”حکمران خراب ہیں“۔ ”زمانہ خراب ہے“۔
یہ فقرے عام سننے میں آتے ہیں
حُکمرانوں کو راہِ راست پر لانے کیلئے پہلا قدم لازم ہے کہ حکومت یا کسی دوسرے پر الزام لگانے والا اپنا جائزہ لے کہ
میں کیا ہوں ؟
میری اس معاشرے میں کیا ذمہ داریاں ہیں ؟
کیا میں وہ ذمہ داریاں نباہ رہا ہوں ؟
تخلیے میں تھوڑا سا اپنا امتحان تو لیجئے
کیا میرے دل میں خدمتِ خلق کا جذبہ ہے ؟
کیا میں کوئی فلاحی کام کرتا ہوں ؟
کیا میرا پڑوسی مجھ سے خوش ہے ؟
کیا میں اپنے بچوں کی شادی اور دیگر خوشی کے مواقع پر یتیموں اور مسکینوں کو یاد رکھتا ہوں ؟
کیا مجھے حرام اور حلال کی سوجھ بوجھ ہے ؟
کیا میں حرام سے بچتا اور حلال کیلئے محنت کرتا ہوں ؟
کیا میں ادھار لے کر وقت پر لوٹاتا ہوں ؟
کیا میں دوسروں کو اسی کام کی تلقین کرتا ہوں جس پر میں خود عمل پیرا ہوتا ہوں ؟
اگر سب سوالوں کا جواب ”ہاں“ میں ملتا ہے تو آپ کی اصلاح کی کوشش ناکام نہیں ہو گی
استقلال کے ساتھ عملی کوشش جاری رکھیئے
بصورتِ دیگر انسان بننے کیلئے کوشش کیجئے قبل اس کے کہ درستگی کا وقت ختم ہو جائے
اللہ مجھے سیدھی راہ پر چلائے
سو فی صد ٹھیک بات ہے کہ اپنا محاسبہ کوئی بھی نہیں کرنا چاہتا ۔
اور دوسروں پر تنقید کرنا تو بہت آسان ہے اس لئے جابجا تنقید ہی نظر آتی ہے۔
ثروت عبدالجبار صاحبہ
حوصلہ افزائی کا شکریہ
بہت عنایت
آپ کے کمنٹس کا انتظار ہے