قدر و قیمت کا محاورہ تو سب نے سُن رکھا ہو گا لیکن بہت کم ہوں گے جنہوں نے اس کے معنی پر غور کیا ہو گا (شاید اسلئے کہ پچھلی 4 دہائیوں سے ہمارے تعلیمی ادارے غور کرنے کی تربیت سے عاری ہیں)۔ کسی چیز کی ایک تو قیمت ہوتی ہے جسے جنسِ مبادلہ کہا جا سکتا ہے اور ایک قدر ہوتی ہے ۔ قدر کا تعلق قیمت سے نہیں ہوتا بلکہ قیمت سے مبرّا دوسرے اوصاف سے ہوتا ہے جو قیمت سے کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں ۔ قدر قیمت کے برابر ۔ قیمت سے کم یا قیمت سے زیادہ ہو سکتی ہے اور بعض اوقات قیمت سے بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جس کے پاس زر کی فراوانی ہو وہ بیش قیمت چیز کی بھی قدر نہ کرے
آمدم بر سرِ مطلب ۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد پاکستانی ایک روپیہ بھارت کے ایک روپے کے برابر تھا ۔ چند سال بعد پاکستانی روپے کی قدر بڑھنے لگی اور ایک دہائی بعد پاکستانی ایک روپیہ بھارت کے ایک روپیہ 15 پیسے کے برابر ہو گیا اور یہ تناسب کم از کم 1969ء تک قائم رہا ۔ البتہ کھُلے بازار میں (open market) ایسا وقت بھی آیا تھا کہ ایک پاکستانی روپے کے بھارتی ایک روپیہ 30 پیسے تک مل جاتے تھے
پاکستان بننے سے قبل سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ہندوستان کا روپیہ اُن کے مقامی سکوں کی طرح چلتا تھا ۔ پاکستان بنا تو اس کی جگہ پاکستانی روپے نے لے لی ۔ پہلی ایک دہائی میں پاکستانی روپے کی قدر اتنی بڑی کہ ایک پاکستانی روپے کا سوا سعودی ریال ملتا تھا اور خلیجی ریاستوں میں اس سے بھی زیادہ درہم ملتے تھے
آجکل ہر طرف ڈالر کا رَولا ہے ۔ ماضی میں پاکستانی روپیہ بھی امریکی ڈالر اور برطانوی پاؤنڈ کی طرح قابلِ قدر تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے کرنسی نوٹ پر گورنر بینک دولتِ پاکستان کی طرف سے لکھا ہوتا تھا ”میں وعدہ کرتا ہوں کہ حاملِ ھذا کو جس دارالاِجراء سے وہ چاہے عندالطلب مبلغ ۔ ۔ ۔ روپیہ ادا کروں گا“۔ دیکھیئے 1972ء سے پہلے کے 10 اور 100 روپے کے نوٹ
یہاں ”جس دارالاجراء سے وہ چاہے“ کا مطلب ہے کہ جس مُلک کی کرنسی میں وہ مانگے ۔ یہی وجہ تھی کہ اُس دور میں یعنی 1971ء تک اگر کسی غیر ملک میں جانا ہو تو غیر ملکی زرِ مبادلہ ڈالر یا پاؤنڈ وغیرہ حاصل کرنے کا کوئی چکر نہیں ہوتا تھا ۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ مشرق وسطہ میں دُکاندار اپنے مال کے عوض روپے کے نوٹ پوری قیمت پر لے لیتے تھے ۔ یورپ میں خاص خاص دُکاندار بھی ایسا ہی کرتے تھے اور کسی بنک میں جا کر روپے دے کر اس کے بدلے بغیر کسی نقصان کے مقامی کرنسی حاصل کی جا سکتی تھی
یہ سلسلہ بوجوہ 1972ء میں ختم ہو گیا اور پاکستانی کرنسی پر تحریر امتیازی وعدہ بھی چھپنا بند ہو گیا ۔ موجودہ کرنسی کے نوٹ دیکھیئے جن میں سے 100 اور 500 روپے کے نئے نوٹوں کی تصاویر نچے دی گئی ہیں
ان پر لکھا ہے ”حاملِ ھذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا“۔ اس میں ایک تو صرف روپے ہی ادا کرنے کا وعدہ ہے اور دوسرے واضح نہیں کہ کون ادا کرے گا ؟
