Yearly Archives: 2013

حج و عيدالاضحٰے مبارک

عيد سے پچھلی رات مغرب کی نماز کے بعد سے عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک يہ ورد رکھنا چاہیئے اگر زيادہ نہيں تو ہر نماز کے بعد ايک بار ۔ مزيد عيد کی نماز کو جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی يہ ورد رکھيئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

7 ZilHajj

جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے ان کو حج مبارک
اللہ ان کا حج قبول فرمائے

سب مسلمانوں کو عیدالاضحٰے مبارک ۔ کُلُ عَام اَنتُم بَخَیر
اللہ سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے

جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کرنا ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اُن کی قربانی قبول فرمائے
اللہ کریم میرے ہموطنوں کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
ہمارے مُلک کو ہر انسانی اور قدرتی آفت سے محفوظ فرمائے اور امن کا گہوارہ بنا دے

قارئين سے بھی دعا کی درخواست ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ذہن

اپنے ذہن کو آزاد نہ چھوڑیئے
کیونکہ
یہ آزاد چھوڑے جانے کیلئے بہت چھوٹا ہے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” What Else is Hypocrisy ?

تبدیلی لیکن کیسے ؟

میں بھی چاہتا ہوں کہ میرے وطن میں خوشگوار تبدیلی آئے اور میرا وطن سکون و ترقی کی ایک مثال بن جائے لیکن یہ تبدیلی آئے گی کیسے ؟
کیا صرف تقریروں سے ؟
یا
صرف سینٹ اور اسمبلیوں میں بیٹھنے والوں کو تبدیل کرنے سے ؟

تقریر کا اثر ماضی میں بھی اُس میدان تک ہی ہوتا تھا جہاں تقریر کی جاتی تھی ۔ اب تو اس میدان میں موجود لوگوں پر بھی کم کم ہی اثر ہوتا ہے ۔ سینٹ اور اسملیاں بھی کئی بار تبدیل ہوئیں مگر نتیجہ ؟

بطور نمونہ ایک سرکاری محکمہ کے بہت سے واقعات میں سے ایک واقعہ بعد میں پہلے ایک تازہ ترین

پچھلے 4 ماہ سے نَیب کے چیئرمین کے تقرر کی بحث چل رہی تھی تو تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر سے ایک بار بھی رابطہ نہ کیا ۔ اگر کیا تھا اور اس نے تحریک انصاف کی بات مانے سے انکار کیا تھا تو کوئی آج تک نہ بولا ۔ جونہی نیب کے چیئرمین کے نام پر اتفاق ہوا ۔ تحریکِ انصاف نے اسے مُک مُکا قرار دے کر مسترد کر دیا ۔ کیا اس سے سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے یا تماش بینی کا ؟

اب نمونہ

ایک بڑے صنعتی ادارے کی ایک چھوٹی سی شاخ ایک ڈبہ فیکٹری ۔ ایک انڈسٹریل ہوم ۔ ایک پٹرول پمپ و سروس سٹیشن اور لوکل ٹرانسپورٹ پر مشتمل تھی ۔ ڈبہ فیکٹری میں سٹیل شیٹ کے ڈبے بنتے تھے جن میں اس ادارے میں بنا کچھ مال پیک ہوتا تھا ۔ انڈسٹریل ہوم میں بیوہ عورتوں سے اس ادارے میں استعمال ہونے والی کچھ وردیاں سلوائی جاتی تھیں اور اُجرت سلائی فی وردی کے حساب سے دی جاتی تھی ۔ ٹرانسپورٹ سیکشن 10 بسوں اور 4 ٹیکسیوں پر مشتمل تھا

ادارے کا سربراہ نیا آیا تو ادارے کے بڑے اور اہم حصوں سے فارغ ہونے پر اس نے اس چھوٹی سی شاخ کی طرف توجہ کی اور اس کا نیا منیجر مقرر کیا ۔ نئے منیجر نے سب کام کا مشاہدہ بلکہ مطالعہ کیا تو مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے

