Yearly Archives: 2012

آسان اور مشکل ؟

دنیا میں سب سے آسان کام

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ دوسروں پر تنقید کرنا ہے

دنیا میں سب سے مشکل کام

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ اپنی اصلاح کرنا ہے

اختیار ہر ایک کا اپنا اپنا ہے
غیر کو موردِ الزام ٹھہرانا ذاتی کمزوری ہے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter“۔

” پچھلے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء ميں ورڈ پريس نے اسے 10 بہترين بلاگز ميں سے ايک قرار ديا تھا

رمشا مسیح مقدمہ ۔ امام مسجد گرفتار

تازہ ترین اطلاع کے مطابق کم عمر مسیحی لڑکی رمشا جو مقدس اوراق جلانے کا الزام میں گرفتار کی گئی تھی کے معاملے میں ملوث امام مسجد خالد جدون جو کیس درج کرانے کے بعد پراسرار طور پر لا پتہ ہو گیا تھا کو اب گرفتار کر کے آج اُسے ریمانڈکیلئے جوڈیشل مجسٹریٹ نصرمن اللہ بلوچ کی عدالت میں پیش کیا گیا ۔ عدالت نے گرفتار امام مسجد خالد جدون کو 14روز کے ریمانڈ پر اڈیالہ راولپنڈی جیل بھیج دیا گیا اور 16ستمبر کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے

امام مسجد پر الزام ہے کہ اس نے رمشا کے خلاف کیس مضبوط کرنے کے لئے جلائے گئے اوراق کی راکھ میں خود سے قرآنی اوراق بھی شامل کئے تھے

دریں اثناء چیئرمین آل پاکستان علماء کونسل علامہ طاہر اشرفی نے ملک بھر کے علماء سے اس معاملے میں ملوث امام مسجد خالد جدون کو سزا دلانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ انہوں نے صدر پاکستان آصف علی زرداری سے بھی مطالبہ کیا کہ رمشا مسیح کی فوری رہائی کے ساتھ اسکی حفاظت کے بھی احکامات جاری کئے جائیں

دیوانگی کا رقص ہے اور ہم ہیں دوستو

آسمان گواہ ہے کہ خود کو اذيت پہنچانے کي ہماري صلاحيت کا اس کرّہ ِ ارض پر کوئي حريف نہيں ہے۔ ہميں را، سي آئي اے يا موساد کي سازشوں کي محتاجي نہيں ہے۔ يہ بیچاري ايجنسياں تو اس خرابي کا عشر عشير بھي نہيں سوچ سکتيں جو ہم اپنے ليے خود برضا ورغبت پيدا کرتے رہتے ہيں

ابھي توہين کے قوانين کي بحث ختم نہيں ہوئي تھي کہ ايک اور کيس نے سر اٹھا ليا ۔ يہ کيس ہے کيا ؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے ليے ميں اسلام آباد کے ايک نواحي علاقے مہرہ جعفر ، جہاں يہ واقعہ پيش آيا،کي بل کھاتي ہوئي گليوں ميں گيا اور وہاں ميري ملاقات احمد، جو کہ
اس کيس ميں مدعي ہے سے ہوئي ميں اپنے ذہن ميں يہ تصور ليے ہوئے تھا کہ مير ي ملاقات کسي مذہبي جنوني سے ہوگي مگر مجھے يہ ديکھ کر حيرت ہوئي کہ احمد نہايت دوستانہ انداز ميں ملا۔ وہ پانچويں جماعت تک پڑھا ہے اور کچھ پڑھ سکتا ہے مگر لکھنا نہيں جانتا ۔ وہ جی ۔ 11 مارکيٹ ميں سي اين جي فٹنگ کي ورکشاپ چلاتا ہے۔ احمد نے بتایا کہ اُس نے ديکھا کہ رمشا نے کچھ جلے ہوئے کاغذات ايک پلاسٹک بيگ ميں اٹھائے ہوئے تھے۔ ديکھنے پر پتا چلا کہ وہ نوراني قاعدے کے اوراق ہيں

