Yearly Archives: 2012

ناموسِ رسول ﷺ

مغربی اقوام جنہوں نے سیکولر ازم کی آڑ میں اپنے نبیوں کو عملی زندگی سے خارج کر دیا ہے۔ آج پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف انداز اور مختلف اطراف سے تیر چلا رہی ہیں اور انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مسلمان اپنے نبی کے معاملے میں اتنے حساس کیوں ہیں کہ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عشق رسول کے بغیر مسلمان کا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا ۔ وہ لوگ صرف نام کے مسلمان ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ہر شے، والدین، اولاد، دوست وغیرہ سے زیادہ محبت نہیں ہوتی ۔ لیکن اشتعال انگیزی اور توڑ پھوڑ مسلمان کا شیوہ نہیں ۔ اسلام کا مطلب ہی ”امن“ ہے

میں اس موضوع پر لکھنا چاہ رہا تھا اور دماغ میں اتنا کچھ جمع ہو گیا کہ میرے لئے اس کا اختصار ناممکن ہو گیا ۔ اللہ مُشکل کُشا نے میری مُشکل آسان فرمائی اور مجھے ایک مضمون مل گیا جس سے اقتباس حاضر ہے

غزوہ اُحد اپنے عروج پر تھا۔ دونوں طرف سے تیر چلائے جا رہے تھے اور تلوار زنی کے جوہر دکھائے جا رہے تھے۔ کفار کی کوشش تھی کہ وہ کسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر لیں یا شہید کر دیں۔ مشرکین ہر طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑے۔ ان کا حملہ شدت اختیار کر گیا تو حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت ابو دجانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے دشمنوں کو بھگاتے ہوئے شدید زخمی ہو گئے۔ مشرکین تیر برسانے لگے۔ وہ مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے منتشر کرنا چاہتے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابو طلحہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں طرف سے اس طرح گھیر لیا کہ وہ ڈھال بن گئے۔ حضرت قتادہ بن نعمان کی آنکھ میں تیر لگا تو آنکھ کا ڈیلا رخسار پر لٹک گیا۔ مشرکین کے تیروں کا نشانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ تھی جبکہ صحابہ کرام آپ کے سامنے ڈھال بنے کھڑے تھے

حضرت ابو طلحہ انصاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر مشرکین پر تیر چلا رہے تھے۔ دوسری طرف حضرت طلحہ بن عبید اللہ تلوار چلا رہے تھے اور چاروں طرف سے مشرکین کے حملے روک رہے تھے۔ مالک بن زبیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ
مبارک کا نشانہ لے کر تیر چلایا تو حضرت طلحہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ سامنے کر دیا۔ تیر ان کی انگلی کو چیرتا ہوا نکل گیا۔ بنی عامر بن لوی کا ایک آہن پوش سوار نیزہ لہراتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوا تو حضرت طلحہ نے آگے بڑھ کر اس پر وار کیا۔ اس کا گھوڑا گر گیا۔ حضرت طلحہ نے اس کا نیزہ چھین کر اس زور سے اس کی آنکھ میں چبھویا کہ وہ وہیں ختم ہو گیا

حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص اپنے جسموں پر تیر کھاتے اور دشمن کے وار سہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبل احد کی طرف محفوظ مقام پر لے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہونے کی خبر سن کر حضرت اویس قرنی نے باری باری اپنے تمام دانت نکال دیئے تھے کہ نہ جانے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کونسا دانت شہید ہوا

