Monthly Archives: October 2013

ربڑ (Eraser) اور ازدواجی زندگی

میں نے ایک کہانی کہیں پڑھی تھی ۔ اس میں الفاظ کا رود و بدل کر کے اپنے انداز میں لکھا ہے ۔ البتہ مقصد اصل کہانی والا ہی رکھا ہے

ایک نوجوان کی شادی ہوئی تو وہ اپنے والد کے پاس گیا اور نئے ازدواجی سفر کے لئے برکت کی دعا کی خواہش ظاہر کی
اس کے والد نے اُسے کاغذ ۔ پنسل اور ربڑ (Eraser) لانے کو کہا
لڑکا ”کیوں ابا جان ؟ اس وقت تو میرے پاس نہیں ہیں“
باپ ”جاؤ خرید لاؤ“
لڑکا حیرانگی میں مبتلا گیا اور مطلوبہ چیزیں بازار سے لا کر باپ کے پاس بیٹھ گیا
باپ ”لکھو“
بیٹا ”کیا لکھوں ؟“
باپ ”جو جی چاہے لکھو“
بیٹا ایک جملہ لکھتا ہے
باپ کہتا ہے ”اسے مٹا د و“
بیٹا مٹا دیتا ہے
باپ ”لکھو“
بیٹا ”ابا جان ۔ آپ کیا چاہتے ہیں ؟“
باپ کہتا ہے ”لکھو“
بیٹا پھر لکھتا ہے
باپ کہتا ہے ”مٹا دو“
لڑکا مٹا دیتا ہے
باپ پھر کہتا ہے ”پھر لکھو“
بیٹا کہتا ہے ”اباجان ؟ بتائیں تو سہی یہ سب کیا ہے ؟“
باپ کہتا ہے ”لکھو ۔ لکھو“
نوجوان لکھتا ہے
باپ پھر کہتا ہے ”مٹا دو“
بیٹا مٹا دیتا ہے
باپ بیٹے کو تھپکی دیتے ہوئے کہتا ہے ” بیٹا شادی کے بعد ربڑ کے استعمال کی بہت ضرورت ہوتی ہے ۔ ربڑ تحمل و متانت کا استعارہ ہے ۔ ازدواجی زندگی میں تمہیں اپنی بیوی کی غلطیاں اور کوتاہیاں درگذر کر کے اپنے دل و دماغ سے مٹانا ہو گی ۔ اسی طرح تمہاری بیوی کو بھی تمہاری غلطیاں اور ناپسندیدہ باتیں اپنے دل و دماغ سے مٹانا ہوں گی ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو تم لوگ اپنی ازدواجی زندگی کا صفحہ چند دنوں میں کالا کر لو گے اور زندگی گذارنا مشکل ہو جائے گا“

قربانی کا بکرا ۔ واویلا اور حقیقت

ٹی وی پر بہت واویلا مچایا گیا کی قربانی کے جانوروں کی قیمتیں بہت زیادہ ہو گئیں ۔ یہاں تک کہہ دیا کہ ایک بکرے کی قیمت زمین کے ایک پلاٹ کی قیمت کے برابر ہو گئی ۔ ارد گرد کے لوگوں نے بھی اپنی اپنی تشویش کا اظہار کیا ۔ 15 اکتوبر کو قریب ترین منڈی (سید پور) کا رُخ کیا ۔ پہنچتے ہی دیسی بکروں کی ایک جوڑی پسند آئی اور بھاؤ کیا ۔ 36000 روپے کی جوڑی لی اور جانا آنا ملا کر ایک گھنٹہ میں گھر پہنچ گئے

Goat1 2013
کل یعنی عید کے دن ذبح ہونے کے بعد صاف گوشت تولا ۔ لال بکرے کا صافی گوشت (بغیر پھیپھڑے دل کلیجی گردے) 17.5 کیلو گرام ہوا

