والد صاحب نے1948ء میں راولپنڈی فائر کلے برکس (Fire clay bricks) کا ایک کارخانہ لگایا ۔ جموں کشمیر کے مہاجر ہونے کی وجہ سے ہمیں پاکستان کی شہریت حاصل نہ تھی چنانچہ کارخانہ کیلئے زمین 25 فیصد منافع کا حصہ دار بنانے کی شرط پر ایک مقامی شخص کی استعمال کی گئی ۔ والد صاحب نے پاکستان بننے سے کچھ قبل یورپ میں اس کام کا مطالعہ اور عملی مشاہدہ کیا تھا ۔ ان اینٹوں کیلئے پاکستان میں مٹی کی تلاش کی اور مختلف علاقوں سے نمونے لے کر جرمنی بھیجے جن میں سے داؤد خیل کا نمونہ سب سے اچھا پایا گیا ۔ اواخر 1949ء میں پیداوار شروع ہوئی تو پاکستان میں پہلی ہونے کے باعث بہت سے آرڈر ملنے شروع ہو گئے جس نے زمین کے مالک کو چُندیا دیا اور اُس نے منافع میں 50 فیصد کا مطالبہ کر دیا ۔ ایسا نہ ہونے پر اپنی زمین سے کارخانہ اُٹھانے کا نوٹس دے دیا ۔ والد صاحب کا منیجر نمعلوم کیوں اُن کے ساتھ مل گیا اور تمام دستاویزات اُن کے حوالے کر دیئے ۔ چنانچہ والد صاحب کو کارخانہ چھوڑنا پڑا ۔ منہ کے بل تو پاکستان بننے پر گرے تھے لیکن اُٹھنے کے بعد پاکستان میں ہمیں پہلی زوردار ٹھوکر یہ لگی
والد صاحب نے 1950ء کے شروع میں ایک دکان کرایہ پر لی اور کار و بار شروع کیا ۔ وہ صبح پونے 8 بجے گھر سے جاتے اور شام 7 بجے لوٹتے ۔ جمعہ کو چھٹی ہوتی مگر ہر ماہ 2 بار جمعرات کی رات لاہور مال لینے جاتے اور جمعہ کی رات کو واپس پہنچتے ۔ یکم اپریل 1950ء کو والد صاحب نے مجھے 500 روپے دے کر کہا کہ ”پورے ماہ کا خرچ ہے ۔ اگر مہینہ ختم ہونے سے پہلے ختم کر دو گے تو باقی دن بھوکے رہیں گے اور اگر کچھ بچا لو گے تو اگلے ماہ بہتر کھا لیں گے”۔ میری اصلی عمر اُس وقت ساڑھے 12 سال تھی (سرکاری ساڑھے 11 سال) اور میں ساتویں جماعت کے بعد آٹھویں میں بیٹھا ہی تھا ۔ یہ رقم کھانے پینے کی و دیگر اشیاء ضروریہ ۔ جلانے کی لکڑی ۔ بجلی اور پانی کا بل ۔ سکول کی فیسیں ۔ کتابیں ۔ کاپیاں وغیرہ سب کیلئے تھی
چھوٹا موٹا سودا تو پہلے بھی میں لاتا رہتا تھا لیکن اب پورا سودا لانا میرے ذمہ ہو گیا ۔ میں ہفتہ میں تین چار بار سبزیاں راجہ بازار کے بازو والی سبزی منڈی سے اور پھل گنج منڈی کے اُس سرے سے لاتا جو رتہ امرال کی طرف ہے ۔ دالگراں بازار سے چاول اور دالیں مہینہ میں ایک بار لاتا ۔ 4 سال یہ سب کام پیدل ہی کرتا رہا
اپریل 1950ء میں 2 بہنیں مجھ سے بڑی اور چھوٹے 2 بھائی اور ایک بہن تھے جبکہ اپریل 1953ء تک چھوٹی 2 بہنیں اور 3 بھائی ہو گئے تھے ۔ کہا گیا کہ ایک بڑی بہن ۔ ایک چھوٹی بہن اور 2 چھوٹے بھائیوں کو جیب خرچ دیا کروں جو میں نے دینا شروع کر دیا ۔ ایک دن کوئی چیز خریدنے کو میرا دل چاہا تو رات کو والد صاحب سے پوچھا ”میں بھی جیب خرچ لے لوں ؟“ جواب ملا ”سارے پیسے تمہارے پاس ہوتے ہیں ۔ خود کھاؤ یا گھر کا خرچ چلاؤ ۔ تمہاری مرضی“۔ اکتوبر 1956ء میں انجنیئرنگ کالج لاہور چلے جانے پر میری یہ ذمہ داری تو ختم ہو گئی لیکن یکم اپریل 1950ء کے بعد ساری عمر مجھے جیب خرچ نہ کبھی ملا اور نہ پھر مانگنے کی جراءت ہوئی
دسمبر 1962ء میں ملازمت شروع ہوئی تو چھوٹے بہنوں بھائیوں کی تعلیم کا خرچ میرے ذمہ ہوا ۔ اس کے علاوہ اُن کی شادیوں کے اخراجات میں والد صاحب کی مدد بھی لازم تھی ۔ نومبر 1967ء میں میری شادی ہوئی ۔ جنوری 1968ء میں والدین کی ھدائت پر میں بیوی کو لے کر واہ چھاؤنی میں سرکاری رہائشگاہ میں منتقل ہو گیا ۔ 7 دسمبر 1970ء کو جس دن پاکستان میں انتخابات ہو رہے تھے اللہ کریم نے مجھے بیٹا (زکریا) عطا کیا ۔ فروری 1975ء ختم ہونے تک اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے ایک بیٹی اور 2 بیٹوں کا باپ بنا دیا تھا
