میں بھی چاہتا ہوں کہ میرے وطن میں خوشگوار تبدیلی آئے اور میرا وطن سکون و ترقی کی ایک مثال بن جائے لیکن یہ تبدیلی آئے گی کیسے ؟
کیا صرف تقریروں سے ؟
یا
صرف سینٹ اور اسمبلیوں میں بیٹھنے والوں کو تبدیل کرنے سے ؟
تقریر کا اثر ماضی میں بھی اُس میدان تک ہی ہوتا تھا جہاں تقریر کی جاتی تھی ۔ اب تو اس میدان میں موجود لوگوں پر بھی کم کم ہی اثر ہوتا ہے ۔ سینٹ اور اسملیاں بھی کئی بار تبدیل ہوئیں مگر نتیجہ ؟
بطور نمونہ ایک سرکاری محکمہ کے بہت سے واقعات میں سے ایک واقعہ بعد میں پہلے ایک تازہ ترین
پچھلے 4 ماہ سے نَیب کے چیئرمین کے تقرر کی بحث چل رہی تھی تو تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر سے ایک بار بھی رابطہ نہ کیا ۔ اگر کیا تھا اور اس نے تحریک انصاف کی بات مانے سے انکار کیا تھا تو کوئی آج تک نہ بولا ۔ جونہی نیب کے چیئرمین کے نام پر اتفاق ہوا ۔ تحریکِ انصاف نے اسے مُک مُکا قرار دے کر مسترد کر دیا ۔ کیا اس سے سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے یا تماش بینی کا ؟
اب نمونہ
ایک بڑے صنعتی ادارے کی ایک چھوٹی سی شاخ ایک ڈبہ فیکٹری ۔ ایک انڈسٹریل ہوم ۔ ایک پٹرول پمپ و سروس سٹیشن اور لوکل ٹرانسپورٹ پر مشتمل تھی ۔ ڈبہ فیکٹری میں سٹیل شیٹ کے ڈبے بنتے تھے جن میں اس ادارے میں بنا کچھ مال پیک ہوتا تھا ۔ انڈسٹریل ہوم میں بیوہ عورتوں سے اس ادارے میں استعمال ہونے والی کچھ وردیاں سلوائی جاتی تھیں اور اُجرت سلائی فی وردی کے حساب سے دی جاتی تھی ۔ ٹرانسپورٹ سیکشن 10 بسوں اور 4 ٹیکسیوں پر مشتمل تھا
ادارے کا سربراہ نیا آیا تو ادارے کے بڑے اور اہم حصوں سے فارغ ہونے پر اس نے اس چھوٹی سی شاخ کی طرف توجہ کی اور اس کا نیا منیجر مقرر کیا ۔ نئے منیجر نے سب کام کا مشاہدہ بلکہ مطالعہ کیا تو مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے
ڈبہ فیکٹری کا انچارج ایک ریٹائرڈ میجر تھا جس نے صرف ایم او ڈی سی (موجودہ ڈیفنس گارڈز) سروس کی تھی ۔ اس فیکٹری کو زیادہ فعال نہیں ہونے دیا جاتا تھا کہ کہیں بیچارے ٹھیکیدار کو نقصان نہ ہو جو اس ڈبہ فیکٹری کے مقابلہ پر ڈبے سپلائی کرتا تھا ۔ ڈبہ فیکٹری کا منیجر سرکاری گاڑی گھر لیجا کر اس کا پٹرول نکال کر اپنی گاڑی میں ڈالا کرتا تھا
انڈسٹریل ہوم کی سربراہ ایک سرکاری ملازم عورت تھی ۔ وہ صرف اُن عورتوں کو کام دیتی جن کی سفارش ہوتی یا جو اس کے ذاتی کام آتیں ۔ ان میں بعض اوقات ایسی عورتیں ہوتیں جن کے خاوند زندہ تھے ۔ مزید اپنے بڑے افسروں کو راضی رکھنے کیلئے انڈسٹریل ہوم سے گدیاں اور رضائیاں وغیرہ بنوا کر دیتی جس کیلئے وہ بیواؤں سے بغیر اُجرت کام کرواتی
پٹرول پمپ و سروس سٹیشن سے چند افسران مفت پٹرول لیتے اور اپنی گاڑیوں کی مُفت سروس کرواتے
ٹرانسپورٹ مقامی (local bus service) طور پر چلتی تھی ۔ 3 بسیں بند پڑی تھیں اور باقی سب مرمت طلب تھیں ۔ 2 کی چھتیں بارش میں بے تحاشہ ٹپکتی تھیں ۔ بسوں میں ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والوں کے احباب وغیرہ مفت سفر کرتے ۔ کنڈکٹروں اور ڈرائیوروں کی تنخواہیں کم تھیں ۔ جب بھیڑ ہوتی تو کچھ سواریوں کو پیسے لے کر ٹکٹ نہ دیتے ۔ ٹیکسیاں بارسوخ لوگوں کو مُفت مہیاء کی جاتیں ۔ کوئی بہت خیال کرتا تو پٹرول اپنی جیب سے ڈلوا لیتا ۔ کنڈکٹروں کی کچھ معقول پریشانی بھی تھی کہ بس کا ٹکٹ 75 پیسے اور ایک روپیہ 50 پیسے تھا ۔ بقایا ادا کرنے کیلئے کنڈکٹر 125 روپے دے کر 100 روپے کی ریزگاری بازار سے لیتے تھے ۔ دوسرے بقایا واپس کرنے کے چکر میں کئی لوگ بغیر ٹکٹ سفر کرتے اور زیادہ تر یہی کہتے پچھلے سٹاپ سے بیٹھا ہوں تاکہ 1 روپیہ 50 پیسے نہ دینا پڑیں
