Yearly Archives: 2012

وقت کے بوجھ تلے دبے حقائق

میرا حافظہ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد بہت مجروح ہو چکا ہے ۔ کچھ عمر کا تقاضہ بھی ہو سکتا ہے ۔ پھر بھی کچھ خاص واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ذہن پر کبھی کبھی اُبھرتے رہتے ہیں

ایوب خان جب سیاسی جماعتوں کے مطالبات مان چکے تھے تو اصغر خان نے مجیب الرحمٰن (جو اگرتلہ سازش کیس میں قید کاٹ رہا تھا) کو رہا کرنے کی ضد کی ۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ اگرتلہ سازش ایک حقیقت تھی

دسمبر 1970ء کے انتخابات میں مجیب الرحمٰن کی جماعت نے اکثریت حاصل کی جسے ذوالفقار علی بھٹو نے قبول نہ کیا ۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہونے کی مخالفت ان الفاظ میں کی ”جو ڈھاکہ جائے گا ہم اُس کی ٹانگیں تو ڑ دیں گے“۔ پھر ایک جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے کہا ”اُدھر تُم اِدھر ہم“۔

بھارت کے پاکستان پر حملے کے دوران 12 دسمبر 1971ء کو اعلان ہوا کہ صدر محمد یحیٰ خان قوم سے خطاب کریں گے ۔ یہ تقریر نشر نہ ہوئی ۔ 16 دسمبر 1971ء کو بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل ہونے کے بعد یحیٰ خان کی ایک تقریر نشر کی گئی جس کا زمینی حقائق کے ساتھ کوئی ربط نہ تھا ۔ اگر متذکرہ تقریر 12 دسمبر کو نشر ہوتی تو بامعنی قرار دی جاتی ۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ”ہم خون کا آخری قطرہ بہنے تک لڑیں گے”۔ اس وقت تک سارے ملک کی اعلٰی سطح پر تشویش پھیل چکی تھی کہ ”یحیٰ خان کہاں ہے ۔ 12 دسمبر کے بعد نہ کسی نے اُسے دیکھا اور نہ وہ اپنا ٹیلیفون اُٹھاتا ہے ۔ اس کی بجائے کوئی عورت غیرملکی لہجہ میں انگریزی میں جواب دیتی ہے کہ صدر مصروف ہیں“۔

ابھی بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل نہیں ہوئی تھی کہ پولینڈ نے سوویٹ یونین کی ایماء پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کرانے اور فوجوں کے اپنی اپنی سرحدوں کے اندر واپس جانے کی قرارداد پیش کی ۔ مقتدر طاقت نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں شرکت کیلئے بھیجا ۔ بھٹو صاحب امریکا پہنچ کر زکام کے بہانے ہوٹل میں رہے اور اجلاس میں شرکت کیلئے مشرقی پاکستان پر بھارت کا قبضہ ہو جانے کے بعد پہنچے اور ایک بے ربط جذباتی تقریر کر کے اپنے کچھ کاغذات پھاڑ کر غُصہ دکھاتے ہوئے اجلاس سے باہر نکل گئے

صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں 7 دسمبر 1970ء کو ہونے والے انتخابات میں پی پی پی کا ایک آدھ نمائندہ منتخب ہوا تھا ۔ بعد میں وہاں کی منتخب حکومت کو ختم کر کے پی پی پی کی حکومت بنا دی گئی اور حیات محمد شیر پاؤ کو وزیرِ اعلٰی بنا دیا گیا جو بعد میں بم دھماکے میں ہلاک ہوئے ۔ سُنا گیا تھا کہ حیات محمد شیر پاؤ کا ذوالفقار علی بھٹو سے کچھ ذاتی اختلاف ہوا تھا جس کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے

29 مئی 1988ء کو محمد خان جونیجو کی حکومت بلا جواز توڑ دی گئی تھی جس کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی تھی ۔ اس کا فیصلہ محمد خان جونیجو کے حق میں دیا گیا لیکن جونیجو کی حکومت کو بحال نہ کیا گیا جو ناقابلِ فہم تھا

17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کی ہوائی حادثہ میں موت کے وقت آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے وہی کردار ادا کیا تھا جو بینظیر بھٹو کے سکیورٹی ایڈوائزر رحمٰن ملک نے 27 دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے وقت ادا کیا

