پاکستان میں سزائے موت ختم کرنے کی خواہش مند این جی اوز اور وکلاء کمیونٹی بھی بنگلہ دیش میں پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں تھوک کے حساب سے موت کی سزائیں دینے کی کارروائی پر خاموش ہیں اور صرف حکمران ہی نہیں سیاستدان، انسانی حقوق کے ادارے اور ظلم ، زیادتی، ناانصافی کے خلاف بڑھ چڑھ کر لکھنے، بولنے اور تڑپنے والے دانشور، قلمکار اور کالم نگار بھی منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں ۔ کچھ سیاسی و مذہبی تعصب کے سبب، کسی کو بھارت کاخوف دامن گیر اور کوئی فوج سے بغض و عناد کی وجہ سے خوش ہیں کہ ”ہَور چُوپو“۔
پاکستان میں دہشت گردی، تخریب کاری اور قتل و غارت گری کے مرتکب کسی مستند جاسوس کو عدالتی سزا ملے تو بھارتی حکومت باضابطہ احتجاج کرتی ہے ۔ توہین رسالت کے مرتکب افراد کی مدد کو امریکہ برطانیہ اور دنیا جہاں کے ادارے آتے ہیں اور پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا جذبہ انسانی ہمدردی عود کر آتا ہے ۔ مگر ڈھاکہ میں ہزاروں سیاسی قیدیوں، معمر افراد کو عمر قید اور موت کی سزا دینے اور سڑکوں پر عوام کو گولیوں سے بھوننے پر کسی کو اعتراض نہیں ۔ کوئی اپنے اردگرد موجود بھارتی شردھالوؤں اور نام نہاد ترقی پسندوں سے مرعوب ہے اور کسی کو امریکہ و یورپ کی ناپسندیدگی کا خدشہ ہے
بنگلہ دیش میں ان دنوں دارورسن کا موسم ہے ۔ 1971ء میں اپنے وطن کو متحد رکھنے، بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے اور پاکستان کا ساتھ دینے کے جُرم میں مولانا دلاور حسین سعیدی، مولانا غلام اعظم، محمد قمر الزمان اور احسن مجاہد کو سزائے موت سنائی گئی ہے اور درجن بھر افراد عمر قید کے مستحق ٹھہرے۔ جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھر چکی ہیں۔ فوج کے 70 کے قریب میجر جنرل سے میجر تک کے افسروں کو نام نہاد بغاوت کی آڑ میں ذبح کرنے کے علاوہ ان کی بیوییوں، بچیوں، ماؤں، بہنوں کی آبروریزی اور قتل کے واقعات ہو چکے ہیں تاکہ فوج کو بھارت مخالف عناصر سے پاک کیا جاسکے مگر پاکستان میں کسی کو ان واقعات کا تفصیلی علم ہے نہ مظلوموں سے ہمدردی اور نہ پاکستان سے وفاداری کے تقاضے نبھانے والوں کی کوئی فکر ۔ کیوں؟ اس لئے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے کہ فلسفے اور تصور سے ہم نے توبہ کرلی ہے اور ایک طرف آرام سے بیٹھ کر دہی کھانے میں مگن ہیں
مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی کی منتخب حکومت کے خاتمے اور فوجی مداخلت پر بھی ہمارا رویہ کم و بیش یہی رہا ۔ جن لوگوں کو 12 اکتوبر اور 3 نومبر کے اقدامات پر آرٹیکل 6 یاد آتا ہے اور وہ جنرل پرویز مشرف کو فوجی مداخلت پر سزائے موت سنانے کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں بھی جنرل عبدالفتاح السیسی کے اقدام پر مذمت تو کیا لب کشائی کی توفیق نہیں ہوئی ۔ غلام اعظم اور مرسی کا قصور اس کے سوا کیا ہے کہ ” اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں“۔
واقعی پاکستان کبھی ایسا تھا مولانا ظفر علی خان کے الفاظ ”اخوت اس کو کہتے ہیں۔ چبھے کانٹا جو کابل میں تو دہلی کا ہر اک پیر و جواں بے تاب ہو جائے “۔
ترکی کی فوجی حکومت نے سابق وزیراعظم عدنان میندریس کو سزائے موت سنائی تو اُس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ، صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا خط لے کر انقرہ پہنچ گئے کہ ”سزائے موت پر عمل نہ کیا جائے“۔
اخوان المسلمون کے مرشد سیّد قطب کو کرنل جمال عبدالناصر نے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا اور سولی پر لٹکایا تو پاکستان کے حکمران، سیاستدان، دانشور، قلمکار اور صحافی تڑپ اٹھے۔ اخبارات میں اداریئے، مضامین اور کالم شائع ہوئے اور اس اقدام کی مذمت کی گئی
ہماری سیاسی، مذہبی، سماجی قیادت کی اس کوتاہ اندیشی، بے حمیتی اور بزدلی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ گیدڑوں کی طرح 100 سال جینے کی آرزو نے ہمیں اس حال کو پہنچا یا ہے ورنہ پاکستان ہمیشہ ایسا نہ تھا ۔ کابل میں سردار داؤد نے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے بیان دیا تو بھٹو صاحب نے ملک میں ہڑتال کرائی اور قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلا کر مذمت کی ۔ شیخ عبداللہ کی گرفتاری اور مقبول بھٹ کی پھانسی پر بھی تاریخی ہڑتال سب کو یاد ہے اورویت نام، فلسطین،افریقی ممالک میں حریت پسندوں کے حق میں مرثیے، نوحے اور رزمیہ
نظمیں کل کی باتیں ہیں ۔ تب ہم اسلامی اور عالمی برادری کا حصہ تھے اور حق کا علم بلند کرنے والوں کے ساتھ، ظلم ، جبر، ناانصافی اور استحصال کے خلاف۔ تب ہماری سب سنتے تھے۔ اب ہم حال مست ہیں اس لئے بولنے کے قابل نہ کوئی سننے کو تیار
جب کی مثالیں آپ نے دیں، تب حالات اور تھے۔
اب اپنی پڑی ھے۔ پرائے ملک میں ہونے والی ڈیویلپمنٹس پر کیا غور کریں۔
کاشف صاحب
بات نہ پرائی ہے نہ پرانے زمانے کی اس حال کی ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں ۔ پسِ منظر تو بتانا ہی پڑتا ہے
جزاک اللہ خیر۔۔۔۔