کچھ دنوں سے مجھے ماضی بعید میں پی ٹی وی پر دکھایا جانے والا رائٹر پروڈیوسر فاروق قیصر کا پروگرام”انکل سرگم“ یاد آ رہا ہے ۔ انکل سرگم کہا کرتا تھا ”سمال کراکری ۔ چھوٹا پانڈا“۔
گریٹ کرکٹ کیپٹن کے تقریری سٹائل نے انکل سرگم کی یاد دلائی ہے
عمران خان ایک بال سے 2 وکٹیں لینے سے شروع ہوا
پھر کہا “بلّے سے چھکّا ہی نہیں ۔ پھینٹی بھی لگائیں گے
پھر اخلاقیات کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے نواز شریف پر تابڑ توڑ ذاتی حملے کرنا شروع کئے
مگر میں اُس وقت کانپ گیا جب بہاولپور کے جلسے میں عمران خان نے بڑی لہر میں آتے ہوئے کہا
(میرے اللہ ۔ تیرا یہ بندہ افتخار اجمل بھوپال دست بستہ عرض کرتا ہے کہ عمران خان کے بیہودہ بیان کو نقل کرنے کی جسارت کرنے پر مجھے معاف کر دینا)
عمران خان نے کہا ” اللہ نے سُوئَو مَوٹَو نوٹس لے لیا ہے“۔
یہ بھی پڑھیئے ” کہاں ہیں وہ مَور پنکھ ؟ “۔
بدنامِ زمانہ شیخ رشید کے ساتھ سپورٹ کا معاہدہ کرنا ہی کم نہ تھا کہ ٹیکسلا کے بدنام قبضہ مافیا کے سردار ” غلام سرور خان“ کو عمران خان نے ٹکٹ دے دیا
بزرگوار محترم! ہمارا یہی تو مسئلہ ہے،کہ ایک سیر تو دوسرا سوا سیر۔ میرے مطابق جن ”گلوبل“ اصولوں کا بیج صدر مشرف نے بویا تھا، اس کا منطقی نتیجہ نوجوانوں کا یہی سوچ کا زاویہ نکلتا ہے کہ وہ ان اصولوں کی بنیاد پر قائدین کا انتخاب کریں جن پر آج کیا جا رہا ہے۔ جس طرح محترم کپتان صاحب نے اپنی تبلیغ و ترویج کا بیڑا اٹھایا ہے۔ کئی لوگ اپنی “محدود” سوچ کی بنا پر ان کے نظریہ سے دور ہوتے چلے گئے۔ جس ایمانداری اور صلاحیت کا ڈھنڈورا محترم عمران پیٹتے ہیں۔ ازراہ معذرت! ان کا ہوبہو اطلاق ہمارے معا شرے کو مزید انتشار کا شکار کرے گا۔ آخر کو انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے تر کیب میں قوم رسولﷺہاشمی
اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں دوسری جماعت یعنی مسلم لیگ نواز کی حمایت کر رہا ہوں بلکہ میں خود تبدیلی کا پرجوش حامی ہوں لیکن اس تبدیلی سے بہتری بحثیت مسلمان آنی چاہیۓ نہ کہ معلاملات ابتری کی طرف اپنا سفر تیز تر کریں۔ گوروں کی اندھا دُھند (انھے وا) پیروی کرتے ہوئے اپنی اقدار سے دوری کو قطعاَ بھی مثبت تبدیلی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ ہم جب تک سنجیدہ نہیں بنیں گے اور اس تماشے سے لطف اٹھانے کی بجائے صورتحال کا تفصیل سے سنجیدہ جائزہ نہیں لیں گے اور انفرادی و اجتمائی ہر دو طرح سے بہتری کی کوشش نہیں کریں گے ، بات نہیں بنے گی۔۔۔
کہ اللہ کے حبیب ﷺ نے فرما دیا کہ جیسےاعمال ویسے حاکم۔۔۔
م ش ا صاحب
آپ نے بالکل درست کہا ہے ۔ اللہ کا فرمان میں نے بلاگ کے حاشیئے میں نقل کیا ہوا ہے ۔ سورت13الرعدآیت11۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ ۔ ترجمہ ۔ اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے
جس کا ووٹ اس حلقے میں ہو وہ کیا کرے،بہت کڑا وقت ہےیا تو ہمیشہ کی طرح ووٹ ضائع کریں یا پھر ایک نئےعزم سے دھوکا کھانے کے لیے تیار ہو جائیں،پہرحال امید باقی رہے معجزے بھی ہو جایا کرتے ہیں
نورین تبسم صاحبہ
میں ہمیشہ نہ پارٹی دیکھتا ہوں نہ پارٹی کے سربراہ کو ۔ اُمیدواروں میں سے دیکھتا ہوں کون اپنے ماضی کے کردار کی بنیاد پر سب سے بہتر ہے ۔ اُسے ووٹ دیتا ہوں
عمران کی انہی بونگیوں کی وجہ سے میں متنفر ہوا ہوں اس سے
یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے بھی الیکشن جیتنا ہے اگر ان کے پاس ن لیگ کی کوئی دیسی فلم بھی ہوتی تو یہ ضرور ریلیز کردیتے۔ لیکن دوسری طرف حوصلہ دیکھئے۔ بس آگے کچھ نہیں کہتا۔
تبدیلی کی شدید خواہش کے باوجود عمران خان کی متانت سے محرومی مایوس کرتی ہے۔
نواز شریف میں کتنی ہی خامیاں کیوں نا ہوں ایک بہت بڑی خوبی یہ کہ وہ اپنے بدترین دشمنوں کو بھی برے القاب سے نہیں نوازتا۔
جواد خان صاحب
آپ نے درست کہا ہے ۔ ہمارے لوگ کسی بھی چیز سے بہت جلد تنگ آ جاتے ہیں ۔ لیڈروں کو بھی پتلونوں کے فیشن کی طرح بدلنا چاہتے ہیں ۔ ہماری نوجوان نسل کی اکثریت فقرے چُست کرنے والے سے محظوظ ہوتی ہے ۔ ہم لوگ تو پئے در پئے مارشل لاؤں کی وجہ سے راہ گم کر بیٹھے تھے لیکن بعد والی نسل چوکڑی ہی بھول گئی ہے