تمام مسلمان جانتے ہيں کہ يہ کلامِ الٰہي نہيں بلکہ عربي کے حروفِ تہجي اور ان کا تلفّظ سکھانے والا ايک بنيادي قاعدہ ہے مگر ايک نيم خواندہ شخص اسے مقد س کتاب سمجھ بيٹھا۔ ميں نے احمد سے کہا کہ ايک لمحے کے ليے بھول جائيں کہ اُس نے کيا جلايا تھا۔ کيا اُس چھوٹي سي لڑکي کا اسلام سے کوئي جھگڑا ہے ؟ اُس نے کہا کہ ايسا نہيں ہے ۔ وہاں موجود ديگر افراد نے بھي اس کي تصديق کي۔ ميں نے پوچھا
کہ چنداوراق نذر ِ آتش ہونے سے اسلام کي عظمت کو کيا خطرہ ہے تو اس کا ان کے پاس کوئي جواب نہ تھا۔ کيا رمشا کسي کے مذہبي جذبات مجروح کرنا چاہتي تھي؟ اس پر وہ پھر خاموش رہے۔

رمشا کا چھوٹا سا گھر، جو اب مقفل ہے احمد کے ہمسائے ميں ہے اور يہ ايک گندا سا علاقہ ہے جہاں گٹر کا سياہ پاني پھيلاہوا تھااور گلي ميں جس اونچي جگہ پر گندا پاني نہيں جا سکتا تھا، وہاں گندي گھاس اُگي ہوئي تھي، کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک بيگ بکھرے ہوئے تھے ۔ اس گلي کے دونوں طرف ايک ايک کمرے پر مشتمل چھوٹے چھوٹے گھر ہيں۔ اس سے کچھ آگے محلہ بوديل کي مسجد ہے۔ اس علاقہ میں ٹوبہ ٹيک سنگھ، فيصل آباد اور سرگودھا کے مزدور پيشہ افراد رہتے ہيں۔ ايک 10 يا 11 سالہ لڑکي مہرين نور نے بتايا کہ وہ جلے ہوئے کاغذات لے کر امام مسجد کے پاس گئي تھي۔ جب مہرين نے ميرے چہرے پر استفہاميہ تاثرات ديکھے تو اس نے کہا ”جب ميں نے وہ جلے ہوئے کاغذات ديکھے تو ميرا کليجہ پھٹ گيا اور ميں سکتے ميں آگئي“۔

اس کے بعد امام صاحب نے ہنگامي بنيادوں پر اہل ِ علاقہ کي ميٹنگ بلائي اور رمشا کے خاندان کو ايک گھنٹے کے اندر اندر علاقہ چھوڑنے کا حکم ديا۔ اس واقعہ کي پوليس کو بھي اطلاع دي گئي۔ يہ معاملہ اس وقت بگڑ گيا جب يہ خبر نزديکي بازار ميں پہنچي اس سے ايک ہنگامہ کھڑا ہو گيا اور اس ميں پيش پيش کراچي سے آئے ہوئے ايک اُردو بولنے والے صاحب جو اس بازار ميں ايک جنرل اسٹور چلاتے ہيں تھے ۔ مقامي مسجد سے اعلانات کے بعد ايک ہجوم جمع ہو گيا اور سڑک بلاک کردي گئي ۔ اس کے بعد يہ ہجوم رمنا پوليس اسٹيشن پہنچا اور احمد کي مدعيت ميں رمشا کے خلاف توہين کي رپٹ لکھوائي اور اس لڑکي کو گرفتار کر ليا گيا۔ کسي پوليس افسر نے يہ معلوم کرنے کي زحمت نہ کي اصل واقعہ کيا پيش آيا تھا اور کيا اتني چھوٹي لڑکي کسي طرح کے توہين کے کيس ميں ملوث ہو سکتي ہے يا نہيں ۔ پوليس نے مشتعل ہجوم کو ٹھنڈا کرنے کي بجائے رپورٹ درج کر لي۔

رمشا کے علاقے کے بازار ميں ميں نے لوگوں کے ايک گروہ سے کہا کہ ميرے گھر ميں روزانہ 6 يا 7 اخبارات آتے ہيں۔ اردو اخبارات ميں مذہبي ضميمے ہوتے ہيں اور مقدس مقامات کي تصاوير ہوتي ہيں مگر جب يہ اخبارات پرانے ہوجاتے ہيں تو ان کو تلف کر ديا جاتا ہے يا ردي ميں فروخت کرديا جاتا ہے تو کيا اس کا يہ مطلب ليا جائے کہ ميں يا ميرے گھر والے توہين کے مرتکب ہوتے ہيں ؟ ان افراد کاکہنا تھا کہ يہ توہين نہيں ہے کيونکہ تمام اخبار بين ايسا ہي کرتے ہيں۔ پھر رمشا نے کيسي توہين کي ؟

