۔ وُڈ ورکنگ ۔ سروسز وغیرہ پر مشتمل تھی) ۔ ان کے علاوہ ایکسپلوسِوز فیکٹری ۔ فِلِنگ فیکٹری ۔ ٹول روم ۔ سروسز ڈرائنگ آفس اور پروڈکشن ڈرائنگ اینڈ ڈیزائین آفس میں بھی ایک ہفتہ سے 4 ہفتے تک رکھا گیا ۔ جنوری 1964ء میں مجھے ویپنز فیکٹری میں تعینات کر دیا گیا جو اُن دنوں فیرس گروپ کا حصہ تھی اور جہاں رائفل جی تھری کی ڈویلوپمنٹ ابتدائی مراحل میں تھی اور مجھے اس میں آدھی رات کا تیل جلانا تھا (to burn mid-night oil) ۔ رائفل جی تھری کی ڈویلوپمنٹ کے بعد پروڈکشن شروع ہوئی ہی تھی کہ وسط 1966ء میں میرے ذمہ مشین گن کی پلاننگ کر کے ہیڈ کوارٹر میں بھیج دیا گیا ۔ اوائل 1968ء میں مشین گن کی ڈویلوپمنٹ اور پروڈکشن کیلئے واپس ویپنز فیکٹری بھیج دیا گیا جہاں میں 18 مئی 1976ءکو ملک سے باہر بھیجے جانے تک رہا ۔ اتفاق کی بات سمجھ لیجئے کہ میرے 53 سال کی عمر میں 3 اگست 1992ء کو ریٹائر ہونے تک پاکستان آرڈننس فیکٹریز کی جن شاخوں میں کام کیا(گستاخی معاف) وہاں میرا واسطہ زیادہ تر خود غرض یا منافق لوگوں سے پڑا
میں 2 بڑے افسران کے اچھا ہونے کا ذکر پہلے کر چکا ہوں لیکن اُن میں سے ایک کے ماتحت 2 ماہ اور دوسرے کے ماتحت 6 ماہ کام کرنے کا موقع دیا گیا ۔ میرے ساتھ کام کرنے والے میرے ہم عصر ۔ میرے براہِ راست اُوپر اور میرے براہِ راست ماتحت افسران میں سے صرف 3 ایسے تھے جو محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ ادارے یا ملک کیلئے مخلص تھے
ہوا یوں کہ نورین تبسم صاحبہ نے میری توجہ اپنی ایک تحریر کی طرف کرائی جس میں یعقوب صاحب کا ذکر تھا جنہیں نورین تبسم صاحبہ نے میرا ہمجماعت اور دوست لکھا تھا ۔ محمد یعقوب خان صاحب اور میں آٹھویں سے بارہویں جماعت تک ایک ہی جماعت اور ایک ہی سیکشن میں رہے ۔ نویں جماعت میں ہم ایک ہی بنچ پر بیٹھتے تھے ۔ کالج کے بعد پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں آنے پر محمد یعقوب خان صاحب سے میری ملاقات اُن کے والد کی وساطت سے ہوئی جو اُن دنوں ویپنز فیکٹری میں فورمین تھے ۔ اُس دن سے 18 مئی 1976ء تک ان سے ملاقات رہی ۔ میں 1983ء میں واپس آیا تو اُن کے والد ریٹائر ہو چکے تھے اور باوجود چند بار کوشش کے مجھے محمد یعقوب خان صاحب کا کچھ پتہ نہ چلا
