محمد ریاض شاہد صاحب نے ”طرزِ کُہن پہ اُڑنا“ کے عنوان سے لکھا ۔ میں متعدد بار اپنی معذوری کا اظہار کر چکا ہوں کہ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد سے میر ے دماغ کا سوچنے والا حصہ مفلوج ہو چکا ہے چنانچہ میں کچھ بھی سوچ نہیں سکتا لیکن جونہی میں نے تبصرہ کے خانہ میں اظہار خیال شروع کیا قادرِ مطلق نے میرے ساتھ بیتے کچھ واقعات ذہن میں زندہ کر دیئے اور میں نے طوالت کے باعث باقاعدہ تحریر شائع کرنے کا قصد کیا
محمد ریاض صاحب نے تو ڈیجِٹل نظام (Digital System) کی بات کی ہے جسے کمپیٹرائزڈ نظام (Computerised System) بھی کہا جا سکتا ہے ۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میرے ہموطن خواہ کتنے ہی پڑے لکھے اور جہاں دیدہ کیوں نہ ہوں وطنِ عزیز میں کوئی باربط نظام چلنے نہیں دیتے ۔ اس کی وضاحت کیلئے میں اپنے ساتھ بیتے صرف 3 واقعات بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں
نظام ضبط مواد (Material Control System)
محکمہ فنی تعلیم میں بڑی باعزت اور شاہانہ ملازمت چھوڑ کر یکم مئی 1963ء کو میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف)۔ واہ چھاؤنی میں ملازمت اسلئے اختیار کی کہ انجنیئرنگ میں عملی تجربہ حصول کے بعد اللہ کریم کی عطا کردہ صلاحیت کو استعمال کر کے اپنی قوم کے کم از کم ایک شعبہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی اپنی سی کوشش کروں ۔ شروع کے 8 ماہ ہی میں اللہ کے فضل سے میری محنت کو پذیرائی ملی اور مجھے پی او ایف کے ایک نہائت اہم پروجیکٹ (رائفل جی 3) کی ڈویلوپمنٹ پر لگا دیا گیا ۔ جب کام پیداوار (production) کے قریب پہنچا (1965ء) تو میں نے اپنے سے سینیئر افسر (جو کہ اس پروجیکٹ کا سربراہ تھا) سے پوچھا ”یہ سب مٹیریئل ۔ ٹولز ۔ فکسچرز ۔ وغیرہ کہاں سے آتے ہیں اور اس کا کیا طریقہ کار ہے ؟“
اُنہوں نے سب سے سینیئر فورمین سے رابطہ کرنے کا کہا ۔ میں نے اُن صاحب کے پاس جا کر یہی سوال پوچھا تو جواب ملا ”سٹور سے“۔
میں نے استفسار کیا ”سٹور میں کہاں سے آتا ہے ؟” جواب ملا ”نیوٹن بُوتھ نے برطانیہ سے منگوایا تھا
میں گہری ٹھنڈی سانس بھرنے کے سوا کیا کر سکتا تھا ۔ نیوٹن بُوتھ کو واپس برطانیہ گئے کئی سال گذر چکے تھے ۔ شاید 1956ء میں واہ چھاؤنی میں پہلی 4 فیکٹریوں میں کام شروع ہونے پر ان کا ٹیکنیکل سربراہ ہونے کے ناطے نیوٹن بُوتھ صاحب نے یہ سب کچھ دساور سے منگوایا تھا
میں نے معاملہ کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ایک ماہ کی پوچھ گچھ اور دماغ سوزی کے بعد ایک نظام تیار کیا ۔ یہ وقت کی قید کے ساتھ ایک مربوط نظام تھا کہ مستقبل کی ضروریات کیلئے کب خرید کا سوچ کر منظوری حاصل کرنا ہے کب بجٹ بنانا ہے کب پیشکشیں مانگنا اور آرڈر کرنا ہے ۔ مٹیریئل کی مقدار کا تخمینہ کیسے لگانا ہے جب مال آ جائے تو اُسے کیسے اور کہاں رکھنا ہے اور اس کا اجراء کیسے کرانا ہے ۔ میں نے مجوزہ نظام اُس وقت کے ٹیکنیکل چیف کو پیش کیا جنہوں نے پڑھنے کے بعد ایک کمیٹی بنائی جس میں میرے ساتھ دیگر متعلقہ محکموں کے افسران لگا دیئے گئے ۔ 1965ء میں بھارت کے ساتھ جنگ شروع ہونے کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوئی ۔ اراکین کمیٹی نے بحث مباحثہ کے بعد نظام کی منظوری دی اور بڑے صاحب کی منظوری کے بعد نظام کے نفاذ کا حکمنامہ 1966ء میں جاری ہو گیا ۔ ٹیکنیکل چیف کی اشیر باد سے میں جس فیکٹری میں تھا وہاں میں نے پہلے ہی نفاذ شروع کر دیا تھا ۔ مجھے مئی 1976ء میں ایک دوست ملک کا ایڈوائزر بنا کر بھیج دیا گیا جہاں میں پونے سات سال رہا ۔ واپس آیا تو سب کچھ چوپٹ ہو چکا تھا