1988ء کے انتخابات کے بعد آئین کے مطابق قومی اسمبلی نے پہلے سپیکر کا انتخاب کرنا تھا پھر مُنتخب سپیکر نے وزیر اعظم کا انتخاب کرانا تھا مگر سپیکر کا انتخاب کرانے سے قبل ہی بینظیر بھٹو کو وزیر اعظم نامزد کر کے کامیاب کرایا گیا جبکہ پی پی پی کے پاس اکثریت نہ تھی ۔ اکثریت بنانے کیلئے ایم کیو ایم اور فاٹا کے اراکین کو ساتھ ملایا گیا

بھارت کے وزیر اعظم راجِیو گاندھی نے بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت (1988ء تا 1990ء) میں اسلام آباد کا دورہ کیا ۔ جس کے دوران راولپنڈی اور اسلام آباد میں جہاں کہیں بھی جموں کشمیر لکھا تھا وہ مٹا دیا گیا یا بورڈ ہی اُتار یا اُکھاڑ دیا گیا حتٰی کہ کشمیر ہاؤس اور منسٹری آف کشمیر افیئرز کے بورڈ بھی اُکھاڑ کر چھپا دیئے گئے ۔ یہی نہیں ۔ راجِیو گاندھی نے بینظیر بھٹو کے پہلو میں بیٹھے پریس کانفرنس کی جس میں ایک صحافی کے جموں کشمیر کے متعلق سوال پوچھنے پر راجِیو گاندھی نے بہت غُصے میں کہا کہ ”جموں کشمیر نام کا کوئی اِیشو نہیں ہے اور کسی کو اس کے متعلق بات کرنے کا کوئی حق نہیں“ ۔ اس دوران بینظیر بھٹو اپنا چہرہ دوسری طرف کر کے ہنستی رہی

راجِیو گاندھی کے اِسی دورے کے دوران بینظیر بھٹو نے اُسے یقین دہانی کرائی کہ یورینیم کی افسودگی روک دی جائے گی اور بینظیر بھٹو کی حکومت خالصہ تحریک کے خلاف بھارت کی مدد کرے گی ۔ چنانچہ یورینیم کی آسودگی روک دی گئی تھی اور خالصہ تحریک کے سینکڑوں رہنماؤں کی فہرست ایک وزیر کے ہاتھ بھارت بھیجی گئی ۔ بھارت نے چُن چُن کر سکھ راہنما ہلاک کرنے کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر میں مسلمانوں پر ظُلم و استبداد کے پہاڑ توڑنے شروع کئے

جنگ بندی لائین جسے ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بھارت اور امریکا کی اِیماء پر لائین آف کنٹرول مان لیا تھا مقبوضہ جموں کشمیر میں رہنے والے اسے پار کر کے اپنے رشتہ داروں کو ملنے آزاد جموں کشمیر آیا کرتے تھے ۔ سُننے میں آیاتھا کہ بینظیر حکومت نے اُن راستوں کی اطلاع بھارتی حکومت کو دے دی تھی جس کے نتیجہ میں بھارتی فوج نے 1989ء میں 500 سو کے قریب کشمیری ہلاک کئے

بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے دورِ حکومت (1988ء تا 1990ء) میں جنرل اسلم بیگ کو ”تمغہ جمہوریت“ سے نوازا تھا

آئی جے آئی کی تخلیق 1988ء میں ہوئی تھی ۔ اس کے سربراہ غلام مصطفٰی جتوئی تھے جو 1988ء میں منتخب نہ ہوئے ۔ 1989ء میں پنجاب میں ایک نشست خالی کرا کے اسے جتوا کر قومی اسمبلی میں لایا گیا حالانکہ اس کا تعلق اور رہائش صوبہ سندھ کی تھی

وسط 1990ء میں اپوزیشن کی طرف سے بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد آنے کی خبر تھی لیکن حکومت ختم کر دی گئی اور غلام مصطفٰی جتوئی کو نگران وزیرِ اعظم بنا دیا گیا تھا

آجکل جسے مہران بنک سکینڈل کہا جا رہا ہے وہ دراصل حبیب بنک سکینڈل ہے ۔ 1990ء میں تو مہران بنک کہیں کاغذوں میں بھی نہیں آیا تھا ۔ البتہ اس کا مجرم یونس حبیب ہی ہے جو بعد میں وقوع پذیر ہونے والے مہران بنک سکینڈل میں بھی ملوّث تھا

