ٹی وی پر بہت واویلا مچایا گیا کی قربانی کے جانوروں کی قیمتیں بہت زیادہ ہو گئیں ۔ یہاں تک کہہ دیا کہ ایک بکرے کی قیمت زمین کے ایک پلاٹ کی قیمت کے برابر ہو گئی ۔ ارد گرد کے لوگوں نے بھی اپنی اپنی تشویش کا اظہار کیا ۔ 15 اکتوبر کو قریب ترین منڈی (سید پور) کا رُخ کیا ۔ پہنچتے ہی دیسی بکروں کی ایک جوڑی پسند آئی اور بھاؤ کیا ۔ 36000 روپے کی جوڑی لی اور جانا آنا ملا کر ایک گھنٹہ میں گھر پہنچ گئے
کل یعنی عید کے دن ذبح ہونے کے بعد صاف گوشت تولا ۔ لال بکرے کا صافی گوشت (بغیر پھیپھڑے دل کلیجی گردے) 17.5 کیلو گرام ہوا
کالے سفید بکرے کا صافی گوشت 18.5 کلو گرام ہوا ۔ کُل 36 کلو گرام گوشت حاصل ہوا ۔ میرا کُلیہ ہے کہ قربانی کے بکرے کا گوشت بازار کے عام بھاؤ سے زیادہ سے زیادہ دوگنا پڑ جائے تو درست ۔ عیدالاضحٰے سے قبل آخری بار گوشت میں نے 630 روپے فی کلو گرام کے حساب سے خریدا تھا اور یہ 1000 روپے فی کلو گرام پڑھ گیا ۔ سو میرے کُلیئے کے لحاظ سے یہ بکرے کافی سستے رہے
جی بالکل تھیک کہا آپ نے ۔۔۔ اگر انسان اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کرنا چاہے تو بڑے آرام سے کرساکتا ہے۔۔ یہ واویلا میرے خیال میں وہ لوگ ذیادہ مچاتے ہیں جو : جیب میں نہیں دھیلا دیکھنے چلے ہیں میلہ” کی مثال کے مطابق ” وی آئی پی پورشن” کے گائے بکروں کی قیمتیں دیکھ کے آتے ہیں۔۔ اگر یہ واویلہ درست ہوتا تو جس حساب سے مہنگائی بڑھ رہی ہے یس طرح تو کوئی بھی قربانی نہیں کرسکتا۔۔ مگر اللہ کی شان ہے ہے کہ ہر سال پہلے سے زیادہ ہی نظر آتی ہے قربانی
سیما آفتاب صاحبہ
آپ نے درست کہا ۔ آپ کی دی ہوئی مثال نے تو خوش کر دیا ” پلے نئیں دھیلہ تے کرے میلہ میلہ“۔
بہت شکریہ
آپ کی بات سر آنکھوں پر۔ مگر ایک دوسرا رخ بھی دیکھیے۔ ایسے بھی ہیں جن پر ویسے تو قربانی فرض ہوجاتی ہے مگر وہ بعض اوقات جانور نہیں خرید سکتے ۔ مثلاً سستے سے سستا بکرا کتنے کا مل جائے گا؟ بکرا تو دور کی بات 8000 تک کا گائے میں حصہ بھی طاقت سے باہر ہوجاتا ہے۔
آپ دونوں نے اپنی حیثیت کو سامنے رکھ کر یہ رائے قائم فرمائی ہے۔
یہ تو بالکل ایسے ہی کہا ہے آپ لوگوں نے جیسے ہمارے حکمران کہتے ہیں روٹی نہیں کھاسکتے تو کیک کھالیں۔
عامر ملک صاحب
میں نے کسی کی استطاعت کی بات نہیں کی بلکہ اُس واویلا کی بات کی جو ذرائع ابلاغ کر رہے تھے ۔ آپ نے جو نقطہ اُٹھایا ہے یہ بالکل اسی طرح ہے کہ زکٰوۃ دینے سے تو وہ مال ہی ختم ہو جائے گا جس کی وجہ سے زکٰوۃ واجب ہوئی ۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اللہ کے فرمان کی بجا آوری سے آدمی غریب تر نہیں ہوتا ۔ لیکن اللہ کی نافرمانی سے پریشانی آنے کا زیادہ احتمال ہوتا ہے
میں افتخار صاحب کی بات سے بالکل متفق ہوں ۔۔۔۔ ہمیں اللہ کے حکم کی بجا آوری کرنی ہے اور اللہ نیت کو دیکھتا ہے جو کام نیک نیتی سے کیا جائے اللہ اس میں ضرور آسانی فرماتا ہے اور جو کام نہ ہو سکے اس میں بھی ہماری بہتری ہی ہوتی ہے۔
سیما آفتاب صاحبہ
حوصلہ افزائی کیلئے مشکور ہوں ۔ میرا یہ یقین ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کمائی میں برکت پڑتی ہے اور آدمی فرائض سے سُبکدوش ہو پاتا ہے
ہماری طرف بھی ایوریج یہی رہی۔ جتنے ہزار کا بکرا قریب قریب اتنے کلو ہی گوشت!۔ جہاں تک بات ہے ذرائع ابلاغ کی تو ان پر سے تو کب کا اعتبار اُٹھ گیا ہے۔ ان کی کارستانیوں کی لسٹ میں یہ بھی شامل کر دیتے ہیں۔