جموں کشمیر میں آزادی کی مسلحہ تحریک 24 اکتوبر 1947ء کو شروع ہوئی تھی ۔ اس حوالے سے ایک مضمون
ایک مجاہد کا خط
جناب ڈاکٹر صفدر محمود
سلام مسنون
آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کشمیر کے بغیر ہر حوالے سے نامکمل ہے۔ اب پاکستان کو نامکمل رکھنے کے لئے ہمارے دشمن پاکستان کو تحریک آزادی کشمیر سے الگ کرنے کی گہری چال چل رہے ہیں۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کشمیر کے محاذ پر ناکام ہوا ہے۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد پاکستان میں کشمیر کے حوالے سے بے بسی کے احساس کو جنم دے کر جوش عمل ٹھنڈا کرنا ہے۔ ورنہ حقائق اس کے برعکس ہیں
کشمیر کے محاذ پر تحریک پاکستان کے دور سے لے کر آج تک کی تاریخ پاکستان کی زبردست کامیابی اور برہمن عزائم کی مسلسل شکست سے عبارت ہے۔ کانگریس نے ہر ممکن کوشش کی کہ قیام پاکستان سے پہلے ہی پوری ریاست جموں و کشمیر بھارت کا حصہ بن جائے۔ انگریزوں نے ہر مرحلے پر ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس مقصد کے لئے پہلے ماؤنٹ بیٹن اور پھر گاندھی نے تقسیم ہند سے ذرا پہلے کشمیر کا دورہ کیا بعدمیں جب بھارت نے فوجی جارحیت کے ذریعے کشمیر کو ہڑپ کرنا چاہا تو ہم نے کم و بیش نصف ریاست یعنی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو زور بازو سے آزاد کر لیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مقبوضہ وادی کشمیر کی علامتی و سیاسی اہمیت گو کہ زیادہ ہے مگر اقتصادی امکانات کے لحاظ سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اہمیت اور افادیت اس سے بھی زیادہ ہے۔ وادی کشمیر پر پاکستان کا اپنا برحق دعویٰ برقرار رکھنا اور وہاں پر بھارت کے خلاف مزاحمت کا مسلسل کسی نہ کسی صورت جاری رہنا ہماری کامیابی اور بھارت کی ناکامی اور پسپائی کی دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر آج تک بین الاقوامی قانون کی رو سے متنازع علاقوں میں شمار ہوتا ہے اور جب تک پاکستان کشمیر پر اپنے دعوے پر ڈٹا رہے گا کشمیر ہرگز بھی بھارت کا قانونی حصہ نہیں بن سکے گا۔
مجرمانہ قومی غفلتوں سے ہم نے پاکستان کا جو حشر کیا ہے اس کی وجہ سے ہم اب تک مقبوضہ کشمیر کو آزاد نہیں کروا سکے اور نہ اس وقت تک کروا سکتے ہیں جب تک پاکستان اقتصادی اور عسکری میدانوں میں بھرپور خود کفالت کی منزل کو نہیں پالیتا۔ خود کفیل، باعزم اور توانا پاکستان ہی بھارت اور اس کے مغربی حواریوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے اور کشمیر کو حاصل کرنے کے لئے فیصلہ کن اقدام کرنے کے قابل ہوگا۔
یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جا رہا ہے کہ وادی کشمیر کے مسلمان پاکستان سے کشمیر کا الحاق نہیں چاہتے اس جھوٹی مہم کا مقصد پاکستان کی رائے عامہ کو فریب دینا ہے۔ کشمیر کے زمینی حقائق پر طائرانہ نظر ہی اس پروپیگنڈے کو جھٹلانے کے لئے کافی ہے۔ کشمیر قیام پاکستان سے پہلے ہی نظریہ پاکستان پر ایمان کا مضبوط قلعہ بن چکا تھا۔ وہاں کی مسلمان اکثریت کی پاکستان سے پختہ نظریاتی اور جذباتی وابستگی میں کبھی بھی ضعف نہیں آیا۔ امریکی دباؤ میں آکر طول اقتدار کے لئے فوجی آمر جنرل مشرف نے کامیابیوں کی طرف گامزن 90ء کی دہائی کی آزادی کشمیر کے لئے جاری خونین مزاحمت کی حمایت سے دست برداری کا اعلان کیا۔ اس مجرمانہ فعل سے مسلح مزاحمت کا گلا گھونٹا گیا۔ ان حالات میں پاکستان دشمن اور بھارت نواز الحادی عناصر کے لئے مسلمانان کشمیر کو پاکستان سے بدظن کرنے کے لئے موزوں ماحول میسر رہا۔ وادی کشمیر کی بابصیرت مسلم رائے عامہ نے ان حوصلہ شکن حالات میں بھی ہر موقع پر پاکستان سے اپنی لازوال وابستگی کا بھرپور اظہار کیا۔ 2008ء میں ہندو مذہبی استھانوں کو زمین کی منتقلی کے خلاف احتجاج سے شروع ہونے والی پرامن تحریک آزادی کے دوران لاکھوں مظاہرین کے اجتماعات میں لہرائے جانے والے سبز ہلالی پرچم اور بلند ہونے والے نعرے عوام کے دلی رجحانات کی ترجمانی کرنے کے لئے کافی تھے۔ پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ، تیری منڈی، میری منڈی، راولپنڈی، راولپنڈی اور یہ تو بہانہ ہے راولپنڈی جانا ہے جیسے نعروں سے وادی کی فضائیں گونج رہی تھیں۔