اسلام آباد پوليس نے پہلے دن ہي اپني ذمہ داري سے انحراف کيا اور اب بھي يہ تمام بوجھ عدليہ کے کندھوں پر ڈال رہي ہے حالانکہ تفتيش کرنا اس کا کام ہے۔ اسے چاہئے تھاکہ حوصلے سے کام ليتے ہوئے اس واقعے کي تحقيق کرتي اور يہ واضح کر ديتي کہ اس چھوٹي لڑکي سے کوئي توہين سرزد ہوئي ہے يا نہيں

ايک اور بات ۔ پاکستان کا نام پوري دنيا ميں بدنام کرنے پر کيا ” توہين ِ پاکستان “ کا کوئي کيس نہيں بننا چاہئے ؟

بشکریہ ۔ اخبار جنگ

بات جو نہیں لکھی

دو دن قبل میں نے جس تبدیلی کا ذکر کیا تھا وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی شکل میں خُوبصورت اور پُرکشش وعدوں کے سہارے اُبھر رہی تھی ۔ وہ وعدے جو ایفاء کیلئے نہیں بلکہ عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے تھے ۔ یہ ترکیب ہمارے مُلک کے حساب سے بہت کامیاب رہی اور عوام کی اکثریت اب تک بیوقوف بن رہے ہیں اور ہر دم بننے کو چوکس رہتے ہیں

میرے متذکرہ باس اُسی تبدیلی کا سہارا لے کر خُوب خُوب مزے لوٹتے رہے اور قوم و مُلک سے مُخلص محنتی افسروں کو مُشکل میں رکھنے کی پوری کوشش کرتے تھے تا کہ جی حضوریوں کا گروہ اُن کے گرد جمع رہے لیکن اللہ نے اپنا نظام وضع کر رکھا ہے ورنہ دُنیا کب کی تباہ ہو چُکی ہوتی ۔ درست کہ میری ترقیاں سالوں تاخیر سے ہوئیں پھر بھی مجھے 1987ء میں گریڈ 20 مل گیا تھا اور جب 3 اگست 1992ء کو 53 سال سے کم عمر میں میں اپنی مرضی سے ریٹائر ہوا تو میں گریڈ 20 کی تنخواہ کی آخری حد (Maximum of the Pay Scale) پر پہنچ چکا تھا ۔ اللہ کا فضل ہے کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد گھر بیٹھا تھا تو مجھے پہلے سے دوگنا سے زیادہ تنخواہ والی اور باعزت ملازمت مل گئی ۔ میں نے اپنی گریچوئٹی اور جی پی فنڈ سے سرمایہ کاری کر دی اور ملازمت شروع کر دی ۔ جو کچھ ریٹائرمنٹ کے بعد والی تنخواہ سے بھی بچتا رہا اُسے سرمایہ کاری میں لگاتا رہا ۔ 60 سال کی عمر کو پہنچا تو میرے چھوٹے بیٹے نے کہا “ابو ۔ اب میں کمانے لگ گیا ہوں ۔ آپ آرام کریں”۔ سو میں نے ملازمت ختم کر دی اور ہمہ تن گوش مطالعہ میں لگ گیا ۔ اللہ کے فضل سے میرے بچے بھی میرا ہاتھ بٹاتے رہتے ہیں اور آج تک اللہ کے کرم سے مزے میں ہوں

یا اللہ ۔ ۔ ۔

لکھنا تو تھا اپنی گذشتہ کل کی تحریر کا درمیانی نقطہ جو جان بوجھ کر چھوڑ دیا تھا کہ تبصرے متاءثر نہ ہوں لیکن خلافِ معمول اخبار کی سُرخیاں دیکھنے لگا تو نظر نیچے درج خبر پر اٹکی

