میں نے ایک کہانی کہیں پڑھی تھی ۔ اس میں الفاظ کا رود و بدل کر کے اپنے انداز میں لکھا ہے ۔ البتہ مقصد اصل کہانی والا ہی رکھا ہے
ایک نوجوان کی شادی ہوئی تو وہ اپنے والد کے پاس گیا اور نئے ازدواجی سفر کے لئے برکت کی دعا کی خواہش ظاہر کی
اس کے والد نے اُسے کاغذ ۔ پنسل اور ربڑ (Eraser) لانے کو کہا
لڑکا ”کیوں ابا جان ؟ اس وقت تو میرے پاس نہیں ہیں“
باپ ”جاؤ خرید لاؤ“
لڑکا حیرانگی میں مبتلا گیا اور مطلوبہ چیزیں بازار سے لا کر باپ کے پاس بیٹھ گیا
باپ ”لکھو“
بیٹا ”کیا لکھوں ؟“
باپ ”جو جی چاہے لکھو“
بیٹا ایک جملہ لکھتا ہے
باپ کہتا ہے ”اسے مٹا د و“
بیٹا مٹا دیتا ہے
باپ ”لکھو“
بیٹا ”ابا جان ۔ آپ کیا چاہتے ہیں ؟“
باپ کہتا ہے ”لکھو“
بیٹا پھر لکھتا ہے
باپ کہتا ہے ”مٹا دو“
لڑکا مٹا دیتا ہے
باپ پھر کہتا ہے ”پھر لکھو“
بیٹا کہتا ہے ”اباجان ؟ بتائیں تو سہی یہ سب کیا ہے ؟“
باپ کہتا ہے ”لکھو ۔ لکھو“
نوجوان لکھتا ہے
باپ پھر کہتا ہے ”مٹا دو“
بیٹا مٹا دیتا ہے
باپ بیٹے کو تھپکی دیتے ہوئے کہتا ہے ” بیٹا شادی کے بعد ربڑ کے استعمال کی بہت ضرورت ہوتی ہے ۔ ربڑ تحمل و متانت کا استعارہ ہے ۔ ازدواجی زندگی میں تمہیں اپنی بیوی کی غلطیاں اور کوتاہیاں درگذر کر کے اپنے دل و دماغ سے مٹانا ہو گی ۔ اسی طرح تمہاری بیوی کو بھی تمہاری غلطیاں اور ناپسندیدہ باتیں اپنے دل و دماغ سے مٹانا ہوں گی ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو تم لوگ اپنی ازدواجی زندگی کا صفحہ چند دنوں میں کالا کر لو گے اور زندگی گذارنا مشکل ہو جائے گا“
بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ زندگی کے سفر میں ہمیں محض ازدوجی معاملات کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر طرح کے تعلقات میں ‘ربڑ’ کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔
عاطف بٹ صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ آپ نے درست کہا کہ عام تعلقات میں بھی یہی رویّہ رکھنا چاہیئے ۔ اس کی ایک بار عادت پڑھ جائے تو آدمی ہر جگہ استعمال کرتا ہے
نہایت عمدہ طریقے سے رشتے/رشتوں کے برتائو کا طریقہ سمجھا دیا
سیما آفتاب صاحبہ
حوصلہ افزائی کا شکریہ
واہ ۔۔۔۔۔۔۔زبردست
منصور مکرم صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