ڈبہ فیکٹری کا انچارج ایک ریٹائرڈ میجر تھا جس نے صرف ایم او ڈی سی (موجودہ ڈیفنس گارڈز) سروس کی تھی ۔ اس فیکٹری کو زیادہ فعال نہیں ہونے دیا جاتا تھا کہ کہیں بیچارے ٹھیکیدار کو نقصان نہ ہو جو اس ڈبہ فیکٹری کے مقابلہ پر ڈبے سپلائی کرتا تھا ۔ ڈبہ فیکٹری کا منیجر سرکاری گاڑی گھر لیجا کر اس کا پٹرول نکال کر اپنی گاڑی میں ڈالا کرتا تھا
انڈسٹریل ہوم کی سربراہ ایک سرکاری ملازم عورت تھی ۔ وہ صرف اُن عورتوں کو کام دیتی جن کی سفارش ہوتی یا جو اس کے ذاتی کام آتیں ۔ ان میں بعض اوقات ایسی عورتیں ہوتیں جن کے خاوند زندہ تھے ۔ مزید اپنے بڑے افسروں کو راضی رکھنے کیلئے انڈسٹریل ہوم سے گدیاں اور رضائیاں وغیرہ بنوا کر دیتی جس کیلئے وہ بیواؤں سے بغیر اُجرت کام کرواتی
پٹرول پمپ و سروس سٹیشن سے چند افسران مفت پٹرول لیتے اور اپنی گاڑیوں کی مُفت سروس کرواتے
ٹرانسپورٹ مقامی (local bus service) طور پر چلتی تھی ۔ 3 بسیں بند پڑی تھیں اور باقی سب مرمت طلب تھیں ۔ 2 کی چھتیں بارش میں بے تحاشہ ٹپکتی تھیں ۔ بسوں میں ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والوں کے احباب وغیرہ مفت سفر کرتے ۔ کنڈکٹروں اور ڈرائیوروں کی تنخواہیں کم تھیں ۔ جب بھیڑ ہوتی تو کچھ سواریوں کو پیسے لے کر ٹکٹ نہ دیتے ۔ ٹیکسیاں بارسوخ لوگوں کو مُفت مہیاء کی جاتیں ۔ کوئی بہت خیال کرتا تو پٹرول اپنی جیب سے ڈلوا لیتا ۔ کنڈکٹروں کی کچھ معقول پریشانی بھی تھی کہ بس کا ٹکٹ 75 پیسے اور ایک روپیہ 50 پیسے تھا ۔ بقایا ادا کرنے کیلئے کنڈکٹر 125 روپے دے کر 100 روپے کی ریزگاری بازار سے لیتے تھے ۔ دوسرے بقایا واپس کرنے کے چکر میں کئی لوگ بغیر ٹکٹ سفر کرتے اور زیادہ تر یہی کہتے پچھلے سٹاپ سے بیٹھا ہوں تاکہ 1 روپیہ 50 پیسے نہ دینا پڑیں

نئے منیجر نے دو تین کالی بھیڑوں کو رُخصت کر کے ان کی جگہ بہتر لڑکے رکھے ۔ اور حرام خوری پر پابندی لگا کر خود معائنہ کرتا رہا ۔ کنڈکٹر کی تنخواہ جو 600 روپے ماہانہ تھی 800 روپے کی ۔ کمیشن جو سب کو 2 فیصد ملتا تھا اس کو روزانہ کی بنیاد پر منازل میں تقسیم کیا ۔ 300 روپیہ پر کوئی کمیشن نہیں ۔ اس سے اُوپر 300 پر 0.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 1 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 1.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 2 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 2.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 3 فیصد ۔ ڈرائیوروں کی تنخواہ کنڈکٹروں کی نسبت زیادہ بڑھائی مگر اُن کا کمیش 600 روپے کے اُوپر شروع کیا ۔ 2 ٹکٹوں کی بجائے پورے سفر کا ایک روپیہ ٹکٹ کر دیا