غزوہ احد میں حضرت طلحہ کو انتالیس زخم لگے۔ مورخین لکھتے ہیں آپ کا جسم زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں بے شمار زخم لگے۔ حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں ”میں نے دیکھا طلحہ بن عبید اللہ کا بہت زیادہ خون بہہ گیا تھا اور وہ بے ہوش پڑےا تھے۔ میں نے ان کے چہرے پر پانی چھڑکا تو ہوش آ گیا۔ آنکھ کھلتے ہی پہلا سوال یہ کیا ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟’ میں نے جواب دیا ”بخریت ہیں اور انہوں نے ہی مجھے بھیجا ہے“۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے کہا ‘الحمد للہ ہر مصیبت کے بعد آسانی ہوتی ہے’ “۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو زندہ ہے حالانکہ اہل جنت سے ہے (یعنی زندہ شہید ہے) تو وہ طلحہ کو دیکھے“۔ (بحوالہ الامین صلی اللہ علیہ وسلم از محمد رفیق ڈوگر جلد دوم ص 478)۔ غزوہ احد کے دوران یہ افواہ اڑ گئی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں لیکن جب اہل مدینہ کو یہ خوشخبری ملی کہ یہ افواہ بے بنیاد ہے تو کچھ خواتین کو یقین نہ آیا اور وہ خود میدان جنگ کی طرف چل دیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ حضرت سمیرا
بنت قیس گھر سے نکلیں اور بنی دینار کی خواتین کے ہمراہ جبل احد کی طرف چل پڑیں۔ وہ ہر ملنے والے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھتی تھیں۔ کسی نے بتایا ”تمہارے دونوں بیٹے نعمان اور سلیم شہید ہو گئے“۔ حضرت سمیرا نے بات سنی اَن سنی کر کے پوچھا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال بتاؤ؟“ جواب ملا ”الحمد للہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ویسے ہی ہیں جیسے تم ان کو دیکھنا چاہتی
ہو“۔ حضرت سمیرا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر سارے مصائب / غم آسان ہو گئے ہیں“۔ (الامین صفحہ 439)

ڈاکٹر صفدر محمود کی تحریر سے اقتباس

پردہ اُٹھتا ہے

ہماری بیوقوفی بلکہ حماقت یہ ہے کہ ہم طاقتور کی بات بغیر تحقیق کے مان لیتے ہیں مگر سب سے زیادہ طاقتور جس کے آگے پوری دنیا کے انسان مع اپنے تمام اسلحہ بارود کے ایک چیونٹی کی سی بھی حیثیت نہیں رکھتے اُس کی تابعداری کرنے کیلئے لاتعداد سوال ہماے دماغوں میں جنم لیتے ہیں

زیرِ نظر ہے اس وقت امریکی حکومت کی شائع کردہ خبر لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت کی جو سب پڑھ چکے ہوں گے ۔ ان خبروں کے ساتھ لاتعداد مضامین بھی مسلمانوں کی درندگی ثابت کرنے کیلئے شائع ہو چکے ہیں

یوٹیوب پاکستان میں بند کر دیا گیا جس پر وہ وڈیو بھی نمودار ہوئی تھی جس میں بنغازی میں امریکی کونسلخانے میں موجود امریکی سفیر کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہوئے لیبی جوانوں کو دکھایا گیا ہے

حملے کے بعد کچھ لیبی جوان جن میں ایک کیمرہ مین ۔ ایک وڈیو گرافر اور ایک آرٹ سٹوڈنٹ بھی شامل تھے امریکی کونسلخانے میں داخل ہوئے ۔ ایک اندھیرے کمرے سے اُنہیں کسی کے کراہنے کی آواز سنا دی ۔ کمرے کا دروازہ مقفل تھا ۔ ایک آدمی کھڑکی کے راستے کمرے میں داخل ہوا وہاں ایک گورے کو بیہوش پڑا پایا ۔ اُسے بڑی مشکل سے کندھے پر اُٹھا کر ساتھیوں کی مدد سے کھڑکی کے راستے باہر نکالا ۔ وہ اُسے پہچان نہ سکے سوائے اس کے کہ وہ کوئی غیرملکی تھا ۔ نبض دیکھی تو وہ زندہ تھا ۔ تو نعرہ بلند کیا اللہ اکبر اللہ اکبر یہ زندہ ہے