Goat2 2013
کالے سفید بکرے کا صافی گوشت 18.5 کلو گرام ہوا ۔ کُل 36 کلو گرام گوشت حاصل ہوا ۔ میرا کُلیہ ہے کہ قربانی کے بکرے کا گوشت بازار کے عام بھاؤ سے زیادہ سے زیادہ دوگنا پڑ جائے تو درست ۔ عیدالاضحٰے سے قبل آخری بار گوشت میں نے 630 روپے فی کلو گرام کے حساب سے خریدا تھا اور یہ 1000 روپے فی کلو گرام پڑھ گیا ۔ سو میرے کُلیئے کے لحاظ سے یہ بکرے کافی سستے رہے

حج و عيدالاضحٰے مبارک

عيد سے پچھلی رات مغرب کی نماز کے بعد سے عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک يہ ورد رکھنا چاہیئے اگر زيادہ نہيں تو ہر نماز کے بعد ايک بار ۔ مزيد عيد کی نماز کو جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی يہ ورد رکھيئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

7 ZilHajj

جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے ان کو حج مبارک
اللہ ان کا حج قبول فرمائے

سب مسلمانوں کو عیدالاضحٰے مبارک ۔ کُلُ عَام اَنتُم بَخَیر
اللہ سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے

جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کرنا ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اُن کی قربانی قبول فرمائے
اللہ کریم میرے ہموطنوں کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
ہمارے مُلک کو ہر انسانی اور قدرتی آفت سے محفوظ فرمائے اور امن کا گہوارہ بنا دے

قارئين سے بھی دعا کی درخواست ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ذہن

اپنے ذہن کو آزاد نہ چھوڑیئے
کیونکہ
یہ آزاد چھوڑے جانے کیلئے بہت چھوٹا ہے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” What Else is Hypocrisy ?

تبدیلی لیکن کیسے ؟

میں بھی چاہتا ہوں کہ میرے وطن میں خوشگوار تبدیلی آئے اور میرا وطن سکون و ترقی کی ایک مثال بن جائے لیکن یہ تبدیلی آئے گی کیسے ؟
کیا صرف تقریروں سے ؟
یا
صرف سینٹ اور اسمبلیوں میں بیٹھنے والوں کو تبدیل کرنے سے ؟

تقریر کا اثر ماضی میں بھی اُس میدان تک ہی ہوتا تھا جہاں تقریر کی جاتی تھی ۔ اب تو اس میدان میں موجود لوگوں پر بھی کم کم ہی اثر ہوتا ہے ۔ سینٹ اور اسملیاں بھی کئی بار تبدیل ہوئیں مگر نتیجہ ؟

بطور نمونہ ایک سرکاری محکمہ کے بہت سے واقعات میں سے ایک واقعہ بعد میں پہلے ایک تازہ ترین

پچھلے 4 ماہ سے نَیب کے چیئرمین کے تقرر کی بحث چل رہی تھی تو تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر سے ایک بار بھی رابطہ نہ کیا ۔ اگر کیا تھا اور اس نے تحریک انصاف کی بات مانے سے انکار کیا تھا تو کوئی آج تک نہ بولا ۔ جونہی نیب کے چیئرمین کے نام پر اتفاق ہوا ۔ تحریکِ انصاف نے اسے مُک مُکا قرار دے کر مسترد کر دیا ۔ کیا اس سے سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے یا تماش بینی کا ؟

اب نمونہ

ایک بڑے صنعتی ادارے کی ایک چھوٹی سی شاخ ایک ڈبہ فیکٹری ۔ ایک انڈسٹریل ہوم ۔ ایک پٹرول پمپ و سروس سٹیشن اور لوکل ٹرانسپورٹ پر مشتمل تھی ۔ ڈبہ فیکٹری میں سٹیل شیٹ کے ڈبے بنتے تھے جن میں اس ادارے میں بنا کچھ مال پیک ہوتا تھا ۔ انڈسٹریل ہوم میں بیوہ عورتوں سے اس ادارے میں استعمال ہونے والی کچھ وردیاں سلوائی جاتی تھیں اور اُجرت سلائی فی وردی کے حساب سے دی جاتی تھی ۔ ٹرانسپورٹ سیکشن 10 بسوں اور 4 ٹیکسیوں پر مشتمل تھا