اگر مُلک کے حکمران مُلک کی آمدن سے کم خرچ کریں تو کرنسی کی قدر بڑھتی ہے ۔ ایسی کرنسی کو مضبوط کرنسی کہا جاتا ہے ۔ کرنسی کی قدر کے ساتھ اس کی قیمت بھی بڑھنے لگتی ہے جیسا کہ پاکستان بننے کے بعد 2 دہائیوں تک ہوا ۔ اگر مُلک کے حکمران مُلک کی آمدن سے زیادہ خرچہ کریں تو کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہنے سے کرنسی کی قیمت گرتی جاتی ہے ۔ حکمران مُلک کو جتنا زیادہ نقصان پہنچائیں گے کرنسی کی قیمت اتنی ہی تیزی سے گرے گی ۔ پاکستانی روپیہ قیمت کے لحاظ سے تو اب بھی 100 پیسے کے برابر ہے ۔ نظر ڈالتے ہیں اس کی قدر کے سفر پر
پاکستان بننے سے لے کر 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بننے تک ساڑھے 23 سال (باوجود امریکی ڈالر کی قدر بڑھنے کے) ایک امریکی ڈالر 4.75 روپے کے برابر رہا
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1972ء میں اچانک روپے کی قیمت کم کر دی اور ایک امریکی ڈالر 11 روپے کا ہو گیا ۔ پھر چند ماہ بعد دوبارہ تبدیلی کر کے ایک امریکی ڈالر 9.90 روپے کا کر دیا گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 48 پیسے رہ گئی
ضیاء الحق کی حکومت کے دوران 1988ء تک 11 سال میں ایک امریکی ڈالر 17 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 28 پیسے رہ گئی
بینظیر بھٹو کی حکومت کے پہلے دور میں 1990ء تک 2 سال میں ایک امریکی ڈالر 22 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 21.6 پیسے رہ گئی
نواز شریف کی حکومت کے پہلے دور میں 1993ء تک ایک امریکی ڈالر 25.69 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 18.5 پیسے رہ گئی
بینظیر بھٹو کی حکومت کے دوسرے دور میں 1996ء تک ایک امریکی ڈالر 40.22 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 11.8 پیسے رہ گئی
نواز شریف کی حکومت کے دوسرے دور میں 1999ء تک ایک امریکی ڈالر 51.75 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 9 پیسے رہ گئی
پرویز مشرف کی حکومت میں 2008ء تک ایک امریکی ڈالر 62 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 7.6 پیسے رہ گئی
آصف علی زرداری کی پونے 5 سالہ دورِ حکومت میں ایک امریکی ڈالر 97.75 روپے کا ہو گیا ہے ۔ یعنی روپے کی قدر 4.8 پیسے سے بھی کم رہ گئی ہے
یعنی 1971ء میں جس چیز کی قیمت ایک روپیہ تھی وہ چیز اب کم از کم 21 روپے کی ہے
زبردست بہت معلوماتی تحریر ہے
ہم ملک سے باہر رہنے والوں کو تو اور بھی عجیب لگتا ہے
مثلا” جب میں نے پہلی بار آجکل والا روہپے کا سکہ دیکھا تو اس پہ بہت ترس آیا وہ واقعی ‘بیچارہ روپیہ ‘ لگ رہا تھا شروع میں جو سکہ پیسے کا نکلا تھا جس کو ٹیڈی پیسہ بھی کہتے تھے وہ بھی اس ماڈرن روپے سے بہتر شکل و صورت کا تھا
باقی رہا قدر کا سوال تو خیر جانے دیجئے کیا ذکر کیا جائے
روپے کی قدر میںکمی سے غیرملکی قرضوں میںبھی لامحدود حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔
“واضح نہیں کہ کون ادا کرے گا”
بینک دولت پاکستان ادا کرے گا۔ پوری عبارت سے مطلب واضح ہو جاتا ہے۔
“بینک دولت پاکستان ایک سو روپیہ حامل ہذا کو مطالبے پر ادا کرے گا۔ حکومتِ پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا۔”