ان جوانوں نے بتایا کہ کونسلخانے میں نہ کوئی ایمبولنس تھی نہ اُنہیں طبی امداد کا کوئی اور ذریعہ یا انتظام نظر آیا۔ نہ وہاں امریکی سفارتخانے کا کوئی ملازم موجود تھا ۔ لاچار ہو کر اُسے اُٹھا کر باہر دور سڑک تک لے گئے اور ایک کار میں ڈال کر ہسپتال پہنچے ۔ ڈاکٹر نے اُسے بچانے کی بہت کوشش کی مگر وہ جانبر نہ ہو سکا کیونکہ بہت زیادہ دھوآں اُس کے پھیپھڑوں میں چکا تھا

یہ شخص لبیا میں امریکا کا سفیر کرِس سٹِیوَن تھا

(ا پ کی خبر کا خلاصہ)
جو قاری یوٹیوب نہ کھول پائیں وہ یہاں کلک کر کے کھلنے والے صفحہ پر وڈیو دیکھ سکتے ہیں

خُوشبُو آ نہیں سکتی ۔ ۔ ۔

میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا جب میں نے پہلی بار یہ شعر سنا تھا

سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خُوشبُو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

اس کے ساتھ ہی ایک ضرب المثل یاد آئی ۔ ”بدبُودار کیچڑ میں اُگی سبزی بھی بدبُودار ہوتی ہے“۔ اس کا عملی ثبوت چند ماہ قبل کراچی سے ملا جہاں گندھے نالے کے پانی سے سیراب شدہ سبزیوں کی تاثیر پر بہت واویلا کیا گیا تھا

موجودہ حکومت نے پچھلے 4 سال سے احتساب کے نئے قانون کی رٹ لگا رکھی ہے اور کہا جاتا رہا کہ مسلم لیگ (ن) نیا قانون نہیں بننے دیتی ۔ جب کاغذ کے پھولوں پر چھِڑکی گئی خُوشبُو ختم ہوئی تو احتساب قانون کی کونپل کو لگے گندے پانی کی بدبُو نمودار ہو گئی ہے

مجوّزہ احتساب قانون کی جھلکیاں

1۔ کسی ایسے پارلیمنٹرین یا سرکاری ملازم کیخلاف کرپشن کا کیس نہیں بنایا جائے گا جسے سرکاری آفس یا پارلیمنٹ چھوڑے 7 سال گزرچکے ہوں

2۔ نیک نیتی سے کی جانیوالی کسی بھی قسم کی کرپشن کو جُرم نہیں مانا جائیگا بلکہ اسے غلطی کہا جائیگا جس کی کوئی سزا نہیں ہوگی
(زبردست ۔ کل کو یہ قانون بننے کی راہ ہموار ہو گی کہ کسی نے نیک نیّتی سے زنا کیا تو اسے زنا نہیں سمجھا جائے گااور غلطی کہہ کر معاف کر دیا جائے گا)

3۔ جس دن احتساب بل کو قانون کی حیثیت ملے گی وہ اسی دن سے نافذ العمل ہوگا
(یعنی اس سے قبل کا سب معاف)

4 ۔ نئے احتساب بل کے تحت بننے والا کمیشن بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی غیر ملکی دولت اور کالے دھن کی تحقیقات نہیں کرسکے گا

5۔ تاحال رائج قانون کے مطابق کرپشن ثابت ہونے پر سزا 14 سال ہے ۔ مجوّزہ قانون میں 7 سال

قوم و مُلک کے دُشمن ؟؟؟

میں بجلی کے متعلق مصدقہ مختلف حقائق لکھ چکا ہوں جن میں سے چیدہ چیدہ مندرجہ ذیل ہیں
پڑھیئے اور سوچئے
بجلی کا بل زیادہ کیوں ؟
بجلی کی کمی کیوں
بجلی کہاں جاتی ہے ؟

مگر اِسے کیا کہیئے گا ؟
یہاں کلِک کر کے ایک خبر پڑھیئے اور بتایئے کہ کیا حُکمرانوں کو قوم و مُلک کے دُشمن کے سوا کچھ اور خطاب دے سکتے ہیں ؟

قدر يا قيمت ؟

آج کی دنيا ميں قدريں مفقود اور قيمت عام ہو چکی ہے
اُسے کامياب سمجھا جاتا ہے جو کم محنت سے زيادہ مالی فائدہ حاصل کرتا ہے

