سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے رینٹل پاور کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران حکم دیا کہ راجہ پرویز اشرف سمیت 16 ملزمان کاچالان پیش کر کے انہیں گرفتار کیا جائے۔عدالت نے مزید کہا کہ اگر ان ملزمان میں کوئی ایک بھی بیرون ملک فرار ہوا تو چیئرمین نیب ذمہ دار ہونگے
Monthly Archives: January 2013
اسلامی نظامِ حکومت ۔ قسط ۔ 3
قسط ۔ 1
قسط ۔ 2
قسط ۔ 3 ۔ سید ابو الا علی مودودی صاحب کی کتاب تحریک آزادی ہند اور مسلمان سے منتخب مضمون
اس مقالہ میں مجھے اس عمل(Process) کی تشریح کرنی ہے کہ جس سے ایک طبعی نتیجہ کے طور پر اسلامی حکومت وجود میں آتی ہے۔ آج کل میں دیکھ رہا ہوں کہ اسلامی حکومت کا نام بازیچہ اطفال بنا ہوا ہے۔ مختلف حلقوں سے اس تصور اور اس مقصد کا اظہار ہور ہا ہے مگر ایسے ایسے عجیب راستے اس منزل تک پہنچنے کےلئے تجویر کئے جارہے ہیں جن سے وہاں تک پہنچنا اتنا ہی محال ہے جتنا موٹر کار کے ذریعے سے امریکہ تک پہنچنا۔ اس خام خیال (loose thinking) کی تمام تر وجہ یہ ہے کہ بعض سیاسی و تاریخی اسباب سے کسی ایسی چیز کی خواہش تو پیدا ہوگئی ہے جس کا ”اسلامی حکومت“ ہو مگر خالص علمی(scientific) طریقہ پر نہ تویہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس حکومت کی نوعیت کیا ہے اور نہ یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ وہ قائم کیونکر ہوا کرتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ علمی طریقہ پر اس مسئلہ کی پوری تحقیق کی جائے
نظام حکومت کا طبعی ارتقاء
جو لوگ اجتماعیات میں کچھ بھی نظر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ حکومت خواہ کسی نوعیت کی ہو، مصنوعی طریقہ سے نہیں بنا کرتی۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہیں وہ بن کر تیار ہو اور پھر ادھر سے لاکر اس کو کسی جگہ جما دیا جائے۔ اس کی پیدائش تو ایک سوسائٹی کے اندر اخلاقی، نفسیاتی، تمدنی اور تاریخی اسباب کے تعامل سے طبعی طور پر ہوتی ہے۔ اس کےلئے کچھ ابتدائی لوازم (prerequisites)، کچھ اجتماعی محرکات ، کچھ فطری مقتضیات ہوتے ہیں جن کے فراہم ہونے اور زور کرنے سے وہ وجود میں آتی ہے جس طرح منطق میں آپ دیکھتے ہیں نتیجہ ہمیشہ مقدمات(premises) کی ترتیب ہی سے برآمد ہوتا ہے، جس طر ح علم الکیمیا میں آپ دیکھتے ہیں کہ ایک کیمیاوی مرکب ہمیشہ کیمیاوی کشش رکھنے والے اجزاءکے مخصوص طریقہ پر ملنے ہی سے برآمد ہوتا ہے، اسی طرح اجتماعیات میں بھی یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ ایک حکومت صرف ان حالات کے اقتضا ءکا نتیجہ ہوتی ہے جو کسی سوسائٹی میں بہم ہوگئے ہوں۔ پھر حکومت کی نوعیت کا تعین بھی بالکلیہ ان حالات کی کیفیت پر منحصر ہوتا ہے جواس کی پیدائش کے مقتضی ہوتے ہیں۔ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ مقدمات کسی نوعیت کے ہوں اور ان کی ترتیب سے نتیجہ کچھ اور نکل آئے، کیمیاوی اجزاءکسی خاصیت کے ہوں اور ان کو ملانے سے مرکب کسی اور قسم کا بن جائے، درخت لیموں کا لگایا جائے اور نشو و نما پا کر وہ پھل آم دینے لگے، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ اسباب ایک خاص نوعیت کی حکومت کے فراہم ہوں ، ان کے مل کر کام کرنے کاڈھنگ بھی اسی نوعیت کی حکومت کے نشوو نما پانے کےلئے مناسب ہو، مگر ارتقائی مراحل سے گزر کر جب وہ تکمیل کے قریب پہنچے تو انہی اسباب اور اسی عمل کے نتیجہ میں بالکل ایک دوسری ہی نوعیت کی حکومت بن جائے
یہ گمان نہ کیجئے کہ میں یہاں جبریت(Determinism) کو دخل دے رہاہوں اور انسانی ارادہ و اختیار کی نفی کررہا ہوں۔ بلا شبہ حکومت کی نوعیت متعین کرنے میں افراد اور جماعتوں کے ارادہ و عمل کا بڑا حصہ ہے ۔ مگر دراصل میں یہ ثابت کررہا ہوں کہ جس نوعیت کا بھی نظام پیدا کرنا مقصودہو، اسی کے مزاج اور اسی کی فطرت کے مناسب اسباب فراہم کرنااور اسی کی طرف لے جانے والا طرز عمل اختیار کرنا بہر حال نا گزیر ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ویسی ہی تحریک اٹھے، اسی قسم کے انفرادی کیریکٹر تیار ہوں، اسی طرح کا اجتماعی اخلاق بنے ، اسی طرز کی لیڈر شپ ہو اور اسی کیفیت کا اجتماعی عمل ہوجس کا اقتضاءاس خاص نظام حکومت کی نوعیت فطرتاَ کرتی ہے جسے ہم بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سارے اسباب و عوامل جب بہم ہوتے ہیں اور جب ایک طویل مدت تک جدوجہد کرنے سے ان کے اندر اتنی طاقت پیدا ہوجاتی ہے کہ ان کی تیار کی ہوئی سوسائٹی میں کسی دوسری نوعیت کے نظام حکومت کا جینا دشوار ہوجاتا ہے تب ایک طبعی نتیجہ کے طور پر وہ خاص نظام حکومت ابھرآتا ہے جس کےلئے ان طاقت ور اسباب نے جد و جہد کی ہو۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ ایک بیج سے جب درخت پیدا ہوتا ہے اور اپنے زور میں بڑھتا چلا جاتا ہے تو نشوو نما کی ایک خاص حد پر پہنچ کر اس میں وہی پھل آنے شروع ہوجاتے ہیں جن کےلئے اس کی فطری ساخت زور کررہی تھی۔ اس حقیقت پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو یہ تسلیم کرنے میں ذرا تامل نہ ہوگا کہ جہاں تحریک ، لیڈر شپ، انفرادی سیرت، جماعتی اخلاق اور حکمت عملی، ہر ایک چیز ایک نوعیت کا نظام حکومت پیدا کرنے کےلئے موزوں و مناسب ہو ،اور امید یہ کی جائے کہ ان کے نتیجہ میں بالکل ہی ایک دوسری نوعیت کا نظام پیدا ہوگا، وہاں بے شعوری ، خام خیالی اور خام کاری کے سوا کوئی چیز کام نہیں کررہی ہے
اصولی حکومت
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حکومت جس کو ہم اسلامی حکومت کہتے ہیں ، اس کی نوعیت کیا ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی خصوصیت جو اسلامی حکومت کو تمام دوسری حکومتوں سے ممتا زکرتی ہے وہ یہ ہے کہ قومیت کا عنصر اس میں قطعی نا پید ہے۔ وہ مجرد ایک اصولی حکومت ہے ۔ا نگریزی میں، میں اس کو (Ideological state) کہوں گا۔ یہ”اصولی حکومت“ وہ چیز ہے جس سے دنیا ہمیشہ نا آشنا رہی ہے اور آج تک نا آشنا ہے۔ قدیم زمانہ میں لوگ صرف خاندانوں یا طبقوں کی حکومت سے واقف تھے۔ بعد میں نسلی اور قومی حکومتوں سے واقف ہوئے۔ محض ایک اصولی حکومت ،اس بنیا د پر کہ جو اس اصول کو قبول کرلے وہ بلا لحاظ قومیت اسٹیٹ کو چلانے میں حصہ دار ہوگا، دنیا کے تنگ ذہن میں یہ کبھی نہ سما سکی ۔ عیسائیت نے اس تخیل کا بہت ہی دھندلا سا نقش پایا، مگر اس کو وہ مکمل نظام فکر نہ مل سکا جس کی بنیا د پر کوئی اسٹیٹ تعمیر ہوتا ۔ انقلاب فرانس میں اصولی حکومت کے تخیل کی ذر اسی جھلک انسان کی نظر کے سامنے آئی مگر نیشنلزم کی تاریکی میں گم ہوگئی۔ اشتراکیت نے اس تخیل کا خاصا چرچا کیا حتی کہ ایک حکومت بھی اس کی بنیاد پر تعمیر کرنے کی کوشش کی ، اور اس کی وجہ سے دنیا کی سمجھ میں یہ تخیل کچھ کچھ آنے لگا تھا، مگر اس کے رگ وپے میں بھی آخر کار نیشنلزم گھس گیا۔ ابتداءسے آج تک تمام دنیا میں صرف اسلام ہی وہ مسلک ہے جو قومیت کے ہر شائبہ سے پاک کرکے حکومت کا ایک نظام خالص آئیڈیالوجی کی بنیاد پر تعمیر کرتا ہے اور تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ اس آئیڈیالوجی کو قبول کرکے غیر قومی حکومت بنائیں
یہ چیز چونکہ نرالی ہے، اور گردو پیش کی تمام دنیا اس کے خلاف چل رہی ہے ، اس لیے نہ صر ف غیر مسلم بلکہ خود مسلمان بھی اس کو اور اس کے جملہ مضمرات (implications) کو سمجھنے سے قاصر ہورہے ہیں۔ جو لوگ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں، مگر جن کے اجتماعی تصورات تمام تر یورپ کی تاریخ اور یورپ ہی کے سیاسیات اور علوم عمران (social sciences) سے بنے ہیں، ان کے ذہن کی گرفت میں یہ تصور کسی طرح نہیں آتا ۔ بیرون ہند کے وہ ممالک جس کی بیشتر آبادی مسلمان اور سیاسی حیثیت سے آزاد ہے، وہا ں اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں جب زمام حکومت آئی تو ان کو حکومت کا کوئی نقشہ قومی حکومت (national state) کے سوا نہ سوجھا کیونکہ وہ اسلام کے علم و شعور اور اصولی حکومت کے تصور سے بالکل خالی الذہن تھے۔ ہندوستان میں بھی جن لوگوں نے اس طرز کی دماغی تربیت پائی ہے وہ اسی مشکل میں مبتلا ہیں ۔ اسلامی حکومت کا نام لیتے ہیں مگر بے چارے اپنے ذہن کی ساخت سے مجبور ہیں کہ پھر کر جو نقشہ بھی نظر کے سامنے آتا ہے قومی حکومت ہی کا آتا ہے، قوم پرستانہ طرز فکر (nationalistic ideology) ہی میں دانستہ و نا دانستہ پھنس جاتے ہیں ، اور جو پروگرام سوچتے ہیں وہ بنیادی طور پر قوم پرستانہ ہی ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک پیش نظر مسئلہ کی نوعیت بس یہ ہے کہ ”مسلمان“ کے نام سے جو ایک ”قوم“ بن گئی ہے اس کے ہاتھ میں حکومت آجائے یا کم از کم اس کو سیاسی اقتدار نصیب ہوجائے۔ اس نصب العین تک پہنچنے کےلئے یہ جتنا بھی دماغ پر زور ڈالتے ہیں ، اس کے سوا کوئی طریق کار انہیں نظر نہیں آتا کہ دنیا کی قومیں عموماً جو تدابیر اختیار کرتی ہیں وہی اس قوم کےلئے بھی اختیار کی جائیں ۔ جن اجزاءسے یہ قوم مرکب ہے ان کو جوڑ کر ایک ٹھوس مجموعہ بنایا جائے، ان میں نیشنلزم کا جوش پھونکا جائے، ان کے اندر مرکزی اقتدار ہو، ان کے نیشنل گارڈز منظم ہوں، ان کی ایک قومی ملیشیا تیار ہو، وہ جہاں اکثریت میں ہوں وہاں اقتدار اکثریت (majority rule) کے مسلم جمہوری اصول پر ان کے قومی اسٹیٹ بن جائیں، اور جہاں ان کی تعداد کم ہو وہاں ان کے ”حقوق“ کا تحفظ ہوجائے، ان کی انفرادیت اسی طرح محفوظ ہو جس طرح دنیا کے ہر ملک میںہر قومی اقلیت(national minority) اپنی انفردیت محفوظ کرنا چاہتی ہے، ملازمتوں اور تعلیمی و انتخابی ادارات میں ان کا حصہ مقرر ہو، اپنے نمائندے یہ خود چنیں، وزارتوں میں ایک قوم کی حیثیت سے یہ شریک کئے جائیں، وغیر ذالک من القومیات۔یہ سب باتیں کرتے ہوئے یہ لوگ امت ، جماعت، ملت، ملیت، امیر، اطاعت امیراور اسی قسم کے دوسرے الفاظ اسلامی اصطلاحات سے لے کر بولتے ہیں، مگر اسلامی فکر کے اعتبار سے یہ سب ان کےلئے مذہب قوم پرستی کی اصطلاحو ںکے متردافات ہیں جو خوش قسمتی سے پرانے ذخیرے میں گھڑے گھڑائے مل گئے اور غیر اسلامی رنگ کےلئے اسلامی رنگ کے غلاف کا کام دینے لگے