پانچ سات سال قبل خبر پڑھی تھی کہ لاڑکانہ کا رہائشی ایک بی ایس سی انجنیئر اپنے گھر کی انتہائی مفلسی سے تنگ آ کر ڈاکو بن گیا تھا تو دل پر ایک گھاؤ لگا تھا
معزز قارئین نامعلوم کیا کہیں گے لیکن آج نیچے نقل کردہ خبر کو پڑھ کر میں اندر سے ہِل گیا ہوں اور میرا دھاڑیں مار کر رونے کو دل چا رہا ہے

یا میرے خالق و مالک میرے اللہ ۔ تو جانتا ہے کہ میں نے 1947ء میں جب میں بچہ تھا بہت بُرے دن دیکھے اور پھر نام نہاد عوامی دور (1973ء تا 1976ء) میں بھی بمشکل گھر کا خرچ چلایا لیکن بچانا مجھے اُس دن سے جب میں حالات کے سامنے مجبور کر دیا جاؤں ۔ اگر ایسا دن اٹل ہے تو اے رحمٰن و رحیم و کریم مجھ پر اپنا رحم و کرم کرتے ہوئے مجھے اُس دن سے پہلے موت دے دینا

خبر
ايس ايس پی سکھر پير محمد شاہ اور ڈی ايس پی لاڑکانہ محمد نديم نے سکھر ميں مشترکہ پريس کانفرنس کرتے ہوئے بتايا کہ ڈاکوؤں کا گروہ مغوی آفتاب احمد کو لاڑکانہ سے کہيں اور مُنتقل کررہا تھا کہ پوليس اور ڈاکوؤں کے درميان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس ميں ڈاکو غازی جاگيرانی ۔ اللہ رکھيو سيال اور اس کے ديگر ساتھی مارے گئے اور مغوی بازياب کرا ليا گیا ۔ پوليس کے مطابق مارا جانے والا ڈاکو غازی جاگيرانی پی ايچ ڈی (Ph.D) ڈاکٹر ہے

وفاداری ۔ کس سے ؟

زمانہ کیا بدلا طور طریقے بدل کے رہ گئے ۔ وفاداری کتے کی مشہور ہے لیکن بات ہے آدمی کی جو اشرف المخلوقات ہے ۔ واقعہ اُس زمانے کا ہے جب تبدیلی کی کونپل پھُوٹ چکی تھی یعنی تبدیلی کا نعرہ لگایا جا چکا تھا ۔ ایوب خان کے خلاف نعرہ لگا تھا اور کچھ نوجوانوں کو ” گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو” کہتے سُنا گیا

سن 1968ء میں میرے سپرد ایک نہائت اہم قومی پروجیکٹ تھا جس کی نشو و نما اور پیداوار کی منصوبہ بندی بہت کٹھن اور دماغ سوز کام تھا اس پر طرّہ یہ کہ سوائے اللہ کے میرا مددگار کوئی نہ تھا

میں اپنے دفتر میں بیٹھا اسی پروجیکٹ کے ایک اہم اور غور طلب جُزو کے لائحہ ءِ عمل پر غور و خوض میں غرق تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ کوئی میرے سامنے آ بیٹھا ہے ۔ میں نے سر اُٹھا کر نظرِ غائر ڈالی تو یہ میرے باس تھے جن کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں ۔ میرا ذہن ابھی فارغ نہ ہوا تھا کہ اُنہوں نے کچھ کہا جسے میرے مصروف دماغ نے کانوں میں گھُسنے نہ دیا ۔ میں باس کو تجسس بھری نظر سے دیکھنے لگ گیا ۔ وہ پھر بولے اور بات میرے کانوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی ۔ اُنہوں نے کہا تھا

“Bhopal, You should be loyal to your officer

(بھوپال ۔ تمہیں اپنے افسر کا وفا دار ہونا چاہیئے)”

میری سوچ کے سامنے جیسے پہاڑ گر پڑا ۔ میں نے جیسے کرب میں سر اُٹھایا اور نحیف اور انکسار آمیز آواز میں کہا
” میں نے کوئی ایسی بات کہی ہے یا کوئی ایسا فعل کیا ہے جو آپ یہ کہہ رہے ہیں ؟”

باس نے کہا

“I am telling you, you should be loyal to your officer

(میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ تمہیں اپنے افسر کا وفا دار ہونا چاہیئے)”

میری سوچ توبکھر ہی چُکی تھی جس نے میرے دل کو بوجھل کر دیا تھا ۔ لمحہ بھر توقف کے بعد میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے

“First I am loyal to my religion Islam because it is the way of life laid down by the Creator, then I am Loyal to Pakistan because it is my country, then I am loyal to Pakistan Ordnance Factories because Allah has provided me livelihood through it, and I think you are fully covered in it. If not then I am sorry.