کامياب بننے کی بجائے قابلِ قدر بننے کيلئے محنت کيجئے
قابلِ قدر بظاہر زيادہ دے کر تھوڑا پاتا ہے
ليکن عزت و وقار پاتا ہے اور مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے
اصل کاميابی یہی ہے

دعوے اور حقیقت

سندھ حکومت بالخصوص کراچی والوں کا سدا یہ دعوٰی رہا ہے کہ سندھ آمدن زیادہ کر کے دیتا ہے اسلئے اسے اپنی پوری آمدن اخراجات کیلئے دی جائے ۔ سندھ حکومت اور کراچی والوں کا یہ بھی دعوٰی رہا ہے کہ پنجاب کو اس کی آمدن سے زیادہ حصہ دیا جاتا ہے یعنی جو سندھ کماتا ہے اس میں سے پنجاب کو دیا جاتا ہے

قدرت کا اصول ہے کہ نہ جھوٹ زیادہ دیر چلتا ہے اور نہ سچ زیادہ دیر چھُپا رہتا ہے ۔ وفاقی حکومت نے پچھلے مالی سال (یکم جولائی 2011ء تا 30 جون 2012ء) کے اعداد و شمار شائع کئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے ۔ غور سے دیکھ لیجئے کہ مظلوم کون ہے اور مظلومیت کے نعرے کون لگاتا ہے ۔ خیال رہے کہ وفاقی حکومت اُنہی سیاسی جماعتوں پر مُشتمل ہے جو سندھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر حکمران ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ تفصیل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلوچستان
کُل ریوینیو وصولی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 کھرب 93 ارب ۔ ۔ 3 کھرب 88 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 22 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 51 ارب
مقررہ قابلِ تقسیم ریوینیو ۔ ۔ ۔ ۔ 5 کھرب 8 ارب ۔ ۔ ۔2کھرب 38 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ارب ۔ ۔ ۔ ۔
ریوینیو جو صوبے کے پاس رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 85 ارب ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 50 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 19 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 51 ارب
ٹیکس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 60 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ارب
اخراجات کیلئے جو بچا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 27 ارب ۔ ۔ ۔ 2 کھرب 10 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 25 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 93 ارب
خسارہ جو صوبے نے ظاہر کیا۔ ۔ ۔ ۔ 8.9 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ارب ۔ ۔ ۔
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سال کے کُل اخراجات ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 35.9 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 38 ارب ۔ ۔ ۔ 2 کھرب 28 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 93 ارب

غور کیجئے ۔ ۔ ۔
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے ۔ پھر سندھ ۔ پھر خیبر پختونخوا ۔ پھر بلوچستان ۔ پنجاب کی آبادی مُلک کی آبادی کا 65 فیصد ہے اور باقی 3 صوبوں کی کُل آبادی 35 فیصد ہے

پنجاب نے 5 کھرب 93 ارب روپیہ کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 85 ارب روپیہ پنجاب کو دیا یعنی 12.33 فیصد
سندھ نے 3 کھرب 88 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 1 کھرب 50 ارب روپیہ سندھ کو دیا یعنی 36.66 فیصد
خیبر پختونخوا نے 2 کھرب 22 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 2 کھرب 19 ارب روپیہ خیبر پختونخوا کو دیا یعنی 98.65 فیصد
بلوچستان نے 1 کھرب 51 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے سارا یعنی 1 کھرب 51 ارب روپیہ بلوچستان کو دیا یعنی 100.00 فیصد

اس کے باوجود
پنجاب کا خسارہ 9 ارب روپیہ
سندھ کا خسارہ 28 ارب روپیہ
خیبر پختونخوا کا خسارہ 3 ارب روپیہ
اخراجات سب سے کم پنجاب نے کئے ۔ اس سے زیادہ بلوچستان نے ۔ اس سے زیادہ خیبر پختونخوا نے اور سب سے زیادہ سندھ نے
یعنی سندھ حکومت کے اخراجات پنجاب حکومت کے اخراجات سے 75.13 فیصد زیادہ ہوئے