مجھے اس بلاگ کو شروع کئے 7 سال 8 ماہ ہو چکے ہیں ۔ اس بلاگ کے شروع کرنے کا مقصد جو کہ سرِ ورق درج ہے یہ ہے کہ ”میں انسانی فرائض کے بارے میں اپنےعلم اور تجربہ کو نئی نسل تک پہنچاؤں”۔
پچھلے 5 سال سے کچھ زیرک قارئین وقفے وقفے سے میری توجہ بلاگ کے مقصد کی طرف دلاتے ہوئے ذاتی تجربات بیان کرنے کا کہتے رہتے ہیں ۔ میری کوشش رہی کہ میں ایسے تجربات بیان نہ کروں جن سے میرا ذاتی تعلق ہو لیکن کچھ ہفتے قبل ایک ہمدرد قاری نے کہا ”آپ کے ہر تجربہ بلکہ علم میں بھی آپ کی ذات کا عمل دخل ہے تو پھر آپ پوری طرح اپنے وہ تجربات ہم تک کیوں نہیں پہنچاتے جن سے آپ نے اس دنیا کے کاروبار کو پہچانا ؟“
میں اس پر کئی ہفتے غور کرتا رہا اور آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ مجھے سوائے قومی راز کے اپنی زندگی کے تمام واقعات جوان نسل تک پہنچانے چاہئیں تاکہ جوان نسل کے عِلم میں وہ زمینی حقائق آ سکیں جو اللہ کے دیئے ہوئے ہمارے مُلک پاکستان کی موجودہ حالت کا پیش خیمہ ہیں ۔ آج اس سلسلہ کی پہلی تحریر ۔ اللہ مجھے اس مقصد میں کامیابی عطا فرمائے
میں نے یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی ۔ 1965ء میں اُس وقت کے ٹیکنیکل چیف جو مکینیکل انجنیئر اور کرنل تھے نے ہم 9 نئے افسران کو بُلا کر حُکمانہ قسم کا مشورہ دیا کہ ہم آرڈننس کلب کے ممبر بن جائیں ۔ دراصل وہ کلب کے پریذیڈنٹ بھی تھے ۔ باقی 8 تو واہ چھاؤنی ہی میں رہتے تھے وہ ممبر بن گئے ۔ میں راولپنڈی سے آتا جاتا تھا ۔ سوچا کہ کلب جا تو سکوں گا نہیں ممبر بن کر کیا کروں گا لیکن دوستوں کے تلقین کرنے پر چند ماہ بعد ممبر بن گیا
ستمبر میں جنگ شروع ہوئی تو مجھے حُکم ملا کہ واہ چھاؤنی میں رہوں ۔ میں نے آفیسرز میس میں ایک سوِیٹ (Suite) لے لیا اور واہ چھاؤنی میں رہنا شروع کر دیا ۔ آرڈننس کلب سڑک کے پار آفیسرز میس کے سامنے تھی ۔ اکتوبر 1965ء میں کلب میں سکواش کھیلنا شروع کر دیا ۔ کچھ ہفتے بعد خیال آیا کہ دیکھا جائے کلب میں کیا ہوتا ۔ معلوم ہوا کہ ایک طرف ایسی جگہ ہے جہاں لوگ بیٹھ کر مشروبات پیتے ہیں جن میں اُم الخباعث بھی ہے ۔ یہ خبر میرے دل میں ایک سوئی کی طرح پیوست ہو گئی
اگلے سال جو نئے انجنیئر بھرتی ہوئے ان میں کچھ ہم خیال مل گئے تو افسران سے رابطہ مہم شروع کی ۔ کچھ لوگوں کی حمائت کے ساتھ ایک سینیئر افسر کی حمائت ملنے پر کلب کی جنرل باڈی میٹنگ بلانے کا نوٹس دے دیا ۔ ان سینئر افسر صاحب کو اللہ جنت میں جگہ دے صاف گو شخص تھے ۔ ذہین ۔ محنتی ۔ باکردار اور بے باک شخص تھے اسلئے نام لکھ دیتا ہوں ”محمد اصدق خان“