ادارے کا سربراہ نیا آیا تو ادارے کے بڑے اور اہم حصوں سے فارغ ہونے پر اس نے اس چھوٹی سی شاخ کی طرف توجہ کی اور اس کا نیا منیجر مقرر کیا ۔ نئے منیجر نے سب کام کا مشاہدہ بلکہ مطالعہ کیا تو مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے

ڈبہ فیکٹری کا انچارج ایک ریٹائرڈ میجر تھا جس نے صرف ایم او ڈی سی (موجودہ ڈیفنس گارڈز) سروس کی تھی ۔ اس فیکٹری کو زیادہ فعال نہیں ہونے دیا جاتا تھا کہ کہیں بیچارے ٹھیکیدار کو نقصان نہ ہو جو اس ڈبہ فیکٹری کے مقابلہ پر ڈبے سپلائی کرتا تھا ۔ ڈبہ فیکٹری کا منیجر سرکاری گاڑی گھر لیجا کر اس کا پٹرول نکال کر اپنی گاڑی میں ڈالا کرتا تھا
انڈسٹریل ہوم کی سربراہ ایک سرکاری ملازم عورت تھی ۔ وہ صرف اُن عورتوں کو کام دیتی جن کی سفارش ہوتی یا جو اس کے ذاتی کام آتیں ۔ ان میں بعض اوقات ایسی عورتیں ہوتیں جن کے خاوند زندہ تھے ۔ مزید اپنے بڑے افسروں کو راضی رکھنے کیلئے انڈسٹریل ہوم سے گدیاں اور رضائیاں وغیرہ بنوا کر دیتی جس کیلئے وہ بیواؤں سے بغیر اُجرت کام کرواتی
پٹرول پمپ و سروس سٹیشن سے چند افسران مفت پٹرول لیتے اور اپنی گاڑیوں کی مُفت سروس کرواتے
ٹرانسپورٹ مقامی (local bus service) طور پر چلتی تھی ۔ 3 بسیں بند پڑی تھیں اور باقی سب مرمت طلب تھیں ۔ 2 کی چھتیں بارش میں بے تحاشہ ٹپکتی تھیں ۔ بسوں میں ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والوں کے احباب وغیرہ مفت سفر کرتے ۔ کنڈکٹروں اور ڈرائیوروں کی تنخواہیں کم تھیں ۔ جب بھیڑ ہوتی تو کچھ سواریوں کو پیسے لے کر ٹکٹ نہ دیتے ۔ ٹیکسیاں بارسوخ لوگوں کو مُفت مہیاء کی جاتیں ۔ کوئی بہت خیال کرتا تو پٹرول اپنی جیب سے ڈلوا لیتا ۔ کنڈکٹروں کی کچھ معقول پریشانی بھی تھی کہ بس کا ٹکٹ 75 پیسے اور ایک روپیہ 50 پیسے تھا ۔ بقایا ادا کرنے کیلئے کنڈکٹر 125 روپے دے کر 100 روپے کی ریزگاری بازار سے لیتے تھے ۔ دوسرے بقایا واپس کرنے کے چکر میں کئی لوگ بغیر ٹکٹ سفر کرتے اور زیادہ تر یہی کہتے پچھلے سٹاپ سے بیٹھا ہوں تاکہ 1 روپیہ 50 پیسے نہ دینا پڑیں

نئے منیجر نے دو تین کالی بھیڑوں کو رُخصت کر کے ان کی جگہ بہتر لڑکے رکھے ۔ اور حرام خوری پر پابندی لگا کر خود معائنہ کرتا رہا ۔ کنڈکٹر کی تنخواہ جو 600 روپے ماہانہ تھی 800 روپے کی ۔ کمیشن جو سب کو 2 فیصد ملتا تھا اس کو روزانہ کی بنیاد پر منازل میں تقسیم کیا ۔ 300 روپیہ پر کوئی کمیشن نہیں ۔ اس سے اُوپر 300 پر 0.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 1 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 1.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 2 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 2.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 3 فیصد ۔ ڈرائیوروں کی تنخواہ کنڈکٹروں کی نسبت زیادہ بڑھائی مگر اُن کا کمیش 600 روپے کے اُوپر شروع کیا ۔ 2 ٹکٹوں کی بجائے پورے سفر کا ایک روپیہ ٹکٹ کر دیا

