اس سلسلہ میں 3 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“اور ”گھر کی مرغی ؟“ لکھ چکا ہوں
ذرائع ابلاغ کے ذریعہ واقعات کا حال ہم تک مرچ مصالحے کے ساتھ پہنچتا ہے ۔ ہماری اکثریت حقائق سے واقف نہیں ہوتی اسلئے ان ظُلم کی داستانوں کا اثر وقتی ہوتا ہے ۔ آج کی تحریر ”جس تن لاگے وہ تن جانے“ والی ہے جس سے میں نے سنسنی کو دُور رکھنے کی پوری کوشش کی ہے اور نہائت اختصار سے کام لیا ہے
میں نے اپنے والدین ۔ دادا اور اساتذہ سے تین عوامل سیکھے اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کرم نوازی کہ ان پر عمل کرنے کی توفیق دی جس کے نتیجہ میں میں آج تک سر اُٹھا کے چلتا ہوں
1 ۔ جھوٹ کبھی نہیں بولنا ۔ چاہے جان جائے
2 ۔ کسی کو گالی نہیں دینا ۔ خواہ وہ کتنا ہی ظُلم کرے
3 ۔ محنت کرتے وقت اپنے سے زیادہ محنت کرنے والے کو نظر میں رکھنا اور اپنی حالت پر نظر ڈالتے ہوئے اپنے سے کم مراعات والے کو یاد رکھنا
میں ادارے میں 10 سال سے زائد ملازمت کر چکا تھا اور میری عادات سے میرے ماتحت کام کرنے والوں سے لے کر افسرانِ بالا تک سب واقف ہو چکے تھے ۔ بات ہے 1973ء کی جب میں پروڈکشن منیجر اور قائم مقام جنرل منیجر تھا ۔ ایک دن میں دفتر پہنچا تو اسسٹنٹ منیجر ”ب“ نے آ کر اطلاع دی کہ تین درجن سے زائد بندوقیں غائب ہیں ۔ جہاں کبھی کوئی چھوٹی سی چیز غائب نہ ہوئی ہو تین درجن بندوقیں غائب ہونا ماننے والی بات نہ تھی ۔ میں نے کہا ”اچھی طرح دیکھ بھال کریں ۔ ہو سکتا ہے کسی نے شرارت کی ہو“ ۔ لیکن ایسا نہیں تھا بندوقیں سَچ مُچ غائب تھیں ۔ میں نے قوانین کے مطابق رپورٹ تیار کی اور جا کر ٹیکنیکل چیف کو دستی دے آیا
دو دن بعد معلوم ہوا کہ ایک گوڈاؤن کیپر اور ایک ورکر کو گھر سے لے گئے تھے اور واپس نہیں آئے ۔ مزید 5 دن بعد رات کو میں سویا ہوا تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی نے مجھے جگا دیا ۔ میں نے آنکھیں ملتے ہوئے گھڑی دیکھی تو ڈھائی بجے تھے ۔ دل میں کہا ”یا اللہ خیر “ اور ٹیلیفون کان سے لگایا ۔ ایک خاتون کی آواز تھی ”بھائیجان ۔ رات 8 بجے ”ع“ صاحب (اُس کا خاوند ۔ میرے ماتحت منیجر) کو بُلا کر لے گئے تھے کہ پندرہ بیس منٹ کیلئے آ جائیں اور اپنا بیان لکھا کر واپس چلے آئیں مگر وہ ابھی تک نہیں آئے”۔ میں نے اُنہیں تسلی دی کہ صبح سویرے اس سلسلے میں بھاگ دوڑ کروں گا ۔ صبح ساڑھے چھ بجے اُن کے گھر جا کر پوری تفصیل حاصل کی اور پونے سات بجے دفتر پہنچا ۔ 8 بجے تک معلوم ہو چکا تھا کہ فورمین ”ت“ ۔ فورمین ”ح“ اور ایک چارج مین بھی کچھ اسی طرح ہی گھروں سے اُٹھائے گئے تھے
میں دفتر سے نکلا اور ایک سنیئر افسر ”م“ کے پاس گیا جو پہلے میرے باس رہ چکے تھے اور منیجر ”ع“ اور فورمینوں ”ت“ اور ”ح“ کو جانتے تھے ۔ ”م“ صاحب نے ساری بات سننے کے بعد مجھے کہا ”تم ایک مُجرم کے گھر گئے ۔ مُجرم کو ملنے والا بھی مُجرم ہوتا ہے“۔
میں نے ان سے کہا ”پہلے کوئی ثبوت تو دیجئے ع کے مُجرم ہونے کا ۔ ابھی تو وہ ملزم بھی نہیں ہے کہ اس سلسلہ کی قانونی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی“۔ میری یہ بات ”م“ صاحب کو بہت ناگوار گذری
واپس آیا تو میرے براہِ راست ٹیلیفون کی گھنٹی بجی جو ایمرجنسی کیلئے ہوتا ہے یا جب ٹیکنیکل چیف یا ادارے کا چیئرمین براہِ راست خود ملائے ۔ میں نے اُٹھایا تو ایک اجنبی آواز آئی
”میں میجر ”ش“ بول رہا ہوں ۔ آپ میرے پاس آئیں میں نے تفتیش کرنا ہے“۔
میں نے بتایا ”میں تین آدمیوں کا کام کر رہا ہوں ۔ کہیں نہیں جا سکتا“۔
آواز ”آپ کو میرے پاس آنا ہو گا بیان دینے کیلئے“۔