اس دوران پہلے کرنل صاحب ریٹائر ہو گئے تھے اور ان کے نائب لیفٹننٹ کرنل صاحب ٹیکنیکل چیف اور کلب کے پریذیڈنٹ بن گئے تھے ۔ نئے صاحب کی ہر کسی کو پند و نصائح کرنے کی عادت تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ نمازی ہیں اور باعمل بھی ۔ میٹنگ شروع ہوئی تو سب سے پہلے محمد اصدق خان صاحب نے قراداد پڑھ کر اس کی تائید کی
کلب کے پریذیڈنٹ صاحب نے تقریر جھاڑ دی جس کا لُبِ لباب یہ تھا کہ شراب کی فروخت سے کلب کو بہت فائدہ ہوتا ہے اور یہ فائدہ دراصل ممبران کو ہے
اس کے بعد میں اُٹھا اور کہا ”ہمارے دین میں نہ صرف شراب نوشی کی ممانعت ہیں اس کی فروخت اور اس سے منافع حاصل کرنے کی بھی ممانعت ہے ۔ کتنے ممبران ہیں جو اس منافع کمانے کی حمائت کرتے ہیں ؟ آپ ہاتھ کھڑے کریں“۔
کسی نے ہاتھ کھڑا نہ کیا اور میں یہ کہہ کر بیٹھ گیا کہ شراب کی فروخت بند کر کے ممران کا ماہانہ چندہ زیادہ کر دیجئے
پریزیڈنٹ صاحب پھر بولے ”ایسے ہی کلب کے فیصلے نہیں کر لئے جاتے ۔ اس کیلئے کلب کی انتظامی کمیٹی کی منظوری ہوتی ہے”۔
میں نے اُٹھ کر کلب رولز کی متعلقہ شق پڑھ دی جس کے مطابق فیصلہ جنرل باڈی کی اکثریت کا حق تھا
اس پر میرے باس اُٹھے اور شراب کی فروخت سے کلب کو ہونے والی آمدن کے فوائد بیان کئے
میں نے پھر روسٹرم پر جا کر کہا”حضورِ والا ۔ اگر یہ کلب روپیہ کمانے کیلئے بنایا گیا ہے تو پھر یہاں طوائفوں کے مُجرے کا بھی بند و بست کر دیجئے ۔ بہت منافع ہو گا“۔
اس پر میرے باس طیش میں آ گئے اور مجھے بہت سخت سُست کہا (میں الفاظ نہیں لکھنا چاہتا)۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ مزید ممبران میرے طرفدار ہو گئے
مجبور ہو کر رائے شماری کرائی گئی تو بھاری اکثریت نے شراب نوشی بند کرنے کے حق میں ووٹ دیئے اور شراب نوشی جاری رکھنے کے حق میں کوئی ووٹ نہ آیا ۔ اس قرار داد پر عمل درآمد کرانے میں ہمیں 6 ماہ لگے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ آرڈننس کلب میں شراب نوشی بند ہو گئی
کلب کی اس جنرل باڈی میٹنگ کے بعد یہ راز بھی افشاء ہوا کہ سب کو پند و نصائح کرنے والے پریذیڈنٹ صاحب اور کچھ اور پاکباز نظر آنے والے صاحبان بھی اُم الخباعث سے شغف رکھتے تھے
پھر میرے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا وہ ایک الگ کہانی ہے لیکن میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا بہت شکر گذار ہوں کہ نہ میں نے کسی انسان کے آگے کبھی ہاتھ پھیلایا اور نہ کبھی میری عزت میں کمی آئی ۔ مزے کی بات کہ جب بھی کوئی مُشکل ٹیکنیکل یا قانونی مسئلہ درپیش ہوتا تو مجھے ناپسند کرنے والے یہ بڑے افسران مجھے ہی مشورہ کیلئے بُلاتے
یہ کرم ہے میرے اللہ کا مجھ ایسی کوئی بات نہیں ہے
مورال آف دی اسٹوری:
بات کردار کی ہوتی ہے وگرنہ عارف !
