Monthly Archives: June 2013

بجٹ کون سا اچھا ؟ ؟ ؟

”بجٹ“ انگریزی ہے ”تخمینہ“ کی ۔ یعنی آمدنی اور خرچ کا تخمینہ ۔ میرے پاس اگر آمدنی ہو گی تو میں خرچ بھی کر سکوں گا ۔ پھر میں کس طرح سوچ سکتا ہوں کہ حکومت بغیر آمدنی کے خرچ کرے گی ؟ مجموعی طور پر کوئی بجٹ نہ بُرا ہوتا ہے نہ اچھا ۔ اسے اچھا یا بُرا اس کا نفاذ اور تکمیل بناتے ہیں جس میں سب سے اہم عنصر عوام ہیں جن میں صنعتکار ۔ تاجر ۔ ٹھیکیدار ۔ دکاندار اور سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین شامل ہیں

بات چند سو چند ہزار یا چند لاکھ کی نہیں بلکہ میرے وطن کے کروڑوں باسیوں کی ہے جو پچھلی 4 دہائیوں سے اپنی سوچ کو سُلا کر دولت جمع کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں اور اُنہیں احساس نہیں کہ وہ بدعنوانی (corruption) میں ملوّث ہو رہے ہیں

شروع میں کم از کم بدعنوانی کو بُرا سمجھا جاتا تھا ۔ پھر دور آیا جنرل پرویز مشرف کا جس نے اقتدار سنبھالتے وقت کرپشن کے خاتمے کے بلند بانگ دعوے کئے ۔ مگر پھر اپنی کرسی کے لئے سب قربان کر دیا ۔ کرپشن کا پھل لاکھوں گھرانوں تک پہنچنے لگا اور کرپشن کو بُرا سمجھنے کا رجحان بھی معاشرے سے ناپید ہوتا گیا۔ پچھلے پانچ سالوں میں قومی دولت کو بے دریغ لُوٹا گیا ۔ مُلک اندھیروں میں ڈوب رہا تھا اور بجلی پیدا کرنے کیلئے شروع کئے گئے منصوبوں جن میں نندی پور اور چیچوکی ملیاں بھی شامل ہیں کے اربوں روپوں سے حکمرانوں نے اپنی جیبیں بھریں ۔ یہاں تک کہ حکمرانی کے آخری 3 دنوں میں دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے مُختص رقم کے اربوں روپے اُڑا لئے ۔ ہر سطح پر بدعنوانی کو ذاتی استحقاق اور اسلوبِ کار بنا دیا گیا

سڑکوں پر دوڑتی پھرتی بیش قیمت گاڑیوں ۔ لاکھوں کی تعداد میں موٹرسائیکلوں اور دن بدن عام ہوتی ڈیزائنر شاپس اور مہنگے ترین ریستورانوں کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بدعنوانی خاص و عام کا دستورالعمل بن چکی ہے ۔ دفاتر میں چند منٹ کے انتظار سے بچنے کیلئے اچھے خاصے پڑھے لکھے ”شکل سے شریف“ آدمی جائز کام بھی رشورت دے کر کرواتے ہیں ۔ ناجائز کام کروانے والوں نے دفاتر اور اداروں میں ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ جائز کام کیلئے بھی چائے پانی کے نام سے رشوت مانگی جاتی ہے ۔ سرکاری اداروں ہی میں نہیں پرائیویٹ اداروں میں بھی رشوت اور بدعنوانی کا ڈیرہ ہے

کہا جاتا ہے کہ حکمران بدعنوان ہیں ۔ اگر سیاستدان بدعنوان ہیں اور بدعنوانی کے ذمہ دار ہیں تو سوال یہ ہے کہ عوام بار بار انہیں ووٹ دے کر منتخب کیوں کرتے ہیں ؟ اپنے تئیں دانشور سمجھنے والے کہتے ہیں کہ عوام جاہل ہیں اسلئے درست فیصلہ کرنے کی قوت نہیں رکھتے مگر یہ دلیل بے معنی ہے ۔ جو عوام برسرِ عام سیاستدانوں کو بدعنوان کہتے پھرتے ہیں وہ ووٹ ڈالتے ہوئے اپنا مؤقف کیوں بھول جاتے ہیں ؟

حکومت کوئی بھی آئے ۔ حکمران کوئی بھی ہوں جب تک ہم عوام اپنا قبلہ درست نہیں کریں گے اور اپنی ذاتی خواہشات کیلئے جو ہیرا پھیریاں اور لاقانونیاں کی جاتی ہیں اُنہیں نہیں چھوڑیں گے کچھ بہتر نہیں ہو گا ۔ اللہ کا فرمان اٹل ہے

سورت 13 الرعد آیت 11 إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ ( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے)

سورت 53 النّجم آیت 39۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ( اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)

