بجٹ 2012ء ۔ 2013ء میں وفاقی حکومت کے اخراجات 32 کھرب (3200000000000) روپے ہیں
جبکہ کُل متوقع آمدن 23 کھرب روپے ہے
چنانچہ 9 کھرب روپے کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اُدھار ۔ خیرات یا ڈاکہ ضروری ہے
عوام کی یلغار سے بچنے کیلئے اس کمی کو 3 ارب (3000000000) روپے مالیت کے نوٹ روزانہ پورا سال چھاپے جاتے ہیں
متذکرہ نقصان کا کم از کم آدھا حصہ سرکاری ادارے مُفت کا مال سمجھ کر اُڑا رہے ہیں جن کے سربراہان کی تقرریاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں ۔ یہ لوگ سارا سال روزانہ ڈیڑھ ارب (1500000000) روپیہ کے حساب سے دولت اُڑا رہے ہیں
پچھلے لگ بھگ 5 سال میں حکومت نے اپنے پسندیدہ لوگوں کو 7 کھرب (700000000000) روپے کی ٹیکس کی معافی دی
جبکہ آئی ایم ایف سے 6 کھرب (600000000000) روپیہ ادھار لیا
یعنی اپنی سیاست چمکانے کیلئے یہ غیر منصفانہ چھوٹ نہ دی جاتی تو قرض لینے کی ضرورت نہ پڑتی
حکومتی پارٹی کے رُکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے انکشاف کیا کہ اسمبلیوں کے اراکین کو دیئے جانے والے ڈویلوپمنٹ فنڈ کے ایک کروڑ (10000000) روپیہ میں سے 60 لاکھ یعنی 60 فیصد کمیشن ہوتا ہے
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تعداد 1100 ہے ۔ باقی حساب خود لگا لیجئے
بجلی کے محکمہ میں نقصان ایک ارب (1000000000) روپیہ روزانہ ہے یعنی سال میں 3 کھرب 65 ارب (365000000000) روپے سالانہ
نیپرا کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت کی ملکیت 3 بجلی کمپنیوں سے 26 ارب (26000000000) روپے مالیت کا فرنس آئل چوری ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سے ٹرانسفارمر اور کیبلز چوری ہوتے ہیں جو کہ بڑے شہروں میں سستے داموں بیچے جاتے ہیں
لائین لاسز (Line losses) 40 فیصد تک پہنچ چکی ہیں جن میں سے اصل لائن لاسز 6 سے 7 فیصد ہوں گی باقی بجلی چوری ہوتی ہے اور چوری کرنے والوں کو حکمرانوں کی پُشت پناہی حاصل ہے
حکومت کے حساب میں بجلی کے محکمہ کو حکومت 360 ارب یا زیادہ امداد (subsidy) دیتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں حکومت چوری ۔ ہیرا پھیری اور لُوٹ مار کی امداد کر رہی ہے
وزیر اعظم سیکرٹیریئٹ کا روزانہ خرچ 2008ء میں 6 لاکھ 41 ہزار 3 سو 6 (641306) روپے تھا جو 2012ء ۔ 2013ء کے بجٹ میں 19 لاکھ 52 ہزار 2 سو 22 (1952222) روپے ہو گیا ہے یعنی 3 گُنا سے بھی زیادہ ۔ اسی طرح کیبنٹ ڈویژن کا روزانہ خرچ 2008ء میں 40 لاکھ (4000000) روپے تھا جو اب بڑھ کر 80 لاکھ (8000000) روپے روزانہ ہو گیا ہے یعنی 2 گُنا
حال ہی میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اپنی بیوی بیٹے بہو اور دوسرے عزیز و اقارب کے ساتھ 4 دن کے دورے پر برطانیہ گئے تھے ۔ یہ سب لوگ لندن کے علاقہ نائٹس برِج میں واقع برکلی ہوٹل میں ٹھہرے جس میں 6 کمرے فی کمرہ 1200 پاؤنڈ روزانہ اور 20 کمرے فی کمرہ 800 پاؤنڈ روزانہ پر حاصل کئے گئے ۔ اس طرح صرف ہوٹل کا کرایہ ایک کروڑ 46 لاکھ (14600000) روپیہ ادا کیا گیا ۔ مزید یہ کہ کرایہ پر لی گئی 28 مرسڈیز بینز گاڑیاں استعمال کی گئیں جن پر خرچ اس کے علاوہ تھا ۔ کھانوں کے ساتھ بھی کچھ کم نہ کیا ہو گا ۔ یہ سب گُلچھڑے عوام سے نچوڑے ٹیکسوں کے پیسے پر اُڑائے گئے
ایوانِ صدر کے اخراجات معلوم نہیں ہو سکے ۔ شاید اُنہیں دیکھنے کیلئے پہلے مقویِ قلب ٹیکہ لگوانا پڑے گا
غریبوں اور شہیدوں کی سیاست کرنے والی حکمران جماعت کا ایک اور کرشمہ یہ ہے کہ 2008ء میں اِن کی حکومت قائم ہونے سے قبل مُلک کا ہر فرد (یعنی میں اور آپ سب بشمول بوڑھے جوان اور چند گھنٹوں کی عمر والے بچوں کے) 30000 روپے کا مقروض تھا مگر یکم فروری 2013ء کو ہر ایک 76000 روپے کا مقروض ہو گیا اور اُمید کی جا رہی ہے کہ 30 جون 2013ء تک ہر ایک 83000 روپے کا مقروض ہو جائے گا ۔ یہ رقم اُس قرض کے علاوہ ہے جو کسی نے ذاتی طور پر اپنے کار و بار یا گھریلو اخراجات کیلئے لیا ہوا ہے
محترم جناب افتخار اجمل صاحب، السلام علیکم اتنے ہوش اڑا دینے والے اعداد و شمار پڑھ کر چکر آ گئے۔ الامان الحفیظ –
راجہ صاحب کے لندن دورہ کا کیا ایجنڈہ تھا، کیا فوائد حاصل ہوئے؟ ان لوگوں پر کوئی چیک اینڈ بیلینس بھی ہوتا ہے کیا؟ کون یہ دورے تجویز کرتا ہے؟ ازراہ کرم کبھی اس موضوع پر روشنی ڈالیں۔
حیران کن انکشافات ہیں۔
خداجانے یہ ملک کیسے چل رہا ہے ، اوپر سے دشتگردی نے رہی سہی کسر نکال کررکھ دی ہے۔
اب بھی اگر یہ ملک چل رہا ہے تو یہ واقعی کمال ہے اور کچھ نہیں۔
شازل صاحب
یہ انکشافات نہیں ہیں ۔ سرکاری اعداد و شمار ہیں جنہیں میں نے مختصر کر کے آسانی سے سمجھ آنے والے لباس میں ڈھالا ہے