آجکل تبدیلی کا بہت غُوغا ہے ۔ ہر سمت سے تبدیلی کے آوازے سُنائی دے رہے ہیں ۔
بڑے بڑے جلسوں میں تبدیلی کا دعوٰی کیا جاتا ہے ۔ کہیں سونامی سونامی کیا جا رہا ہے ۔ کیا ماضی قریب میں آنے والے سونامی کو تباہی مچاتے نہیں دیکھا یا یہ کہ بہتری کی بجائے تباہی لانے والی تبدیلی لانا چاہتے ہیں
کیا ہی اچھا ہوتا اگر کہتے ”ہم جہالت کے خلاف جہاد کر کے خلفائے رسول اللہ ﷺ کا دور واپس لائیں گے
تبدیلی کا نعرہ لگانے والے شاید خود بھی نہیں جانتے کہ تبدیلی کیسے لانا ہے اور اس کیلئے کیا کرنا پڑے گا
دیکھا جائے تو تبدیلی کا آغاز تو 2007ء میں ہو گیا تھا ۔ یہ تبدیلی آہستہ آہستہ اپنی منازل طے کر رہی ہے
ضرورت ہے اس تبدیلی کو جاری رکھنے کی اور اس کی رفتار قدرے تیز کرنے کی
کیا پہلے کبھی گدی پر بیٹھے پاکستان کے وزیر اعظم کو عدالت نے 5 سال کیلئے نا اہل قرار دے کر گھر بھیجا تھا ؟
کیا کبھی پاکستان کے وزیر اور پھر وزیر اعظم بننے والے پر کرپشن کے مقدمات چلائے گئے تھے ؟
کیا کبھی جعلی ڈگری پیش کرنے پر اسمبلیوں کے اراکین یا سینیٹرز کو جیل بھیجا گیا تھا ؟
تبدیلی نعروں سے کبھی نہیں آئی اور نہ آئے گی ۔ اس کیلئے تحمل کے ساتھ پُرخلوص لگاتار محنت کی ضرورت ہوتی ہے
تبدیلی لانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ
ہر ووٹر پچھلی غلطیوں پر نادم ہو اور آئیندہ غیرقانونی اور غیر اخلاقی عوامل سے اپنے آپ کو بچائے رکھے
ووٹ ایسے اُمید وار کو دے جو موجود اُمیدواروں میں سب سے زیادہ دیانتدار اور سچا ہو
لیکن ووٹ ضرور دے ۔ یہ سوچ کر نہ بیٹھا رہے کہ سب چور ہیں ۔ فرشتے الیکشن لڑنے نہیں آئیں گے ۔ اسلئے اُمیدواروں میں جو سب سے بہتر ہو اُسے ووٹ دے
یہ خیال بھی رہے کہ ووٹ سیاسی جماعت کے سربراہ کو نہیں دینا بلکہ اپنے علاقہ سے جو اُمیدوار ہیں اُن میں سے ایک کو دینا ہے اسلئے اس کی دیانت اور سچائی کو دیکھیئے نہ کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کی
آپ نے بالکل درست کہا