جسمانی لحاظ سے سن 2014ء ویسا ہی ہے جیسا سن 1947ء تھا
اس حوالے سے میں دعا کرتا ہوں
اے اس کُل کائنات کے خالق و مالک
بلاشُبہ تیرے اختیار میں ہے بنانا ، بگاڑنا ، اُبھارنا ، بگڑے کو بنانا ، سیدھی راہ دکھانا ، سیدھی راہ پر چلانا اور دِلوں کی قدورتوں کو دُور کر کے باہمی محبت پیدا کرنا
تو نے 1947ء میں مسلمانانِ ہند کے دِلوں میں ایسی محبت اور نصب العین کی لگن ڈال دی تھی کہ وہ سب کچھ بھُلا کر ایک ہو گئے تھے اور مل کر ایسی تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں تو نے ہمیں اپنی نعمتوں سے مالامال یہ ملک پاکستان عطا کیا
ہم نے تیری دی ہوئی آزادی کی قدر نہ کی اور تیری عطا کردہ نعمتوں کا ناجائز استعمال کیا اور آج ہم اس حال کو پہنچ گئے ہیں
تو رحیم ہے رحمٰن ہے کریم ہے عفو و درگذر تیری صفت ہے
ہماری خطاؤں اور نالائقیوں سے درگذر فرما اور ہمیں پھر سے ایک قوم بنا دے
ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما
ہمیں اس مُلک کی خاطر جو تو نے ہی عطا کیا تھا محنت اور لگن کی توفیق عطا فرما
میں چشم تر کے ساتھ آخر میں خواجہ الطاف حسین حالی صاحب کی لکھی دعا کو بطور ہر پاکستانی کی دعا کے دہراتا ہوں
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے ۔ ۔ ۔ اُمت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے ۔ ۔ ۔ اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے ۔ ۔ ۔ اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب ۔ ۔ ۔ اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں ۔ ۔ ۔ پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے ۔ ۔ ۔ اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی ۔ ۔ ۔ پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر ۔ ۔ ۔ مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے
فریاد ہے اے کشتی اُمت کے نگہباں ۔ ۔ ۔ بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
کر حق سے دعا اُمت مرحوم کے حق میں ۔ ۔ ۔ خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھِرا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے ۔ ۔ ۔ نسبت بہت اچھی ہے اگر حال بُرا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی ۔ ۔ ۔ ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے
آمین ثم آمین!!