غلام مصطفٰی جتوئی نے نگران وزیرِ اعظم ہونے کے باوجود انتخابات کے عمل میں حصہ لیا ۔ راولپنڈی سے ایک جلوس کی سربراہی کی جو ملتان جانا تھا مگر جلوس لاہور کے قریب پہنچنے پر نواز شریف کے نعرے لگنے شروع ہو گئے اور جتوئی جلوس سے الگ ہو گئے ۔ عوام نے کھیل بگاڑ دیا اور نواز شریف وزیرِ اعظم بن گئے

جو واقعہ کئی ذہنوں نے قبول نہ کیا یا اس پر ذہن حیران تھے وہ جام صادق کا وزیرِ اعلٰی سندھ بننا تھا کیونکہ اُسے کسی لحاظ سے بھی نواز شریف کا ساتھی نہیں کہا جا سکتا تھا

کراچی میں ستمبر 1991ء کے آخری حصے میں گورنر سٹیٹ بنک کا بیٹا دفتر اور گھر کے راستے میں اغواء ہو گیا ۔ انگلیاں جام صادق کی طرف اُٹھیں مگر بغیر آواز کیونکہ وہ اس کا خطرناک ماہر سمجھا جاتا تھا

جام صادق علی کے (جبری) حکم سے گورنر سٹیٹ بنک نے یونس حبیب کو مہران بنک کا لائسنس 1992ء کے اوائل میں جاری کر دیا

نواز شریف نے اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے کئی ماہ قبل ہی آصف نواز جنجوعہ کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تقرری کا اعلان کر دیا تھا

مہران بنک جسے بنانے کا لائسنس یونس حبیب کو 1992ء میں ملا تھا کچھ ہی سال بعد دیوالیہ ہو گیا تھا ۔ ستمبر 1992ء اور جون 1993ء کے درمیان مہران بنک سے 59 کروڑ روپے نکلوا کر متعلقہ افسران اور ان کے لواحقین میں تقسیم کئے گئے تھے ۔ پھر مہران بنک کے اربوں روپے نواز شریف کی جماعت کے وزیرِ اعلٰی صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) پیر صابر شاہ کی حکومت گرانے کیلئے استعمال کئے گئے ۔ خبر تھی کہ 10 کروڑ آفتاب شیر پاؤ کو دیئے گئے تھے

جب 1993ء میں نواز شریف کی حکومت مع اسمبلی توڑ دی گئی تو اس کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی گئی ۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت اور اسمبلی بحال کر دی مگر طاقت رکھنے والوں نے چلتا کر دیا اور غلام اسحاق خان کو بھی فارغ کر دیا

جب 1996ء میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور حکومت کے درمیان چپقلش ہوئی تو اصغر خان نے نصیر اللہ بابر کے اخباری بیانات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی ۔ یہ کیس اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کی حکومت ختم ہونے تک چلتا رہا ۔ اس کے بعد نہ پرویز مشرف کی حکومت نے اور نہ موجودہ حکومت نے اس کیس کی خبر لی مگر پچھلے سال سے پی پی پی نے اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اب تک جاری ہے

اصغر خان نے دسمبر 2011ء میں تحریکِ استقلال کو عمران خان کی تحریکِ انصاف میں ضم کر دیا تھا

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ معاملہ فہمی

ذہن میں آیا کہ تعمیرِ اخلاق کی خاطر اہم عوامل کو صرف چند الفاظ میں بیان کیا جائے تاکہ بہت کم فرصت پانے والے قارئین بھی مستفید ہو سکیں ۔ چنانچہ میں نے چار پانچ سال قبل” چھوٹی چھوٹی باتیں “ کے عنوان کے تحت لکھنا شروع کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے اس سلسلہ میں کئی درجن دو چار سطری عبارات لکھ چکا ہوں اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ایسی تحاریر دیکھنے کیلئے داہنے حاشیئے میں سب سے اُوپر بنے گوگل کے خانے میں چھوٹی چھوٹی باتیں لکھ کر Search پر کلِک کیجئے

آج کی بات

جب آپ ہوا کا رُخ تبدیل نہیں کر سکتے
تو
اپنے بادبان کو درست ترتیب دے لیجئے
جو کہ ممکن بھی ہے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter“۔
” پچھلے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء ميں ورڈ پريس نے اسے 10 بہترين بلاگز ميں سے ايک قرار ديا تھا

کیا پاکستان ایک مسلم ریاست ہے اسلامی نہیں ؟

پاکستان میں نام نہاد روشن خیال لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک مسلم ریاست بنانا چاہتے تھے اسلامی نہیں ۔ اس سلسلہ میں محمد آصف بھلّی صاحب کی تحریر جو نوائے وقت مورخہ 29 اگست 2012ء میں شائع ہوئی تھی کے اقتباسات

