مجھے کچھ یاد نہیں میں نے کب اور کیوں نماز پڑھنا شروع کی ۔ بس اتنا یاد ہے کہ میں پاکستان بننے سے پہلے ہی سے مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتا تھا ۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ بچپن ہی میں کسی طرح میرے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ نماز پڑھے بغیر گذارا نہیں ۔ 1954ء میں 2 واقعات نے مجھے جھنجوڑ دیا
1۔ ہمارے پروفیسر نے بائبل سے کچھ پڑھا جو ہمارے عقیدہ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا ۔ اس پر پوری جماعت میں سے صرف ایک لڑکا اُٹھا اور اُس نے قرآن شریف سے متعلقہ آیت کا ترجمہ انگریزی میں دہرا کر بتایا کہ حقیقت یہ ہے ۔ اُس کی پروفیسر سے بحث چل پڑی ۔ میرے سمیت باقی تمام لڑکے مبہوت دیکھتے رہے ۔ وہ لڑکا اپنا مؤقف واضح کرتا رہا اور ہار نہ مانی
2 ۔ دوسرا واقعہ راولپنڈی کی جامعہ مسجد میں پیش آیا تو میں نے گھر پر نماز پڑھنا شروع کر دیا اور جمعہ کی نماز شہر کی بڑی مسجد کی بجائے محلہ کی مسجد میں پڑھنا شروع کی (مسجد جانا کیوں بند کر دیا ؟ اس کی تفصیل بعد میں)۔
اُس وقت تک تو میں مسلمان اسلئے تھا کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا تھا ۔ کہتے ہیں کُبڑے کو لات کاری آ گئی ۔ سو میں نے بھی اُس واقعہ کے دن سے دِین کا عِلم حاصل کرنے کی ٹھانی تاکہ مسلمان بن سکوں ۔ سب سے پہلی رکاوٹ سامنے آئی کہ جہاں دِین کی کتاب خریدنے جاتا تو مسلک پوچھا جاتا ۔ میں صرف اِتنا جانتا تھا کہ مسلمان ہوں اسلئے واپس چلا آتا
علامہ اقبال کے یہ 2 شعر جو سکول اور کالج کے زمانہ میں میری کاپی کے سرِ ورق پر میں نے ہمیشہ لکھے اور روزانہ انہیں پڑھتا تھا
تُندیءِ بادِ مُخالِف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تُجھے اُونچا اُڑانے کے لئے
پَرے ہے چرخِ نِیلی فام سے منزل مُسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تُو ہے
انجنیئرنگ کالج میں داخلہ ملنے پر والد صاحب نے تاج کمپنی کا چھاپا ہوا قرآن شریف تحفہ دیا ۔ اس میں اُردو ترجمہ عبدالقادر صاحب کا تھا جو لفظی ترجمہ تھا اور پرانی اُردو میں تھا ۔ بہر کیف روزانہ پڑھنے اور سمجھنے میں لگا رہا
انجنیئرنگ کالج ہوسٹل کے ایک بڑے کمرہ میں ہم 3 لڑکے رہتے تھے ۔ چند ہفتے گذرے تھے ۔ میں فجر کی نماز کے بعد بیٹھا تلاوت کر رہا تھا ۔ دروازہ کھُلا تھا ۔ پانچ سات سینِئر جماعتوں کے لڑکے دروازے کے باہر کھڑے ہو گئے ۔ میں نے دیکھا تو ایک نے مدھم آواز میں کہا ”ہم آپ کا ایک منٹ لے سکتے ہیں“۔ میں اُٹھ کر گیا سب نے سلام کے بعد مصافحہ کیا
اُن میں سے ایک بولے “ آپ پانچوں وقت باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہیں ۔ پہلے ہم سمجھے کہ آپ مرزائی ہیں یا کسی ایسے مسلک کے ہیں جو مسجد نہیں جاتے ۔ چند دن میں ہی ثابت ہو گیا کہ آپ اُن میں سے نہیں ہیں ۔ مسجد سے اذان کی آواز بھی آپ کے کمرے تک آتی ہے پھر آپ مسجد کیوں نہیں آتے ؟“
