اُس نے لکھا ہے ”جیسے ہمارے مُلک میں کُنبہ پروری کا رواج چلتا ہے کہ اپنوں کا خاص خیال رکھا جائے ۔ ویسے ہی فوج میں بھی ہے ۔ کہا جاتا ہے بڑا حوصلے والا شخص ہے ۔ یاروں کا یار ہے ۔ دوستوں کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ چاہے کسی اور کا گلا ہی کیوں نہ کٹتا ہو ۔ فوج میں عام رواج ہے کہ اپنی یونٹ کے لئے سب کچھ جائز ہے ۔ جھوٹ بھی دھوکہ بھی اور چوری بھی ۔ میں کوئی انوکھی بات نہیں کہہ رہا ۔ یہی دستور ہے“
اُس نے لکھا ہے ”پی ایم اے میں سب پر آگے بڑھنے کی جستجو اور محنت کا دباؤ ہوتا ہے ۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ فوج میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بجائے ایک ہی مقصد کے لئے مل جل کر کام کرنے کی زیادہ اہمیت ہے ۔ سبقت لے جانے کی کاوش انسان کی سیرت کو مَسَخ کر دیتی ہے اور اس کی اخلاقی قوت ماند پڑ جاتی ہے ۔ یہ سوچ ذرا اور گہری ہو جائے تو جھُوٹ اور فریب کو جنم دیتی ہے اور بھائی چارے کی بجائے دشمنیاں پیدا کرتی ہے ۔ کمانڈر کے کردار میں ایسے نقائص جنم لیتے ہیں کہ وہ اچھا لیڈر نہیں بن پاتا ۔ میں نے پی ایم اے میں مقابلے کے اس ماحول کے بڑے کڑوے رنگ دیکھے ہیں ۔ پھر ساری عمر فوج میں جگہ جگہ اس کے دل سوز اثرات دیکھتا رہا“۔
ایک دن اُس نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور شوگر اسکینڈل کی انکوائری کے متعلق کچھ باتیں بتا دیں۔ اس نے حکومت کے کچھ وزراء کے نام لئے اور کہا ”وزیراعظم شوکت عزیز اور صدر مشرف کے قریبی ساتھی طارق عزیز کا دباؤ ہے کہ شوگر اسکینڈل کی انکوائری روک دی جائے“۔
امریکی فوج اور خفیہ اداروں نے تین مرتبہ اُس کی وفاداریاں خریدنے کی کوشش کی۔ لکھتے ہیں ”کمپنی کمانڈر کورس کرنے 7 ماہ کے لئے فورٹ بیننگ (Fort Benning) گئے تو امریکی فوج کے ایک افسر نے پیشکش کی کہ تم اسی رینک اور سروس کے ساتھ امریکی فوج جائن کر سکتے ہو لیکن میں نے انکار کر دیا“۔
کچھ عرصے کے بعد ایک اور کورس کے لئے پھر امریکا گئے ۔ اس مرتبہ ان کے ساتھ میجر اشفاق پرویز کیانی بھی تھے۔ ایک دفعہ پھر اُسے امریکی فوج میں بھرتی کی پیشکش ہوئی جو اُس نے ٹھکرا دی ۔ پھر کہا گیا پاکستانی فوج میں رہ کر ہمارے لئے کام کرو ۔ اُس نے انکار کر دیا ۔ اُس نے لکھا ہے ”یہ صرف مجھ پر ہی تو عنایت نہیں کر رہے تھے ۔ سب کو ہی دانہ ڈالتے ہوں گے ۔ کامیابی بھی پاتے ہوں گے ۔ تب ہی تو سلسلہ جاری تھا“۔ اُس نے لکھا ہے ”امریکا میں اس کورس کے اختتام پر پیرو کے ایک افسر نے مجھے فری میسن تنظیم میں شامل ہونے کی آفر کی لیکن میں شامل نہ ہوا“۔
ایک دن جنرل مشرف نے بلاکر کہا کہ لاہور ریس کورس میں چھ ستمبر کو شہیدوں کے نام پر گھوڑوں کی ریس کا اہتمام ہے طارق عزیز چاہتے ہیں تم چیف گیسٹ بن کر انعامات تقسیم کرو۔ اُس نے کہا کہ یہ غیر اسلامی کام ہے ۔ انکار کر دیا اور کچھ عرصے کے بعد ریٹائرڈ ہو گئے
لکھا ہے کہ فوجی و سیاسی حکمران ہمیشہ امریکی اشاروں پر ناچتے ہیں
یہ چند اقتباسات تھے جنرل پرویز مشرف کے دست راست اور قریبی رشتہ دار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک؟“ سے