لامحالہ مجھے محمد یعقوب خان صاحب کے والد محمد یار خان صاحب یاد آئے جن کے ساتھ میرا واسطہ پہلی بار مئی 1963ء میں ویپنز فیکٹری میں تربیتی 4 ہفتوں کے دوران پڑا ۔ وہ ویپنز فیکٹری کے سب سے سینئر فورمین تھے اور پوری پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں کام کے ماہر مانے جاتے تھے ۔ ایک دن میرے پاس آئے اور کہا ” اجمل صاحب ۔ آپ کی بہن ڈاکٹر صاحبہ ولیہ ہیں ۔ خاندانی اثر آپ پر بھی ہو گا ۔ ہمارا ایک مسئلہ ہے ۔ اس میں ہماری مدد کیجئے“۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا ”خان صاحب ۔ میری بڑی بہن کو آپ نے ولیہ کیسے بنا دیا ؟“ بولے ” میری بیٹی بیمار ہوئی ۔ بہت علاج کرایا ۔ سپشیلسٹ ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا ۔ ہم نا اُمید ہو گئے تھے کہ کسی نے کہا ڈاکٹر فوزیہ قدیر سے علاج کروائیں ۔ ہم نے علاج کروایا اور بیٹی ٹھیک ہو گئی ۔ میں تو اُنہیں ولیہ مانتا ہوں ۔ آپ ہماری مدد کریں“۔ میں نے بہت سمجھایا کہ ”میں تو یہاں آپ سے سیکھنے آیا ہوں ۔ جو مسئلہ آپ حل نہیں کر سکے بھلا میں کیسے حل کر سکتا ہوں ؟“ مگر وہ نہ مانے ۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن میں اُن کے ساتھ ورکشاپ میں گیا ۔ ایک پرزہ تھا جس کی 30 فیصد کے قریب پروڈکشن ضائع ہو رہی تھی ۔ میں نے پرزے اور مشین کا مطالعہ کیا اور کچھ مشورہ دیا ۔ اللہ کا کرنا کہ وہ پرزہ ٹھیک بننے لگا ۔
سورت 3 آل عمران آیت 26 ۔
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۔ ۔ ۔ اور کہیے کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے
دو دن بعد محمد یار خان صاحب ایک اور پرزے کا مسئلہ لائے ۔ اتفاق سے اللہ نے وہ بھی میرے ہاتھوں درست کرا دیا ۔ پھر محمد یار خان صاحب میرے پاس آئے اور بولے ” آپ یعقوب کو جانتے ہوں گے ۔ میرا بیٹا ہے ۔ ایکسپلوسوز فیکٹری میں ہوتا ہے“۔ محمد یار خان صاحب مجھے اپنا اُستاد ماننے لگے ۔ جب کسی ٹیکنیکل مسئلہ میں پھنس جاتے تو میرے پاس پہنچ جاتے
جب مجھے معلوم ہوا کہ نورین تبسم صاحبہ کی شادی کے بعد سے رہائش واہ چھاؤنی میں ہے تو میں نے اُن کے خاوند اور سسر صاحبان کا پوچھا ۔ معلوم ہوا کہ وہ محمد عبدالعلیم صدیقی صاحب کی بہو ہیں ۔ جب میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی تو صدیقی صاحب اسسٹنٹ فورمین تھے بعد میں فورمین ہو گئے تھے ۔ جب جنوری 1964ء میں مجھے ویپنز فیکٹری میں تعینات کیا گیا تو انہیں میرے ماتحت لگا دیا گیا کیونکہ ورکس منیجر صاحب کو ان کا سچ اچھا نہیں لگتا تھا
میرے پاس آئے اور دروازے کے پاس سے ہی بولے ”صاحب ۔ آ سکتا ہوں“۔
میں نے ہاتھ سے آ کر کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا
پھر وہیں سے بولے ”صاحب ۔ میرا تبادلہ آپ کے پاس کر دیا گیا ہے ۔ اب آپ جہاں چاہیں بھیج دیں“۔