اس اثناء میں سربراہ ادارہ تبدیل ہو گیا ۔ نئے سربراہ سے کافی بحث اور منت کے بعد ویلفیئر فنڈ کے بیکار پڑے فنڈ میں سے 5 نئی بسیں اور 3 کوسٹر خریدیں ۔ بسوں کی قیمت پیشگی ادا کرنا تھی ۔ نئے منیجر نے کسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا اور اس بڑی رقم کو اپنے استعمال میں لانے یا بنک کو موج اُڑانے دینے کی بجائے بنک کے زونل چیف کے پاس جا کر خاص منافع کا معاہدہ حاصل کیا ۔ روپیہ 10 ماہ بنک میں رہا ۔ اس کے منافع سے جو خراب بسیں بند پڑی تھیں اُنہیں نیا کیا ۔ باقی بسوں کی باڈیاں درست کروا کے پینٹ کروایا
ان اصلاحات کے نتیجہ میں ٹرانسپورٹ کی آمدنی جو پچھلے 6 سال میں 69000 ماہانہ سے زیادہ کبھی نہ ہوئی تھی بڑھتے بڑھتے 6 ماہ بعد ایک لاکھ ہو گئی اور ڈیڑھ سال بعد 3 لاکھ ماہانہ ہو گئی

پٹرول پمپ جو کچھ منافع نہ دیتا تھا 6 ماہ بعد 5000 روپیہ ماہانہ دینے لگا جو ایک سال بعد 10000 روپیہ ماہانہ پر پہنچ گیا باوجودیکہ پٹرول پمپ کا فرش جو کچا تھا پکا کروایا گیا اور عمارت کو رنگ روغن کرایا گیا

مگر کچھ افسران اور بارسوخ لوگ اس منیجر کے دشمن بن گئے جس کے نتیجہ میں منیجر کی ملازمت ختم کر دی گئی

نیا منیجر نئے سربراہ ادارہ کا چہیتا تھا ۔ یہ شخص انڈسٹریل ہوم سے گدیوں کا تحفہ وصول کر چکا تھا اور ٹیکسی بھی مفت لیتا تھا ۔ اُس نے آتے ہی کمیشن ختم کر دیا ۔ جس نے اعتراض کیا اُسے ملازمت سے نکال دیا ۔ 3 لاکھ ماہانہ کی آمدنی ایک سال میں ایک لاکھ پر آ گئی ۔ ٹکٹ بڑھا کر 2 روپے کر دیا پھر لمبے سفر کیلئے 3 روپے کر دیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ بسوں کی حالت خراب ہوتی گئی کیونکہ دیکھ بھال کیلئے پیسہ نہ تھا

یہ صرف ایک نمونہ ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرکاری تحویل میں چلنے والے ادارے بالخصوص پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کا بُرا حال کیوں ہے

یہ تو معلوم ہو گیا ہو گا کہ تبدیلی لانا کتنا مُشکل ہے ۔ اب بتایئے کہ تبدیلی لانے کیلئے کیا ضروری ہے ؟

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ طاقت

مرد کی طاقت کا معیار یہ نہیں
کہ
وہ کتنا وزن اُٹھا سکتا ہے
بلکہ
مرد کی طاقت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے
کہ
وہ کتنی ذمہ داریاں نبھا سکتا ہے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے” Traitors and Torturers

مدد کی ضرورت ہے

قارئین سے درخواست ہے کہ میری رہنمائی فرمائیں ۔ مشکور ہوں گا

چند دنوں سے میں کوئی تصویر کھولتا ہوں تو وہ مائیکرو سافٹ کے پکچر منیجر (Picture Manager) میں کھُلتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ تصویر اَینِی میٹِڈ (animated) ہے یا نہیں یعنی اَینِی میٹِڈ تصویر بھی پکچر منیجر میں ساکن رہتی ہے

ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا

چند روز قبل میں نے ایک تصویر پکچر منیجر میں کھول کر اُس کی نوک پلک درست کی تھی ۔ شاید متذکرہ بالا مسئلہ اُسی سے پیدا ہوا ہو

