حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں 2013ء کے دوران ہونے والے ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں ۔ اس سال بھی اُنہی 5 ممالک کے باشندے سب سے زیادہ حادثات کا باعث بنے جو سال 2012ء میں حادثات کا سبب بنے تھے
سال 2013ء میں کُل 1567 حادثات ہوئے جن میں سے 1128 کا سبب انہی 5 ممالک کے باشندے بنے
کُل 160 اموات ہوئیں جن میں سے 101 اموات کے ذمہ دار انہی 5 ممالک کے باشندے ہیں
کُل 2344 لوگ زخمی ہوئے جن میں 1702 لوگوں کے زخمی ہونے کے ذمہ دار انہی 5 ممالک کے باشندے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستانی ۔ ۔ ۔ ۔ بھارتی ۔ ۔ ۔ اماراتی (مقامی) ۔ ۔ ۔ ۔ بنگلادیشی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مصری
حادثات ۔ ۔ 373 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 314 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 298 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 78 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 65
اموات ۔ ۔ ۔ 33 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 30 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5
زخمی ۔ ۔ ۔ 577 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 432 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 467 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 111 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 115
اللہ ہدایت دے
ایک جاننے والی ہیں اُن کی ایک بات ایسی کھری لگی کہ کئی بار ذہن میں آتی ہے
کہتی ہیں : اس قوم کا ہر فرد جلدی میں ہے، کہیں جانا ہو، ٹریفک میں، گھروں میں، بازار میں، ہر شخص بھاگ رہا ہے، لیکن قوم پھر بھی دنیا سے پیچھے ہے
ثروت عبدالجبار صاحبہ
مجھے تو یوں لگتا ہے کہ میرے ہموطنوں کی اکثریت احساسِ ذمہ داری کھو چکی ہے ۔ علامہ صاحب نے بہت پہلے کہہ دیا تھا
وائے نادانی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
یہ سب غلامی کے آفٹر ایفیکٹ ہیں ۔ پہلے آئینی غلامی تھی اور اب ذہنی غلامی ہے جس سے نکلنا زیادہ مشکل ہے –
cultural imperialism
ثروت عبدالجبار صاحبہ
اسے احساسِ کمتری نہ کہا جائے ؟
حقیقت کا ادراک کہیں گے
ڈائگنوز کئے بغیر ؑعلاج ممکن نہیں ہوگا
اور یہ بات علامہ اقبال بہت پہلے واضح کر گئے ہیں۔
ثروت عبدالجبار صاحبہ
حقیقت کا ادراک انہیں ہو تو پھر کیا چاہیئے تھا
حادثات توحادثات یہ کبھی جلدی میں تو کبھی سفر کی تکان سے اور کبھی خود میں اعتماد کی کمی اور کبھی اعتماد کی زیادتی سے بھی ہوتے ہیں کوئی غفلت سے سمجھتے ہیں۔میں سمجھتی ہوں قسمت کا لکھا ہوتا ہےبس
جب حادثات کا حساب لگایا جارہا ہے تو سفر کرنے والوں کا بھی حساب لگایا جارہا ہے کیا؟