میں نے ڈرائنگ سے نظریں اُٹھا کر اُن کی طرف دیکھا تو پریشان نظر آئے ۔ میں نے کہا ”اِدھر آیئے اور تشریف رکھیئے“۔
بولے ”آپ بڑے افسر ہیں ۔ میں آپ کے برابر کیسے بیٹھ سکتا ہوں“۔
میں نے کہا ”دیکھیئے ۔ بطور انسان ہم سب برابر ہیں لیکن آپ مجھ سے بہتر ہیں ۔ آپ کام جانتے ہیں اور میں کام سیکھ رہا ہوں ۔ اب آ کر بیٹھ جایئے“۔
صدیقی صاحب بیٹھ گئے تو میں نے کہا ”آج کے بعد آپ نے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر نہیں کہنا ”صاحب ۔ میں اندر آ سکتا ہوں ؟“
وقت گذرتا گیا اور صدیقی صاحب میرے قریب ہوتے گئے ۔ کبھی کبھار کوئی خاص تکنیکی مشورہ لینا ہوتا یا دل بوجھل ہوتا تو میرے پاس آ جاتے اور ہنستے ہوئے کمرے سے نکلتے
محمد یار خان اور محمد عبدالعلیم صدیقی صاحبان کا ذکر ہوا تو مجھے ان کے ساتھی عصمت اللہ صاحب یاد آئے جو اسسٹنٹ فورمین تھے اور جب اوائل 1968ء میں دوبارہ ویپنز فیکٹری پہنچا تو فورمین ہو چکے تھے ۔ عصمت اللہ صاحب سے بڑے صاحب کسی وجہ سے ناراض ہو گئے اور اُنہیں میرے ماتحت بھیج دیا . دو سال قبل عصمت اللہ صاحب نے مجھے کہا تھا ”دو جماعت پڑھ کر آ جاتے ہیں ۔ پروڈکشن کا کام سیکھنے کیلئے ہاتھ کالے کرنا ہوتے ہیں اور کئی سال محنت کرناپڑتی ہے“۔
میں اَن سُنی کر کے جو کام اُن سے کہنا تھا کہہ کے آ گیا تھا ۔
چند ہفتے میرے ساتھ کام کرنے کے بعد مجھے کہنے لگے ” صاحب ۔ آپ کس کالج سے پڑھ کے آئے ہیں ؟“
میں نے مسکرا کر کہا ”جاہل ہوں ۔ اسلئے کہہ رہے ہیں ؟“
بولے ” نہیں صاحب ۔ یہ سارے جو افسر لوگ ہیں ۔ آپ ان میں سے نہیں ہیں ۔ اس کی وجہ تو کوئی ہونا چاہیئے“۔
میں نے کہا ” عصمت اللہ صاحب ۔ وہ بادشاہ لوگ ہیں ۔ میں اُن کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہوں“۔
کہنےلگے ” ایک بات بتائیں کہ محمد یار خان صاحب آپ کو اُستاد کیوں مانتے ہیں ؟“
میں کہا ”یہ اُن کی ذرہ نوازی ہے ۔ ویسے تو میں اُن کے بیٹے کے برابر ہوں“۔
بولے ”وہ الگ بات ہے ۔ چلیں چھوڑیں“ ۔
عصمت اللہ صاحب سچ گو اور اپنے کام کے ماہر تھے ۔ کام کے بارے میں بلاوجہ کا اعتراض برداشت نہیں کرتے تھے ۔ 1973ء میں ایک افسوسناک واقعہ کے بعد ریٹائرمنٹ لے کر کراچی چلے گئے ۔ جب بھی وہاں سے آتے مجھے ضرور ملتے
یاد بھی ایک نعمت ہے ورنہ ہم میں سے اکثر کی زندگی اس شعر کی مثل گزر جاتی ہے۔
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
(اختر انصاری دہلوی)