جن نام نہاد دانشوروں اور صحافیوں کی مُٹھی بھر تعداد کو پاکستان کا اسلامی تشخص ہضم نہیں ہوتا، وہ کبھی کبھار اس طرح کا شگوفہ بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ پاکستان ایک مسلم ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا، ایک اسلامی ریاست کے طور پر نہیں اور قائداعظم کا منشاء و منصوبہ بھی ایک مسلم ریاست کا قیام تھا۔ سیکولر ازم کے علمبردار طبقہ کی فتنہ انگیزی اور عیاری دیکھیئے کہ جب انہیں پاکستان میں سیکولر ازم کی دال گلتی نظر نہیں آتی تو وہ اسلامی ریاست سے خوفزدہ ہو کر اپنے پاس سے مسلم ریاست کا نظریہ گھڑ لیتے ہیں حالانکہ جس ریاست میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہوگی وہاں یقینا قانون سازی اور دستور سازی کرتے ہوئے دین اسلام کو پیش نظر رکھا جائے گا۔ ایک سادہ سی بات ہے کہ اگر ایک آزاد مسلم ریاست میں مسلمانوں نے اپنی اجتماعی زندگی کو اسلام کے مطابق بسر کرنے کا اہتمام نہیں کرنا اور اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں نہیں لانا تو پھر وہ مسلم ریاست کیوں کر کہلائے گی؟ کیا قائداعظم نے صرف ایک برائے نام مسلم ریاست کی سُرخی استعمال کرنے کیلئے پاکستان بنایا تھا ؟ میرے خیال میں پاکستان کا بطور ایک اسلامی ریاست کے جتنا واضح اور صاف تصوّر قائداعظم کے ذہن میں موجود تھا۔ اتنا واضح تصوّر اُس دور کے کسی بڑے عالم دین کے ذہن میں بھی نہیں تھا۔ علامہ اقبال نے بھی بار بار اپنے خطبہ الہ آباد میں اسلامی ریاست کے الفاظ استعمال کئے تھے، مسلم ریاست کے نہیں

اب بانیءِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا بھی تصوّر اسلام دیکھیئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ

”اسلامی حکومت کے تصوّر کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیئے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہوگی“

اب اگر قائداعظم کے ارشاد کے مطابق پاکستان میں صدر، وزیراعظم، پارلیمنٹ اور دیگرادارے قرآن کے اصول و احکام کے پابند بنا دیئے جائیں اور افراد کی بجائے قرآن کی حکمرانی تسلیم کرلی جائے تو یہ ایک اسلامی ریاست ہوگی یا محض نمائشی مسلم ریاست ؟ قائداعظم نے 1945ء میں اپنے پیغام عید میں ایسے سخت الفاظ استعمال کئے کہ شاید ہی انہوں نے اپنی زندگی میں اس طرح کے سخت الفاظ بولے ہوں۔ یہ الفاظ انہوں نے کن لوگوں کے بارے میں استعمال کئے۔ آپ کو قائداعظم کا پیغام عید پڑھ کر خود ہی معلوم ہو جائے گا
پاکستان کے لئے سیکولر ریاست کے بارے بار بار الفاظ استعمال کرنے والے گمراہ طبقہ کو بھی قائداعظم کی یہ تقریر یاد رکھنی چاہئے کہ

”جاہلوں کی بات الگ ہے ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ایک ہمہ گیر ضابطہءِ حیات ہے۔ قرآن محض دینیات نہیں بلکہ سول اور تعزیری قوانین کی بھی بنیاد ہے۔ وہ قوانین جن سے بنی نوع انسان کے اعمال اور حقوق کی حدبندی ہوتی ہے۔ وہ بھی اللہ کے نہ تبدیل ہونے والے احکام سے متعین ہوتے ہیں“

اب جو لوگ اپنا شمار جاہلوں میں نہیں کرنا چاہتے، انہیں قرآن کو ایک ہمہ گیر ضابطہءِ حیات تسلیم کرنا ہوگا۔ قرآن کی تعلیمات ہمارے مذہبی، سماجی، سیاسی، معاشی، فوجی، سول، عدالتی اور قانونی تمام معاملات زندگی پر محیط ہے۔ قرآن حکیم میں سیرت رسول کے حوالے سے ایک انتہائی مختصر اور جامع حکم ہے کہ ”یقیناً تمہارے واسطے اللہ کے رسول میں زندگی کا بہترین نمونہ ہے“۔