مئی 1976ء میں مجھے حکومت نے لبیا بھیج دیا جہاں سے یکم فروری 1983ء کو واپسی ہوئی ۔ درمیان میں ہر 2 سال بعد 2 ماہ کی چھٹی گذارنے راولپنڈی آتے رہے ۔ 29 جون 1980ء کو والدہ محترمہ اچانک فوت ہو گئیں تو میں اکیلا ہی آ سکا ۔ 1982ء میں ہم راولپنڈی آئے ہوئے تھے تو والد صاحب نے کہا ”اب تم مجھے کوئی پیسہ نہ بھیجنا”۔ لیکن یہ ذمہ داری اکتوبر 1984ء میں ختم ہوئی جب میں دوبارہ واہ چھاؤنی میں رہائش پذیر ہوا
میں نے واہ میں سرکاری رہائشگاہ والد صاحب کے اصرار پر لی کیونکہ والد صاحب کی خواہش تھی کہ میری سب سے چھوٹی بہن راولپنڈی سیٹیلائٹ ٹاؤن والے مکان میں رہے ۔ میں والد صاحب کو ساتھ واہ لیجانا چاہتا تھا لیکن وہ اپنا گھر چھوڑ کر جانے پر راضی نہ ہوئے ۔ والد صاحب پر 1987ء میں فالج کا حملہ ہوا تو میں اپنی سب سے بڑی بہن کی مدد سے اُنہیں اپنے پاس واہ چھاؤنی لے گیا ۔ گھر میں والد صاحب کی خدمت کیلئے وقت اور محنت درکار تھی ۔ دفتر میں ایک محکمہ کا سربراہ ہونے کی ذمہ داری کے ساتھ عیاریوں اور منافقتوں کا ماحول تھا ۔ میں نے باپ کی خدمت کو درست جانتے ہوئے قوانین کے مطابق 1990ء میں یکم مارچ 1991ء سے سوا سال کی چھٹی کے ساتھ 3 اگست 1992ء سے ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی تھی ۔ والد صاحب کو علاج کیلئے کبھی ہفتہ کبھی 2 ہفتے بعد اسلام آباد لانا پڑتا تھا جس سے والد صاحب بہت تھک جاتے تھے ۔ میں نے اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو جو سرجن ہے اور اُن دنوں انگلستان میں تھا کہا کہ واپس آ جائے اور اسلام آباد اپنے مکان میں رہ کر والد صاحب کو اپنے پاس رکھے ۔ وہ 1990ء میں آ گیا اور میں نے والد صاحب کو اُس کے پاس چھوڑ دیا ۔ جون 1991ء کے آخر میں چھوٹا بھائی اپنا سامان لینے انگلستان گیا تو میں والد صاحب کو پھر اپنے پاس واہ لے گیا ۔ 2 جولائی کو والد صاحب اچانک فوت ہو گئے
اللہ کی کرم نوازی ہمیشہ شامل حال رہی اور میرا دل یا پاؤں کبھی نہ ڈگمگائے ۔ اس کیلئے میں اپنے پیدا کرنے اور پالنے والے کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے ۔ سچ ہے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بے حساب نوازشات کرتا ہے
اللہ نے آپ پر بہت کرم کیا کہ آپ کے والد کا نور آپ پر 53 سال کی عمر تک چمکتا رہا۔
لیکن۔
موت اچانک نہیں آتی۔
اللہ آپ کی محنت قبول کرے
کاشف صاحب
سب کچھ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے ہاتھ میں ہے
موت اچانک اسلئے کہ والد صاحب کی وفات ہارٹ اٹیک سے ہوئی اور اُنہیں کبھی بھی دل کی تکلیف نہ تھی
محمد رہاض شاہد صاحب
اللہ آپ کو جزائے خیر دے
بے شک اللہ تعالیٰ محنت کا ثمر دیتا ہے۔
اتنے لمبے عرصے کو ایک بلاگ پوسٹ میں سمو دینا بھی ایک فن ہے، ماشاء اللہ۔
جس طرح آپ نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا خیال رکھا یہ آسان کام نہیں تھا۔ امید ہے بعد میں آپ کے بہن بھائیوں نے آپ کا خیال ضرور رکھا ہو گا اور اب آُپ کی اولاد بھی اسی طرح آپ کی خدمت کر رہی ہو گی۔ خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے، آمین۔
وحید سلطان صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ
افضل صاحب
یہ سودا نقد و نقدی ہے ۔ اِس ہاتھ سے دے اُس ہاتھ سے لے
بہت اچھا لگا پڑھ کر
صفی الدین صاحب
خوش آمدَید ۔ حوصلہ افزائی کا شکریہ