محکمہ اکاؤنٹس
اواخر 1985ء میں مجھے پی او ایف کے محکمہ منیجمنٹ انفارمیشن سسٹمز (ایم آئی ایس) میں جنرل منیجر تعینات کیا گیا ۔ میں نے 3 ماہ محکمہ کے کام اور گرد و پیش کا مطالعہ کیا ۔ محکمہ اکاؤنٹس والے ہر سال کئی ماہ ملازمین کے جنرل پراویڈنٹ فنڈ (جی پی فنڈ) کی ضربوں تقسیموں میں گذارتے تھے ۔ میں نے جی پی فنڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا منصوبہ بنایا اور کنٹرولر آف اکاؤنٹس سے بات کی وہ خوش ہوئے کہ اس طرح اُن کے محکمہ کا جو وقت بچے گا اسے کسی اور بہتر کام پر لگایا جا سکے گا ۔ ایک ماہ میں پروگرام بنا کر ڈاٹا اَینٹری بھی کر دی گئی اور بطور نمونہ ایک ہارڈ کاپی بنا کر (پرنٹ لے کر) اُنہیں دے دیا گیا ۔ اگلے روز کنٹرولر آف اکاؤنٹس میرے پاس شکریہ ادا کرنے آئے تو میں نے کہا ”چلیئے آپ کو دکھاتے ہیں کہ اب یہ کام کتنا آسان ہو گیا ہے“۔ جب اُن کے متعلقہ محکمہ میں پہنچے تو ایک شخص دی گئی ہارڈ کاپی اپنی میز پر رکھے کیلکولیٹر سے کچھ حساب کتاب کر رہا ۔ اُسے پوچھا کہ ”کام سمجھ میں آ گیا ؟“ بولا ”ابھی تو میں کیلکولیشنز چیک کر رہا ہوں“۔
مٹیریئل رسد کا نظام (Material Receipt System)
چیئرمین پی او ایف بورڈ (لیفٹننٹ جنرل صبیح قمرالزمان) نے 1989ء میں کہا کہ”آپ کراچی چلے جائیں ۔ پاکستان مشین ٹولز فیکٹری کا مٹیریئل رسد کا نظام بہت اچھا ہے ۔ اس کا مطالعہ کر کے ہمارے ادارے کی ضروریات کے مطابق نظام وضع کریں جو بعد میں کمپیوٹراز بھی کیا جا سکے“۔ میں چلا گیا اور نظام کو اچھا پایا ۔ واپس آ کر پی او ایف کیلئے ایک جامع نظام تشکیل دیا اور چیئرمین صاحب کو پیش کر دیا ۔ اُنہوں نے اس کا جائزہ لینے کے بعد منظوری دے دی اور نفاذ کیلئے محکمہ سٹورز کو بھیجا جنہوں نے خدشات کا اظہار کیا ۔ چیئرمین صاحب نے ایک میٹنگ بُلائی جس میں محکمہ سٹورز کے سربراہ اور اُن کے ماتحت افسران کو مدعو کیا اور مجھے بھی بُلایا ۔ میٹنگ میں جو احساس میرے ذہن میں اُبھرا یہ تھا کہ کسی نے مجوزہ نظام کا مطالعہ کرنے کی زحمت نہیں کی تھی اور جمودِ ذہن کے باعث بے بنیاد خدشات ان الفاظ میں ظاہر کئے ”بہت مشکل ہو جائے گی“۔ ”ہم کئی دہائیوں کے آزمائے نظام پر کام کر رہے ہیں ۔ کہیں یہ نہ ہو جائے ۔ کہیں وہ نہ ہو جائے“۔ میٹنگ کے بعد چیئرمین صاحب نے مجھے دفتر میں آنے کا اشارہ کیا ۔ میں گیا تو بولے ”بھوپال صاحب ۔ اس قوم کیلئے آپ جتنی بھی محنت کریں بیکار ہے”۔
بھوپال صاحب
السلام علیکم
بہت دل دکھتا ہے جب اس طرح کا طرز عمل دیکھنے کو ملتا ہے
پتہ نہیں کب یہ ٹیڑھی کھیر ٹھیک ہوگی ؟
عظیم جاوید صاحب
کہتے ہیں کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ ۔ مگر کوئی شروع گرے گا تو ۔ موجودہ جوان نسل کو نعرے لگانے سے فرصت نہیں