اس مُشکل سے باہر نکلنے کیلے میری رہنمائی فرمایئے

روپے کا سفر

یہ الفاظ عام سُنے جاتے ہیں ”پچھلے 66 سالوں میں پاکستان میں بُرا حال ہے“۔ ایسا کہنے والے شاید یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں کہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں ۔ درحقیقت ایسے لوگ پاکستان کے دُشمن ہیں کیونکہ اپنے ملک کی بدنامی جھوٹ بول کر کرنے والا مُلک کا خیر خواہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ میں عمومی مباحث میں دلائل کے ساتھ اس کی نفی کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں لیکن دیکھا یہ گیا کہ ایسے لوگ کسی دلیل یا منطق کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتے

کسی ملک کی کرنسی کی قدر کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو مختلف ادوار میں اس مُلک کی معیشت کا حال معلوم ہو جاتا ہے ۔ مجھے یہ اعداد و شمار اکٹھے کرنے میں کئی ہفتے لگاتار محنت کرنا پڑی ۔ موازنہ کیلئے میں نے بھارت کی کرنسی کی تاریخ بھی معلوم کی اور درج کر رہا ہوں ۔ یہاں میں نے بنیادی کرنسی ایک امریکی ڈالر لیا ہے

پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1948ء ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1949 ۔ ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ 3.6719

1950ء ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1951 ۔ ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

1952ء ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1953 ۔ ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

پہلی منتخب اسمبلی کو غلام محمد نے چلتا کیا ۔ غلام محمد کے مفلوج ہونے پر 1955ء میں سکندر مرزا حاکم بن گیا۔ 1954ء سے 1958ء تک 5 وزیراعظم بنائے گئے

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1954ء ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ 1955 ۔ ۔ ۔ 3.9141 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619
1956ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ 1957 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

ایوب خان کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1958ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 1959 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

1960ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 1961 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

1962ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 1963 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

1964ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 1965 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

1966ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6.3591 ۔ ۔ ۔ ۔ 1967 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 7.5000

یحیٰ خان کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1968ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7.5000۔ ۔ ۔ ۔ 1969 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 7.5000

1970ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7.5000۔ ۔ ۔ ۔ 1971 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 7.4919

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1972ء ۔ ۔ ۔ 8.6814 ۔ ۔ ۔ ۔ 7.5945 ۔ ۔ ۔ ۔ 1973 ۔ ۔ ۔ 9.9942 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7.7420

1974ء ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ 8.1016 ۔ ۔ ۔ ۔ 1975 ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8.3759

1976ء ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ 8.9604 ۔ ۔ ۔ ۔ 1977 ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8.7386

ضیاء الحق کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1978ء ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8.1928 ۔ ۔ ۔ ۔ 1979 ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ 8.1258

1980ء ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7.8629 ۔ ۔ ۔ ۔ 1981 ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ 8.6585

1982ء ۔ ۔ ۔ 11.8475 ۔ ۔ ۔ 9.7551۔ ۔ ۔ ۔ 1983 ۔ ۔ ۔ 13.1170۔ ۔ ۔ ۔ 10.0989

1984ء ۔ ۔ ۔ 14.0463 ۔ ۔ ۔ 11.3626 ۔ ۔ ۔ 1985 ۔ ۔ ۔ 15.9284 ۔ ۔ ۔ ۔ 12.3687

1986ء ۔ ۔ ۔ 16.6475 ۔ ۔ ۔ 12.6108 ۔ ۔ ۔ 1987 ۔ ۔ ۔ 17.3988 ۔ ۔ ۔ ۔ 12.9615

بینظیر بھٹو کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1988ء ۔ ۔ ۔ 18.0033 ۔ ۔ ۔ 13.9171۔ ۔ ۔ 1989 ۔ ۔ ۔ 20.5415 ۔ ۔ ۔ 16.2255

نواز شریف کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1990ء ۔ ۔ ۔ 21.7074 ۔ ۔ ۔ 17.5035 ۔ ۔ ۔ 1991 ۔ ۔ ۔ 23.8008 ۔ ۔ ۔ ۔ 22.7424