لازم ہے کہ ہم سب جذباتیت اور دوسروں کی عیب جوئی کو چھوڑ کر معاشرہ کی اصلاح کیلئے کوشش کریں اور اس سے پہلے اپنی اصلاح کریں ۔ اس کے بغیر کوئی بہتری نہیں آئے گی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ تلاش

گڈ مڈ ہجوم میں سے سادگی تلاش کیجئے
اور
بے آہنگی میں سے مطابقت تلاش کیجئے

یاد رکھیئے کہ
بہترین موقع یا مناسب وقت مشکلات ہی کے دوران ملتا ہے

جذباتی نعروں اور دوسروں کی عیب جوئی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا

قومیں ۔ متحمل مزاج کون اور متعصب کون ؟

80 ملکوں میں کئے گئے سروے میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ ”وہ کس قسم کے لوگوں کو اپنے ہمسائے میں پسند نہیں کریں گے ؟“
اس سروے کے نتیجہ میں دلچسپ صورتِ حال سامنے آئی جو کہ مندرجہ ذیل نقشہ میں دکھائی گئی ہے ۔ خیال رہے یہ لکھنے والے وہ ہیں جو ہم پاکستانیوں کو جاہل اور انتہاء پسند سمجھتے ہیں . racial-tolerance-map-hk-fix(بڑا کرنے کیلئے نقشے پر کلِک کیجئے)۔

لال رنگ متعصب یا تنگ نظر لوگوں کو ظاہر کرتا ہے ۔ گہرا لال زیادہ متعصب یا تنگ نظر ہوں گے ۔ اس سروے کے مطابق سب سے زیادہ متعصب یا تنگ نظر لوگ بھارت میں پائے جاتے ہیں یعنی 40 فیصد یا زیادہ لوگ اپنے قریب کسی غیرمُلکی باشندے یا دوسرے مسلک کے لوگوں کی رہائش پسند نہیں کرتے

گہرا نیلا سب سے زیادہ زیادہ متحمل مزاج لوگوں کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس میں برطانیہ اور اس کی سابقہ کالونیوں (ریاستہائے متحدہ امریکہ ۔ کنیڈا ۔ آسٹریلیا ۔ نیوزی لینڈ) اور لاطینی امریکہ کے لوگ ہیں ۔ یعنی ان میں 5 فیصد سے کم لوگ تنگ نظر یا متعصب ہیں

ان کے بعد نیلا رنگ متحمل مزاج لوگوں کو ظاہر کرتا ہے ۔ متحمل مزاج لوگوں میں پاکستان خاص اہمیت رکھتا ہے کہ انتہائی متعصب اور تنگ نظر لوگوں کے علاقوں میں گِرا ہوا ہونے کے باوجود پاکستان میں تنگ نظر لوگ 10 فیصد سے کم ہیں باوجودیکہ پاکستان میں بسنے والے مقابلتاً بہت زیادہ مختلف نسلی اور لسانی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دیکھیئے نقشہ ۔ (بڑا کرنے کیلئے نقشے پر کلِک کیجئے)۔ diversity-map-harvard2
گہرا لال یعنی سب سے زیادہ متعصب یا تنگ نظر سے گہرا نیلا یعنی متحمل یا سب سے کم تنگ نظر تک 7 قسمیں بنائی گئی ہیں جو نقشہ میں مختلف رنگوں سے واضح کی گئی ہیں

ہم تھے بے خبر

ایسی بات نہیں ہے کہ ہم بے خبر تھے اور ہمیں کسی سے یا کسی کو ہم سے عشق ہو گیا تھا

بات یہ ہے بیکار بیٹھے کبھی کبھی ایسی چیز پر نظر پڑ جاتی ہے جس کی کبھی پروہ ہی نہ کی ہو یا جسے کبھی قابلِ التفات ہی نہ سمجھا ہو ۔ میں بیکار تو کبھی نہیں ہوا البتہ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کچھ کرنے کو جی نہیں چاہتا ۔ آج صبح سویرے ہی گرمی نے ایسا تپایا (گھر کے اندر صبح 4 بجے درجہ حرارت 33.7 سیلسِئس یا سینٹی گریڈ تھا) ۔ ناشتہ کر کے ساڑھے 7 بجے فارغ ہوا ۔ باہر گیا کہ اخبار اُٹھا لاؤں اور اس میں گُم ہو جاؤں مگر ایسی قسمت نہ تھی

8 بجے بجلی حسبِ معمول بھاگ گئی جو ہر ایک گھنٹے کے بعد ایک گھنٹہ غائب رہتی ہے ۔ 9 بجے بجلی صاحبہ تشریف لائیں تو کمپیوٹر چلا کر ڈاک دیکھی مگر کچھ نہ پایا ۔ اپنا بلاگ کھول کر اس پر بیزار سی نظر ڈالنا شروع کی تو ایک جگہ لکھا پایاmeter.asp