اصولی حکومت کی نوعیت آپ سمجھ لیں تو آپ کو یہ با ت سمجھنے میں ذرا برابر بھی دقت پیش نہ آئے گی کہ اس کی بنا رکھنے کےلئے یہ طرز فکر، یہ انداز تحریک، یہ عملی پروگرام نقطہ آغاز کا بھی کام نہیں دے سکتا، کجا کہ تعمیر کے انجام تک پہنچا سکے۔ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس کا ہر جز ایک تیشہ ہے جس سے اصولی حکومت کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اصولی حکومت کے تخیل کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ ہمار ے سامنے قومیں اور قومتیں نہیں، صرف انسان ہیں۔ ہم ان کے سامنے ایک اصول اس حیثیت سے پیش کرتے ہیں کہ اسی پر تمدن کا نظام اور حکومت کا ڈھانچہ تعمیرکرنے میں ان کی فلاح ہے اور جو اس کو قبول کرلے وہ اس نظام کو چلانے میں برابر کا حصہ دار ہے۔ غور کیجئے ، اس تخیل کو لے کر وہ شخص کس طرح اٹھ سکتا ہے جس کے دماغ، زبان، افعال و حرکات ہر چیز پر قومیت اور قوم پرستی کا ٹھپا لگا ہوا ہو۔اس نے تو وسیع تر انسانیت کو اپیل کرنے کا دروازہ خود ہی بند کردیا، پہلے ہی قدم پر اپنی پوزیشن کو آپ غلط کرکے رکھ دیا۔ قوم پرستی کے تعصب میں جو قومی ریاستیں اندھی ہو رہی ہیں، جن کے لڑائی جھگڑوں کی سار ی بنیاد ہی قوم پرستی اور قومی ریاستیں ہیں، ان کو انسانیت کے نام پر پکارنے اور انسانی فلاح کے اصول کی طرف بلانے کا آخر یہ کونسا ڈھنگ ہے کہ ہم خود اپنے قومی حقوق کے جھگڑے اور قومی اسٹیٹ کے مطالبہ سے اس دعوت کی ابتداءکریں؟ کس طرح آپ کی عقل یہ بات قبول کرتی ہے کہ مقد مہ بازی سے لوگوں کو روکنے کی تحریک خود ایک مقدمہ عدالت میں دائر کرنے سے شروع کی جاسکتی ہے ؟
خلافت الہیہ
اسلامی حکومت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کی پور ی عمارت خدا کی حاکمیت کے تصور پر قائم کی گئی ہے۔ اس کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ملک خدا کا ہے، وہی اس کا حاکم ہے۔ کسی شخص یا خاندان یا طبقہ یا قوم کو بلکہ پوری انسانیت کو حاکمیت (sovereignty) کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ حکم دینے اور قانون بنانے کا حق صرف خدا کےلئے خاص ہے ۔ حکومت کی صحیح شکل اس کے سوا کوئی نہیں کہ انسان خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے کام کرے، اور یہ حیثیت صحیح طور پر صر ف دو صورتوں سے قائم ہوسکتی ہے، یا تو کسی انسان کے پاس براہ راست خدا کی طرف سے قانون اور دستور حکومت آیا ہو، یا وہ اس شخص کی پیروی اختیار کرے جس کے پاس خد ا کی طرف سے قانون اور دستور آیا ہے۔ اس خلافت کے کام میں تما م وہ لوگ شریک ہوں گے جو اس قانون پر ایمان لائیں اور اس کی پیروی کرنے پر تیار ہوں۔ یہ کام اس احساس کے ساتھ چلایا جائے گا کہ ہم سب بہ حیثیت مجموعی ، اور ہم میں سے ہر ایک فرداً فرداً خدا کے سامنے جواب دہ ہے، اس خدا کے سامنے جو ظاہر اور پوشیدہ ہر چیز کو جاننے والا ہے، جس کے علم سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی، اور جس کی گرفت سے ہم مر کر بھی نہیں چھوٹ سکتے۔ خلافت کی ذمہ داری جو ہمارے سپرد کی گئی ہے، یہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم لوگوں پر اپنا حکم چلائیں ، ان کو اپنا غلام بنائیں، ان کے سر اپنے آگے جھکوائیں، ان سے ٹیکس وصول کرکے اپنے محل تعمیر کریں، حاکمانہ اختیارات سے کام لے کر اپنے عیش ، اپنی نفس پرستی اور اپنی کبریائی کا سامان کریں، بلکہ یہ سارابار ہم پر اس لیے ڈالا گیا ہے کہ ہم خدا کے قانون عدل کو اس کے بندوں پر جاری کریں۔ اس قانون کی پابندی اور اس کے نفاذ میں ہم نے اگر ذرا سی کوتاہی بھی کی، اگر ہم نے اس کام میں ذرہ برابر بھی خود غرضی، نفس پرستی، تعصب ، جانب داری یا بددیانتی کو دخل دیا تو ہم خدا کی عدالت سے سزا پائیں گے خواہ دنیا میں ہر سزا سے محفوظ رہ جائیں۔
اس نظریہ کی بنیاد پر جوعمارت اٹھتی ہے وہ اپنی جڑ سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی شاخوں تک ہر چیز میں دُنیو ی حکومتوں(secular state) سے بالکل مختلف ہوتی ہے ، اس کی ترکیب ، اس کا مزاج ، اس کی فطرت ، کوئی چیز بھی ان سے نہیں ملتی۔ اس کو بنانے اور چلانے کےلئے ایک خاص قسم کی ذہنیت ، خاص طرز کی سیرت اور خاص نوعیت کے کردار کی ضرورت ہے، اس کی فوج ، اس کی پولیس، اس کی عدالت اس کے مالیات، اس کے قوانین، اس کے محاصل اس کی انتظامی پالیسی، اس کی خارجی سیاست، اس کی صلح و جنگ کے معاملات، سب کے سب دنیوی ریاستوں سے مختلف ہیں۔ ان کی عدالتوں کے چیف جسٹس، اس کی عدالت کے کلرک بلکہ چپڑاسی تک بننے کے اہل نہیں ہوسکتے۔ اس کی پولیس کے انسپکٹر جنرل وہاں کانسٹیبل کی جگہ کےلئے بھی موزوں نہیں ٹھہرتے۔ ان کے جنرل اور فیلڈ مارشل وہاں سپاہیوں میں بھرتی کرنے کے قابل بھی نہیں۔ ان کے وزرائے خارجہ وہاں کسی منصب پر توکیا فائز ہوں گے، شاید اپنے جھوٹ ، دغا اور بددیانتیوں کی بدولت جیل جانے سے بھی محفوظ نہ رہ سکیں، غرض وہ تمام لوگ جو ان حکومتوں کے کاروبار چلانے کےلئے تیار کئے گئے ہوں ،جن کی اخلاقی و ذہنی تربیت ان کے مزاج کے مناسب حال کی گئی ہو ، اسلامی حکومت کےلئے قطعی ناکارہ ہیں۔ اس کواپنے شہری، اپنے ووٹر، اپنے کونسلر، اپنے اہل کار، اپنے سپاہی، اپنے جج اور مجسٹریٹ، اپنے محکموں کے ڈائریکٹر اپنی فوجوں کے قائد، اپنے خارجی سفراءاور اپنے وزیر، غرض اپنی اجتماعی زندگی کے تمام اجزاء، اپنی انتظامی مشین کے تمام پرزے ،بالکل ایک نئی ساخت کے درکار ہیں۔ اس کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جن کے دلوں میں خدا کا خوف ہو، جو خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کا احساس رکھتے ہوں، جو دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والے ہوں، جن کی نگاہ میںاخلاقی نفع و نقصان کا وزن دنیوی نفع و نقصان سے زیادہ ہو، جو ہر حال میں اس ضابطے اور اس طرز عمل کے پابند ہوں جو ان کے لیے مستقل طور پر بنادیا گیا ہے۔ جن کی تمام سعی و جہد کا ہدف مقصود خدا کی رضا ہو، جن پر شخصی یا قومی اغراض کی بندگی اور ہوا و ہوس کی غلامی مسلط نہ ہو، جو تنگ نظری و تعصب سے پاک ہوں، جو مال اور حکومت کے نشہ میں بد مست ہوجانے والے نہ ہوں، جو دولت کے حریص اور اقتدار کے بھوکے نہ ہوں، جن کی سیرتوں میں یہ طاقت ہو کہ جب زمین کے خزانے ان کے دست قدرت میں آئیں تو وہ پکے امانت دار ثابت ہوں ، جب بسیتوں کی حکومت ان کے ہاتھ میں آئے تو وہ راتوں کی نیند سے محروم ہوجائیں اور لوگ ان کی حفاظت میں اپنی جان ، مال، آبرو ہر چیز کی طرف سے بے خوف رہیں، جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی ملک میں داخل ہوں تو لوگوں کو ان سے قتل و غارت گری، ظلم و ستم اور بدکاری و شہوت رانی کا کوئی اندیشہ نہ ہو،بلکہ ان کے ہر سپاہی کو مفتوح ملک کے باشندے اپنی جان و مال اور اپنی عورتوں کی عصمت کا محافظ پائیں، جن کی دھاک بین الاقوامی سیاست میں اس درجہ کی ہو کہ ان کی راستی، انصاف پسندی، اصول اخلاق کی پابندی اور عہد و پیمان پر تمام دنیا میں اعتماد کیا جائے۔ اسی قسم کے اور صرف اسی قسم کے لوگوں سے اسلامی حکومت بن سکتی ہے، اور یہی لوگ اس کو چلا سکتے ہیں۔ رہے مادہ پرست، افادی ذہنیت(utilitarian mentality) رکھنے والے لوگ جو دنیوی فائدوں اور شخصی یا قومی مصلحتوں کی خاطر ہمیشہ ایک نیااصول بناتے ہوں، جن کے پیش نظرنہ خدا ہو، نہ آخرت ، بلکہ جن کی ساری کوششوں کا مرکز و محور اور ساری پالیسیوں کا مدار صرف دنیوی فائدہ ونقصان ہی کا خیال ہو، وہ ایسی حکومت بنانے یا چلانے کے قابل تو کیا ہونگے، ان کا اس حکومت کے دائرے میں موجود ہونا ہی ایک عمارت میں دیمک کی موجودگی کا حکم رکھتا ہے
اسلامی انقلاب کی سبیل
اسلامی حکومت کی اس نوعیت کو ذہن میں رکھ کر غور کیجئے کہ اس منزل تک پہنچنے کی کیاسبیل ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ میں ابتداءمیں عرض کرچکا ہوں، کسی سوسائٹی میں جس قسم کے فکری ، اخلاقی، تمدنی اسباب و محرکات فراہم ہوتے ہیں، ان کے تعامل سے اسی قسم کی حکومت وجود میں آتی ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک درخت اپنی ابتدائی کونپل سے لے کر پورا درخت بننے تک لیموں کی حیثیت سے نشوو نما پائے، مگر بار آوری کے مرحلے پر پہنچ کر یکا یک آم کے پھل دینے لگے۔ در حقیقت اسلامی حکومت کسی معجزے کی شکل میں صادر نہیں ہوتی۔ اس کے پیدا ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ ابتداءمیں ایک ایسی تحریک اٹھے جس کی بنیاد میں وہ نظریہ حیات ، وہ مقصد زندگی ، وہ معیار اخلاق، وہ سیر ت و کردارہو جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس کے لیڈر اورکارکن صرف وہی لوگ ہوں جو اس خاص طر ز کی انسانیت کے سانچے میں ڈھلنے کےلئے مستعد ہوں۔ پھر وہ اپنی جد وجہد سے سوسائٹی میں اسی ذہنیت او ر اسی اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کریں۔ پھر اسی بنیاد پر تعلیم و تربیت کا ایک نیا نظام اٹھے جو اس مخصوص ٹائپ کے آدمی تیار کرے۔ اس سے مسلم سائنٹسٹ، مسلم فلسفی، مسلم مورخ، مسلم ماہرین مالیات و معاشیات ، مسلم ماہرین قانون، مسلم ماہرین سیاست، غرض ہر شعبہ علم وفن میں ایسے آدمی پیدا ہو ں جو اپنی نظر و فکر کے اعتبار سے مسلم ہوں، جن میں یہ قابلیت ہو کہ افکار و نظریات کا ایک پورا نظام اور عملی زندگی کا ایک مکمل خاکہ اسلامی اصولوں پر مرتب کرسکیں، اور جن میں اتنی طاقت ہو کہ دنیا کے نا خد ا شناس آئمہ فکر کے مقابلہ میں اپنی عقلی و ذہنی ریاست (intellectual leadership) کا سکہ جما دیں۔ اس دماغی پس منظر کے ساتھ یہ تحریک عملاً اس غلط نظام زندگی کے خلاف جد وجہد کرے جو گرد و پیش پھیلا ہوا ہے۔ اس جدو جہد میں اس کے علمبردار مصیبتیں اٹھا کر، سختیاں جھیل کر ، قربانیا ں دے کر، مار کھا کر اور جانیں دے کر اپنے خلوص اور اپنے ارادے کی مضبوطی کا ثبوت دیں۔ آزمائشوں کی بھٹی میں تپائے جائیں اور ایسا سونا بن کر نکلیں جس کو ہر پرکھنے والا ہر طرح سے جانچ کر بے کھوٹ کامل المیعار (Finest Standard) سونا ہی پائے۔ اپنی لڑائی کے دوران میں اپنے ہر قول اورہر فعل سے اپنی اس مخصو ص آئیڈیالوجی کا مظاہرہ کریں جس کے علمبردار بن کر وہ اٹھے ہیں۔ اور ان کی ہر بات سے عیاں ہو کہ ایسے بے لوث، بے غرض، راست باز، پاک سیرت، ایثار پیشہ، بااصول، خدا ترس لوگ انسانیت کی فلاح کےلئے جس اصولی حکومت کی طرف دعوت دے رہے ہیں اس میں ضرور انسان کےلئے عدل اور امن ہوگا۔ اسی طرح کی جدوجہد سے سوسائٹی کے وہ تمام عناصر جن کی فطرت میں کچھ بھی نیکی اور راستی موجود ہے اس تحریک میں کھنچ آئیں گے، پست سیرت لوگوں اور ادنیٰ درجہ کے طریقوں پر چلنے والوں کے اثرات اس کے مقابلہ میں دبتے چلے جائیں گے، عوام کی ذہنیت میں ایک انقلاب رونما ہوگا، اجتماعی زندگی میں اس مخصوص نظام حکومت کی پیاس پیدا ہوجائے گی، اور اس بدلی ہوئی سوسائٹی میں کسی دوسرے طرز کے نظام کا چلنا مشکل ہوجائے گا۔ آخر کار ایک لازمی اور طبعی نتیجہ کے طور پر وہی نظام حکومت قائم ہوجائے گا، جس کے لئے اس طور پر زمین تیار کی گئی ہو۔ اور جو ں ہی کہ وہ نظام قائم ہوگا، اس کو چلانے کےلئے ابتدائی اہل کاروں سے لے کر وزراءاور نظماءتک ہر درجہ کے مناسب کل پرزے اس نظام تعلیم و تربیت کی بدولت موجود ہونگے جس کا ذکر ابھی میں کر چکا ہوں