قرآن کے اس ارشاد کی روشنی میں اب سبی دربار بلوچستان سے قائداعظم کے خطاب کا ایک مشہور اقتباس پڑھئے

”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہءِحیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے قانون دینے والے عظیم پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمارے لئے قائم کر رکھا ہے، ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے طے کیا کرو“

قائداعظم نے جمہوریت کا سبق اسلام اور قرآن سے لیا تھا۔ ان کے نزدیک اسلام صرف چند رسوم، روایات اور مذہبی اصولوں کا نام نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے سیاسی، اقتصادی اور دیگر مسائل کی راہبری کے لئے اسلام ایک مکمل ضابطہ ءِ حیات تھا۔ انہوں نے اپنے ان خیالات کا اظہار متعدد بار بڑے بڑے عوامی جلسوں میں کیا، اس کے باوجود اگر کچھ لوگ پاکستان کے اسلامی تشخص کے منکر ہیں تو یہ ان کی اپنی عقل کا قصور ہے ورنہ قائداعظم کے تصورات میں تو کہیں ابہام موجود نہیں

قائداعظم نے فروری 1948ءمیں امریکی نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ

”پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس دستور کی حقیقی شکل کیا ہوگی
لیکن ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہو گا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ اسلامی اصولوں کا اطلاق ہماری آج کی عملی زندگی پر بھی ویسے ہی ہوسکتا ہے جس طرح 1300 سال قبل یہ اصول قابل عمل تھے۔ اسلام نے ہمیں انسانی مساوات، انصاف اور ہر ایک سے رواداری کا درس دیا ہے۔ ہم ان عظیم الشان روایات کے وارث اور امین ہیں اور پاکستان کے آئیندہ دستور کے معمار کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے اچھی طرح آگاہ ہیں“

قائداعظم کے ان فرمودات کے مطالعہ کے بعد بھی اگر کوئی مخصوص گروہ پھر بھی یہ اصرار کرتا ہے کہ قائداعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے تو میں ان کی خدمت میں صرف یہی عرض کروں گاکہ جھوٹ بولتے ہوئے کچھ تو شرم محسوس کرو ۔ تمہارے نظریات اور تمہاری گمراہی تمہیں مبارک لیکن یہ قوم تمہیں قائداعظم کے افکار و تعلیمات اور قیام پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنے کا تمہارا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا

حج و عيدالاضحٰے مبارک

عيد سے پچھلی رات مغرب کی نماز کے بعد سے عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک يہ ورد رکھنا چاہیئے اگر زيادہ نہيں تو ہر نماز کے بعد ايک بار ۔ مزيد عيد کی نماز کو جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی يہ ورد رکھيئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے ان کو حج مبارک
اللہ ان کا حج قبول فرمائے

سب مسلمانوں کو عیدالاضحٰے مبارک ۔ کُلُ عَام اَنتُم بَخَیر
اللہ سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے

جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کی ہے یا کرنے کا ارادہ اللہ اُن کی قربانی قبول فرمائے
ہمارے مُلک کو ہر انسانی اور قدرتی آفت سے محفوظ فرمائے
قارئين سے بھی دعا کی درخواست ہے

لہور لہور اے

لاہور میں پنجاب حکومت کے زیرِ انتظام جوانوں کا میلہ جاری ہے جن میں دنیا کے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں ۔ 20 اور 22اکتوبر 2012ء کو لاہوریوں نے اتحاد اور نظم کا قابلِ قدر مظاہرہ کر کے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا

20 اکتوبر کو لگ بھگ 70000 عورتوں مردوں لڑکیوں لڑکوں بچیوں اور بچوں نے وزیرِ اعلٰی پنجاب شہباز شریف ان کے ساتھ یک زبان مل کر قومی ترانہ گایا ۔ ایک سماں بندھ گیا اور ساتھ ہی قومی ترانہ یک زبان گانے کا دنیا کا ریکارڈ بن گیا
اس سے قبل 25 جنوری 2012ء کو بھارت کے شہر اورنگ آباد میں لوک مت میڈیا لمیٹڈ کے زیرِ اہتمام 15243 افراد نے بھارت کا قومی ترانہ یک زبان گانے کا ریکارڈ بنایا تھا
منصوبے کے مطابق 24000 طلباء اور اتھلیٹ اور 60000 رضاکار اور ناظرین اس تقریب میں شامل ہونا تھے ۔ تقریب میں موجود گنیس ورلڈ ریکارڈز کے نمائندے کے مطابق قومی ترانہ 42813 افراد نے یک زبان گایا