اس اثناء میں سربراہ ادارہ تبدیل ہو گیا ۔ نئے سربراہ سے کافی بحث اور منت کے بعد ویلفیئر فنڈ کے بیکار پڑے فنڈ میں سے 5 نئی بسیں اور 3 کوسٹر خریدیں ۔ بسوں کی قیمت پیشگی ادا کرنا تھی ۔ نئے منیجر نے کسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا اور اس بڑی رقم کو اپنے استعمال میں لانے یا بنک کو موج اُڑانے دینے کی بجائے بنک کے زونل چیف کے پاس جا کر خاص منافع کا معاہدہ حاصل کیا ۔ روپیہ 10 ماہ بنک میں رہا ۔ اس کے منافع سے جو خراب بسیں بند پڑی تھیں اُنہیں نیا کیا ۔ باقی بسوں کی باڈیاں درست کروا کے پینٹ کروایا
ان اصلاحات کے نتیجہ میں ٹرانسپورٹ کی آمدنی جو پچھلے 6 سال میں 69000 ماہانہ سے زیادہ کبھی نہ ہوئی تھی بڑھتے بڑھتے 6 ماہ بعد ایک لاکھ ہو گئی اور ڈیڑھ سال بعد 3 لاکھ ماہانہ ہو گئی

پٹرول پمپ جو کچھ منافع نہ دیتا تھا 6 ماہ بعد 5000 روپیہ ماہانہ دینے لگا جو ایک سال بعد 10000 روپیہ ماہانہ پر پہنچ گیا باوجودیکہ پٹرول پمپ کا فرش جو کچا تھا پکا کروایا گیا اور عمارت کو رنگ روغن کرایا گیا

مگر کچھ افسران اور بارسوخ لوگ اس منیجر کے دشمن بن گئے جس کے نتیجہ میں منیجر کی ملازمت ختم کر دی گئی

نیا منیجر نئے سربراہ ادارہ کا چہیتا تھا ۔ یہ شخص انڈسٹریل ہوم سے گدیوں کا تحفہ وصول کر چکا تھا اور ٹیکسی بھی مفت لیتا تھا ۔ اُس نے آتے ہی کمیشن ختم کر دیا ۔ جس نے اعتراض کیا اُسے ملازمت سے نکال دیا ۔ 3 لاکھ ماہانہ کی آمدنی ایک سال میں ایک لاکھ پر آ گئی ۔ ٹکٹ بڑھا کر 2 روپے کر دیا پھر لمبے سفر کیلئے 3 روپے کر دیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ بسوں کی حالت خراب ہوتی گئی کیونکہ دیکھ بھال کیلئے پیسہ نہ تھا

یہ صرف ایک نمونہ ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرکاری تحویل میں چلنے والے ادارے بالخصوص پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کا بُرا حال کیوں ہے

یہ تو معلوم ہو گیا ہو گا کہ تبدیلی لانا کتنا مُشکل ہے ۔ اب بتایئے کہ تبدیلی لانے کیلئے کیا ضروری ہے ؟

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ طاقت

مرد کی طاقت کا معیار یہ نہیں
کہ
وہ کتنا وزن اُٹھا سکتا ہے
بلکہ
مرد کی طاقت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے
کہ
وہ کتنی ذمہ داریاں نبھا سکتا ہے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے” Traitors and Torturers

مدد کی ضرورت ہے

قارئین سے درخواست ہے کہ میری رہنمائی فرمائیں ۔ مشکور ہوں گا

چند دنوں سے میں کوئی تصویر کھولتا ہوں تو وہ مائیکرو سافٹ کے پکچر منیجر (Picture Manager) میں کھُلتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ تصویر اَینِی میٹِڈ (animated) ہے یا نہیں یعنی اَینِی میٹِڈ تصویر بھی پکچر منیجر میں ساکن رہتی ہے

ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا

چند روز قبل میں نے ایک تصویر پکچر منیجر میں کھول کر اُس کی نوک پلک درست کی تھی ۔ شاید متذکرہ بالا مسئلہ اُسی سے پیدا ہوا ہو

اس مُشکل سے باہر نکلنے کیلے میری رہنمائی فرمایئے