1992ء ۔ ۔ ۔ 25.0828 ۔ ۔ ۔ 25.9181 ۔ ۔ ۔ 1993 ۔ ۔ ۔ 28.1072 ۔ ۔ ۔ ۔ 30.4933

بینظیر بھٹو کی حکومت 1993ء سے

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1994ء ۔ ۔ ۔ 30.5666 ۔ ۔ ۔ 31.3737 ۔ ۔ ۔ 1995 ۔ ۔ ۔ 31.6427 ۔ ۔ ۔ 32.4271

1996ء ۔ ۔ ۔ 36.0787 ۔ ۔ ۔ 35.4332 ۔ ۔ ۔ 1997 ۔ ۔ ۔ 41.1115 ۔ ۔ ۔ 36.3133

نوز شریف کی حکومت 1997ء سے

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1998ء ۔ ۔ ۔ 45.0467 ۔ ۔ ۔ ۔ 41.2594 ۔ ۔ ۔ 1999 ۔ ۔ ۔ 49.5007 ۔ ۔ ۔ 43.0554

پرویز مشرف کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
2000ء ۔ ۔ ۔ 53.6482 ۔ ۔ ۔ 44.9416 ۔ ۔ ۔ 2001 ۔ ۔ ۔ 61.9272 ۔ ۔ ۔ 47.1864

2002ء ۔ ۔ ۔ 59.7238 ۔ ۔ ۔ 48.603 ۔ ۔ ۔ 2003 ۔ ۔ ۔ 57.7520۔ ۔ ۔ 46.5833

2004ء ۔ ۔ ۔ 58.2579 ۔ ۔ ۔ 45.3165 ۔ ۔ ۔ 2005 ۔ ۔ ۔ 59.5145 ۔ ۔ ۔ 44.1000

2006ء ۔ ۔ ۔ 60.2713 ۔ ۔ ۔ 45.3070 ۔ ۔ ۔ 2007 ۔ ۔ ۔ 60.7385 ۔ ۔ ۔ 41.3485

زرداری کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
2008ء ۔ ۔ ۔ 70.4080۔ ۔ ۔ 43.5052 ۔ ۔ ۔ 2009 ۔ ۔ ۔ 81.7129 ۔ ۔ ۔ 48.4053

2010ء ۔ ۔ ۔ 85.1938 ۔ ۔ ۔ 45.7258 ۔ ۔ ۔ 2011 ۔ ۔ ۔ 86.3434 ۔ ۔ ۔ 46.6705

2012ء ۔ ۔ ۔ 94.3779 ۔ ۔ ۔ 54.7431 ۔ ۔ ۔ 2013 ۔ ۔ ۔ 101.6571 ۔ ۔ ۔ 59.1141

نوز شریف کی حکومت وسط مارچ 2013ء سے

دوست کی قدر

چَڑھدے سورج ڈَھلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (چَڑھتے سورج ڈھلتے دیکھے)
بُجھے دِیوے بَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بُجھے چراغ جلتے دیکھے)
ہِیرے دا کوئی مُل نہ تارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ہیرے کی کوئی قیمت نہ لگائے)
کھوٹے سِکے چَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کھوٹے سِکے چلتے دیکھے)
جِنّاں دا نہ جَگ تے کوئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جن کا نہیں دنیا میں کوئی)
اَو وی پُتر پَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (وہ بیٹے بھی پَلتے دیکھے)
اوہدی رحمت نال بندے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اُس کی رحمت سے لوگ)
پانی اُتّے چَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پانی پر چلتے دیکھے)
لَوکی کہندے دال نئیں گَلدی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (لوگ کہیں کہ دال نہیں گلتی)
میں تے پَتھّر گَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (میں نے تو پتھر گلتے دیکھے)
جِنھاں قَدر نہ کیتی یار دی بُلھیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بُلھیا ۔ جنہوں نے دوست کی قدر نہ کی)
ہَتھ خالی اَو مَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (خالی ہاتھ وہ مَلتے دیکھے)

کلام ۔ بابا بُلھے شاہ