22 اکتوبر کو 24200نوجوانوں نے پاکستان کا انسانی جھنڈا بنا کر دنیا کا ایک اور ریکارڈ بنایا جس کا اعلان گنیس ورلڈ ریکارڈز کے نمائندے نے بڑے جوش و خروش سے کیا اور اس کی بنیاد اتحاد کو قرار دیا
اس سے قبل ہانگ کانگ میں 21726 افراد نے 2007ء میں انسانی جھنڈا بنایا تھا

”لہور لہور اے (لاہور لاہور ہے)“ کہا جایا کرتا تھا یعنی لاہور اپنی مثال آپ ہی ہے ۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کسی حد تک یہ استدلال درست محسوس ہوتا ہے ۔ میں دنوں یا ہفتوں کیلئے لاہور جاتا رہتا ہوں کیونکہ وہاں کچھ عزیز و اقارب رہائش رکھتے ہیں البتہ زیادہ عرصہ کیلئے حصولِ تعلیم کیلئے 4 سال 1960ء تک اور پونے 2 سال فروری 2010ء تک لاہور میں رہائش رہی ۔ پہلی بار تک سوائے راولپنڈی کے کسی اور شہر میں زیادہ رہنے کا موقع نہ ملا تھا لیکن دوسری بار تک میں کئی شہروں میں قیام کر چکا تھا چنانچہ میں مختلف علاقوں میں بسنے والوں کے اطوار کا موازنہ کرنے کے قابل تھا

سلوک کی بات کریں تو لاہور میں اجنبی آدمی کو مدد گار مل جاتے ہیں اور اجنبی کا احترام بھی کیا جاتا ہے ۔ لیکن شرط ہے کہ برابری کی سطح پر بات کی جائے ۔ لاہور میں پونے 2 سال میں محلہ داروں نے جتنا ہمارا خیال رکھا ۔ اتنا کسی اور شہر میں نہیں دیکھا

لاہور کی ایک خاص بات وہاں دکانداروں کا گاہک کے ساتھ مکالمہ اور سلوک ہے ۔ کسی دکان کے سامنے سے گذرتے ہوئے کسی وجہ سے رکیں جہاں دکاندار فارغ ہو تو بڑی میٹھی آواز میں بولے گا ” آؤ بھائیجان یا آؤ باجی یا آؤ خالہ جی یا آؤ حاجی صاحب“۔ آپ کہیں ”بھئی ۔ میں نے کچھ نہیں لینا“۔ بولے گا ”جناب میں نے کب کہا لیں ۔ دیکھ تو لیں ۔ دیکھنے میں کیا ہرج ہے”۔

کھانا لذیذ اور سستا کھانا ہو تو لاہور سے بہتر شہر اور کوئی نہیں ۔ کسی زمانہ میں پشاور میں کھانا سستا اور لذیز ہوتا تھا لیکن اب وہ بات نہیں

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو تحریک لاہور سے اُٹھے یا لاہور میں زور پکڑ جائے وہ کامیاب ہو کے رہتی ہے ۔ لاہوریوں کے سیاسی وصف کی کچھ مثالیں میرے علم میں ہیں

ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت نے ہندوستان کے باسیوں کی طرف سے کسی قسم کے احتجاج یا جلسہ جلوس کو روکنے کیلئے 10 مارچ 1919ء کو رولاٹ کا قانون (Rowlatt Act) منظور کیا جس کے نتیجہ میں پہلی جنگِ عظیم میں لگائی گئی ایمرجنسی کی توسیع کر دی گئی جس سے حکومت کو حق مل گیا کہ کسی بھی شخص کو دہشتگرد قرار دے کر 2 سال تک بغیر کسی مقدمہ کی کاروائی کے قید رکھ سکے ۔ اس کالے قانون کے خلاف لاہور میں بہت بڑا اجتماعی احتجاج شروع ہوا جس کو دبانے کیلئے پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر بریگیڑیئر مائیکل اوڈوائر (Michael O’Dwyer) نے لاہور میں اتوار بتاریخ 13 اپریل 1919ء کو مارشل لاء نافذ کر دیا ۔ ساتھ ہی فوج اس حُکم کے ساتھ تعینات کر دی کہ جہاں کوئی احتجاجی نظر آئے اُس پر گولی چلا دی جائے ۔ مارشل لاء کے خلاف لاہور اور امرتسر میں مظاہرے شروع ہو گئے اور سڑکیں اور گلیاں ھندوستان کے باسیوں کے خون سے لال ہونے لگیں ۔ بڑا واقع جلیاں والا باغ امرتسر میں ہوا جہاں مسلمانوں کے ایک پُر امن احتجاجی جلسہ پر فوج نے گولی چلا دی جس سے کم از کم 380 بے قصور لوگ شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے

مرزائیوں کی سرکاری سطح پر پذیرائی کے خلاف فروری 1953ء میں پورے مُلک میں احتجاج شروع ہوا مگر پُر زور ۔ ہمہ گیر مگر منظّم احتجاج لاہور میں ہوا اور دن بدن بڑھتا گیا ۔ مُلک کا گورنر جنرل غلام محمد تھا جو کہ مرزائی تھا ۔ لیفٹننٹ جنرل اعظم خان نے 6 مارچ کو لاہور میں مارشل لاء لگا دیا جو 70 دن تک قائم رہا ۔ اس دوران احتجاج نہ رُکا ۔ جلسے جلوسوں پر گولیاں چلائی گئیں اور سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے ۔ ابوالاعلٰی مودودی اور عبدالستار خان نیازی صاحبان کو گرفتار کر کے موت کی سزا سنائی گئی جو بعد میں عمر قید اور پھر رہائی میں بدل گئی ۔ اسی مارشل لاء کے دوران گورنر جنرل نے پہلے پنجاب کے وزیر اعلٰی میاں ممتاز دولتانہ کو چلتا کیا اور پھر 17 اپریل 1953ء کو وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت مع کابینہ ختم کر دی ۔ یہ سب کچھ کروانے والا غلام محمد فالج سے اپاہج ہوا اور کافی مدت بے بس بستر پر پڑا رہنے کے بعد مرا

1977ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی بے انتہاء دھاندلی کے خلاف ملک میں احتجاج شروع ہوا ۔ لاہور میں احتجاج زور پکڑ گیا ۔ پُر امن جلوسوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا ۔ اشک آور گیس پھینکی اور گولیاں بھی چلائی گئیں جس سے متعدد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ۔ احتجاج مزید شدید ہو گیا ۔ تو فوج کو لاہور بھیج دیا گیا ۔ انارکلی بازار میں فوج نے سڑک پر لکیر لگا کر جلوس کو متنبہ کیا کہ جو اس لکیر کو پار کرے گا اسے گولی مار دی جائے گی ۔ کچھ دیر کیلئے جلوس رُک گیا ۔ پھر ایک جوان آنکھیں بند کر کے کلمہ شہادت پڑھتا ہوا لکیر پار کر گیا ۔ بندوق چلنے کی آواز آئی اور وہ ڈھیر ہو گیا ۔ اس کے بعد ایک اور جوان نے لکیر پار کی اور ہلاک کر دیا گیا پھر تیسرا جوان آگے بڑھا اور اُسے بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔ اس کے بعد پورا جلوس نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھا اور فوجی جوان راستہ سے ہٹ گئے ۔ میرے خیال میں یہی وہ دن تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کا فیصلہ زمین پر نہیں کہیں اور ہو گیا تھا باقی تو زمینی کاروائی بعد میں ہوتی رہی اور اسے پیپپلز پارٹی کے جیالے احمد رضا قصوری کے باپ نواب محمد خان قصوری کو قتل کرانے پر پھانسی ہوئی

14 فروری 2006ء کو لاہور پھر سراپا احتجاج تھا کیونکہ ڈنمارک کے اخبار نے خاکے شائع کر کے رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی شان میں گستاخی کی گئی تھی

میرے لاہور میں قیام کے دوران امریکی خُفیہ ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس لاہور شہر کی سڑک پر گولی چلا کر 2 پاکستانی جوانوں کو ہلاک کیا اور اپنی گاڑی بھگا لے جانے کی کوشش کی ۔ اگلے چوراہے پر پہنچنے سے قبل لاہور کے شہریوں کی گاڑیوں نے ریمنڈ ڈیوس کی گاڑی کو گھیرے میں لے لیا اور سبز بتی جل جانے کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کی گاڑی کے آگے اور دونوں اطراف گاڑیاں کھڑی رہیں حتٰی کہ کچھ شہری پولیس کو لے آئے اور ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار کروا دیا اور تھانے ساتھ جا کر ایف آئی آر بھی کٹوا دی ۔ گو بعد میں وفاقی حکومت نے گول مول طریقے سے اسے رہا کروا کر امریکی حکام کے حوالے کر دیا لیکن لاہوریئے اپنا کام دکھا چکے تھے