اس کتاب کے ”پیش لفظ“ کے آغاز میں لکھتے ہیں ”فوجی نوکری کے آخری ایام تک تو کچھ ایسا نہ کیا تھا جس پر اَن مِٹ ندامت ہوتی ۔ پھر جو کچھ اس درد دل کی خاطر کرگزرا اور جس انجام پر اس ملک کو پہنچایا ۔ آج اس کے بوجھ تلے پس رہا ہوں ۔ ویسے تو زندگی میں جو بھی کیا اکیلے ہی کیا۔ کوئی ساتھ دینے پر آمادہ ہی نہ ہوتا تھا لیکن جو بھی کیا وقت نے اسے پھیر دیا ۔ کچھ بھی بدلا نہیں ۔ پھر بھی مجھ سے جو بن پایا میں کرتا رہا ۔ اکیلے ہی ۔ پھر فوجی زندگی کے آخری موڑ پر قانون توڑ کر کسی اور کا ساتھ دیا اور سب کچھ بدل گیا ۔ پاکستان کا مطلب بھی ہماری پہچان بھی قوم کی تقدیر بھی قبلہ بھی ۔ لیکن جو بدلنا چاہا تھا جوں کا توں ہی رہا بلکہ اور بگڑ گیا۔ ایک چمکتے ہوئے خواب کو حقیقت میں بدلتے بدلتے اس میں اندھیرے گھول دئے ۔ صرف ایک دن ہاتھ میں لگام تھی ۔ 12 اکتوبر 1999ء ۔ پھر اس کے بعد پاؤں بھی رکابوں میں نہ رہے ۔ اب لکھنا کیا ؟ اب عمر کے اس آخری حصے میں برہنہ ہونے پر کوئی کیا دیکھے؟
یہ موصوف نے 12 اکتوبر 1999ء کو سیاسی حکومت کا تختہ اُلٹانے کا ذکر کیا ہے
جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک (30 جنوری 2013ء) میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے واضح الفاظ میں بتایا کہ 12 اکتوبر 1999ء کا واقعہ اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ اسے کی بہت پہلے منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیاء ڈی جی ملٹری آپریشنز تھے اور خیال تھا کہ شاید وہ ساتھ نہ دیں ۔ اسلئے ان کا تبادلہ کر کے ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کو لایا گیا ۔ اس وجہ سے تاخیر ہوئی تھی
مزید لکھا ہے کہ کرگل آپریشن کا جنرل پرویز مشرف کے علاوہ صرف 3 اور جنرلوں کو علم تھا حتٰی کہ خود لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کو بھی علم نہ تھا ۔ سیاسی قیادت اور سول بیورو کریسی کو بھی علم نہ تھا ۔ آپریشن 1998٭ میں شروع کیا گیا اور وزیر اعظم (نواز شریف) کو جولائی 1999ء میں بتایا گیا تھا
اتنے حق گؤ و بے باک بندے کتاب کس مردَ مومن نے شائع کردی؟ اور دونوں اب تک بچے ہوئے کیسے ہیں؟ ورنہ یہاںتو معمولی شک پر ہی برگیڈیر علی خان جیسے مخلص و نامور فوجیوں کا کورٹ مارشل ہوجایا کرتا ہے۔
عبدالرؤف صاحب
اس بے باقی کی وجہ میں بھی تلاش کر رہا ہوں
السلام و علیکم!
بزرگوار محترم!
اگر “چائے ۔ تاریخ فوائد نقصانات” کی طرح آپ ہم نوجوانوں کے لیے فری میسن، نائیٹ ٹیبپلرز تحریک کے بارے میں ایک تاریخی، تحقیقی مقالہ لکھ دیں، تو بہت سوں کا فائدہ ہو گا۔ 1،2 ہفتہ پہلے رونامہ دنیا کے اتوار میگزین میں فری میسن پر ایک ایسا مضمون شائع ہوا، جس میں سب کچھ مبہم، غیر یقینی اور الجھانے والا تھا۔ ایسے مضمون کو شائع کرنے سے بہتر تھا کہ وہ شائع نہ ہو۔ واضح بات کروں تو یہ اس شیطانی تحریک کو مشہور و مقبول کرنے کی دانستہ کوشش محسوس ہوتی تھی۔ اس موضوع پر اردو میں اگر کوئی سنجیدہ مواد موجود ہے تو براہ مہربانی وہ بھی بتائیے۔ لیکن آخر میں ایک بار پھر میں آپ سے مقالہ لکھنے کی درخواست کرتا ہوں۔ اور یہ ایک قابل قدر کام ہو گا۔
احترام کے ساتھ
جواب انتظار
م ش ا صاحب
مندرجہ ذیل روابط پر کچھ مل جائے گا
اُردو میں مضامین
http://www.algazali.org/gazali/printthread.php?tid=5424
http://www.farooqia.com/ur/lib/1432/01/p41.php
http://urdulook.info/portal/showthread.php?tid=1648
انگریزی میں مضامین
http://www.infidels.org/library/historical/thomas_paine/origin_free-masonry.html
http://www.robertlomas.com/Freemason/Origins.html
http://www.biblebelievers.org.au/masonic.htm
معلومات کی فراہمی کا بہت بھت شکریہ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔ آمین!