اگرچہ پاکستان کے اسلامی نظریئے کے متعلق ابہام پیدا کئے جا رہے ہیں لیکن 1972ء میں کسی اور نے نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے واضح کردیا تھا کہ پاکستان کا اسلامی نظریہ 7 مارچ 1949ء کی قرار داد مقاصد کا جزو ہے اور یہی قرارداد ہمارے آئین کا اہم حصہ ہے
عاصمہ جیلانی بنام حکومت پنجاب کے فیصلے میں اس وقت کے چیف جسٹس حمود الرحمن اور دیگر ججوں بشمول جسٹس محمد یعقوب علی، جسٹس سجاد احمد، جسٹس وحید الدین احمد اور جسٹس صلاح الدین احمد پر مشتمل سپریم کورٹ بینچ نے فیصلہ سنایا تھا کہ
”پاکستان کی زمینی اقدار اس کے اپنے نظریئے میں موجود ہے کہ صرف اللہ تبارک و تعالٰی ہی پوری کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مُطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے ۔ یہ ایک نا قابل تبدیل اقدار ہے جسے 7 مارچ 1949ء کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے واضح طور پر قرارداد مقاصد میں منظور کیا تھا“۔
فیصلے میں اس بات کا اقرار کیا گیا تھا کہ ”ریاست پاکستان دائمی اسلامی نظریئے کے تحت قائم ہوئی تھی اور اس ریاست کے امور انہی اصولوں کے تحت چلائے جائیں گے تاوقتیکہ (خدانخواستہ) پاکستان کا ڈھانچہ از سر نو غیر اسلامی طریقہ کار کے تحت تعمیر کیا جائے، جس کا مطلب ہے اصل تصور کی مکمل تباہی“۔
اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ”قرارداد مقاصد صرف ایک روایتی حوالہ نہیں ہے ۔ اس میں پاکستان کی آئینی اور بنیادی اقدار کی روح شامل ہے“۔
فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ کسی بھی صورت میں بنیادی اقدار لازمی ہیں، اس کی کھوج کیلئے پاکستان کو مغربی قانونی نظریہ کار کی جانب نہیں بلکہ قرارداد مقاصد کی جانب دیکھنے کی ضرورت ہے
سپریم کورٹ نے یہ بھی فیصلہ دیا تھا کہ ”اسلامی اصول قانون میں، حاکم اعلٰی کی خواہش، چاہے وہ بادشاہ ہو، صدر یا پھر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، قانون کا ذریعہ نہیں ہے“۔
تحریر ۔ انصار عباسی
اتنی واضح حقیقت کے بعد بھی اتنی ڈھٹائی سے بات کرنا، ہمیں باآخر ضرور غور کرنا ہی ہو گا، کہ خرابی کدھر ہے، کہ وہ لوگ کتنا باآواز بلند واویلا کرتے ہیں نظریہ پاکستان اور قیام پاکستان کے خلاف، جن کا اس ملک خداراد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ آخر وہ لگتے کیا ہیں، اس ملک کے۔۔۔؟ ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے ممدوح و محبوب ملک میں جا کر خوشی سے بس جائیں اور ہماری جان چھوڑیں!۔
م ش ا صاحب
سورت 2 البقرۃ آیات 6 تا 14 ۔ جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے، اور انکے لئے بڑا عذاب (تیار) ہے ۔ اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے ۔ یہ خدا کو اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں مگر (حقیقت میں) اپنے سوا کسی کو چکما نہیں دیتے اور اس سے بےخبر ہیں ۔ ان کے دلوں میں (کفر کا) مرض تھا خدا نے انکا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا ۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔ دیکھو! یہ بلاشبہ مفسد ہیں لیکن خبر نہیں رکھتے ۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور لوگ ایمان لے آئے تم بھی ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ بھلا جس طرح بےوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں؟ سن لو کہ یہی بیوقوف ہیں لیکن نہیں جانتے ۔ اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہم (پیروان محمد سے) تو ہنسی کیا کرتے ہیں
بے شک!۔