محترم اصغر صاحب کے بارے میں آپ کے ذاتی مشاہدات کے بغیر میرے لیےآپ کے ماضی کے اس سفر میں کچھ تشنگی سی ہے۔ ان کی اہلیہ کے بارے میں میں لکھ چکی ہوں اور ان کے بارے میں لکھنے کی خواہش ہے وہ باتیں وہ سرگوشیاں جو انہوں نے صرف مجھ سے کیں۔۔۔اس کی خوشبو محفوظ کرنا ایک قرض ہے میرے لیے، ان کا نام محمد علی تھا لیکن اپنی کزن صغرٰٰی سے منگنی کے بعد اپنے نام میں اصغر کا اضافہ کرلیا یوں ایم اے اصغر کے نام سے معروف ہوئے۔کالج کا وہ طالب علم جس نے 1942 میں قائدِاعظم کی لاہور آمد کے موقع پر اپنے اسلامیات کے استاد جو امام مسجد بھی تھےکے کہنے پر لاہور کی آسڑیلوی مسجد میں نماز مغرب کی ادائیگی کے وقت قائد اعظم کی جوتیاں کھو جانے کے خوف کی وجہ سے اپنے گلے میں ہارکی صورت ڈالیں اور نماز کے بعد ان کے سامنے رکھیں اورمحترم قائد نےشفقت سے اصغر صاحب کے سر پر ہاتھ رکھا اور ہاتھ بھی ملایا۔ اصغر صاحب نے دنیا کے پانچ برِاعظوں کے سفر کیے ۔اپنے محکمے کی جانب سے۔ وہ ایک الگ کہانی ہے جوڑ توڑ کی۔ ملکہ برطانیہ کی رسم تاجپوشی میں شرکت کی ، ماؤزرے تنگ ،چوائن لائی سے ملے ۔اور پھر سب سے دل گداز کہانی ان کا جنگی قیدی بنایا جانا ہے جس کے اثرات اور ثمرات شاید وہ آخری سانس تک نہ بھلا پائیں۔
اللہ ان کو ذہنی اور جسمانی صحت عطا فرمائے، وہ اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد آج کل لاہور میں اپنے بچوں کے پاس رہتے ہیں
نورین تبسم صاحبہ
محمد علی اصغر صاحب کے متعلق ضرور لکھیئے ۔ پڑھ کر میری یاد داشت بھی تازہ ہو جائے گی ۔ وہ سمال آرمز ایمیونیشن فیکٹری میں تھے جو نان فیرس گروپ کا حصہ تھی اور میں سمال آرمز گروپ میں تھا جو فیرس گروپ کا حصہ تھی ۔ سمال آرمز گروپ اللہ نے میرے ہاتھوں 1966ء میں ویپنز فیکٹری بنا دیا اور یہ فیرس گروپ سے علیحدہ ہو گئی اور خود مختار بھی ۔ اسے ماڈل فیکٹری کا درجہ بھی اُسی وقت دیا گیا تھا ۔ میں یکے بعد دیگرے پروجیکٹس میں پھنسا رہا پھر 1970ء میں وہ مشرقی پاکستان بھیج دیئے گئے ۔ مزید یہ کہ وہ واہ میں ہمارے محلہ میں نہیں رہتے تھے ۔ اسلئے محمد علی اصغر صاحب سے مختصر ملاقاتیں ہوتی تھیں ۔ مجھے اُن کی بہت سی باتیں یاد ہیں لیکن میں نے صرف اُن کک متعلق لکھا ہے جنہوں نے سالہا سال میرے ساتھ کام کیا ۔ محمد علی اصغر صاحب کے ساتھیوں میں محمد عبدالحمید صاحب اور چوہدری عبدالحمید صاحب سے بھی میرے اچھے تعلقات تھے ۔ یہ تینوں اچھے لوگ تھے ۔ باقیوں کی میں بات نہیں کرنا چاہتا ۔ یہ دونوں صاحبان ہمارے محلہ مین رہتے تھے اسلئے مسجد میں یا باہر ملاقات رہتی تھی ۔ چوہدری عبدالحمید صاحب کا بڑا بیٹا ڈاکٹر صلاح الدین محمود ہے پی او ایف ہسپتال میں سکِن سپیشلسٹ تھا اب ریٹائرڈ ہے اور آپ کی رہائشگا کے قریب ہی کہیں اُس کا کلنک ہے