یہ ہے اس انقلاب کے ظہور اور اس حکومت کی پیدائش کا فطر ی طریقہ جس کو اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کہا جاتا ہے۔ دنیا کے انقلابات کی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔آپ سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ ایک خاص نوعیت کا انقلاب اسی نوعیت کی تحریک ، اسی نوعیت کے لیڈر اور کارکن اور اسی نوعیت کا اجتماعی شعور اور تمدنی و اخلاقی ماحول چاہتا ہے ۔ انقلاب فرانس کو وہی خاص اخلاقی و ذہنی اساس درکا ر تھی جو روسو، والٹےر او ر مونٹسکیو جیسے لیڈروں نے تیار کی۔ انقلاب روس صرف مارکس کے افکار اور لینن اور ٹراٹسکی کی لیڈر شپ اور ان ہزارہااشتراکی کارکنوں ہی کی بدولت رونما ہوسکتا تھا جن کی زندگیاں اشتراکیت کے سانچے میں ڈھل چکی تھیں۔ جرمنی کانیشنل سوشلزم اس مخصوص اخلاقی، نفسیاتی اور تمدنی زمین ہی میں جڑ پکڑ سکتا تھا جو ہیگل، فشے، گیوتھے، نیتشے اور بہت سے مفکرین کے نظریات اور ہٹلر کی لیڈر شپ نے تیار کیا۔ اسی طرح سے اسلامی انقلاب بھی صر ف اسی صورت میں برپا ہوسکتا ہے جب کہ ایک عمومی تحریک قرآنی نظریات و تصورات اور محمدی سیرت و کردار کی بنیاد پر اٹھے اور اجتماعی زندگی کی ساری ذ ہنی ، اخلاقی، نفسیاتی اور تہذیبی بنیادوں کو طاقت ور جدو جہد سے بدل ڈالے۔ یہ بات کم از کم میری سمجھ میں نہیں آتی کہ قوم پرستانہ نوعیت کی کوئی تحریک، جس کا پس منظر یہ ناقص نظام تعلیم ہو جو اس وقت ہمارے ہاں پایا جاتا ہے، اور جس کی بنیاد افادی اخلاقیات (يوٹیلیٹيرين مورلز) اور مصلحت پرستی (Pragmatism) پر ہو ، اسلامی انقلاب آخر کس طرح برپا کرسکتی ہے؟ میں اس قسم کے معجزات پر یقین نہیں رکھتا جن پرفرانس کے سابق وزیر اعظم موسیورینو یقین رکھتے تھے۔ میں تو اس کا قائل ہو ں کہ جیسی تدبیر کی جائیگی ویسے ہی نتائج برآمد ہونگے
خام خیالیاں
ہمارے ہاں یہ سمجھا جارہا ہے بس مسلمانوں کی تنظیم ان کے تمام دردوں کی دوا ہے۔”اسلامی حکومت“ یا ”آزاد ہندوستان میں آزاد اسلام“ کے مقصدتک پہنچنے کی سبیل یہ سمجھی جارہی ہے کہ مسلمان قوم جن افراد سے مرکب ہے وہ سب ایک مرکز پر جمع ہوں، متحد ہوں اور ایک مرکزی قیادت کی اطاعت میں کام کریں۔ لیکن دراصل یہ قوم پرستانہ پروگرام ہے۔ جو قوم بھی اپنا بول بالا کرنے کےلئے جدو جہد کرنا چاہے گی وہ یہی طریق کاراختیار کریگی خواہ وہ ہندو قوم ہو، یا سکھ، یا جرمن ، یا اطالوی ۔ قوم کے عشق میں ڈوبا ہوا ایک لیڈر جو موقع و محل کے لحاظ سے مناسب چالیںچلنے میں ماہر ہو اور جس میں حکم چلانے کی خاص قابلیت موجود ہو،ہر قوم کی سربلندی کےلئے مفید ہوتا ہے، خواہ وہ مونجے یا سا ورکر ہو، یا ہٹلر یا مسولینی۔ ایسے ہزاروں لاکھوں نوجوان جو قومی عزائم کےلئے اپنے لیڈر کی اطاعت میں منظم حرکت کرسکتے ہوں، ہر قوم کاجھنڈا بلند کرسکتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ جاپانیت پر ایمان رکھتے ہوں یا چینیت پر۔ پس اگر”مسلمان“ ایک نسلی و تاریخی قومیت کا نام ہے اور پیش نظر مقصد صرف اس کا بول بالا کرنا ہے تو اس کےلئے واقعی یہی سبیل ہے جو تجویز کی جارہی ہے۔ اس کے نتیجہ میں ایک قومی حکومت بھی میسر آسکتی ہے اور بدرجہ اقل وطنی حکومت میں اچھا خاصا حصہ بھی مل سکتا ہے ۔لیکن اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کے مقصد تک پہنچنے کےلئے یہ پہلا قدم بھی نہیں بلکہ الٹا قدم ہے
یہاں جس قوم کا نام مسلمان ہے وہ ہر قسم کے رطب و یابس لوگوں سے بھری ہوئی ہے ۔کیریکٹر کے اعتبار سے جتنے ٹائپ کافر قوموں میں پائے جاتے ہیں ، اتنے ہی اس قوم میں بھی موجود ہیں۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دینے والے جس قدر کافر قومیں فراہم کرتی ہیں غالباً اسی تناسب سے یہ بھی فراہم کرتی ہے۔ رشوت، چوری، زنا، جھوٹ اور دوسرے تمام ذمائم اخلاق میں یہ کفار سے کچھ کم نہیں ہے۔ پیٹ بھرنے اور دولت کمانے کےلئے جو تدبیریں کفار کرتے ہیں وہی اس قوم کے لوگ بھی کرتے ہیں۔ ایک مسلمان وکیل جان بوجھ کر حق کے خلاف اپنے موکل کی پیروی کرتے وقت خدا کے خوف سے اتنا ہی خالی ہوتا ہے جتنا ایک غیر مسلم وکیل ہوتا ہے۔ ایک مسلمان رئیس دولت پاکر، یا ایک مسلمان عہدہ دار حکومت پاکر وہی سب کچھ کرتا ہے جو غیر مسلم کرتا ہے۔ یہ اخلاقی حالت جس قوم کی ہو اس کی تمام کالی اور سفید بھیڑوں کو جمع کرکے ایک منظم گلہ بنا دینا اور سیاسی تربیت سے ان کو لومڑی کی ہشیاری سکھانا، یا فوجی تربیت سے ان میں بھیڑیئے کی درندگی پیدا کردینا جنگل کی فرما ں روائی حاصل کرنے کےلئے تو مفید ہوسکتا ہے ، مگر میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اعلآء کلمہ اللہ کس طرح ہوسکتا ہے۔ کون ان کی اخلاقی برتری تسلیم کرے گا؟ کس کی نگاہیں ان کے سامنے عزت سے جھکیں گی؟ کس کے دل میں انہیں دیکھ کر اسلام کےلئے جذبہ احترام پیدا ہوگا؟ ان کے ”انفاس قدسیہ“ سے یدخلون فی دین اللہ افواجاً کا منظر دکھائی دے سکے گا؟ کس جگہ ا ن کی روحانی امامت کا سکہ جمے گا؟ اور زمین پر بسنے والے کہاں ان کا خیر مقدم اپنے نجات دہندوں کی حیثیت سے کریں گے؟اعلآء کلمہ اللہ جس چیز کا نام ہے اس کےلئے تو صرف ان کارکنوں کی ضرورت ہے جو خد اسے ڈرنے والے اور خدا کے قانون پر فائدہ و نقصان کی پرواہ کئے بغیر جمنے والے ہوں، خواہ وہ اس نسلی مسلمان قوم میں سے ملیں یا کسی دوسری قوم سے بھرتی ہوکرآئیں۔ ایسے دس آدمی اس مقصد کےلئے زیادہ قیمتی ہیں بہ نسبت اس کے کہ وہ انبوہ جس کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں۔ 25 لاکھ یا 50 لاکھ کی تعداد میں بھرتی ہوجائے۔ اسلام کو تانبے کے ان سکّوں کا خزانہ مطلوب نہیں ہے جن پر اشرفی کا ٹھپہ لگا دیاگیا ہو۔ وہ سکہ کے نقوش دیکھنے سے پہلے یہ دریافت کرتا ہے کہ ان نقوش کے نیچے خالص سونے کا جوہر بھی ہے یا نہیں۔ ایسا ایک سکہ جعلی اشرفیوں کے ڈھیر سے اس کے نزدیک زیادہ قیمتی ہے
پھر جس لیڈر شپ کی اعلائے کلمہ اللہ کے لئے ضرورت ہے وہ ایسی لیڈر شپ ہے جوان اصولو ں سے ایک انچ بھی ہٹنے کےلئے تیار نہ ہو جن کا بول بالا کرنے کے لئے اسلام اٹھا ہے، خواہ اس ہٹ کی بدولت تمام مسلمان بھوکے ہی کیوں نہ مر جائیں بلکہ تہ تیغ ہی کیوں نہ کردیئے جائیں۔ ہر معاملہ میں اپنی قوم کا فائدہ تلاش کرنے والی اور اصول سے بے نیاز ہوکر اس تدبیر کوجس میں قوم کی دنیوی فلا ح نظر آئے، اختیار کرلینے والی لیڈر شپ اور وہ لیڈرشپ جس میں تقویٰ اور خداترسی کا رنگ مفقود ہو، اس مقصد کےلئے قطعی ناکارہ ہے جس پر اسلام نے اپنی نظر جما رکھی ہے
پھر وہ نظام تعلیم و تربیت جس کی بنیاد اس مشہور مقالہ پر رکھی گئی ہے کہ” چلو تم ادھر کو ہواہو جدھر کی“ اس اسلام کی خدمت کےلئے کس طرح موزوں ہوسکتا ہے جس کا قطعی ناقابل ترمیم فیصلہ یہ ہے کہ ہوا خواہ کسی طرف کی ہو، تم بہرحال اس راستہ پر چلو جو خدا نے تمہارے لیے معین کردیا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آج اگر آپ کو ایک خطہ زمین حکومت کرنے کےلئے دے بھی دیا جائے تو آپ اسلامی اصول پراس کا انتظام ایک دن بھی نہ چلا سکیں گے۔ اسلامی حکومت کی پولیس ، عدالت ،فوج ، مال گذاری ، فنانس، تعلیمات اور خارجی پالیسی کو چلانے کےلئے جس ذہنیت اور جس اخلاقی روح رکھنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے ان کو فراہم کرنے کا کوئی بندوبست آپ نے نہیں کیا ہے۔یہ تعلیم جو آپ کے کالجوں میں دی جارہی ہے ، غیر اسلامی حکومت کےلئے سیکرٹری اور وزراءتک فراہم کرسکتی ہے مگر برا نہ مانیے، اسلامی عدالت کے لئے چپڑاسی اور اسلامی پولیس کے لیے کانسٹیبل تک فراہم نہیں کرسکتی۔ اور یہ بات جدید تعلیم ہی تک محدود نہیں ہے۔ ہمارا وہ پرانا نظام تعلیم جو حرکت زمین کا سرے سے قائل ہی نہیںہے، وہ بھی اس معاملہ میں اتنا ناکارہ ہے کہ اس دور جدید میں اسلامی حکومت کےلئے ایک قاضی، ایک وزیر مال، ایک وزیر جنگ، ایک ناظم تعلیمات اور ایک سفیر بھی مہیا نہیں کرسکتا، اس تیاری پر اسلامی حکومت کا حوصلہ! سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ یہ نام زبان پر لاتے ہیں ان کے ذہن اسلامی حکومت کے صحیح تصور سے خالی ہیں
بعض لوگ یہ خیال ظاہرکرتے ہیں کہ ایک دفعہ غیر اسلامی طرز ہی کا سہی، مسلمانوں کاقومی اسٹیٹ قائم تو ہوجائے ،پھر رفتہ رفتہ تعلیم و تربیت اور اخلاقی اصلاح کے ذریعہ سے اس کو اسلامی اسٹیٹ میں تبدیل کردیا جاسکتا ہے۔ مگر میں نے تاریخ ، سیاسیات اور اجتماعیات کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس کی بنا پر اس کو ناممکن سمجھتا ہوں اور اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوجائے تو میں اس کو ایک معجزہ سمجھوں گا، جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں ، حکومت کا نظام اجتماعی زندگی میں بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے۔ جب تک اجتماعی زندگی میں تغیرو اقع نہ ہو ، کسی مصنوعی تدبیر سے نظام حکومت میں کوئی مستقل تغیر پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ عمر ابن عبدالعزیز جیسا فرما نروا جس کی پشت پر تابعین و تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت بھی تھی، اس معاملہ میں قطعی ناکام ہوچکا ہے، کیونکہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی اس اصلاح کےلئے تیار نہ تھی۔ محمد تغلق اور عالمگیر جیسے طاقتور بادشاہ اپنی شخصی دین داری کے باوجود نظام حکومت میں کوئی تغیر نہ کرسکے۔ مامون الرشید جیسا با جبروت حکمران نظام حکومت میں نہیں بلکہ صرف اس کی اوپری شکل میں خفیف سی تبدیلی پیدا کرنا چاہتا تھا اور اس میں بھی ناکام ہوا۔ یہ اس وقت کاحال ہے جب ایک شخص کی طاقت بہت کچھ کر سکتی تھی۔ اب میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو قومی اسٹیٹ جمہوری طرز پر قائم ہوگا وہ اس بنیادی اصلاح میں آخر کس طرح مددگار ہوسکتا ہے۔ جمہوری حکومت میں اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں آتا ہے جن کو ووٹر کی پسندیدگی حاصل ہو، ووٹروں میں اگر اسلامی ذہنیت اور اسلامی فکر نہیںہے، اگر وہ صحیح اسلامی سیرت و کردار کے عاشق نہیںہیں ، اگر وہ اس بے لاگ عدل اور ان بے لچک اصولوںکو برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں جن پر اسلامی حکومت چلائی جاتی ہے ، تو ان کے ووٹوں سے کبھی ”مسلمان“ قسم کے آدمی منتخب ہوکر پارلیمنٹ یا اسمبلی میں نہیں آسکتے۔ اس ذریعہ سے تو اقتدار انہی لوگوں کو ملے گا جو مردم شماری کے رجسٹر میں چاہے مسلمان ہوں ، مگر اپنے نظریات اور طریق کار کے اعتبار سے جن کو اسلام کی ہوا بھی نہ لگی ہو۔ اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں جس پر غیر مسلم حکومت میں تھے۔ بلکہ اس سے بھی بد تر مقام پر، کیونکہ وہ ”قومی حکومت“ جس پر اسلام کا نمائشی لیبل لگا ہوگا، انقلاب کا راستہ روکنے میں اس سے بھی زیادہ جری اور بے باک ہوگی جتنی غیرمسلم حکومت ہوتی ہے۔ غیر مسلم حکومت جن کاموں پر قید کی سزا دیتی ہے وہ ”مسلم حکومت“ ان کی سزا پھانسی اور جلا وطنی کی صورت میں دے گی اور پھر بھی اس حکومت کے لیڈ ر جیتے جی غازی اور مرنے پر رحمہ اللہ علیہ ہی رہیں گے۔ پس یہ سمجھنا قطعی غلط ہے کہ اس قسم کی ”قومی حکومت“ کسی معنی میں بھی اسلامی انقلاب لانے میں مددگار ہوسکتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم کواس حکومت میں بھی اجتماعی زندگی کی بنیادیں بدلنے ہی کی کوشش کرنی پڑے گی ، اور اگر ہمیں یہ کام حکومت کی امداد کے بغیر، بلکہ اس کی مزاحمت کے باوجود اپنی قربانیوں ہی سے کرنا ہوگا، تو ہم آج ہی سے یہ راہ عمل کیوں نہ اختیار کریں؟ اس نام نہاد”مسلم حکومت“ کے انتظار میں اپنا وقت یا اس کے قیام کی کوشش میں اپنی قوت ضائع کرنے کی حماقت آخر ہم کیوں کریں جس کے متعلق ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ ہمارے مقصد کےلئے نہ صرف غیر مفید ہوگی بلکہ کچھ زیادہ ہی سد راہ ثابت ہوگی
اسلامی تحریک کا مخصوص طریق کار
اب میں ایک مختصر تاریخی بیان کے ذریعہ سے اس امر کی تشریح کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی انقلاب کےلئے اجتماعی زندگی کی بنیادیں بدلنے اور ازسر نو تیار کرنے کی صورت کیا ہوتی ہے اور اس جد وجہد کا وہ مخصوص طریق کار(technique) کیا ہے جس سے یہ کامیابی کی منزل تک پہنچتی ہے
اسلام دراصل اس تحریک کا نام ہے جو خدائے واحد کی حاکمیت کے نظریہ پر انسانی زندگی کی پوری عمارت تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ یہ تحریک قدیم ترین زمانہ سے ایک ہی بنیاد پر اور ایک ہی ڈھنگ پر چلی آرہی ہے۔ اس کے لیڈر وہ لوگ تھے جن کو رسل اللہ (خدا کے فرستادے ) کہا جاتا ہے ۔ ہمیں اگر اس تحریک کو چلانا ہے تو لا محالہ انہی لیڈروں کے طرز عمل کی پیروی کرنی ہوگی ، کیونکہ اس کے سوا کوئی اور طرز عمل اس خاص نوعیت کی تحریک کےلئے نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے ۔ اس سلسلہ میں جب ہم انبیاءعلیہم السلام کے نقش قدم کا سراغ لگانے کےلئے نکلتے ہیں تو ہمیں ایک بڑی دقت کا سامنا ہوتا ہے ۔ قدیم زمانہ میں جو انبیاءگزرے ہیں ان کے کام کے متعلق ہمیں کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ قرآن میں کچھ مختصر اشارات ملتے ہیں مگر ان سے مکمل اسکیم نہیں بن سکتی۔ بائیبل کے عہد جدید (New Testament) میں سیدنا مسیح علیہ السلام کے کچھ غیر مستند اقوال بھی ملتے ہیں جن سے کسی حد تک اس پہلو پر روشنی پڑتی ہے کہ اسلامی تحریک اپنے بالکل ابتدائی مراحل میں کس طرح چلائی جاتی ہے اور کن مسائل سے اس کو سابقہ پیش آتا ہے۔ لیکن بعد کے مراحل حضرت مسیح علیہ السلام کو پیش ہی نہیں آئے کہ ان کے متعلق کوئی اشارہ وہاں سے مل سکے۔ اس معاملہ میں ہم کو صرف ایک ہی جگہ سے صاف اور مکمل رہنمائی مل سکتی ہے اوروہ سیدنا محمد کی زندگی ہے ۔ اس طرف ہمارے رجوع کرنے کی وجہ نری عقیدت مندی ہی نہیں ہے بلکہ دراصل اس راہ کے نشیب و فراز معلوم کرنے کیلئے اسی طرف رجوع کرنے پر ہم مجبور ہیں۔ اسلامی تحریک کے تمام لیڈروں میں سے صرف ایک محمد ہی وہ تنہا لیڈ ر ہیں جن کی زندگی میں ہم کو اس تحریک کی ابتدائی دعوت سے لے کر اسلامی اسٹیٹ کے قیام تک اور پھر قیام کے بعد اس اسٹیٹ کی شکل، دستور، داخلی و خارجی پالیسی اور نظم مملکت کے نہج تک ایک ایک مرحلے اور ایک ایک پہلو کی پوری تفصیلات اور نہایت مستند تفصیلات ملتی ہیں لہذا میں اسی ماخذ سے اس تحریک کے طریق کار کا ایک مختصر نقشہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں
رسول اللہ جب اسلام کی دعوت پر مامور ہوئے ہیں تو آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں بہت سے اخلاقی ، تمدنی، معاشی او ر سیاسی مسائل حل طلب تھے۔ رومی اور ایرانی امپیریلزم بھی موجود تھا، طبقاتی امتیازات بھی تھے۔ ناجائز معاشی انتفاع (economic exploitation)بھی ہور ہا تھا اور اخلاقی ذمائم بھی پھیلے ہوئے تھے۔ خو د آپ کے اپنے ملک میں بہت سے ایسے پیچیدہ مسائل موجود تھے جو ایک لیڈر کے ناخن تدبیر کا انتظار کررہے تھے۔ ساری قوم جہالت ، اخلاقی پستی، افلاس، طوائف الملوکی اور خانہ جنگی میں مبتلا تھی۔ کویت سے یمن تک مشرقی اور جنوبی عرب کے تمام ساحلی علاقے ،عراق کے زرخیر صوبے سمیت ایرانی تسلط میں تھے۔ شمال میں حجاز کی سرحد تک رومی تسلط پہنچ چکا تھا۔ خود حجاز میں یہودی سرمایہ داروں کے بڑے بڑے گڑھ بنے ہوئے تھے اور انہوں نے عربوں کواپنی سو د خواری کے جال میں پھانس رکھا تھا۔ مغربی ساحل کے عین مقابل حبش کی عیسائی حکومت موجود تھی جو چند ہی سال پہلے مکہ پر چڑھائی کرچکی تھی۔ اس کے ہم مذہب اوراس سے ایک گونہ معاشی و سیاسی تعلق رکھنے والوں کا ایک جتھا خود حجاز اور یمن کے درمیان تجران کے مقام پرموجود تھا۔ یہ سب کچھ تھا مگرجس لیڈر کو اللہ نے رہنمائی کےلئے مقرر کیا تھا اس نے دنیا کے اور خود اپنے ملک کے ان بہت سے مسائل میں سے کسی ایک مسئلہ کی طرف بھی توجہ نہ کی، بلکہ دعوت اس چیز کی طرف دی کہ خدا کے سوا تمام الہٰوںکوچھوڑ دو اور صرف اسی ایک الٰہ کی بندگی قبول کرو
اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس رہنما کی نگاہ میں دوسرے مسائل کو ئی اہمیت نہ رکھتے تھے ،یا وہ کسی توجہ کے لائق ہی نہ تھے۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ آگے چل کر اس نے ان سب مسئلوں کی طرف توجہ کی اور ان سب کو ایک ایک کرکے حل کیا۔ مگر ابتداءمیں ان سب کی طرف سے نظر پھیر کر اسی ایک چیز پر تمام زور صرف کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی تحریک کے نقطہ نظر سے انسان کی اخلاقی و تمدنی زندگی میں جتنی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں ان سب کی بنیادی علت انسان کا اپنے آپ کو خود مختار (independent) او ر غیر ذمہ دار (irresponsible) سمجھنا، باالفاظ دیگر آپ اپنا الٰہ بننا ہے، یا پھر یہ ہے کہ وہ الٰہ العالمین کے سو ا کسی دوسرے کو صاحب امر تسلیم کرے، خواہ وہ دوسرا کوئی انسان ہو یا غیر انسان۔ یہ چیز جب تک جڑ میں موجود ہے اسلامی نظریہ کی رو سے کوئی اوپری اصلاح، انفرادی بگاڑ یا اجتماعی خرابیوں کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف سے خرابی کو دور کیا جائے گا اور کسی دوسری طرف سے وہ سر نکال لے گی۔ لہذا اصلاح کا آغاز اگر ہوسکتا ہے تو صرف اسی چیز سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو انسان کے دماغ سے خود مختار ی کی ہوا کو نکالا جائے اور اسے بتایا جائے کہ تو جس دنیا میں رہتا ہے وہ درحقیقت بے بادشاہ کی سلطنت نہیں ہے ،بلکہ فی الواقع اسکاایک بادشاہ موجود ہے اور اس کی بادشاہی نہ تیرے تسلیم کرنے کی محتاج ہے ،نہ تیرے مٹائے مٹ سکتی ہے ، نہ تو اس کے حدود سلطنت سے نکل کر کہیں جاسکتا ہے ۔ اس امٹ اور اٹل واقعہ کی موجودگی میں تیرا خود مختاری کا زعم ایک احمقانہ غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا نقصان لا محالہ تیرے ہی اوپر عائد ہوگا۔ عقل اور حقیقت پسندی(realism) کا تقاضا یہ ہے کہ سیدھی طرح اس کے حکم کے آگے سر جھکا دے اور مطیع بند ہ بن کر رہ ۔ دوسری طرف اس کو واقعہ کایہ پہلو بھی دکھا دیا جائے کہ اس پوری کائنات میںصرف ایک ہی بادشاہ ، ایک ہی مالک اور ایک ہی مختار کار ہے۔ کسی دوسرے کو نہ یہاں حکم چلانے کا حق ہے اور نہ واقع میں کسی کاحکم چلتا ہے ۔ اس لیے تو اس کے سوا کسی کا بند ہ نہ بن۔ کسی کا حکم نہ مان۔ کسی کے آگے سر نہ کوجھکا۔ یہاں کوئی ہز ہائنیس نہیں ہے ۔ ہائنیس صرف ایک ہی کو زیبا ہے ۔ یہا ں کوئی ہز ہولی نس نہیں ہے، ہولی نس ساری کی ساری اسی ایک کےلئے خاص ہے۔ یہاں کوئی ہز لارڈ شپ نہیں ہے ، لارڈ شپ بالکلیہ اسی ایک کا حصہ ہے۔ یہا ں کوئی قانو ن ساز (lawgiver) نہیں ہے، قانون اسی کا ہے اور وہی قانون بنانے کا حق دار وسزاوار ہے۔ یہاں کوئی سرکار ، کوئی ان داتا ، کوئی ولی و کارساز، کوئی دعائیں سننے والااور فریادرس نہیں ہے ۔ کسی کے پاس اقتدار کی کنجیاں نہیں ہیں۔ کسی کو برتری و فوقیت حاصل نہیں ہے۔ زمین سے آسمان تک سب بندے ہی بندے ہیں۔ رب اور مولیٰ صر ف ایک ہے ۔ لہذا تو ہر غلامی، ہر اطاعت ، ہر پابندی سے انکار کردے اور اسی ایک کا غلام، مطیع اور پابند حکم بن جا۔ یہ تمام اصلاحات کی جڑ اور بنیاد ہے ۔ اسی بنیاد پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی پوری عمارت اُدھڑ کر ازسر نو ایک نئے نقشے پر بنتی ہے اور سارے مسائل جو انسانی زندگی میں آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک پیدا ہوئے اور اب سے قیامت تک پیدا ہونگے، اسی بنیاد پر ایک نئے طریقہ سے حل ہوتے ہیں