مطلب اس کا یہ ہے کہ یہ کاغذی نوٹ روپیہ نہیں۔ پاکستانی روپیہ صرف اس سکے کا نام ہے جو حکومت جاری کرتی ہے۔ کاغذی نوٹ ایک ضمانتی بانڈ ہے کہ بینک دولت پاکستان حامل کو ایک سو روپے (سکے( ادا کرے گا۔
موجو صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ
بھائی وھاج الدین احمد صاحب
آپ نے خوب یاد کرایا ۔ پاکستان کا پہلا پیسہ قیمت اور سائز دونوں میں بڑا تھا ۔ ایک روپے میں 64 پیسے ہوتے تھے ۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان نے اعشاری نظام اپنایا تو ایک روپے کے 100 پیسے ہو گئے ۔ اس پیسے کا سائز چھوٹا کر دیا گیا تھا چنانچہ لوگوں نے اس کا نام ٹیڈی پیسہ رکھ دیا تھا ۔ وہ پیسے تانبے کے ہوتے تھے ۔ آپ نے درست کہا کہ موجودہ روپیہ اُس ٹیڈی پیسے سے بھی کمتر ہے اور اب تو تانبے کی بجائے ایک اور 2 روپے کے سکے ایلومنیم کے بنتے ہیں
افضل صاحب
آپ نے درست کہا
نوجوان صاحب
آپ دسرت سمجھے ۔ اصل سکہ ایک روپیہ ۔ برطانیہ میں ایک پوؤنڈ ۔ امریکا میں ایک ڈالر ہی ہے ۔ پرانے زمانے میں یہ سکہ سونے کا ہوتا تھا اور کسی بھی ملک میں چل جاتا تھا ۔ پھر چاندی کا سکہ بننا شروع ہوا ۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کی مالی حالت پتلی ہو گئی تو ہندوستان کا روپیہ چاندی اور نکل کی آمیزش سے بننا شروع ہوا ۔ میں نے بچپن میں چاندی کا روپیہ دیکھا تھا ۔ اُس کی قیمت نکل چاندی والا سوا روپیہ تھی
بہت ہی معلوماتی تحریر ہے۔ اتنی محنت اور تحقیق کر کے یہ معلومات ہم تک پہنچانے کا شکریہ
فرحان محمود صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ
کل شام میرے سسر صاحب ۔۔ اسی موضوع پر بحث کر رہے تھے ۔ کہ جب انہیں انڈین ریلوے میں نوکری ملی تو ان ی تنخواہ 98 روپئے تھی ۔ تو وہ اکاؤنٹٹ کلرک سے مزاحا” کہا کرتے تھے کہ بھئی صرف 2 روپیئے بڑھا دو کہ مجھے 100 کا بڑا نوٹ مل جائے ۔ ۔ ۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں 100 کا نوٹ “بڑا” ہوتا تھا۔۔۔۔
بہت دلچسپ مگر کڑوی معلومات ہیں ۔۔ ۔ شکریہ سر ۔ ۔ ۔
نور محمد صاحب
پانچ سو روپے کا نوٹ پاکستان میں پہلی بار 1957ء میں متعارف ہوا تھا اور لوگ کہتے تھے اتنا بڑا نوٹ ۔ میں جب شادی کے بعد 1968ء میں واہ چھاؤنی منتقل ہوا تو ہمارا ماہانہ خرچ ساڑھے تین سو روپے ہوتا تھا
محترم افتخار اجمل بھوپال صاحب!
معلوماتی مضمون ہے، اگر اس موضوع پر چائے کی تاریخ کی طرح ایک تحقیقی مقالہ ہو جائے تو کیا بات ہے۔
جزاک اللہ خیراََ۔
م ش ا صاحب
اِن شاء اللہ میں آپ کی فرمائش پوری کرنے کی کوشش کروں ۔ لیکن جب میں نے چائے پر تحقیق کی تھی اور اب میں کچھ فرق ہے ۔ میری RAM مجروح ہو چکی ہے یعنی میں سوچنے کی صلاحیت سے کافی حد تک محروم ہو چکا ہوں ۔ ایسا 28 ستمبر 2010ء کو ہوا تھا جب ایک تیز رفتار موٹر سائیکسٹ نے مجھے ٹکر ماری اور ساتھ اُٹھا لیا ۔ گرنے سے قبل میرا سر سڑک پر ہتھوڑے برساتا رہا ۔ اللہ کرم ہے کہ میں باقی لحاظ سے ٹھیک ہوں
بہترین مضمون لکھا سر. معلومات میں جو اضافہ ہوا ہے اس کے بعد اب رونے کو جی چاہ رہا ہے.
رائے م ازلان صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