2010ء میں پرامن عوامی مزاحمت کی آگ ایک بار پھر بھڑک اٹھی۔ چار ماہ تک لوگ اس تحریک کو بھرپور انداز سے چلاتے رہے۔ قابض انتظامیہ کے پاس کرفیو لگانے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا تھا۔ عید رمضان کے دن قابض انتظامیہ نے یہ سوچ کر کرفیو اٹھایا کہ لوگ عید کی نماز کے بعد گھروں کا رخ کریں گے۔ آزادی کے جذبوں سے لبریز کشمیر کے مسلمان سری نگر کے مرکز لال چوک کی طرف گامزن ہوئے اور لاکھوں کے اجتماع میں سبز ہلالی پرچم اور پاکستان سے وابستگی کی خواہش کی ترجمانی کرنے والے فلک شگاف نعروں سے مقبوضہ فضاؤں پر لرزہ طاری ہوگیا۔ عید کی چھٹی کے بعد جب پاکستان میں اخبارات چھپے تو ایک انگریز اخبار میں لال چوک کے اس اجتماع کی تصویر بھی چھپی تھی جس میں گھنٹہ گھر پر آویزاں بڑے پاکستانی پرچم کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ہاتھوں میں لہراتے ہوئے پاکستانی پرچموں کی بہار تھی۔ یہ تصویر اپنی بغل میں چھپی اس شہ سرخی کو جھٹلا رہی تھی کہ (دس میں سے ایک بھی کشمیری پاکستان سے الحاق نہیں چاہتا ہے) ناقابل یقین اور حیرت ناک جھوٹ ٹائمز آف انڈیا اخبار کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں کرائے گئے نام نہاد سروے میں بیان ہوئی تھی۔ اس دوران یہ خبر بھی اخبارات کی زینت بنی کہ بھارتی خاتون صحافی ارونا دھتی رائے جب سرینگر میں اہل دانش وبینش کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کر رہی تھیں تو سامعین نے نعرے بلند کئے: ”بھوکا ننگا ہندوستان، جان سے پیارا پاکستان“۔
دراصل تحریک آزادی کشمیر کے خلاف خطرناک سازش ہو رہی ہے اس سازش کا مقصد تحریک کو اس بنیاد سے محروم کرنا ہے جس پر یہ کھڑی ہے۔ مزاحمتی تحریکوں کی مضبوطی سخت جانی اور پائیداری ان کی نظریاتی بنیادوں میں پنہاں ہوتی ہے۔ جس مزاحمت کی نظریاتی بنیاد گہری، مضبوط اور شکست نا پذیر ہو اسے وقتی طور پر تو دبایا جاسکتا ہے مگر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ آزادی کشمیر کے لئے جاری مزاحمت کی نظریاتی بنیاد جغرافیہ، سیاست، تاریخ اور دین و مذہب کے اٹل حقائق پر استوار ہے۔ اس نظریاتی بنیاد سے جدوجہد آزادی کو محروم کرنا اسے موت کے گھاٹ اتارنے کے برابر ہے۔ دراصل اس نظریاتی بنیاد میں تحریک آزادی کی روح بسی ہے۔ تحریک آزادی کی اس روح کا نام پاکستانیت ہے اور جب تک یہ تحریک حسب روایت پاکستانیت سے عبارت ہے اسے ختم کرنا یا اس کا استحصال کرنا خارج از امکان ہے۔
دنیا میں ریاست یا ملک انسانی اجتماعیت کی سب سے منظم، فعال اور طاقتور صورت کا نام ہے۔ پاکستانیت کی بنیاد پر کھڑی آزادیٴ کشمیر کی جدوجہد کا والی اور وارث بیس کروڑ افراد پر مشتمل پاکستان ہے۔ پاکستانیت سے تحریک آزادیٴ کشمیر کو وہ تزویراتی گہرائی میسر ہے جس کا خاتمہ دشمن کے بس کی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک سے جان چھڑانے اور اس کی جڑوں پر تیشہ چلانے کے لئے چالاکی سے اس تحریک کا پاکستانیت سے رشتہ توڑنے کے منصوبے پر کام ہور ہا ہے۔