(اول میں اپنے دین اسلام کا وفادار ہوں کہ یہ لائحہءِ حیات خالق نے مقرر کیا ہے پھر میں پاکستان کا وفادار ہوں کہ یہ میرا مُلک ہے پھر میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کا وفادار ہوں کیونکہ اللہ نے مجھے روزگار اس کے ذریعہ دیا ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ اس میں پوری طرح شامل ہیں ۔ اگر نہیں تو مجھے افسوس ہے)”۔

میرے باس یہ کہتے ہوئے میز پر مُکا مارا اور اُٹھ کر چلے گئے

” I say, you should be loyal to your officer

(میں کہتا ہوں کہ تمہیں اپنے افسر کا وفادار ہونا چاہیئے)”

بلاگران سے گذارش

عرصہ سے میں نے اس بلاگ کے حاشیہ میں مندرج روابط کی طرف توجہ نہیں دی تھی ۔ پچھلے دنوں کچھ بلاگ کھولنے کی کوشش کی تو ندارد جس سے اپنی بے توجہی کا احساس ہوا ۔ یعنی بلاگوں کے پتے تبدیل ہو چکے تھے ۔ ایک اور حقیقت سامنے آئی کی کچھ بلاگ جو پچھلے 2 سالوں میں نمودار ہوئے یا مجھے نظر پڑے وہ بھی درج نہیں ہیں ۔ چنانچہ جب وقت میسّر ہوا تو ان کے پتوں کی تلاش شروع کی جس میں کافی حد تک کامیابی ہوئی ۔ اب پرانے بلاگ حتی المقدور نئے پتوں کے ساتھ اور کچھ نئے بلاگ درج کر دیئے گئے ہیں ۔ وہ بلاگ جون پر پچھلے 2 ماہ میں کچھ تحریر نہیں کیا گیا اُنہیں شامل نہیں کیا گیا ۔ وہ بلاگ بھی شامل نہیں کئے گئے جو فلمی ہیں یا کاپی پیسٹ ہیں یا مشاعرہ ہیں

بلاگران سے گذارش ہے کہ توجہ فرمائیں اور نیچے دی گئی فہرست میں اپنے بلاگ کے عنوان پر کلِک کر کے کے دیکھ لیں کہ ان کے بلاگ کا پتہ درست درج کیا گیا ہے ۔ اگر کوئی صاحبہ یا صاحب متواتر لکھنے والے ہیں اور اُن کا بلاگ فہرست میں شامل نہیں وہ تبصرہ کے کے ذریعہ مطلع کر سکتے ہیں

ابو شامل
احمد عرفان شفقت
ارتقائے حیات
اسد حبیب
اظہارالحق
افتخار راجہ
اقبال جہانگیر (آوازِ پاکستان)۔
امتياز خان
چاچا ٹام
باذوق
باسم
بلا امتیاز
بلو بلا
تانیا رحمٰن
جاوید اقبال
جاوید گوندل
جعفر (حالِ دل)۔
جواد احمد
حجابِ شب
حرفِ دعا
حلیمہ عثمان (قلم کارواں)۔
حکیم خالد
حیدر آبادی
خاور کھوکھر
خرم شہزاد
راشد ادریس رانا
شازل
شاہ فیصل
شاہدہ اکرم
شعيب صفدر
شگفتہ
صدائے مسلم
ضیاء الحسن خان
عادل بھیّا
عدنان شاھد
عدنان مسعود
عمر فاروق
عمران اقبال
عمّار ابنِ ضیاء
لبنٰی مرزا
محمد بلال
محمد کاشف
میرا پاکستان
پروفیسر محمد عقیل
کائنات بشیر
کاشف نصیر
کوثر بیگ
یازگل
یاسر جاپانی