محمد نے اس بنیادی اصلاح کی دعوت کو بغیر کسی سابق تیاری اور بغیر کسی تمہیدی کاروائی کے براہ راست پیش کردیا۔ انہوں نے اس دعوت کی منزل تک پہنچنے کےلئے کوئی ہیر پھیر کا راستہ اختیار نہ کیا کہ پہلے کچھ سیاسی یا سوشل طر ز کا کام کرکے لوگوں میں اثر پیدا کیا جائے ، پھر اس اثر سے کام لے کر کچھ حاکمانہ اختیارات حاصل کئے جائیں ، پھر ان اختیارات سے کام لے کر رفتہ رفتہ لوگوں کو چلاتے ہوئے اس مقام تک لے آئیں۔ یہ سب کچھ، کچھ نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہا ں ایک شخص اٹھا، اور چھوٹتے ہی اس نے لا الہ الا اٰﷲ کا اعلان کردیا۔ اس سے کم کسی چیز پر ایک لمحہ کےلئے بھی اس کی نظر نہ ٹھہری۔ اسکہ وجہ محض پیغمبرانہ جرات اور جوش نہیں ہے ۔ دراصل اسلامی تحریک کا طریق کار ہی یہی ہے۔ وہ اثر یا وہ نفوذ و اقتدار جو دوسرے ذرائع سے پیدا کیا جائے، اس اصلاح کے کام میں کچھ بھی مدد گار نہیں۔ جو لوگ لا الہ الا اللہ کے سوا کسی اور بنیاد پر آپ کاساتھ دیتے رہے ہوں وہ اس بنیاد پر تعمیر جدید کرنے میں آپ کے کسی کام نہیں آسکتے۔ اس کام میں تو وہی لوگ مفید ہوسکتے ہیں جو آپ کی طرف لا الہ الااللہ کے آواز سن کر ہی آئیں، اسی چیز میں ان کےلئے کشش ہو، اسی حقیقت کووہ زندگی کی بنیاد بنائیں اور اسی اساس پر وہ کام کرنے کےلئے اٹھیں۔ لہذا اسلامی تحریک کو چلانے کےلئے جس خاص قسم کے تدبر اور حکمت عملی کی ضرورت ہے اس کا تقاضا ہی یہی ہے کہ کسی تمہید کے بغیر کام کا آغاز اسی دعوت توحید سے کیا جائے۔
توحید کا یہ تصور محض ایک مذہبی عقیدہ نہیں ہے۔ جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں، اس سے اجتماعی زندگی کا وہ پورا نظام جو انسان کی خود مختاری ، یا غیر اللہ کی حاکمیت و الوہیت کی بنیاد پر بنا ہو، جڑ بنیاد سے اکھڑ جاتا ہے اور ایک دوسری اساس پرنئی عمارت تیار ہوتی ہے۔ آج دنیا آپ کے موذن کو اشہد ان لا الہ الااﷲ کی صدا بلند کرتے ہوئے اس لیے ٹھنڈے پیٹوں سن لیتی ہے کہ نہ پکارنے والا جانتا ہے کہ کیاپکار رہا ہوں، نہ سننے والوں کو اس میں کوئی معنی اور کوئی مقصد نظر آتا ہے، لیکن اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اس اعلان کا مقصد یہ ہے، اور اعلان کرنے والا جان بوجھ کر اس بات کا اعلان کررہا ہے کہ میرا کوئی بادشاہ یا فرمانروا نہیں ہے ، کوئی حکومت میں تسلیم نہیں کرتا ، کسی قانون کو میں نہیں مانتا، کسی عدالت کے حدود و اختیارات (jurisdiction) مجھ تک نہیں پہنچتے، کسی کا حکم میرے لیے حکم نہیں ہے ، کوئی رواج اور کوئی رسم مجھے تسلیم نہیں، کسی کے امتیازی حقوق، کسی کی ریاست ، کسی کا تقدس، کسی کے اختیارات میں نہیں مانتا، ایک اللہ کے سوا میں سب کا باغی اور سب کا منحرف ہوں، تو آپ سمجھ سکتے ہیںکہ اس صدا کو کہیں بھی ٹھنڈ ے پیٹوں برادشت نہیں کیا جاسکتا ۔ آپ خواہ کسی سے لڑنے جائیں یا نہ جائیں ، دنیا خود آپ سے لڑنے آجائے گی۔ یہ آواز بلند کرتے ہی آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ یکایک زمین و آسمان آپ کے دشمن ہوگئے ہیں اور ہرطرف آپ کےلئے سانپ ، بچھواور درندے ہی درندے ہیں
یہی صورت اس وقت پیش آئی جب محمد نے یہ آواز بلند کی۔ پکارنے والے نے جان کر پکارا تھا اور سننے والے سمجھتے تھے کہ کیا پکاررہا ہے، اس لیے جس جس پر جس پہلو سے بھی اس پکار کی ضرب پڑتی تھی وہ اس کو دبانے کےلئے اٹھ کھڑا ہوا۔ پجاریوں کو اپنی برہمنیت و پاپائیت کا خطرہ اس میں نظر آیا، رئیسوں کو اپنی ریاست کا ، ساہوکاروں کو اپنی ساہوکاری کا، نسل پرستوں کو اپنے نسلی تفوق (racial superiority) کا، قوم پرستوں کو اپنی قومیت کا، اجداد پرستوں کو اپنے باپ دادا کے موروثی طریقہ کا، غرض ہر بت کے پرستار کو اپنے بت کے ٹوٹنے کا خطرہ اسی ایک آواز میں محسوس ہوا ا لکفر ملت واحدہ ، وہ سب جو آپس میں لڑا کرتے تھے ، اس نئی تحریک سے لڑنے کےلئے ایک ہوگئے۔ اس حالت میں صرف وہی لوگ محمد کی طرف آئے جن کا ذہن صاف تھا، جو حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی استعداد رکھتے تھے، جن کے اندر اتنی صداقت پسندی موجودتھی کہ جب ایک چیز کے متعلق جان لیں کہ حق یہ ہے تو اس کی خاطر آگ میں کودنے اور موت سے کھیلنے کےلئے تیار ہوجائیں۔ ایسے ہی لوگوں کی اس تحریک کےلئے ضرورت تھی۔ وہ ایک ایک دو دو چار چار کرکے آتے رہے اورکشمکش بڑھتی رہی۔ کسی کا روزگار چھوٹا، کسی کو گھر والوں نے نکال دیا۔ کسی کے عزیز ، دوست، آشنا سب چھوٹ گئے۔ کسی پر مار پڑی ۔ کسی کو قید میں ڈالا گیا۔ کسی کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹا گیا۔ کسی کی سر بازار پتھروں اور گالیوں سے تواضع کی گئی۔ کسی کی آنکھ پھوڑ دی گئی۔ کسی کا سر پھاڑ دیا گیا۔ کسی کو عورت ، مال ، حکومت و ریاست اور ہرممکن چیز کا لالچ دےکر خریدنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سب چیزیں آئیں ، ان کا آنا ضروری تھا، ان کے بغیر اسلامی تحریک نہ مستحکم ہوسکتی تھی اور نہ بڑھ سکتی تھی
ان کا پہلا فائدہ یہ تھا کہ گھٹیا قسم کے بودی سیرت اور ضعیف ارادہ رکھنے والے لوگ اس طرف آہی نہ سکتے تھے۔ جو بھی آیا وہ نسل آدم کا بہترین جوہر تھاجس کی دراصل ضرورت تھی ۔ کوئی دوسری صورت کام کے آدمیوں کو ناکارہ آدمیوں سے چھانٹ کرا لگ نکال لینے کی اس کے سوا نہ تھی کہ جو بھی آئے وہ اس بھٹی میں سے گزر کر آئے
پھر جو لوگ آئے ان کواپنی کسی ذاتی غرض کےلئے یا کسی خاندانی یا قومی مقصد کےلئے نہیں، بلکہ محض حق و صداقت کےلئے ،صرف خدا اور اس کی رضا کی خاطرمصائب و آلام کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اسی کےلئے وہ پٹے، اسی کےلئے بھوکے مرے، اسی کےلئے دنیا بھر کی جفا کاریوں کا تختہ مشق بنے، اس کانتیجہ یہ ہوا کہ ان میں وہ صحیح اسلامی ذہنیت پیدا ہوگئی جس کی ضرورت تھی۔ ان کے اندر خالص اسلامی سیرت پیدا ہوئی۔ ان کی خدا پرستی میں خلوص آتااور بڑھتا چلاگیا۔ مصائب کی اس زبردست تربیت گاہ میں کیفیت اسلامی کا طاری ہونا ایک طبعی امر تھا۔ جب کوئی شخص کسی مقصد کےلئے اٹھتا ہے اور اس کی راہ میں کشمکش ، جدو جہد ، مصیبت ،تکلیف،پریشانی ، مار، قید، فاقہ، جلاوطنی وغیرہ کے مرحلوں سے گزرتاہے تو اس ذاتی تجربہ کی بدولت اس مقصد کی تمام کیفیات اس کے قلب وروح پر چھا جاتی ہیں اور اس کی پوری شخصیت اس مقصد میںتبدیل ہوجاتی ہے۔ اس مقصد کی تکمیل میں مدد دینے کےلئے نماز ان پر فرض کی گئی تاکہ نظر کی پراگندگی کا ہر امکان دور ہوجائے۔ اپنے نصب العین پر ان کی نگاہ جمی رہے، جس کو وہ حاکم مان رہے ہیں اس کی حاکمیت کا بار بار اقرار کرکے وہ اپنے عقیدے میں مضبوط ہوجائیں، جس کے حکم کے مطابق انہیں اب دنیا میں کام کرنا ہے۔ اس کا عالم الغیب و الشھادہ ہونا، اس کا مالک یوم الدین ہونا ،اسکا قاھر فوق عبادہ ہونا پور ی طرح ان کے ذہن نشین ہوجائے اور کسی حال میں بھی اس کی اطاعت کے سوا دوسرے کی اطاعت کاخیال تک ان کے دل میں نہ آنے پائے
ایک طرف آنے والوں کی تربیت اس طرح ہورہی تھی اور دوسری طرف اسی کشمکش کی وجہ سے اسلامی تحریک پھیل بھی رہی تھی۔ جب لوگ دیکھتے تھے کہ چند انسان پیٹے جارہے ہیں تو خواہ مخواہ ان کے اندر یہ معلوم کرنے کا شوق پیدا ہوتا تھا کہ آخر یہ سارا ہنگامہ ہے کس لئے؟ اور جب انہیں یہ معلوم ہوتا تھا کہ زن، زر، زمین کسی چیز کےلئے بھی نہیںہے، کوئی ان کی ذاتی غرض نہیں ہے، یہ اللہ کے بندے صرف اسی لئے پٹ رہے ہیں کہ ایک چیز کی صداقت ان پر منکشف ہوئی ہے ، تو ان کے دلوں میں آپ سے آپ یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ اس چیز کو معلوم کریں، آخر ایسی کیا چیز ہے جس کےلئے یہ لوگ ایسے ایسے مصائب برداشت کررہے ہیں ؟ پھر جب انہیں معلوم ہوتاکہ وہ چیز ہے لا الہ الااللہ ، اور اس سے انسانی زندگی میں اس نوعیت کاانقلاب رونما ہوتا ہے، او ر اس دعوت کو لے کر ایسے لوگ اٹھے ہیں جو محض صداقت و حقیقت کی خاطر دنیا کے سارے فائدوں کو ٹھکرا رہے ہیں اور جان ومال ، اولاد ،ہر چیز کو قربان کررہے ہیں ، تو ان کی آنکھیں کھل جاتی تھیں۔ ان کے دلوں پر جتنے پردے پڑے ہوئے تھے وہ چاک ہونے لگتے تھے۔ اس پس منظر کے ساتھ یہ سچائی تیر کی طرح نشانے پر جاکر بیٹھتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ بجز ان لوگوں کے جن کو ذاتی وجاہت کے تکبر یا اجداد پرستی کی جہالت، یا اغراض دنیوی کی محبت نے اندھا بنا رکھا تھا، اور سب لوگ اس تحریک کی طرف کھنچتے چلے گئے ۔ کوئی جلدی کھنچا اور کوئی زیاد ہ دیر تک اس کشمکش کی مزاحمت کرتا رہا، مگر دیر یا سویر ہر صداقت پسند، بے لوث آدمی کو اس طرف کھنچنا ہی پڑا
اس دوران میں تحریک کے لیڈر نے اپنی شخصی زندگی سے اپنی تحریک کے اصولوں کا اور ہر اس چیز کاجس کےلئے یہ تحریک اٹھی تھی، پورا پورا مظاہرہ کیا۔ ان کی ہر بات، ہر فعل اور ہر حرکت سے اسلام کی روح ٹپکتی تھی اور آدمی کی سمجھ میں آتا تھا کہ اسلام کسے کہتے ہیں۔ یہ ایک بڑی تفصیل طلب بحث ہے جس کی تشریح کا یہاں موقع نہیں۔ مگر مختصراً چند نمایاں باتوں کا میں یہا ں ذکر کرونگا
ان کی بیوی حضرت خدیجہ حجاز کی سب سے مالدار عورت تھیں اور وہ ان کے مال سے تجارت کرتے تھے۔ جب اسلام کی دعوت شروع ہوئی تو آنحضرت کا سارا تجارتی کاروبار بیٹھ گیا کیونکہ ہمہ تن اپنی دعوت میں مصروف ہوجانے اورتمام عرب کو اپنا دشمن بنالینے کے بعد یہ کام نہ چل سکتا تھا۔ جو کچھ پچھلا اندوختہ تھا اس کو میاں اور بیوی دونوں نے اس تحریک کے پھیلانے پر چند سال میں لٹا دیا۔آخر کار نوبت یہاں تک آئی کہ جب انحضرت اپنی تبلیغ کے سلسلہ میں طائف تشریف لے گئے تو وہ شخص جو کبھی حجاز کا ملک التجار تھا ،اس کو سواری کےلئے ایک گدھا تک میسر نہ ہوا۔( اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد۔۔۔۔)
قریش کے لوگوں نے آنحضرت کے سامنے حجاز کا تخت پیش کیا۔ کہا کہ ہم آپ کو اپنا بادشاہ بنا لیں گے، عرب کی حسین ترین عورت آپ کے نکاح میں دے دیں گے ، دولت کے ڈھیر آپ کے قدموں میں لگا دیں گے بشرطیکہ آپ اس تحریک سے باز آجائیں۔ مگر وہ شخص جو انسان کی فلاح کےلئے اٹھا تھا ، اس نے ان سب پیش کشوں کو ٹھکرا دیا اور گالیاں اور پتھر کھانے پرراضی ہوگیا
قریش اور عرب کے سرداروں نے کہاکہ محمد! ہم تمہارے پاس کیسے آکر بیٹھیں اور تمہاری باتیں کیسے سنیں جب کہ تمہاری مجلس میں ہروقت غلام، مفلس(معاذاللہ) کمین لوگ بیٹھے رہتے ہیں ۔ ہمارے ہاں جو سب سے زیادہ نیچے طبقے کے لوگ ہیں ان کو تم نے اپنے گردوپیش جمع کررکھا ہے ، انہیں ہٹاؤ تو ہم تم سے ملیں، مگر وہ شخص جو انسانوں کی او نچ نیچ برابرکرنے آیا تھا اس نے رئیسوں کی خاطر غریبوں کودَھتکارنے سے انکار کردیا
اپنی تحریک کے سلسلہ میں آنحضرت نے اپنے ملک ، اپنی قوم، اپنے قبیلہ ، اپنے خاندان ،کسی کے مفاد کی پرواہ نہیں کی۔ اسی چیز نے دنیا کو یقین دلایا کہ آپ انسان بحیثیت انسان کی فلاح کےلئے اٹھے ہیں، اور اسی چیز نے آپ کی دعوت کی طرف ہر قوم کے انسانوں کو کھینچا۔ اگرآپ اپنے خاندان کی فکر کرتے تو غیر ہاشمیوں کو اس فکر سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی؟ اگر آپ اس بات کےلئے کبھی بے چین ہوتے کہ قریش کے اقتدار کوتو کسی طرح بچالوں تو غیر قریشی عربوں کو کیا پڑی تھی کہ اس کام میں شریک ہوتے؟ اگر آپ عرب کی برتری کےلئے اٹھتے تو حبش کے بلال، روم کے صہیب اور فارس کے سلمان کو کیا غرض تھی کہ اس کام میں آپ کا ساتھ دیتے؟ دراصل جس چیز نے سب کو کھینچا وہ خالص خدا پرستی تھی، ہر ذاتی، خاندانی، قومی، وطنی غرض سے مکمل بے لوثی تھی
