ہمارے ہاں عام تاءثر یہی ہے کہ پڑھائی کی بنیاد اور عقل کی نشانی انگریزی ہے ۔ ایک سیاسی لیڈر نے زندگی کا بہتر حصہ ولائت میں گذارا تھا اور شادی بھی ولائتی گوری سے کر کے گویا سونے پر سوہاگہ مل دیا تھا ۔ اُس نے لاہور سونامی کو اپنا رہبر بنایا ۔ اس کی چکا چوند نے بہت لوگوں کی نظروں کو خیرا کر دیا ۔ عوام پیچھ چل پڑی ۔ ہر طرف بالخصوص فیس بُک پر خان خان بلا بلا ہونے لگا ۔ لیڈر صاحب بھی موج میں آ کر سمجھ بیٹھے بلکہ اعلان کر بیٹھے کی پاکستان کا اگلا وزیرِ اعظم وہی ہوں گے ۔ جب انتخابات ہوئے تو سارے خواب چکنا چور ہو گئے
وزارتِ عُظمٰی ہاتھ سے گئی تو احتجاج کا دامن ایسا پکڑا کہ چھوڑنے کا نام نہیں لیتے ۔ ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں افغانستان کو جانے والے ٹرکوں کے راستہ میں صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک دھرنا دیتے ہیں جسے چِلّہ ہونے کو ہے ۔ سُنا ہے کہ باقی راستوں سے تو ٹرک معمول کے مطابق جا رہے ہیں اور خیبر پختونخوا میں سے بھی رات کے وقت جاتے ہیں ۔ خیبر پختون خواہ کے وزیرِ اعلٰی صاحب نہیں جانتے کہ وزیرِ اعلٰی وفاق کا نمائیندہ اور وفاق کے ماتحت ہوتا ہے اور اس لحاظ سے وہ آئین کی خلاف ورزی کے مُرتکب ہو رہے ہیں
لیڈر صاحب جس جمِ غفیر کو لے کر چلے تھے سمجھتے رہے کہ شاید اُن سب کی ڈور انہی کے ہاتھ میں ہے ۔ سینہ تان کے آگے آگے چلتے رہے اور لوگ اپنے اپنے دھندوں کی طرف رخصت ہوتے رہے ۔ سُنا تھا کہ ”اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے“۔ لیکن شاید یہ ضرب المثل ولائت میں نہیں پڑھائی جاتی اسلئے لیڈر صاحب کے عِلم میں نہ تھی ۔ ترنگ میں مہنگائی کے خلاف دُشمن کے گڑھ لاہور میں جلوس جلسہ کی ٹھان لی ۔ جب سردی سے کچھ زیادہ ہی سُکڑا ہوا جلسہ دیکھا تو جوش میں کہہ دیا ”خیبر پختونخوا کی بجلی سپلائی کی کمپنی خیبر پختونخوا کی حکومت کے حوالے کر دی جائے تو ہم سب ٹھیک کر دیں گے“۔ بُرا ہو میڈیا کا کہ جھٹ پٹ بات دشمن کو پہنچا دی ۔ بجلی اور پانی کے وزیر کا جواب آیا ”بصد شوق لیجئے“۔ 29 دسمبر کو وزیرِ اعظم نے بھی اس کی منظوری دے دی
اب لیڈر صاحب کے چیلے کہتے پھر رہے ہیں کہ خان صاحب نے تو کہا تھا کہ بجلی کی پیداوار کا محکمہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے حوالے کیا جائے ۔ وزیرِ اعلٰی خیبر پختونخوا نے فرما دیا ہے ”وزیرِ اعظم ہمارے ساتھ مذاق نہ کریں ۔ یہ تو پہلے ہی آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے مطابق ہمارا حق ہے ۔ ہمیں جنریشن اور ڈسٹریبیوشن بھی دی جائے“۔ محترم نے شاید آئین کا مطالعہ کرنے کی تکلیف گوارہ نہیں کی ۔ اٹھارویں ترمیم کے مطابق وفاق کسی صوبے کو اپنے کوئی اختیارات تفویض کر سکتا ہے ۔ یہ نہیں لکھا کہ بجلی کمپنی صوبے کو دے دی گئی ۔ خیر ۔ وہ جو چاہے کہتے رہیں بادشاہ ہیں ۔ بلاول بھی تو بہت کچھ کہتا ہے