وقت گذارنے کی خاطر کمپیوٹر کا حسابدان (calculater) کھولا اور حساب لگانے لگا
مئی 2005ء ۔ 26 دن ۔ یکم جون 2005ء تا 31 مئی 2013ء ۔ 2922 دن ۔ جون 2013ء ۔ 10 دن ۔ کُل 2958 دن
2958 دنوں میں 302859 لوگوں نے میرے بلاگ کی کوئی نا کوئی تحریر پڑھی
چنانچہ ایک دن میں اوسط 102 سے زائد قارئین نے میرے بلاگ کو پڑھا
گویا ہم بھی ہوگئے پھنے خان

طرزِ عمل

جنگ ہمیشہ آدمیوں کے درمیان ہوتی ہے ۔ جذبے یا تصوّر کو نہ تو ہلاک کیا جا سکتا ہے اور نہ یرغمال بنایا جا سکتا ہے

مُشکل دور عقدہ کُشائی مانگتا ہے نہ کہ نہ ختم ہونے والی مُشکلات کی تکرار

جو یقین رکھے کہ وہ بچ نہیں سکتا ۔ عام طور پر نہیں بچتا

کیا نیکی ابھی بھی زندہ ہے ؟

آدمی کی زندگی میں کبھی کبھی ایسے واقعات ہوتے ہیں جو بظاہر معمولی اور لمحہ بھر کیلئے ہوتے ہیں مگر یاد رہ جاتے ہیں

واقعہ
دس بارہ سال قبل میں اور چھوٹا بھائی راولپنڈی میں کچھ سودا سلف لینے گئے ۔ پرانی سبزی منڈی کے باہر بازار تلواڑاں میں ہم نے کار کھڑی کی اور پرانی سبزی منڈی میں داخل ہوئے ۔ ہم جا رہے تھے کہ ایک کار پیچھے سے آئی ۔ سب حیران ہو کر دیکھ رہے تھے کہ کار کیوں اس بھیڑ والے بازار میں آئی ہے ۔ چھابڑی والوں کو مشکل پڑی تھی ۔ چلانے والا نوجوان تھا اور گو آہستہ مگر کار کو دھنساتا ہی چلا جا رہا تھا ۔ میں ایک دم ایک طرف ہوا مگر اس نے خیال نہ کیا اور پہیہ میری ٹانگ سے ٹکرایا ۔ دوسری طرف چھابڑی تھی جس سے میری ٹانگ زخمی ہو گئی ۔ میں ٹانگ کو دیکھ رہا تھا کہ نوجوان نے کار کا شیشہ کھول کر کہا “اندھے ہو ۔ نظر نہیں آتا”۔ میں نے اس کے گال پر تھپڑ جڑ دیا ۔ کچھ دیر بعد ایک سفید ڈاڑھی والے صاحب نے آ میرا راستہ روکا اور بولے ” تم کون ہوتے ہو میرے بیٹے کو تھپڑ مارنے والے ۔ میں تمہیں مزا چکھاتا ہوں”۔ میرا بھائی بیچ میں آ گیا ۔ کچھ لوگ جوشاہد تھے وہ بھی بیچ میں آ گئے تو میں بچ گیا

وہاں سے ہم دوسرے بازار میں چلے گئے اور ایک دکان سے خریداری کر رہے تھے کہ وہی سفید داڑھی والے صاحب آئے اور معافی مانگتے ہوئے بولے ” مجھ سے غلطی ہوئی ۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے بیٹے کی گاڑی نے آپ کو ٹکر ماری تھی ۔ میں نے بیٹے سے پوچھا کہ ” اُنہوں نے تمہیں کیوں تھپڑ مارا ؟ تواس نے بتایا ۔ مجھے معاف کر دیجئے ۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا”۔

واپسی پر ہم دونوں بھائی کہہ رہے تھے کہ نیکی ابھی زندہ ہے

اُلجھن سے نکلیئے

آزادی کا مطلب جو چاہو سو کرو نہیں ہے ۔ آزادی کا مطلب دستِ نگر نہ ہونا ہے

ایک حکومت بننے سے آزادی کی ضمانت نہیں مل جاتی اور نہ ہی کوئی بہتری از خود آتی ہے ۔ بہتری کیلئے خلوصِ نیت سے لگاتار محنت ضروری ہے

کسی کو قصور وار ٹھہرانے کا فیصلہ اور مسئلے کا حل ایک ہی چیز نہیں ہیں ۔ مسئلے کا حل اپنے بہتر عمل اور دوسروں کی بہتری کی طرف مدد میں ہے

ہم قوم کو سُست ۔ بیوقوف یا کرپٹ ہونے پر بُرا کہتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم خود بھی اس میں شامل ہیں