مرد کی طاقت کا معیار یہ نہیں
کہ
وہ کتنا وزن اُٹھا سکتا ہے
بلکہ
مرد کی طاقت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے
کہ
وہ کتنی ذمہ داریاں نبھا سکتا ہے
میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے” Traitors and Torturers “
یہ اندازہ کون لگائے ؟ شاید اسی لئے اکثر وہ عورت پر اپنے اندازوں کا بوجھ بھی ڈالتا جاتا ہے
بے شک۔۔ بالکل ٹھیک بات کہی۔۔ پر کوئی سمجھے بھی تو
نورین تبسم صاحبہ
بات ہے جسمانی طاقت اور حوصلے کی وسعت کی
سیما آفتاب صاحبہ
آپ نے تو بہت بڑے مسئلے کی نشان دہی کر دی ۔ سمجھے تو بات نا بن جائے
ٹھیک بات ہے . . . آدمی اور مرد میں یہی فرق ہے . . . عربی ادب میں “رجُل” کا لفظ ایسے ہی ذمہ دار آدمی کےلئے استعمال ہوتا ہے ۔ شاید “قحط الرجال” کی اصطلاح بھی ایسے ہی وجود میں آئی ۔ ورنہ آبادی کے اعتبار سے کثرت اس بات کی دلیل نہیں ہوتی کہ ذمہ داری محسوس کرنے والے افراد بھی کثرت میں ہیں ۔
ثروت عبدالجبّار صاحبہ
آپ کا خیال درست لگتا ہے ۔ آپ کی کسوٹی پر پتہ نہیں میں بھی مرد ہوں یا نہیں ۔ جسے ذمہ داری سنبھالنے کا کہنا ہو پنجابی میں اُسے کہتے ہیں ” مرد بن “۔
Exactly . . . .linguistics me or khas tor pe oriental languages me alfaz k meanings buht gehrai k hamil hein. . .they need to b studied in depth.
درست بات
جاوید عظیم صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