جیت گیا پاکستان اور میں جیت گیا
ہار گیا نکتہ دان اور دشمن ہار گیا
کسی نے کہا تھا
سچائی چھُپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خوشبُو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
ہمارا حلقہ ہے اسلام آباد این اے 48 ۔ بہت پہلے سے معلوم تھا کہ مقابلہ تحریکِ انصاف کے جاوید ہاشمی اور مسلم لیگ ن کے انجم عقیل میں ہو گا ۔ سیاسی جماعتوں کے موجودہ قائدین میں سے میں میاں محمد نواز شریف کو سب سے اچھا سمجھتا ہوں ۔ میں نے اُس اصول کے مطابق جس کی تلقین پچھلے ایک ماہ سے میں بار بار کر رہا تھا ووٹ میاں محمد اسلم کو ووٹ دیا ۔ میں جانتا تھا کہ وہ ہار جائے گا لیکن میں نے کبھی اپنا اصول نہیں توڑا ۔ میاں محمد اسلم دیانتدار ہے ۔ خدمت کا جذبہ رکھتا ہے اور آسانی سے اُس کے ساتھ ملاقات کی جا سکتی ہے ۔ غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق ہمارے حلقہ میں تحریکِ انصاف کے جاوید ہاشمی جیت رہے ہیں
قومی اسمبلی کے اب تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق صورتِ حال یہ ہے
مسلم لیگ ن ۔ 129
پاکستان تحریکِ انصاف ۔ 34
پی پی پی پی ۔ 31
ایم کیو ایم ۔ 12
جمیعت علماء اسلام ف ۔ 10
جماعت اسلامی ۔ 3
پی ایم ایل کیو ۔ 1
اے این ۔ صفر
بقایا سیاسی جماعتیں
آزاد اُمیدوار ۔ 27
خاص باتیں
1 ۔ پہلی بار کراچی سے مسلم لیگ ن کا اُمید وار پی پی پی پی کے اُمیدوار کو ہرا کر جیت گیا ہے
2 ۔ اے این پی کا صفایا ہو گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی سیکولر جماعتوں سے دور ہو گئے ہیں
3 ۔ پی پی پی پی کو اُن لوگون کے ووٹ ملے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو شہید اور پیر سمجھتے ہین اور اُن کا دعوٰی ہے کہ اُن کی آنے والی نسلیں بھی شہیدوں پیروں کو ووٹ دیں گی
4 ۔ اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کے جاوید ہاشمی کو ملنے والے ووٹوں میں 60 فیصد سے زیادہ ووٹ عورتوں اور لڑکیوں کے ہیں اور 40 فیصد سے کم مردوں اور لڑکوں کے ہیں ۔ گویا عمران خان صنفِ نازک کا ہیرو ہے
5 ۔ جہاں جہاں سوشل میڈیا کا دور دورا ہے وہاں عمران خان کی واہ واہ ہوئی اور تحریکِ انصاف کے اُمیدوار جیتے ہیں ۔ جہاں لوگ حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھتے ہیں وہاں مسلم لیگ ن کے اُمیدوار جیتے ہیں
بہت سے پی ٹی آئی کے دوست انتخابات کے نتائج سے خوش نہیں ہیں۔ غالباً آخری دنوں میں تحریک انصاف کی بھرپور انتخابی سرگرمی اور میڈیا کی سپورٹ نے بہت زیادہ خوش فہمیاں پیدا کردی تھیں۔ نتائج توقع کے مطابق ہیں۔ اگرچہ مایوس کن ہیں۔ پھر وہی نواز شریف اور پھر وہی ملکی دولت کی نمائشی تقسیم اور پھر دوسرے صوبوں سے وہی کشاکش۔۔۔۔ اس وقت ملکی سطع لے لیڈر کی سخت ضرورت تھی ۔۔۔مگر افسوس۔۔۔ ان باتوں کے باوجود عوام کا مینڈیٹ تسلیم کرنا چاہیے۔ تاہم تحریک انصاف کی کارکردگی زبردست رہی ہے۔ جس پر تحریک انصاف کے لیڈر اور کارکنان مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان سے یہی کہنا ہے کہ بددل نا ہوں مستقبل یقیناً آپکا ہی ہے۔
جواد احمد خان صاحب
حقائق خواہ کتنے تلخ کیوں نہ ہوں انہیں تسلیم کرنے سے ہی انسان آگے بڑھ سکتا ہے مگر میرے ہموطنوں کی عادت بن چکی ہے کہ تخیالاتی دنیا میں رہتے ہیں ۔ صبح 11 بجے سے قبل نہ اُٹھنے والے صبح 8 بجے تحریکِ انصاف کو ووٹ ڈالنے پہنچے ہوئے تھے ۔ کیا یہ کم کامیابی ہے عمران خان کی ؟ ایک نشست جتنے والی جماعت 34 کے قریب نشستیں جیت گئی یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کی خواہش کم عقلی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ تحریکِ انصاف کی عقل کی ایک جھلک تو گلبرگ لاہور کے جلسے کا انتظام ہے جس کے نتجے میں عمران خان گر کر زخمی ہوا ۔ سوشل میڈیا یعنی فیس بک ٹویٹر وغیرہ پر بے تحاشہ سچ اور جھوٹ لکھنے والے اگر اپنی عملی زندگی میں کچھ محنت کرتے تو اُنہیں ہارنے پر کوفت نہ ہوتی ۔ اب اپنی خفت مٹانے کیلئے الیکشن میں دھاندلی کا واویلا مچایا جا رہا ہے
Great Articles
ندیم اختر صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ آپ نے ماشاء اللہ اچھے مقصد کیلئے اپنا بلاگ بنایا ہے ۔ میں وہاں کچہ لکھ نہیں سکا گو میں نے ورڈ پریس میں لاگ اِن کیا تھا ۔ میرا دوسرا بلاگ ورڈ پریس پر ہے اور انگریزی میں ہے