میں نے مختصر وجہ بتائی تو جواب ملا ”سامنے ہوسٹل کا ایک کمرہ ہے جسے ہم نے مسجد کا نام دے رکھا ہے اور اس مسجد میں کوئی مولوی نہیں ہے ۔ ہم میں سے ہی کوئی امامت کرا دیتا ہے ۔ آپ یہ تو جانتے ہوں گے کہ باجماعت نماز کا کتنا اَجر ہے ۔ چلیئے آپ امامت کیا کیجئے اور ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھا کریں گے“۔
میں اپنے آپ کو امامت کرنے کا اہل تو نہیں سمجھتا تھا ۔ بہرکیف میں نے ہوسٹل کی اس مسجد میں نماز پڑھنا شروع کر دی اور پھر جمعہ کی نماز کیلئے اُنہی لڑکوں کی رہنمائی میں مسجد بلال پارک جانا شروع کر دیا جہاں سائنس کے اعلٰی تعلیم یافتہ حضرات سے ملاقات ہوتی رہی جو اسلام کی روح سے واقف محسوس ہوئے ۔ ان حضرات کی صحبت نے مجھے اسلام کو سمجھنے میں مدد دی
کسی نے سچ کہا ہے کہ عطّار کی دکان پر بیٹھنے سے لباس میں خوشبو رَچ جاتی ہے اور کوئلے کی دکان پر بیٹھنے سے کپڑے کالے ہو جاتے ہیں
ہوسٹل کے قریب ہی کوئی سالک صاحب رہتے تھے جنہوں نے مُغلیہ حکمرانوں کے زمانہ کی بنی غیر آباد عمارت میں ایک عالِم دِین کو تفسیر پڑھانے کیلئے مقرر کیا ہوا تھا ۔1957ء کے شروع میں متذکرہ بالا لڑکوں میں سے چند کے ساتھ میں نے مغٖرب سے عشاء تک تفسیر پڑھنا شروع کر دی جو صرف 3 ماہ پڑھ سکا پھر امتحان قریب آ گئے اور امتحان کے بعد ہمیں وہاں سے ایک کلو میٹر دُور والے ہوسٹل میں بھیج دیا گیا
میں سیکنڈ ایئر میں تھا تو میری خواہش پر ایک سینئر لڑکے نے اپنے کسی عزیز کے ذریعے جماعت اسلامی کی لائبریری سے چھوٹی چھوٹی کتابیں میرے پڑھنے کیلئے لانا شروع کیں جن میں یہ نام مجھے یاد ہیں ۔ پردہ ۔ اسلام کا نظامِ حیات ۔ سود ۔ معاشیاتِ اسلام ۔ اسلام اور جاہلیت ۔ الجہاد فی الاسلام ۔ جنہیں پڑھ کر میں اسلام میں سماجی زندگی سے متعارف ہوا ۔ پھر اُس نے مجھے مودودی صاحب کی لکھی ایک کتاب ”تفہیمات“ لا کر دی جو قرآن شریف کا آسان اُردو ترجمہ تھا ۔ اسے پڑھ کر مجھے قرآن شریف کو سمجھنے میں کافی مدد ملی
میں نے 1970ء کی دہائی کے شروع سالوں میں ایک اللہ کے بندے (چوہدری عبدالحمید صاحب ۔ الله جنت الفردوس میں جگہ دے) کی وساطت سے تفہیم القرآن (مکمل 6 اجلاد) حاصل کی اور مطالعہ شروع کیا
ایک فوجی آمر (ضیاء الحق) کے زمانہ میں دین اسلام کے متعلق بہت سی مُستند کُتب کے اُردو تراجم سرکاری سطح پر کروا کے شائع کئے گئے جن میں فقہ اربعہ مذاہب جامعہ الازہر مصر کے پروفیسران کی تالیف ۔ صحیح بخاری ۔ صحیح مسلم ۔ سیرت النبی ۔ دائرہ معارف الاسلامیہ (24ضخیم اجلاد) اور دیگر کئی شامل ہیں ۔ یہ سب کُتب بہت کم معاوضہ کے عوض مہیاء کی گئیں ۔ درست عِلم عام ہوا اور مجھے دین کو اچھی طرح سمجھنے کا موقعہ ملا
اسی دور میں سرکاری سطح پر قائد اعظم اور تحریکِ پاکستان کے متعلق بہت سی کُتب شائع ہوئیں ۔ اللہ نے کرم فرمائی کی اور اخیر 1995ء تک ان سب دینی اور قومی کُتب نے میری لائبریری کو چمکا دیا
مسجد جانا کیوں چھوڑا ؟