مکہ سے جب آپ کو ہجرت کرنا پڑی تو وہ تمام امانتیں جودشمنوں نے آپ کے پاس رکھوائی تھی، حضرت علی کے سپرد کرکے نکلے کہ میرے بعد ہر ایک کی امانت اس کو پہنچا دینا ۔دنیا پرست ایسے موقع پر جو کچھ ہاتھ لگتا ہے ، لے کر چلتے ہیں۔ مگر خدا پرست نے اپنی جان کے دشمنوں ، اپنے خون کے پیاسوں کا مال بھی انہیں واپس پہنچانے کی فکر کی اور اس وقت کی جب کہ وہ اس کے قتل کا فیصلہ کرچکے تھے۔ یہ وہ اخلاق تھا جس کو دیکھ کر عرب کے لوگ دنگ رہ گئے ہونگے اور مجھے یقین ہے کہ جب وہ دو سال کے بعد بدر کے میدان میں آنحضرت کے خلاف لڑنے کھڑے ہوئے ہونگے تو ان کے دل اندر سے یہ کہہ رہے ہونگے کہ یہ تم کس سے لڑرہے ہو؟ اس فرشتہ خصلت انسان سے جو قتل گاہ سے رخصت ہوتے وقت بھی انسانوں کے حقوق اور امانت کی ذمہ داری کو نہیں بھولتا؟ اس وقت ان کے ہاتھ ضد کی بنا پر لڑتے ہونگے مگر ان کے دل اند ر سے بھینچ رہے ہونگے ۔ عجب نہیںکہ بدر میں کفار کی شکست کے اخلاقی اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہو
۳١ برس کی شدید جدوجہد کے بعد وہ وقت آیا جب مدینہ میں اسلام کا ایک چھوٹا سا اسٹیٹ قائم کرنے کی نوبت آئی۔ اس وقت ڈھائی تین سو کی تعداد میں ایسے آدمی فراہم ہوچکے تھے جن میںسے ایک ایک اسلام کی پوری تربیت پاکر اس قابل ہوچکا تھا کہ جس حیثیت میں بھی اسے کام کرنے کا موقع ملے، مسلمان کی حیثیت سے اس کو انجام دے سکے۔ اب یہ لوگ ایک اسلامی اسٹیٹ کو چلانے کےلئے تیار تھے ۔ چنانچہ وہ قائم کردیا گیا۔ دس برس تک رسول اللہ نے اس اسٹیٹ کی رہنمائی کی اور مختصر سی مدت میں ہر شعبہ حکومت کو اسلامی طرز پر چلانے کی پوری مشق ان لوگو ں کو کرادی۔ یہ دور اسلامی آئیڈیالوجی کے ایک مجرد تخیل(abstract idea) سے ترقی کرکے ایک مکمل نظام تمدن بننے کا دور ہے جس میں اسلام کی انتظامی ، تعلیمی، عدالتی، معاشی، معاشرتی، مالی ، جنگی ، بین الاقوامی پالیسی کا ایک ایک پہلو واضح ہوا، ہر شعبہ زندگی کےلئے اصول بنے ، ان اصولوں کو عملی حالات پر منطبق کیا گیا، اس خاص طرز پر کام کرنے والے کارکن تعلیم اور تربیت اور عملی تجربہ سے تیار کئے گئے ، اور ان لوگوں نے اسلام کی حکمرانی کاایسا نمونہ پیش کیا کہ آٹھ سال کی مختصر مدت میں مدینہ جیسے ایک چھوٹے سے قصبہ کااسٹیٹ پورے عرب کی سلطنت میں تبدیل ہوگیا، جوں جوں لوگ اسلام کو اس کی عملی صورت میں اور اس کے نتائج کو محسوس شکل میں دیکھتے تھے، خود بخود اس بات کے قائل ہوجاتے تھے کہ فی الوقع انسانیت اس کا نا م ہے اور انسا نی فلاح اسی چیز میں ہے۔ بدترین دشمنوں کو بھی آخر قائل ہوکر اسی مسلک کو قبول کرنا پڑا جس کے خلاف وہ لڑ رہے تھے۔ خالد بن ولید قائل ہوئے ۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ قائل ہوئے ۔ابوسفیان قائل ہوئے ۔ قاتلِ حمزہ وحشی قائل ہوئے، ہندِ جگر خوار تک کو آخر اس شخص کی صداقت کے آگے سر تسلیم خم کردینا پڑا جس سے بڑھ کر اس کی نگاہ میں کوئی مبغوض نہ تھا
غلطی سے تاریخ نگاروں نے غزوات کو اتنا نمایاں کردیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں عرب کا یہ انقلاب لڑائیوں سے ہوا۔ حالانکہ آٹھ سال کی تمام لڑائیوں میں جن سے عرب جیسی جنگجو قوم مسخر ہوئی، طرفین کے جانی نقصان کی تعداد ہزا ر بارہ سو سے زیادہ نہیں ہے۔ انقلابات کی تاریخ اگر آپ کے پیش نظر ہے تو آپ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ انقلاب غیر خونی انقلا ب(bloodless revolution) کہے جانے کا مستحق ہے۔ پھر اس انقلاب میں فقط ملک کا طریق انتظام ہی تبدیل نہیں ہوا بلکہ ذہنیتیںبدل گئیں۔نگاہ کا زاویہ بدل گیا، سوچنے کاطریقہ بدل گیا،زندگی کا طرز بدل گیا، اخلاق کی دنیا بدل گئی، عادات اور خصائل بدل گئے، غرض ایک پوری قوم کی کایا پلٹ کر رہ گئی۔ جو زانی تھے وہ عورتوں کی عصمت کے محافظ بن گئے۔ جو شرابی تھے و ہ منع شراب کی تحریک کے علمبردار بن گئے۔جو چو راور اچکے تھے ان کا احساس دیانت اتنا نازک ہوگیا کہ دوستوں کے گھر کھانا کھانے میں بھی ان کو اس بنا پر تامل تھا کہ کہیں ناجائز طریقہ پر دوسروں کے مال کھانے کا اطلاق اس فعل پر بھی نہ ہوتا ہو، حتی کہ قرآن میں خود اللہ تعالی کوانہیں اطمینان دلانا پڑا کہ اس طرح کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جو ڈاکواور لٹیرے تھے وہ اتنے متدیّن بن گئے کہ ان کے ایک معمولی سپاہی کوپایہءتخت ایران کی فتح کے موقع پر کروڑوں کی قیمت کا شاہی تاج ہاتھ لگا اور وہ رات کی تاریکی میں اپنے پیوند لگے ہوئے کمبل میں اسے چھپا کر سپہ سالار کے حوالے کرنے کےلئے پہنچا تاکہ اس غیر معمولی واقعہ سے اس کی دیانت کی شہرت نہ ہوجائے اور اس کے خلوص پر ریاکاری کا میل نہ آجائے۔وہ جن کی نگاہ میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہ تھی،جو اپنی بیٹیوں کو اپنے ہاتھ سے زندہ دفن کرتے تھے، ان کے اندر جان کا اتنا احترام پیدا ہوگیا کہ کسی مرغ کو بھی بے رحمی سے قتل ہوتے نہ دیکھ سکتے تھے۔ وہ جن کو راست بازی اور انصاف کی ہوا تک نہ لگی تھی ان کے عدل اور راستی کا یہ حال ہوگیا کہ خیبر کی صلح کے بعد جب ان کاتحصیلدار یہودیوں سے سرکاری معاملہ وصول کرنے گیا تو یہودیوں نے اس کوایک بیش قرار رقم اس غر ض کےلئے پیش کی وہ سرکاری مطالبہ میں کچھ کمی کردے، مگر اس نے رشوت لینے سے انکار کردیا اور حکومت اور یہودیوں کے درمیان پیداوار کا آدھا آدھا حصہ اس طرح تقسیم کیا کہ دو برابر کے ڈھیر آمنے سامنے لگا دیئے اور یہودیوں کو اختیار دیا کہ دونوں میں سے جس ڈھیر کوچاہیں اٹھا لیں۔ اس نرالی قسم کے تحصیلدار کا یہ طرز عمل دیکھ کر یہودی انگشت بدندا ں رہ گئے اور بے اختیار ان کی زبانوں سے نکلا کہ اسی عدل پر زمین و آسمان قائم ہیں۔ ان کے اندر وہ گورنر پیدا ہوئے جوگورنمنٹ ہاؤسوں میں نہیں بلکہ رعایا کے درمیان انہی جیسے گھروں میں رہتے تھے ، بازاروںمیں پیدل پھرتے تھے، دروازوں پر دربان نہ رکھتے تھے، رات دن میں ہر وقت جو چاہتا تھا ان سے انٹرویو کرسکتا تھا۔ ان کے اندر وہ قاضی پیدا ہوئے جن میں سے ایک نے ایک یہودی کے خلاف خود خلیفہ وقت کا دعوی اس بنا پر خارج کردیا کہ خلیفہ اپنے غلام اور اپنے بیٹے کے سواکوئی اور گواہ پیش نہ کرسکا۔ ان کے اندر وہ سپہ سالار پیدا ہوئے جن میں سے ایک نے دوران جنگ میںشہر خالی کرتے وقت پورا جزیہ یہ کہہ کراہل شہر کو واپس دیدیا کہ ہم اب تمہاری حفاظت سے قاصر ہیں، لہذا جو ٹیکس ہم نے حفاظت کے معاوضہ میں وصول کیا تھا اسے رکھنے کا ہمیں کوئی حق نہیں۔ان میں وہ سفیر پیدا ہوئے جن میں سے ایک نے سپہ سالار ایران کے بھر ے دربار میں اسلام کے اصول مساوات انسانی کا ایسا مظاہر ہ کیا اور ایران کے طبقاتی امتیازات پر ایسی بر محل تنقید کی کہ خدا جانے کتنے ایرانی سپاہیوں کے دلوں میں اس مذہب انسانیت کی عزت و وقعت کابیج اسی وقت پڑ گیا ہوگا۔ ان میں وہ شہری پیدا ہوئے جن کے اندر اخلاقی ذمہ داری کا احساس اتنا زبردست تھا کہ جن جرائم کی سزا ہاتھ کاٹنے اور پتھر مار مارک کر ہلاک کردینے کی صورت میں دی جاتی تھی ان کا اقبال خود آکر کرتے تھے اور تقاضا کرتے تھے کہ سزا دے کر انہیں گناہ سے پاک کردیا جائے تاکہ وہ چور یا زانی کی حیثیت سے خدا کی عدالت میں نہ پیش ہوں۔ ان میں وہ سپاہی پیدا ہوئے جو تنخواہ لے کر نہیں لڑتے تھے بلکہ اس مسلک کی خاطر جس پر وہ ایمان لائے تھے، اپنے خرچ پر میدان جنگ میں جاتے او ر پھر جومال غنیمت ہاتھ لگتا وہ سارا کا سارالاکر سپہ سالار کے سامنے رکھ دیتے۔کیا اجتماعی اخلاق اور اجتماعی ذہنیت کااتنا زبردست تغیر محض لڑائیوں کے زور سے ہوسکتاتھا؟ تاریخ آپ کے سامنے موجود ہے ۔ کہیں آپ کو کوئی ایسی مثال ملتی ہے کہ تلوار نے انسانوں کو اس طرح مکمل طور پر بدل ڈالا ہو؟ (رضی اللہ عنھم ور ضوا عنہ۔)
درحقیقت یہ ایک عجیب با ت معلوم ہوتی ہے کہ ٣١برس کی مدت میں تو کل ڈھائی تین سو مسلمان پیدا ہوئے مگر بعد کے دس سال میں سارا کا سارا ملک مسلمان ہوگیا۔ اس معمے کولوگ حل نہیں کرسکتے اس لیے عجیب عجیب توجیہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ بات بالکل صاف ہے ۔ جب تک اس نئی آئیڈیالوجی پر زندگی کانقشہ نہیں بنا تھا ، لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھاکہ یہ نرالی قسم کالیڈر آخر کیا بناناچاہتا ہے۔طرح طرح کے شبہات دلوں میںپیدا ہوتے تھے ۔ کوئی کہتا کہ یہ نری شاعرانہ باتیں ہیں۔ کوئی اسے محض زبان کی ساحری قرار دیتا ۔ کوئی کہتا کہ یہ شخص مجنوں ہوگیا ہے، اور کوئی اسے محض خیالی آدمی (visionary)قرار دے کر گویا اپنے نزدیک رائے زنی کا حق ادا کردیتا۔ اس وقت صر ف غیر معمولی سمجھ اور ذہانت رکھنے والے لوگ ہی ایمان لائے جن کی نگاہ حقیقت میں اس نئے مسلک میں انسانی فلاح کی صورت صاف دیکھ سکتی تھی۔ مگرجب اس نظام فکر پر ایک مکمل نظام حیات بن گیااور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے اس کام کو ہوتے ہوئے دیکھ لیااور اسکے نتائج ان کے سامنے عیاناً آگئے تب ان کی سمجھ میں آیا کہ یہ چیز تھی جس کو بنانے کےلئے وہ اللہ کانیک بندہ دنیا بھر کے ظلم سہہ رہا تھا۔ اس کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کےلئے پاؤ ں جمانے کاکوئی موقع نہ رہا۔ جس کی پیشانی پر بھی دو آنکھیں تھیں اور ان آنکھوں میں نور تھا اس کےلئے آنکھوں دیکھی حقیقت سے انکار کرنا غیر ممکن ہوگیا
یہ ہے اس اجتماعی انقلاب کے لانے کا طریقہ جس کو اسلام برپا کرنا چاہتا ہے۔ یہی اس کاراستہ ہے، اسی ڈھنگ پر وہ شروع ہوتا ہے اور اسی تدریج سے وہ آگے بڑھتا ہے ۔ لوگ اس کو معجزہ کی قسم کا واقعہ سمجھ کر کہہ دیتے ہیں کہ اب یہ کہاں ہوسکتا ہے۔ نبی ہی آئے تو یہ کام ہو۔ مگر تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ بالکل ایک طبعی قسم کا واقعہ تھا۔ اس میں علت و معلول کا پورا منطقی اورسائنٹیفک ربط ہمیں نظر آتا ہے۔ آج بھی ہم اسی ڈھنگ پر کام کریں تو وہی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ اس کام کےلئے ایمان، شعور اسلامی، ذہن کی یکسوئی، مضبوط قوت فیصلہ اور شخصی جذبات اور ذاتی امنگوں کی سخت قربانی درکار ہے۔ اس کےلئے ان جواں ہمت لوگوں کی ضرورت ہے جو حق پر ایمان لانے کے بعد اس پر پوری طرح نظر جمادیں، کسی دوسری چیز کی طرف توجہ نہ کریں۔ دنیا میں خواہ کچھ ہو ا کرے، وہ اپنے نصب العین کے راستے سے ایک انچ نہ ہٹیں۔ دنیوی زندگی میں اپنی ذاتی ترقی کے سارے امکانات کو قربان کردیں،اپنی امیدوں کا اور اپنے والدین کی تمناؤں کا خون کرتے ہوئے نہ جھجکیں، عزیزوں اور دوستوں کے چھٹ جانے کا غم نہ کریں، سوسائٹی، حکومت ، قانون، قوم ، وطن جو چیز بھی ان کے نصب العین کی راہ میں حائل ہو اس سے لڑجائیں۔ ایسے لوگوں نے پہلے بھی اللہ کا کلمہ بلند کیاتھا، ایسے ہی لوگ آج بھی کریں گے، اور یہ کام ایسے ہی لوگوں کے کئے سے ہوسکتا ہے (اللھم ا جعلنا منھم)۔