میں ”جو کچھ میرے علم میں تھا میں لکھ کر اپنے افسران کو دے چکا ہوں ۔ اب کچھ کہنے کو نہیں ہے“
آواز ”آپ کو آنا ہو گا“۔
میں ”میں اپنے افسروں یا عدالت کے حُکم پر آپ کے پاس آ سکتا ہوں ۔ میں متاءثرہ فریق ہوں بیان لینا ہے تو یہاں آ کر لیں“
آواز ”آپ کے ماتھے پر نہیں لکھا کہ آپ چور نہیں ہے“
میں ”تو گویا آپ یہی دیکھنے کیلئے بُلا رہے ہیں کہ میرے ماتھے پر کیا لکھا ہے ۔ پہلے آئینہ میں دیکھ لیں کہ آپ کے ماتھے پر کیا لکھا ہے“ اور میں نے ٹیلیفون بند کر دیا
کوئی گھنٹہ بعد ٹیلیفون آیا کہ چیف ایڈمن افسر بلا رہے ہیں ۔ ان کے دفتر میں داخل ہوا ہی تھا کہ اُلٹ پُلٹ باتوں کے ساتھ رُعب ڈالنے لگے ۔ میں یہ کہہ کر چلا آیا ”یہ اہم معاملہ ہے ۔ جو کچھ پوچھنا یا کہنا ہے لکھ کر دیجئے ۔ میں لکھ کر جواب دوں گا“
واپس پہنچنے کے کچھ دیر بعد پی اے نے بتایا کہ ”م“ صاحب بلا رہے ہیں ۔ اُن کے دفتر پہنچا تو گویا ہوئے
”تم اپنے آپ کو بڑا لیڈر سمجھتے ہو ۔ جانتے نہیں تمہارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے ۔ تم لوگوں کو ہڑتال پر اُکسا رہے ہو“
میں ”میں نے کسی کو ہڑتا ل کا کہا ہے اور نہ مجھ سے کسی نے ہڑتال کی بات کی ہے ۔ میں لیبر نہیں ہوں سنیئر افسر ہوں اور ہڑتالوں کے خلاف ہوں“
”م“ ”ہم نے تماری گفتگو ریکارڈ کی ہے ۔ تم کیا سمجھتے ہو“
میں ”وہ گفتگو مجھے بھی سنوا دیجئے تاکہ معلوم ہو کہ کون جھوٹا ہے“
”م“ ”پکی بات ہے تم نے نہیں کہا ؟“
میں ”آپ اس ریکارڈ کو دوبارہ سن لیجئے تاکہ معلوم ہو کون آپ کو دھوکہ دے رہا ہے“
پھر بہت کچھ ہوا اور بالآخر چوری ہونے کے 12 دن بعد یعنی منیجر ع کے اُٹھائے جانے کے 5 دن بعد ان اہلکاروں کو رہا کر دیا گیا ۔ رہا کرنے سے قبل ان سے چیف ایڈمن افسر صاحب نے زبانی معافی مانگی اور کہا کہ سب کچھ ”نیک نیتی“ سے ہوا تھا
گوڈاؤن کیپر چل نہیں سکتا تھا ۔ میں نے کہا کہ اس کے ساتھ ظُلم ہوا لگتا ہے تو کہا گیا کہ اُس نے بھاگنے کیلئے دوسری منزل سے چھلانگ لگائی تھی
لیکن جناب مجرم کون تھے؟ پکڑے گئے یا نہیں؟
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک آدھ بار میڈ ان آپ کے ادارے کا اسلحہ کچھ ہاتھوں دیکھا گیا۔
یاسر صاحب
آپ کے سوال کا جواب اِن شاء اللہ کچھ دن میں مل جائے گا ۔ جو اسلحہ فواجِ پاکستان استعمال کرتی ہیں وہ ہمارے ادارے ہی میں بنتا ہے
بندوقوں کا کیا بنا؟؟
خاور کھوکھر صاحب
اگلی قسط کا انتظار کیجئے
چور کی داڑھی میں تنکا۔
مقیم ھند صاحب
یہ آپ کی ضرب المثل کس بارے مین ہے ی کہ اس کامطلب آپ درست نہیں سمجھے
میں نے یہ مثال یہ سوچ کر دی ہے کہ جو آپ پر بہتان باندھ کر اور الزام تراشی کر رہا ہے وہ خود کو چور ہو۔ اور آپ پر ویسے ہی الزام دیرہا ہو۔ اس کے لئے اردو میں کیا ضرب المثل یا محاورہ مستعمل ہے؟ میں نے کہیں پڑھاہے کہ چوری کرتے وقت چور ایسی کوئی نشانی چھوڑ جاتا ہے جس سے اس پر شک کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ تو اسی طرح وہ شخص آپ پر جرح کررہا ہے۔ اسی سے واپس اسی پر ہی شک جاتا ہے۔۔ باقی باتیں دوسری قسط سے ہی ہمیں معلوم ہو سکے گا۔
آج ایک عرصے کے بعد اس بلاگ پر آنا ہوا تو اندازہ ہوا کہ کافی کچھ مس کر چکا ہوں یہ تحریر پڑھ کر کافی تجسس ہو گیا ہے کہ مجرموں اور چوری ہوئی بندوقوں کا کیا بنا.
مقیم ھند صاحب
قتل کے سلسلہ میں کہتے ہیں خون خود بولتا ہے ۔ البتہ اس چوری کے سلسلہ میں ایک شخص اپنی پہچان دے گیا تھا ۔ اس کا ذکر آگے آئے گا
رائے م ازلان صاحب
میں نے کچھ قارئین کے اسرار پر اپنے اُن تجربات کا بیان شروع کیا ہے جو عام طور پر ظاہر نہیں ہوتے ۔ یہ اس سلسلہ کی چوتھی تحریر ہے ۔ ابھی اِن شاء اللہ مزید آئیں گی