میں باقی نمازیں گھر کے قریب ایک چھوٹی مسجد میں اور جمعہ کی نماز راولپنڈی کی ایک بڑی مسجد میں پڑھنے جایا کرتا تھا ۔ وہاں میرے ساتھ آٹھویں سے بارہویں کے ہمجماعت چار لڑکے بھی جایا کرتے تھے ۔ ایک جمعہ کے چند دن بعد تہوار المعروف شبِ براءت تھا ۔ امام مسجد جو راولپنڈی کے بہت بڑے مولوی مانے جاتے تھے نے واعظ کے دوران کہا ”پکاؤ حلوے خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ ۔ جو کہے بدعت ہے وہ کافر ہے چاہے یہ ہو یا یہ ہو“۔ ہاتھ سے ایک طرف اہلِ حدیث کی مسجد کی طرف اشارہ کیا اور دوسری طرف دیوبند مکتبِ فکر کی مسجد کی طرف ۔ میں 2 باتیں جانتا تھا ۔ ایک کہ کسی کلمہ گو کو کافر کہنا درست نہیں اور 2 کہ کچھ پکا کر بانٹنا اچھا فعل ہے لیکن اسےکسی خاص دن سے منسلک کرنا درست نہیں ۔ میرے ساتھیوں نے امام مسجد سے اس کی تفصیل معلوم کرنے کا سوچا ۔ جب امام مسجد نماز کے بعد اپنے حجرے میں چلے گئے تو ہم پانچوں بھی وہاں پہنچے اور سلام کے بعد مؤدبانہ بیٹھ گئے ۔ جب مولوی صاحب نے ہماری طرف دیکھا تو ہم میں سے ایک نے (جو دین کا علم زیادہ رکھتا تھا) وضاحت کی درخواست کی ۔ مولوی صاحب نے چہرا دوسری طرف کر لیا ۔ تھوڑی دیر بعد اُنہوں نے چہرا ہماری طرف کیا تو ہمارے ساتھی نے کہا ”ہمیں بات سمجھ میں نہیں آئی ۔ آپ از راہِ کرم وضاحت کر دیں“۔ مولوی صاحب نے پھر چہرہ دوسری طرف پھیر لیا ۔ تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا ۔ تو ہم وہاں سے اُٹھ کر مسجد سے باہر آ گئے اور فیصلہ کیا کہ اب اُس مسجد اور اُن مولوی صاحب کے پیچھے نماز نہیں پڑیں گے ۔ یہ واقعہ ہے 1954ء کا ہے ۔ مجھے مولویوں سے بَیر ہو گیا اور میں نے مسجد جانا چھوڑ دیا لیکن نماز پابندی سے پڑھتا رہا
اللہ جس کو چاہتا ہے اسے ہدایت کا راستہ دیکھاتا ہے ۔ہمارے پاس عجب حال ہےامام مسجد کو مسائل کی زیادہ خبر نہیں ہوتی حالانکہ مسجد کی زمہ داری والا علمیت رکھتا ہو۔ اور جو اپنی بات دلیل سے کر کے سامنے والے کو مطمئن کرے ۔ جب بھی کسی کی اب بیتی پڑھتی ہوں مجھے بہت اچھا لگتا ہے اللہ آپ کو صحت سے رکھے۔
ماشا اللہ
رٹے رٹائے طوطے مولوی ہیں، اسی تحریر کے تناظر میں ایک مزے دار بات بتاتا چلوں، گو کہ میں عینی شاہد یا خود کانوں سے تو نہیں سنا لیکن، کسی سے سنا ہے کہ ایک مسجد میں مولوی صاحب بیان کر رہے تھے، بہت زور شور سے (اللہ پاک کمی بیشی معاف کرئے) جوش خطابت میں فرمانے لگے، ایک دفعہ حضرت موسٰی علیہ سلام کا گزر ایک جگہ سے ہوا تو انہوں نے دیکھ ایک گھر میں عورت قرآن پاک کی تلاوت کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس پر سامعین میں سے سمجھدار لوگ ہکا بکا رہ گئے کہ حضرت موسٰی کے دور میں قرآن پاک کی تلاوت؟
اور کچھ لوگوں نے جوش میں آواز لگائی، سبحان اللہ
سبحان اللہ
اب اندازہ کر لیں کہ، ایسے مولوی حضرآت سے ہم کیا علم سیکھیں گے۔
ما شا اللہ
بہن کوثر بیگ صاحبہ
بلا شُبہ انسان جو کچھ بھی کر پاتا ہے وہ اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے ہوتا ہے
محمد ریاض شاہد صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ
سیما آفتاب صاحبہ
حوصلہ افزائی کا شکریہ
ایسے تجربات بہت بیش قیمت ہوتے ہیں جن کو حاصل کرنے مین ایک وقت لگا ہو کیونکہ وقت انمول ہے۔
بہت شکریہ
ثروت عبدالجبار صاحبہ
حوصلہ افزائی کا شکریہ