دل لہُو لہُو
آج تیسرا دن ہے کہ میں دِل کٹا ہوا محسوس کرتا ہوں
دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور کلیجہ بار بار منہ کو آتا ہے
وہ ہزارہ تھے
وہ شیعہ تھے
درست کہ میں اُن کے مسلک سے اختلاف رکھتا ہوں
مگر وہ انسان تھے
کیا اللہ نے ۔ اُس اللہ نے جس کا میں مُسلم ہوں
کسی انسان کے اس طرح ہلاک کئے جانے کی اجازت دی ہے ؟
جس طرح جمعہ کے دن کوئٹہ میں 100 سے زائد بے قصور انسانوں کو بغیر کسی اشتعال کے خُون میں نہلا دیا گیا ؟
کہاں ہے انسانیت ؟
کہاں مر گئی جمہوریت ؟
پچھلے 53 سے زائد گھنٹوں سے ہلاک کئے جانے والوں کےسینکڑوں لواحقین 86 میّتوں کو لئے برفانی سردی میں کھُلے آسمان تلے بیٹھے ہیں ۔ کل بارش بھی اُن پر برستی رہی اور اُنہوں نے ذرا سی جُنبش نہ کی
آخر اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتے ہیں ؟
پہلے بھی اسی طرح اُن کے درجنوں ساتھی ہلاک کئے گئے مگر حکومت نے کچھ نہ کیا
اللہ کے بندو ۔ اور کچھ نہیں کر سکتے تو اُن سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج تو کرو
چند سو لوگ جو کئی شہروں میں کل سے احتجاج کرتے ہوئے کھُلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں
اگر اُن کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے تو قلم سے تو احتجاج کر سکتے ہیں
جیسا کہ عدالتِ عظمٰی بہت پہلے فیصلہ دے چکی ہے بلوچستان کی حکومت ناکام ہو چکی ہے
بلوچستان کی حکومت کو فوری طور پر ہٹایا جائے اور وہاں دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں
عام لوگ
آج کا دن عام لوگوں کے نام جو میری طرح نام نہیں کام کیلئے کام کرتے ہیں ۔ میری یاد داشت چونکہ بہت گڑبڑ ہو چکی ہے اسلئے جس کا نام لکھنے سے رہ گیا وہ اپنے آپ کو شامل سمجھے
عام لوگ عام ہی ہوتے ہیں ۔ یہ باتیں کم اور عمل زیادہ کرتے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اَنٹ شَنٹ باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن دل میں سب کی قدر کرتے ہیں اور عمل میں منہمک ہوتے ہیں ۔ ان عام لوگوں کے نام اخبارات میں نہیں چھَپتے اور نہ ٹی چینلز والے انہیں بلاتے ہیں ۔ یہ لوگ خاموشی سے بڑے بڑے کام کرتے جاتے ہیں ۔ میں آج چند ایسے ہی لوگوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں
1 ۔ شروع شروع میں اُردو چابی تختہ میرے پاس نہیں تھا میں بڑی مشکل سے اپنے بلاگ پر لکھتا تھا ۔ میری اس تکلیف کو ایک نوجوان نے بھانپ لیا اور ایک اُردو کا چابی تختہ بھیج دیا جسے انسٹال کر کے میں بلا دقت اُردو لکھنے لگا ۔ یہ نوجوان (جو اب شاید جوان کہلاتا ہو گا) ہے حارث بن خُرم
2 ۔ حدیث کی اہمیت پر لکھنا چاہ رہا تھا لیکن جس کتاب کا میں مطالعہ کرنا چاہتا تھا وہ مجھے اسلام آباد میں نہ ملی ۔ میں نے پوچھا ”کہاں سے ملے گی” تو میرے گھر کا پتہ پوچھا گیا
کچھ دن بعد ایک پارسل ملا جس میں مطلوبہ کتاب کے ساتھ چند اور چھوٹی چھوٹی کُتب تھیں ۔ بھیجنے والے ہیں خاور بلال صاحب جو اُن دنوں کراچی میں تھے ۔ اُن کا ٹیلیفون نمبر لیا ۔ کچھ دن بعد نذرانہ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے ٹیلیفون کیا تو جواب ملا ”نہیں ہیں“۔ نمبر کسی دفتر کا تھا ۔ چند دنوں کے وقفے سے ٹیلیفون کرتا رہا مگر بات نہ ہو سکنے پر تشریح چاہی ۔ بتایا گیا کہ وہ ملازمت چھوڑ کر جا چکے ہیں
3 ۔ پھر ایک دن نعیم اختر (الف نظامی) صاحب نے آ کر دروازے کی گھنٹی بجائی اور میرے گھر کو رونق بخشی ۔ کچھ کُتب تحفہ کر کے میرے کندھوں پر وزن اور بڑھا گئے ۔ کچھ روز بعد اُن کے درِ دولت پر نیاز پیش کرنے کیلئے راولپنڈی گیا ۔ گو میں راولپنڈی میں 16 سال رہا ہوں مگر اس علاقے میں پہلی بار جانے کا اتفاق ہوا تھا ۔ میں کوشش کے باوجود الف نظامی صاحب کی رہائش گاہ تک نہ پہنچ سکا
4 ۔ ستمبر 2010ء میں جاپان کی بنی ہوئی ایک پرانی گاڑی خرید لی ۔ اس کے ساتھ صرف ایک چابی ملی ۔ میں احتیاطی آدمی ہوں اسلئے دوسری چابی کیلئے کوشش کی تو معلوم ہوا اس کی نقل شاید نہ بن سکے ۔ جاپان میں کچھ لوگوں سے صرف بلاگی تعارف تھا ۔ اُنہیں درخواست کی ۔ یاسر صاحب نے ریموٹ چابی بھیج دی جو جیب میں ہو تو کار چلائی جا سکتی ہے ۔ قیمت پوچھی تو جواب ملا ”کچھ خیرات کر دیں”۔ سُبحان اللہ ۔ دسمبر 2012ء میں چاپان سے آئے تو ملنے بھی آ گئے
5 ۔ جب بلاگسپاٹ پر حکومت نے پابندی لگائی تو میں نے اپنا بلاگ ورڈ پریس پر منتقل کیا ۔ ملتان والے قدیر صاحب نے زور دار طریقے سے پیشکش کر دی ”انکل ۔ میں آپ کو ایک تھیم اُردوا کر دیتا ہوں وہ لگائیں“۔ پیشکش معصومانہ تھی اسلئے ٹھکرانا مناسب نہ سمجھا ۔ گو اُس تھیم کو اپنے بیٹے زکریا کی مدد سے بہت تبدیل کر چکا ہوں مگر اس کی سی ایس ایس میں قدیر صاحب کا نام قائم رکھا ہوا ہے ۔ 2011ء میں ایک دن قدیر صاحب نے ٹیلیفون پر پتہ پوچھا اور بتایا کہ اسلام آباد آئے ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا ”کہاں ہیں ؟ میں لینے آ جاؤں“۔ کہنے لگے ”کافی دور ہوں ۔ میں خود آتا ہوں”۔ اور آگئے
6 ۔ خرم صاحب امریکا میں ہوتے ہیں انہوں نے میرا پتہ پو چھا ۔ پھر ایک دن ٹیلیفون آیا کہ لاہور سے بس میں اسلام آباد آ رہے ہیں ۔ کہنے لگے ”آپ تکلیف نہ کریں ۔ میں خود آ جاؤں گا ” بہر کیف میں اُنہیں پشاور موڑ سے لے آیا ۔ پشاور موڑ میرے گھر سے 2 کلومیٹر ہے اور بس کا اڈا 20 کلو میٹر ۔ مجھے ملنے کے بعد وہ واپس لاہور کی بس پر سوار ہو گئے ۔ یعنی صرف مجھ سے ملاقات کیلئے اسلام آباد آئے تھے ۔ میری اتنی زیادہ عزت افزائی !
7 ۔ پچھلے سال سعد صاحب نے مطلع کیا کہ تعلیم کے سلسلہ میں اسلام آباد آ چکے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں ۔ قیام عارضی طور پر سیکٹر جی 9/2 میں بتایا جو کہ ہمارے گھر سے 2 کلو میٹر ہے ۔ پیدل یا ٹیکسی پر آنا چاہتے تھے ۔ میں نے اَن سُنی کی اور جا کر اُنہیں لے آیا ۔ خود بولتے نہ تھے اور مجھے بُلواتے رہے ۔ جب میری باتیں ختم ہو گئیں تو واپس چھوڑ آیا ۔ پھر ایک دن اطلاع دی کہ کوئی تقریب ہو رہی ہے جس سے اُردو بلاگنگ کا تعلق ہے اور داخلہ کھُلا ہے ۔ سو ان کے ساتھ میں بھی گیا ۔ وہاں بڑے بڑے لوگوں یعنی شاکر قادری ۔ امجد علوی ۔ ایم بلال ایم ۔ الف نظامی صاحبان اور کئی دوسرے مہربانوں سے ملاقات ہوئی ۔ سعد صاحب نہ بتاتے تو میں محروم رہ جاتا
چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ مُشکل
کوئی مُشکل حقیقت میں مُشکل نہیں ہوتی
مُشکل دراصل مُشکل پر ردِ عمل پیدا کرتا ہے
میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء میں ورڈ پریس نے اسے 10 بہترین بلاگز میں سے ایک قرار دیا تھا اور بلاگ ابھی تک اپنی حثیت بحال رکھے ہوئے ہے ۔ 2012ء کی رپورٹ دیکھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے
گفتار و کردار
مجھے اس بلاگ کو شروع کئے 7 سال 8 ماہ ہو چکے ہیں ۔ اس بلاگ کے شروع کرنے کا مقصد جو کہ سرِ ورق درج ہے یہ ہے کہ ”میں انسانی فرائض کے بارے میں اپنےعلم اور تجربہ کو نئی نسل تک پہنچاؤں”۔
پچھلے 5 سال سے کچھ زیرک قارئین وقفے وقفے سے میری توجہ بلاگ کے مقصد کی طرف دلاتے ہوئے ذاتی تجربات بیان کرنے کا کہتے رہتے ہیں ۔ میری کوشش رہی کہ میں ایسے تجربات بیان نہ کروں جن سے میرا ذاتی تعلق ہو لیکن کچھ ہفتے قبل ایک ہمدرد قاری نے کہا ”آپ کے ہر تجربہ بلکہ علم میں بھی آپ کی ذات کا عمل دخل ہے تو پھر آپ پوری طرح اپنے وہ تجربات ہم تک کیوں نہیں پہنچاتے جن سے آپ نے اس دنیا کے کاروبار کو پہچانا ؟“
میں اس پر کئی ہفتے غور کرتا رہا اور آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ مجھے سوائے قومی راز کے اپنی زندگی کے تمام واقعات جوان نسل تک پہنچانے چاہئیں تاکہ جوان نسل کے عِلم میں وہ زمینی حقائق آ سکیں جو اللہ کے دیئے ہوئے ہمارے مُلک پاکستان کی موجودہ حالت کا پیش خیمہ ہیں ۔ آج اس سلسلہ کی پہلی تحریر ۔ اللہ مجھے اس مقصد میں کامیابی عطا فرمائے
میں نے یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی ۔ 1965ء میں اُس وقت کے ٹیکنیکل چیف جو مکینیکل انجنیئر اور کرنل تھے نے ہم 9 نئے افسران کو بُلا کر حُکمانہ قسم کا مشورہ دیا کہ ہم آرڈننس کلب کے ممبر بن جائیں ۔ دراصل وہ کلب کے پریذیڈنٹ بھی تھے ۔ باقی 8 تو واہ چھاؤنی ہی میں رہتے تھے وہ ممبر بن گئے ۔ میں راولپنڈی سے آتا جاتا تھا ۔ سوچا کہ کلب جا تو سکوں گا نہیں ممبر بن کر کیا کروں گا لیکن دوستوں کے تلقین کرنے پر چند ماہ بعد ممبر بن گیا
ستمبر میں جنگ شروع ہوئی تو مجھے حُکم ملا کہ واہ چھاؤنی میں رہوں ۔ میں نے آفیسرز میس میں ایک سوِیٹ (Suite) لے لیا اور واہ چھاؤنی میں رہنا شروع کر دیا ۔ آرڈننس کلب سڑک کے پار آفیسرز میس کے سامنے تھی ۔ اکتوبر 1965ء میں کلب میں سکواش کھیلنا شروع کر دیا ۔ کچھ ہفتے بعد خیال آیا کہ دیکھا جائے کلب میں کیا ہوتا ۔ معلوم ہوا کہ ایک طرف ایسی جگہ ہے جہاں لوگ بیٹھ کر مشروبات پیتے ہیں جن میں اُم الخباعث بھی ہے ۔ یہ خبر میرے دل میں ایک سوئی کی طرح پیوست ہو گئی
اگلے سال جو نئے انجنیئر بھرتی ہوئے ان میں کچھ ہم خیال مل گئے تو افسران سے رابطہ مہم شروع کی ۔ کچھ لوگوں کی حمائت کے ساتھ ایک سینیئر افسر کی حمائت ملنے پر کلب کی جنرل باڈی میٹنگ بلانے کا نوٹس دے دیا ۔ ان سینئر افسر صاحب کو اللہ جنت میں جگہ دے صاف گو شخص تھے ۔ ذہین ۔ محنتی ۔ باکردار اور بے باک شخص تھے اسلئے نام لکھ دیتا ہوں ”محمد اصدق خان“
اس دوران پہلے کرنل صاحب ریٹائر ہو گئے تھے اور ان کے نائب لیفٹننٹ کرنل صاحب ٹیکنیکل چیف اور کلب کے پریذیڈنٹ بن گئے تھے ۔ نئے صاحب کی ہر کسی کو پند و نصائح کرنے کی عادت تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ نمازی ہیں اور باعمل بھی ۔ میٹنگ شروع ہوئی تو سب سے پہلے محمد اصدق خان صاحب نے قراداد پڑھ کر اس کی تائید کی