ایک اور اچھوتا واقعہ جو کسی اخبار میں نہیں چھپا یا چھپنے نہیں دیا گیا ۔ 2011ء کے وسط میں اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی لاہور گئے ہوئے تھے اور انہوں نے گورنر ہاؤس جانا تھا جو کہ مال روڈ پر ہے ۔ اُن کی حفاظت کی خاطر مال روڈ اور ملحقہ سڑکوں کو ٹریفک کیلئے بند کر دیا گیا ۔ ایک گھنٹے میں سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئیں ۔ گاڑیوں میں بیٹھے لوگ گرمی کی وجہ سے بِلبلا اُٹھے ۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ معاملہ کیا ہے ۔ اگلی چند گاڑیوں میں سے لوگ نکلے اور ٹریفک روکنے والے سپاہیوں سے ٹریفک کھولنے کا کہا ۔ وہ نہ مانے تو تکرار ہوئی اور پھر کھینچا تانی ۔ پولیس والوں کی مدد کیلئے دور کھڑے دس بارہ رینجر آ گئے ۔ یہ دیکھ کر درجنوں گاڑیوں سے لوگ نکل آئے سب کو قابو کر کے ٹریفک کھول دیا ۔ اتنے میں وزیر اعظم کی سواری ایک سڑک پر نمودار ہوئی ۔ کچھ لوگوں نے اُس سڑک کی طرف گاڑیاں موڑ دیں اور وزیر اعظم صاحب کا قافلہ بھی ٹریفک میں پھنسنے کا مزا لینے لگا ۔ لوگ کہتے پائے گئے ”ذرا اسے بھی تو معلوم ہو کہ اس کی وجہ سے ہمارے ساتھ کیا ہوتا رہتا ہے“۔

راس الخیمہ ۔ ساحلِ سمندر

دبئی پہنچنے پر بیٹے نے 2 خبریں سنائیں ۔ ایک کہ 5 جولائی سے 8 جولائی تک راس الخیمہ ھِلٹن سِی ریزارٹ میں 2 فیملی رومز محفوظ کرائے ہوئے ہیں ۔ 4 دن وہاں رہیں گے ۔ دوسرا کہ جس اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں اسے مالک بیچنا چاہتا ہے اسلئے رمضان شروع ہونے سے قبل نئی جگہ تلاش کرنا ہے اور پسند کی جگہ ملنا خاصہ مُشکل ہے ۔ دوسری خبر اچھی نہ تھی مگر مجبوری کا نام شکریہ ۔ خیر ہم راس الخیمہ گئے اور خوب لُطف اندوز ہوئے ۔ سارے اپارٹمنٹ سمندر کے کنارے پر تھے ۔ میں اور بیگم شام کو تھوڑی دیر کیلئے سمندر کے کنارے جاتے ۔ اُس وقت بھی کافی گرمی ہوتی ۔ بچہ لوگ شام کو زیادہ دیر سمندر کے کنارے رہتے ۔ خاص کر ابراھیم (میرا پوتا) خوش تھا ۔ پوتی جو اس وقت 3 ماہ کی تھی خوش نہیں تھی ۔ ناشتہ اور کھانا اچھا تھا اور ہر ایک کو اپنی پسند کے مطابق مل جاتا تھا ۔ یہ رہیں راس الخیمہ ھِلٹن ریزارٹ کی کچھ نشانیاں

اپارٹمنٹس کا ماتھا ۔ نچلی منزل میں دو جُڑے ہوئے فیملی رومز ہیں جن میں ہم لوگ رہے ۔ داخل ہونے کیلئے دروازے داہنی اور بائیں اطراف میں ہیں

اپارٹمنٹس کی پُشت سمندر کی طرف سے

سونے کا ایک کمرہ ۔ ایسے دو کمرے تھے ۔ ایک بستر پر ابراھیم بیٹھا ہے

اپارٹمنٹ کے پچھلے برآمدے میں کھڑے ہو کر سمندر کا نظارہ

سمندر کے کنارے میرا بیٹا ۔ بیگم اور پوتا کرسیوں پر بیٹھے ہیں ۔ پوتا دادی کو کمرے سے گھسیٹ کر لے گیا تھا کہ میرے ساتھ بیٹھیں

ھِلٹن ریزارٹ کی مرکزی عمارت جہاں کھانے ۔ نماز اور کھیلوں وغیرہ کا بندوبست تھا