آجکل جب کبھی رات کو سونے کیلئے بستر پر لیٹے ہوئے اپنے ماضی پر نظر پڑتی ہے تو ایک بات پر میں تعجب کئے بغیر نہیں رہتا کیونکہ اس کا سبب میری سمجھ میں نہیں آتا ۔ چنانچہ میں مندرجہ ذیل شعر بار بار پڑھتا ہوں اور اشک باری کرتا ہوں کہ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہوں
سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو
میری تو کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ تو کرم ہے فقط میرے اللہ کا
مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے
میں ایک عام دنیا دار آدمی ہوں ۔ زندگی کا بیشتر حصہ ناشتہ ۔ دو وقت کا کھانا اور چند جوڑے کپڑے ہی میری متاعِ کُل رہی ۔ دولت کی ہوس تو نہ تھی البتہ دولت کی ضرورت ہمیشہ رہی ۔ لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ بچپن سے لے کر آج تک مجھ پر اتنا اعتبار کیوں کیا جاتا رہا ۔ پہلے کا تو کچھ یاد نہیں سکول میں آٹھویں جماعت (1950ء) سے انجنیئرنگ کالج تک اور پھر ملازمت کے دوران بھی اگر پیسے رکھنے کیلئے کسی کو خزانچی بنانا ہوتا تو ساتھی میرے گرد ہو جاتے اور انکار کے باوجود مجبور کر دیتے ۔ کہیں ذاتی طور پر یا کالج کی طرف سے دورے پر جاتے تو کچھ لڑکے اکٹھے ہو کر اپنے اپنے پیسے مجھے دے دیتے اور کہتے ہم اکٹھے ہی ہر جگہ جائیں گے ۔ خرچ تم کرتے جانا
سکول کالج اور جوانی میں بھی میں صنفِ مخالف کے ساتھ بہت روکھا بولا کرتا تھا ۔ گیارہویں اور بارہویں جماعت میں آزاد خیال لڑکیوں کے سوا (جو اُس زمانہ میں بہت کم تھیں) کسی لڑکی کو کسی لڑکے سے کوئی کام ہوتا تو مجھے قاصد بنا دیتی
اُستاد کوئی تفتیش کر رہے ہوتے تو آخر میں مجھے بُلا کر پوچھتے کہ درست بات کیا ہے ؟ انجنیئرنگ کالج میں ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ صاحب جو مکینیکل انجنیئرنگ کے سربراہ بھی تھے اور بعد میں وائس چانسلر بنے خود آڈٹ کرنے کی بجائے خُفیہ طور پر مجھ سے کرواتے اور جو میں کرتا اُس پر دستخط کر دیتے
ذاتی معاملات میں بھی کئی اصحاب مجھ سے مشورہ طلب کرتے ۔ میں عام طور پر یہی کہتا کہ ”یہ آپ کا ذاتی یا خانگی معاملہ ہے ۔ اس پر میں کیا رائے دے سکتا ہوں ۔ آپ اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں“۔ لیکن وہ مصر رہتے اور ذاتی یا خانگی تفصیلات بیان کر دیتے
میں اُس وقت سوچا کرتا کہ میں اتنا اچھا آدمی نہیں ہوں پھر یہ صاحب مجھ پر اتنا بھروسہ کیوں کر رہے ہیں ۔ کبھی میں اتنا ڈر جاتا کہ میرے مشورے کے نتیجہ میں ان کا کوئی نقصان ہو گیا تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کر سکوں گا
بلاشُبہ اللہ بے نیاز ہے ۔ ایک دانہ بونے سے جو پودا اُگتا ہے اُسے بہت سی پھلیاں پڑتی ہیں اور ہر پھلی میں کئی کئی دانے ہوتے ہیں
اگر اللہ ہماری محنت کا برابر صلہ دینا شروع کرے تو ہمارا کیا بنے ؟
اچھی بات کی آُپ نے، لیکن اپنی سوچ کا محور کسرِ نفسی سے سرشاری کی طرف لانے کی کوشش کیا کیجئے، ایسی باتوں سے احساسِ تشکر اور مزید مثبت درِعمل کو جنم ملتا ہے۔
اپنی عاجزی اور کم مائیگی کا احساس اچھی چیز ہے لیکن عاجزی کے ساتھ ہی خوشی کو آٹو فنکشن پہ ہونا چاہیئے۔ کہ آپ ان سب سوچوں سے سکون اور خوشی لے کر باہر نکلیں۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے
ثروت عبدالجبار صاحبہ
حوصلہ افزائی اور مفید مشورہ کا مشکور ہوں اور آپ کی نیک دعاؤں کا بھی ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے قناعت پسند ۔ مطمئن اور خوش دِل بنایا ہے ۔ یہ اللہ کی کرم نوازی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا والی بات ہے بھائی اللہ جس سے محبت کرتا ہے اللہ کی مخلوق بھی اس سے محبت کرنے لگتی ہے ۔اللہ آپ کو ہمیشہ سلامت با کرامت رکھے۔
بہن کوثر بیگ صاحبہ
آپ کی نیک دعاؤں کیلئے مشکور ہوں ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے
ما شا اللہ یہ خوش قسمتی ہے آپ کی اور نیک نیتی کا پھل
سیما آفتاب صاحبہ
اللہ بے نیاز ہے جسے چاہے دے