تاریخی طور پر اس نامسعود سلسلے کا آغاز امریکہ نے کیا تھا۔ یاد رہے کہ امریکہ عالمی سیاست میں دوسری عالمی جنگ کے بعد اس برطانیہ کا جانشین بن کر سامنے آیا جس نے کشمیر پر بھارتی قبضے کے راستے ہموار کئے تھے۔ 18اکتوبر 1968ء کے دن صدر ایوب خان نے پاکستان میں متعین امریکی سفیر جو بھارت اور مقبوضہ کشمیر کادورہ کرکے آیا تھا سے ملاقات کا احوال اپنے روزنامچہ/ ڈائری میں درج کیا ہے۔ اس ملاقات میں امریکی سفیر ایوب خان سے تاکید کے ساتھ کہتا ہے کہ پاکستان کو انڈی پینڈیٹ کشمیر کے لئے کام کرنا چاہئے اور دلیل یہ دی ہے کہ اس طرح اسے عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ انڈی پینڈنٹ کشمیر کو عالمی حمایت کے حاصل ہونے والی بات پر ذراساغور وخوض ہی ہمیں اس کے برعکس نتیجے کے برآمد ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت اور عالمی اہمیت صرف اور صرف پاکستان کا جموں و کشمیر کے دعویٰ دار ہونے کی وجہ سے رہی ہے۔ حیدر آباد دکن پر بھارت نے فوجی کارروائی کرکے قبضہ کیا۔ اس ریاست کے نمائندے نے اقوام متحدہ میں اس کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس کی آج تک شنوائی نہیں ہوئی۔ کشمیر کے برعکس حیدر آباد دکن کا پاکستان ہمسایہ تھا نہ دعویدار اور مددگار۔ نہ رہا بانس نہ بجی بانسری۔
یاد رہے کہ انڈی پینڈنٹ کشمیر کا عملی قیام امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا ہرگز بھی مقصد نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ عملی دنیا میں اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ دراصل بھارت کشمیر سے اس طرح پاکستان کو الگ کرکے اسے آسانی سے ہضم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے لئے انڈی پینڈنٹ کشمیر کے تصور کا قابل قبول بن جانے کا منطقی نتیجہ تحریک آزادی کشمیر کے لئے پیغام موت ہوگا۔ انڈی پینڈنٹ کشمیر کے تصور کو قبول کرنے کا معنی یہ ہوگا کہ پاکستان وادی کشمیر کے بغیر ادھورا یا نامکمل نہیں ہے۔ وہ پاکستان جو خود کو وادی کشمیر کے بغیر مکمل تصور کرے گا اس کا ”قومی مفاد“ یہ کہنے لگے کا کہ اتنے چھوٹے سے کشمیر کے لئے اتنے بڑے بھارت سے پنگا لینے کی کیا ضرورت ہے اور یوں بھارت سے کشمیر کو آزاد کرنے کی تحریک تاریخ کے قبرستان میں دفنائی جائے گی۔ خدا نہ کرے ۔ خدارا آنکھیں کھولئے اور اس سازش کو سمجھئے۔
آپ کانیازمند…خواجہ شجاع عباس
بشکریہ ۔ جنگ
اس خط میں تحریر گذارشات کسی ایک فرد یا ایک قلیل افراد پر مشتمل کسی گروہ کی تو ہوسکتی ، کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کی نہیں۔ کشمیری مکمل آزادی چاہتے ہیں،الحاق نہیں۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے علی گیلانی کے سوا حریت کانفرنس کا ہر لیڈر گول مول بات کرتا ہے۔ کم از کم میں نے تو نہیں سنا کہ میر واعظ عمر فاروق یا حریت کانفرنس میں شامل کسی بھی جماعت کے لیڈر نے کبھی بھی پاکستان سے الحاق کی بات کی ہو۔ یہ لوگ ہمیشہ استصواب رائے کی بات کرتے ہیں۔
عام کشمیری مسلمان پاکستان سے ہمدردی ضرور رکھتا ہے لیکن پاکستان سے الحاق کو پسند نہیں کرتا۔
جواد احمد خان صاحب
میں جموں کشمیر کے صوبہ جموں کے ضلع جموں کے شہر جموں توی میں پیدا ہوا تھا جو جموں کشمیر کا سردیوں کا صدر مقام ہے ۔ میرا رابطہ اللہ کی مہربانی سے کسی نہ کسی طرح مقبوضہ کشمیر میں موجود مسلمانوں سے رہتا ہے ۔ فی زمانہ دو صحافیوں سے رابطہ ہوتا رہتا ہے جن میں سے ایک سرینگر (صوبہ کشمیر) میں رہتا ہے اور ایک جموں توی میں ۔ وہاں مسلمانوں کی بھاری اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہے اور اس کا اظہار بھی کرتی ہے ۔ وہ لوگ پاکستان کے دن مناتے ہیں بہت سے لوگوں نے اپنی گھڑیوں پر پاکستان کا وقت رکھا ہوا ہوتا تھا تو بھارتی سکیورٹی نے ایسے لوگوں کو دہشتگرد کہہ کر ظلم شروع کر دیا تھا ۔ علی گیلانی برملا بولتے ہیں باقی گول مول بات کرتے ہیں لیکن چاہتے وہی ہیں جو علی گیلانی کہتے ہیں