قد میں تو سایہ بھی انسان سے بڑا ہوتا ہے
ہمارے لئے ایک قابل عمل تحریر ہے ۔ اچھے کاموں کے لئے اگر ہم ہمت کریں ( اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے( تو ان شاء اللہ پرابلم بہت سہل ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ بہت بہت شکریہ
عبدالرؤف صاحب
درست شعر لکھا ہے آپ نے
بالکل درست فرمایا !
بات صرف کردار کی ہوتی ہے۔آپ کبھی بھی دیکھ لیں ایک باکردار انسان بااصول بھی ہوتا ہے، اس نے اپنی ذات کے حوالے سے چند اصول وضح کئیے ہوتے ہیں۔
ہمارے ایک کالم نگار حسن نثار صاحب جنہیں میں دل جلے کالم نگار بھی کہتا ہوں کیوں کہ جب وہ اپنی تحریر و تقریر میں لوگوں کوآئینہ دکھاتا ہے توکچھ لوگ جل بھن کر کہتے ہیں کہ یار یہ ہمیشہ جلی کھٹی کیوں سناتا ہے، بقول ان کے “پاکستان ایک قوم نہیں ہجوم کا نام ہے۔” اور یہ بات کچھ غلط بھی نہیں کیوں کہ آج ہمارے معاشرے میں اخلاقی انحتاط، افراتفری، چور بازی، وعدہ خلافی، رشوت، بے ایمانی کی وجہ یہی ہے کہ بحیثیت مجموعی ہم اپنا کردار کھو چکے ہیں۔جب کردار نہیں تو کیسے اصول !
مبین قریشی صاحب
درست کہا آپ نے
وہ دور تو پھر اچھا تھا اب تو لوگ کلب چھوڑ ہر جگہ شراب پینے لگے ہیں۔ نقلی شراب اور نشوں سے روزانہ لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔
السلام علیکم انکل۔
ایک سبق آموز تحریر، میں اسے فورمز میں پھیلانا چاہتا ہوں، اجازت مرحمت فرمائیں گے؟
Excellent read, I just passed this onto a friend who was doing some research on that. And he just bought me lunch as I found it for him smile Thus let me rephrase that: Thanks for lunch! “Any man would be forsworn to gain a kingdom.”
عطاء رفیع صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ بہتری کیلئے ماضی سے سبق سیکھنا بری بات نہیں ہے ۔ اس لحاظ سے آپ اسے پھیلا سکتے ہیں ۔ ابھی اور تحاریر بھی آئیں گی
جزاک اللہ، ہمیں خوشی ہے ہمیں آپ جیسے بزرگ ملے ہیں۔ اللہ آپ کی عمر دراز کرے اور صحت و تندرستی عطا فرمائے۔
عطاء رفیع صاحب
نوازش کا شکریہ ۔ یہ آپ کا حسنِِ زن ہے ۔ میں تو ایک عام سا آدمی ہوں
السلام علیکم!
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔والصلوۃوالسلام علیٰ خاتم النبین وعلیٰ آل واصحاب اجمعین۔
بزرگ محترم! بہت بہت سبق آموزتحریر ہے۔ ایک مسلمان کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ پہلا قدم اٹھانا اہم ہوتا ہے۔ اور اللہ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کا اجر اللہ ہی بہتر دے سکتا ہے۔ اے کاش! باقی پاکستانی بھی ایسے ہی کردار کے مالک بن جائیں۔ میں آپ کے اس بہترین کام پر آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اور آپ کے لیے دعاگو ہوں۔ اللہ آپ پر اپنی رحمت فرمائے۔آمین!
آپ کا ایک ہم ملت بیٹا!
شیرافگن صاحب
حوصلہ افزائی اور نوازشات کا شکریہ ۔ اللہ ہی ہے جو نیکی کی توفیق عطا کرتا ہے ۔ اور شیطان سے بھی بچاتا ہے ۔ اللہ آپ کو بھی اپنے حفظ و ایمان میں رکھے