کل صبح میں ایک خبر پڑھ کر پریشان تھا کیونکہ ان لوگوں میں ایک ایسا شخص بھی شامل تھا کہ لوگ جس کی دیانت کے دعویدار ہیں ۔ یہی پریشانی کیا کم تھی کہ عصر کی نماز کے بعد کمپیوٹر چلایا تو ایک اور خبر پڑھنے کو مل گئی
پہلی خبر ۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اُن اراکین قومی اسمبلی کو سرکاری رہائش گاہ دینے سے انکار کر دیا ہے جن کے اپنے مکان اسلام آباد یا راولپنڈی میں ہیں ۔ چنانچہ مسلم لیگ ن کے ارکان قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل اور ملک ابرار کو پچھلے دور میں دی گئی سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی ہے اور عمران خان کی طرف سے سرکاری رہائش گاہ کی الاٹمنٹ کیلئے دی گئی درخواست بھی نامنظور کر دی ہے
پریشانی اسلئے ہوئی کہ تحریکِ انصاف کی طرف سے ببانگِ دُہل اعلان کیا گیا تھا کہ عمران خان سمیت تحریکِ انصاف کا کوئی رکن اسمبلی سرکاری رہائش گاہ نہیں لے گا ۔ یہ اعلان عمران خان کی درخواست نامنظور ہونے کے بعد کیا گیا ؟ یا عمران خان نے اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دیا ؟
دوسری خبر ۔ چیف جسٹس پا کستان جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے این آر او عمل درآمد کیس کی سماعت کی ۔ دوران سماعت انکشاف ہوا کہ عدالتِ عظمٰی کی ھدائت کے مطابق سوئس حکام کو 5 نومبر 2012ء کو لکھے گئے خط کے بعد سابق حکومت کی جانب سے ایک اور خط 22 نومبر 2012ء کو لکھا گیا تھا جو سابق سیکریٹری قانون یاسمین عباسی نے تحریر کیا تھا ۔ اس خط میں لکھا گیا تھا کہ صدر زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کا کوئی کیس نہیں ہے اور نہ ہی حکومتِ پاکستان کوئی کیس کھولنا چاہتی ہے اسلئے مقدمہ بند کرکے خط لکھ دیں ۔ اس کے زیرِ اثر سوئس حکام نے 4 فروری کو مقدمات بند کردیئے
یعنی سابقہ حکومت نے نہ صرف عدالتِ عظمٰی بلکہ پوری قوم کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیا ۔ اس جُرم اور گناہ میں صرف زرداری اور یاسمین عباسی ہی نہیں اور لوگ بھی شامل ہوں گے
Pingback: پی پی پی حکومت کا خفیہ خط منظرِ عام پر آ گیا | میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ What Am I