مگر میں اس سوچ میں پڑا ہوں کہ اگر بجلی اور پانی کے وزیر نے کہہ دیا ”وہ بھی لے لیجئے“ تو لیڈر صاحب پھر کیا کریں گے ؟ میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں لیڈر صاحب اپنے دل کی بات کہہ اُٹھے کہ ”وزارتِ عظمٰی مجھے دے دیں تو میں سب کچھ ٹھیک کر دوں گا“۔
اگر خدا نخواستہ ایسا ہو گیا تو یہ ملک نہ تو پاکستان کی کرکٹ ٹیم ہے جو کبھی کپتان اور کبھی پی سی بی کے رحم و کرم پر ہوتی ہے اور نہ لوگوں کی زکٰوۃ اور خیرات پر چلنے والا شوکت خانم میموریل ہسپتال
کہیں ملک کو چلاتے چلاتے خدا نخواستہ چلتا ہی نہ کر دیں
جَل تُو جلال تُو آئی بلا کو ٹال تُو
خان صاحب کے بارے جتنا بھی لکھا اور کہا جائے کم ہے۔
وہ سیاست میں غیر سیاسی آدمی ہیں، اور یہ جاننے کے باوجود کہ مقابلے پر چھانگا مانگا گروپ جیسے منجھے سیاست دان ہیں، خوامخاہ بڑھکیں مار جاتے ھیں۔
ویسے اگر بجلی کی جنریشن بھی صوبے کے حوالے کر دی جائے تو کیا خیال ہے، کے پی کے میں موج نہیں ہوجائے گی۔؟؟
مسئلہ تو یہ ہے کہ عام آدمی کو اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اس ملک کی کتنے فی صد آبادی کو اِن سیاسی معاملات کی سمجھ ہے؟
اور نہ ہی بہت سے لوگ اس بات پہ غور کرنا چاہتے ہیں- عوام کے لقمے پورے پوں تو وہ اِن باتوں پہ غور کریں-
کاشف صاحب
اُن کے پاس ایک چھوٹا صوبہ ہے ۔ بڑھکیں مارنے کی بجائے اسے مثالی صوبہ بنائیں ۔ وہاں تو ابھی تک کچھ کیا نہیں ۔ وہاں 100 ارب روپے سے زیادہ کی بجلی سالانہ چوری ہوتی ہے اُس میں ایک لاکھ کی کمی تو ابھی تک کر نہیں سکے ۔ نہ امن و امان کی صورتِ حال مین کوئی بہتری کی کوشش کی ہے ۔ اُن کے مقابلے میں پنجب کا وزیرِ اعلٰی پنجاب کو ایک مثال زبانی کلامی کی بجائے عملی طور پر بنا رہا ہے ۔ اُنہیں یہ بھی غلط فہمی ہے کہ ورلڈ کپ اُنہوں نے جیتا تھا ۔ ظرف اتنا ہے کہ ورلڈ کپ جیت جانے کے بعد بیان میں اپنی ٹیم جس نے جیتا تھا کا نام تک نہ لیا اور شوکت خانم میموریل ہسپتال بنانے کا راگ الاپ دیا
ثروت عبدالجبار صاحبہ
ہماری قوم کا جب پیٹ بھر جائے تو وہی کرتی ہے جو انہوں نے ایوب خان کے ساتھ کیا تھا ۔ انہوں نے ہر صورت حکومت کے خلاف جلوس نکالنا ہوتا ہے
بہت عمدہ۔۔۔۔
خان صاحب سے توقعات پھر بھی اچھی ہیں اگر وزیر اعظم بن جاتے تو قوم زیادہ بہتر طور پر انکا احتساب کرنے کے قابل ہوجاتی۔
ضواد احمد خان صاحب
اور ملک کا کیا بنتا ؟