کلب کے پریذیڈنٹ صاحب نے تقریر جھاڑ دی جس کا لُبِ لباب یہ تھا کہ شراب کی فروخت سے کلب کو بہت فائدہ ہوتا ہے اور یہ فائدہ دراصل ممبران کو ہے
اس کے بعد میں اُٹھا اور کہا ”ہمارے دین میں نہ صرف شراب نوشی کی ممانعت ہیں اس کی فروخت اور اس سے منافع حاصل کرنے کی بھی ممانعت ہے ۔ کتنے ممبران ہیں جو اس منافع کمانے کی حمائت کرتے ہیں ؟ آپ ہاتھ کھڑے کریں“۔
کسی نے ہاتھ کھڑا نہ کیا اور میں یہ کہہ کر بیٹھ گیا کہ شراب کی فروخت بند کر کے ممران کا ماہانہ چندہ زیادہ کر دیجئے
پریزیڈنٹ صاحب پھر بولے ”ایسے ہی کلب کے فیصلے نہیں کر لئے جاتے ۔ اس کیلئے کلب کی انتظامی کمیٹی کی منظوری ہوتی ہے”۔
میں نے اُٹھ کر کلب رولز کی متعلقہ شق پڑھ دی جس کے مطابق فیصلہ جنرل باڈی کی اکثریت کا حق تھا
اس پر میرے باس اُٹھے اور شراب کی فروخت سے کلب کو ہونے والی آمدن کے فوائد بیان کئے
میں نے پھر روسٹرم پر جا کر کہا”حضورِ والا ۔ اگر یہ کلب روپیہ کمانے کیلئے بنایا گیا ہے تو پھر یہاں طوائفوں کے مُجرے کا بھی بند و بست کر دیجئے ۔ بہت منافع ہو گا“۔
اس پر میرے باس طیش میں آ گئے اور مجھے بہت سخت سُست کہا (میں الفاظ نہیں لکھنا چاہتا)۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ مزید ممبران میرے طرفدار ہو گئے
مجبور ہو کر رائے شماری کرائی گئی تو بھاری اکثریت نے شراب نوشی بند کرنے کے حق میں ووٹ دیئے اور شراب نوشی جاری رکھنے کے حق میں کوئی ووٹ نہ آیا ۔ اس قرار داد پر عمل درآمد کرانے میں ہمیں 6 ماہ لگے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ آرڈننس کلب میں شراب نوشی بند ہو گئی
کلب کی اس جنرل باڈی میٹنگ کے بعد یہ راز بھی افشاء ہوا کہ سب کو پند و نصائح کرنے والے پریذیڈنٹ صاحب اور کچھ اور پاکباز نظر آنے والے صاحبان بھی اُم الخباعث سے شغف رکھتے تھے
پھر میرے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا وہ ایک الگ کہانی ہے لیکن میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا بہت شکر گذار ہوں کہ نہ میں نے کسی انسان کے آگے کبھی ہاتھ پھیلایا اور نہ کبھی میری عزت میں کمی آئی ۔ مزے کی بات کہ جب بھی کوئی مُشکل ٹیکنیکل یا قانونی مسئلہ درپیش ہوتا تو مجھے ناپسند کرنے والے یہ بڑے افسران مجھے ہی مشورہ کیلئے بُلاتے
یہ کرم ہے میرے اللہ کا مجھ ایسی کوئی بات نہیں ہے
پاکستان نہیں بننا چاہیئے تھا؟
دنیا کا سب سے بڑا مذہب غربت ہے ۔ یقین نہیں آتا تو اس عورت کا تعاقب کر کے دیکھیں جو سامنے ایک بھارتی شہر کے ریلوے سٹیشن پر گھوم رہی ہے ۔ وہ ایک مسلمان عورت ہے جس کا نام بیگم ہے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ ریلوے اسٹیشن کے ٹوائلٹ میں داخل ہوگی اور جب باہر آئے گی تو اس کا نام بیگم کی بجائے لکشمی ہو گا، ماتھے پر سندور ہوگا ، ہاتھ میں چوڑیاں ،گلے میں منگل سوتر اور بدن پر ساڑھی…اللہ کے نام والا تعویز اس کے بازو پر نہیں ہوگا۔ اب وہ ایک روایتی شادی شدہ ہندو عورت ہے لیکن صرف صبح 9 سے شام 5 بجے تک ۔گھر واپس جا کر وہ دوبارہ اپنے مذہب میں ”داخل“ ہو جائے گی ۔ بیگم سے لکشمی تک کا سفر میرے اور آپ کے لئے تو شائد حیرت اور تکلیف کا باعث ہو مگر اس مسلمان عورت کے لئے نہیں جو ”سیکولر“ بھارت میں رہتی ہے اور جسے اپنا پیٹ پالنے کے لئے ایک نوکری کی تلاش ہے ۔کئی برس ٹھوکریں کھانے کے باوجود جب بطور مسلمان اسے نوکری نہیں ملی تو اس کے غریب ذہن نے سمجھایا کہ اب ذرا ہندو بن کر بھی کوشش کرو ، اس نے یہی کیا اور کام بن گیا ۔ آج کل وہ ایک ہسپتال میں آیا ہے ۔ حال ہی میں ہسپتال کی انتظامیہ نے اسے کہا ہے کہ” انہیں چند مزید لڑکیوں کی بھی ضرورت ہے مگر وہ مسلمان نہ ہوں ۔ اگر انہیں پتہ چل گیاکہ میں مسلمان ہوں تو وہ فوراً مجھے نوکری سے نکال دیں گے“۔
اس کے باوجود ہمارے سیکولر طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا
جس ملک میں عورتیں خود کو زندہ رکھنے کے لئے اتنی مجبور ہوں کہ اپنا ہونے والا بچہ ”ایڈوانس“ پکڑ کر بیچ دیں اور یہ آپشن وہ تب استعمال کرتی ہوں جب ان کا اپنا خریدار کوئی نہ رہے،اس ملک میں کسی مسلمان عورت کا معمولی سی نوکری کی خاطر بھیس بدلنا تعجب کا باعث نہیں ہونا چاہئے ۔بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 13فیصد ہے جبکہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس میں مسلمان صرف 3 فیصد ہیں ،انڈین فارن سروس میں 1.8 فیصد اور انڈین پولیس سروس میں 4 فیصد ۔ بھارتی ریلویز میں 14لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں صرف 64,000 مسلمان ہیں جو 4.8 فیصد بنتا ہے اور اس میں سے بھی 98.7 فیصد وہ ہیں جو نچلے درجے کے ملازمین میں شمار ہوتے ہیں ۔ پھر بھی ،پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا
حال ہی میں بھارت نے ایک مسلمان سید آصف ابراہیم کو انٹیلیجنس بیورو کا چیف مقرر کیا ۔ اس اقدام نے ہمارے ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے دانشوروں کو بھنگڑے ڈالنے کا ایک اور موقع فراہم دیا اور ان کی زنبیل میں ایک اور دلیل کا اضافہ ہو گیا ۔ بھارت کا (سابقہ) صدر مسلمان ، آئی بی کا چیف مسلمان ، فلم انڈسٹری کا بادشاہ مسلمان ۔ ”اب بھی کہتے ہو کہ پاکستان بننا چاہئیے تھا۔ you loosers “
بھارتی صدر تو خیر ایک رسمی سا عہدہ ہے جس کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ بھارت اس عہدے کو اپنا سیکولر امیج بہتر بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ بھارت کے جاسوسی ادارے میں مسلمان سربراہ کی تعیناتی 125 سال میں پہلی مرتبہ عمل میں آئی ہے اور اس کا مسلمانیت سے کتنا تعلق ہے ، اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی مختلف سیکورٹی ایجنسیوں میں 90 لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں دفاع کی تینوں ایجنسیاں بھی شامل ہیں ۔ ان میں سے جب 5 لاکھ 20 ہزار افراد کا ڈیٹا کھنگالا گیا تو معلوم ہوا کہ ان ایجنسیوں میں مسلمان عہدے داروں کا تناسب فقط 3.6 فیصد ہے جبکہ نچلے درجے کے ملازمین میں سے 4.6 فیصد مسلمان ہیں ۔ اوررہی بات فلم انڈسٹری کی تو جو لوگ شاہ رخ خان ،عامر خان اور سلمان خان کو سچ مچ کا مسلمان سمجھتے ہیں ان کے حق میں علامہ طاہر القادری سے دعا ہی کروائی جا سکتی ہے
اگراب بھی کسی سیکولر بھائی کا یہ خیال ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا تو انہیں چاہئیے کہ فوراً ممبئی میں اپنا ایک فلیٹ بک کروا لیں لیکن خیال رکھیں کہ اس فلیٹ میں ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہو کیونکہ ودیا بالن کے بھارت کی کل آبادی لگ بھگ ایک ارب 20 کروڑ ہے جن میں سے نصف کو ٹوائلٹ کی سہولت ہی میسر نہیں ا ور مسز بالن اس ضمن میں بہت پریشان ہیں ۔ انہوں نے بھارتیوں کو شرم دلانے کے لئے ایک مہم بھی چلائی مگر بے سود ۔ بھارت ماتا میں 60کروڑ لوگ بغیر ٹوائلٹ کے زندگی گزارتے ہیں ۔ جھارکنڈ، اڑیسہ اور بہار میں یہ شرح 75فیصد سے بھی زیادہ ہے اور ان تینوں ریاستوں کی کل آبادی پورے پاکستان کے برابر ہے ۔ بنگلور جسے بھارت کی سِلیکون ویلی کہا جاتا ہے ، بھارت کے ماتھے کا سندور ہے ۔ رات گئے جب 60 لاکھ آبادی کا یہ شہر سو جاتا ہے تو نچلی ذات کے ہندو جنہیں اچھوت یا دلت کہا جاتا ہے 15000 کی تعداد میں نکلتے ہیں اور 60 لاکھ شہریوں کا گند صاف کرتے ہیں ۔ پورے بھارت مہان میں یہ کام کرنے والوں کی تعداد سرکار کے مطابق 3 لاکھ جبکہ اصل میں 10 لاکھ کے قریب ہے اور یہ لوگ اوسطً 4 ڈالر یومیہ سے بھی کم کماتے ہیں ۔ بھارتی شہروں میں مسلمانوں کی غربت ان اچھوتوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔ بھارت کے وہ چھوٹے دیہات جہاں مسلمانوں کی آبادی نسبتاً زیادہ ہے (اکثریت نہیں ہے) ان میں سے ایک تہائی ایسے ہیں جہاں سرے سے کوئی سکول ہی نہیں ہے ۔ اور ایسے بڑے دیہات جہاں مسلمان بستے ہیں ، ان میں سے 40 فیصد میں کسی بھی قسم کی کوئی صحت کی سہولت میسر نہیں ۔ یہ بیان مجھ جیسے کسی تنگ نظر مسلمان کا نہیں بلکہ بھارت کی مشہور زمانہ سچر کمیشن رپورٹ کا نتیجہ ہے ۔مگر کیا کریں . پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا ؟
پاکستان اور بھارت کا مقابلہ کرنا مقصد ہے اور نہ مجھے اس بات پر ڈھول بجانے کا شوق ہے کہ اگر ہمارے ہاں 22.6 فیصد افراد 73 پنس یومیہ سے بھی کم آمدن رکھتے ہیں تو کیا ہوا، بھارت میں یہی شرح 41.6 فیصد ہے ۔ یہاں اگر بچے غذائی کمی کا شکار ہو کر مرتے ہیں تو بھارت میں یہ شرح دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے لہذا ہمیں گھوڑے بیچ کر سو جانا چاہئے ۔ اگر پاکستان میں بچے 5 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کسی بیماری کی وجہ سے مر جاتے ہیں تو بھارت میں سالانہ 21 لاکھ بچے ایسے ہیں جو under weight پیدا ہوکر مرجاتے ہیں لہذا ہم پھر جیت گئے
جی نہیں ، ایسی جیت پر لعنت اور ایسا سوچنا پرلے درجے کی حماقت ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس بنیاد پر پاکستان بنا کیا وہ نظریہ درست تھی ؟ نظریہ بڑا سادہ تھا کہ اگر مسلمان متحدہ ہندوستان میں رہے تو بطور اقلیت انہیں ان کے حقوق نہیں ملیں گے ۔ اس بات کا تعین کرنے کا سادہ ترین طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کیا بھارت کا ایک عام مسلمان پاکستانی مسلمان سے بہتر حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے ؟ پاکستان کی تمام جملہ خرابیوں کے باوجود ،جن میں زیادہ تر حصہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ہے اورجو فوجی آمریتوں کی دین ہے ، ایک عام پاکستانی کے حالات بھارتی مسلمان سے کہیں بہتر ہیں ۔ ہمیں صرف بھارتی فلم اور میڈیا کی چکا چوند دکھائی دیتی ہے، یہ پتہ نہیں چلتا کہ سیکولر بھارت میں فقط ہندو ہی ”دبنگ“ ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قوم دھنیا پی کر سو جائے
جتنا جذبہ ہم بھارت کو کرکٹ کے میدان میں ہرانے کے لئے بروئے کار لاتے ہیں اگر اس کا 10 فیصد بھی ہم دیگر شعبوں میں استعمال کریں تو
ہمارا بین الاقوامی امیج بھارت سے بہتر ہو جائے گا۔ بھارت کا امیج اس کی ”The Dirty Picture“کی وجہ سے بہتر ہے جبکہ ہم اپنے ملک کی dirtiest pictureپینٹ کرتے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کے وجود پر معذرت خواہانہ رویہ اپنا لیتے ہیں ، لاحول ولا۔
تحریر ۔ یاسر پیرزادہ