نئے منیجر نے دو تین کالی بھیڑوں کو رُخصت کر کے ان کی جگہ بہتر لڑکے رکھے ۔ اور حرام خوری پر پابندی لگا کر خود معائنہ کرتا رہا ۔ کنڈکٹر کی تنخواہ جو 600 روپے ماہانہ تھی 800 روپے کی ۔ کمیشن جو سب کو 2 فیصد ملتا تھا اس کو روزانہ کی بنیاد پر منازل میں تقسیم کیا ۔ 300 روپیہ پر کوئی کمیشن نہیں ۔ اس سے اُوپر 300 پر 0.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 1 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 1.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 2 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 2.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 3 فیصد ۔ ڈرائیوروں کی تنخواہ کنڈکٹروں کی نسبت زیادہ بڑھائی مگر اُن کا کمیش 600 روپے کے اُوپر شروع کیا ۔ 2 ٹکٹوں کی بجائے پورے سفر کا ایک روپیہ ٹکٹ کر دیا
اس اثناء میں سربراہ ادارہ تبدیل ہو گیا ۔ نئے سربراہ سے کافی بحث اور منت کے بعد ویلفیئر فنڈ کے بیکار پڑے فنڈ میں سے 5 نئی بسیں اور 3 کوسٹر خریدیں ۔ بسوں کی قیمت پیشگی ادا کرنا تھی ۔ نئے منیجر نے کسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا اور اس بڑی رقم کو اپنے استعمال میں لانے یا بنک کو موج اُڑانے دینے کی بجائے بنک کے زونل چیف کے پاس جا کر خاص منافع کا معاہدہ حاصل کیا ۔ روپیہ 10 ماہ بنک میں رہا ۔ اس کے منافع سے جو خراب بسیں بند پڑی تھیں اُنہیں نیا کیا ۔ باقی بسوں کی باڈیاں درست کروا کے پینٹ کروایا
ان اصلاحات کے نتیجہ میں ٹرانسپورٹ کی آمدنی جو پچھلے 6 سال میں 69000 ماہانہ سے زیادہ کبھی نہ ہوئی تھی بڑھتے بڑھتے 6 ماہ بعد ایک لاکھ ہو گئی اور ڈیڑھ سال بعد 3 لاکھ ماہانہ ہو گئی
پٹرول پمپ جو کچھ منافع نہ دیتا تھا 6 ماہ بعد 5000 روپیہ ماہانہ دینے لگا جو ایک سال بعد 10000 روپیہ ماہانہ پر پہنچ گیا باوجودیکہ پٹرول پمپ کا فرش جو کچا تھا پکا کروایا گیا اور عمارت کو رنگ روغن کرایا گیا
مگر کچھ افسران اور بارسوخ لوگ اس منیجر کے دشمن بن گئے جس کے نتیجہ میں منیجر کی ملازمت ختم کر دی گئی
نیا منیجر نئے سربراہ ادارہ کا چہیتا تھا ۔ یہ شخص انڈسٹریل ہوم سے گدیوں کا تحفہ وصول کر چکا تھا اور ٹیکسی بھی مفت لیتا تھا ۔ اُس نے آتے ہی کمیشن ختم کر دیا ۔ جس نے اعتراض کیا اُسے ملازمت سے نکال دیا ۔ 3 لاکھ ماہانہ کی آمدنی ایک سال میں ایک لاکھ پر آ گئی ۔ ٹکٹ بڑھا کر 2 روپے کر دیا پھر لمبے سفر کیلئے 3 روپے کر دیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ بسوں کی حالت خراب ہوتی گئی کیونکہ دیکھ بھال کیلئے پیسہ نہ تھا
یہ صرف ایک نمونہ ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرکاری تحویل میں چلنے والے ادارے بالخصوص پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کا بُرا حال کیوں ہے
یہ تو معلوم ہو گیا ہو گا کہ تبدیلی لانا کتنا مُشکل ہے ۔ اب بتایئے کہ تبدیلی لانے کیلئے کیا ضروری ہے ؟
Yes this is how corruption works . . . And this is how disaster happens
عظیم جاوید صاحب
بلاگ پر خوش آمدید
ham ko tabdeli nai acha hukmran chaey
عبدالغفار صاحب
بلاگ پر خوش آمدید
Aap ki birthday wishes bht achi lgi. . . .welcome on my blog
عظیم جاوید صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ آپ واقعی عظیم آدمی ہیں