73 سال قبل آج کے دن لاہور کے اس باغ میں جہاں آج مینارِ پاکستان ہماری حالتِ زار پر افسردہ کھڑا ہے ایک قرداد ”قرار دادِ مقاصد“ کے نام سے پیش کی گئی تھے جو ہمارے آباؤ اجداد کے خلوص اور محنت کے نتیجہ میں ”قرار دادِ پاکستان“ ثابت ہوئی اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں اپنا یہ مُلک پاکستان عطا کیا تاکہ اس خطے کے مسلمان اپنے وہ حقوق حاصل کر سکیں جن کیلئے ہمارے آباؤ اجداد نے لاکھوں جانیں اور بے حساب املاک قربان کیں
اس آزادی اور حصول کا ہم نے غلط استعمال کرتے ہوئے اپنا جو حال بنا لیا ہے وہ محتاجِ بیان نہیں
کہاں ہمارے آباؤ اجداد کا خلوص و محنت اور عزم کہ جناب محمد علی جوہر لندن کی عدالت میں کہیں ”میرا وطن آزاد کر دیں ورنہ مجھے یہیں دفن کر دیں کہ میں غلام زمین پر واپس نہیں جانا چاہتا ۔ اُن کی رحلت کا وقت اللہ تعالٰی لندن ہی میں لے آئے
اب ہمارا حال یہ ہے کہ جو کہتے ہیں وہ ہوتا نہیں اور جو کرتے ہیں وہ کہنے کی جراءت نہیں
آیئے ۔ سب اپنے اپنے ساتھ سچا عہد کریں کہ آج سے
ہم اپنے حقوق کی بات اُس وقت کریں گے
جب
دوسرے کا حق پہچان کر اُسے اُس کا حق دلا دیں گے
کیونکہ
حقوق حاصل کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے
پاکستان پائندہ باد
افتخار صاحب میں عہد کرتا ہوں، بس اللہ استقامت دے۔ آج سے اپنے حقوق کا شکوہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک دوسروں کے ادا نہ کر دوں یا کروا دوں!۔
اسد صاحب
اللہ آپ کو اور مجھے بھی توفیق دے
حقوق اور ذمہ داریوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ہم حقوق کی بات تو کرتے ہیں مگر ذمہ داریوں کو گول کر جاتے ہیں؟