Yearly Archives: 2012

مرد ۔ ۔ ۔ ظُالم ہوتے ہیں ؟

بہت سوں نے سُن یا پڑھ رکھا ہو گا کہ ” ماؤں ۔ بيويوں اور لڑکيوں کے آلام و مصائب کا سبب ظالم مرد ہوتے ہيں”
يہ وقت ہے کہ مرد کے متعلق جانا جائے کہ وہ ہے کيا چيز ؟

مرد اللہ کی ايک عمدہ تخليق ہے

کيسے ؟

چھوٹی سی ہی عمر ميں وہ حالات سے مصالحت کرنا شروع کر ديتا ہے
بہنوں کيلئے اپنی چاکليٹ ۔ دوسری اشياء اور وقت کی قربانی ديتا ہے

جوان ہونے پر والدين کے چہرے پر مُسکراہٹ ديکھنے کی غرض سے اپنی محبت اور آسائش کی قربانی ديتا ہے

اپنے بيوی بچوں کی خاطر زيادہ محنت اور زيادہ وقت کام کر کے اپنا آرام قربان کرتا ہے
بيوی بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر قرض تک اُٹھاتا ہے اور پھر اس کی ادائيگی کيلئے اپنا چين قربان کرتا ہے

اسی طرح وہ اپنی جوانی بغير شکائت کئے قربان کر ديتا ہے

بے تحاشہ محنت اور کوشش کے باوجود اُسے ماں ۔ بيوی اور باس [boss] کی طرف سے سرزنش ۔ طعن و تشنيع برداشت کرنا پڑتی ہے اور پھر بھی اُنہيں شکائت ہی رہتی ہے
يہيں بس نہيں ہوتا اُس کی بيوی دوسروں کی خوشی کيلئے مصالحت کرنے لگتی ہے جس کا بوجھ خاوند يعنی مرد کو ہی اُٹھانا پڑتا ہے

مرد بھی جذبات رکھتے ہيں اور ان کے احترام کے مستحق ہيں

ہو سکے تو شدتِ دباؤ اور کھينچا تانی ميں گھِرے اس انسان کی جسے مرد کہا جاتا ہے اُس کی زندگی ميں کچھ قدر کيجئے
جب وہ شدتِ حالات کے نرغے ميں ٹُوٹ رہا ہو تو اس کی مدد کی کوشش کيجئے

(آزاد خیال ملک کے باشندے کے انگريزی ميں لکھے مضمون کا ترجمہ)

اُميد

جس طرح موسم بدلنے کا ايک وقت ہوتا ہے
اسی طرح وقت کے بدلنے کا بھی ايک موسم ہوتا ہے

حالات بدلتے ہی رہتے ہيں
حالات کے ساتھ حالت بھی بدل جاتی ہے
رات آ جائے تو نيند بھی کہيں سے آ ہی جاتی ہے

انسان وہ کامياب ہوتا ہے
جس نے ابتلاء کی تاريکيوں ميں اُميد کا چراغ روشن رکھا

اُميد اُس خوشی کا نام ہے
جس کے انتظار ميں غم کے ايام کٹ جاتے ہيں

اُميد کسی واقعہ کا نام نہيں
يہ صرف مزاج کی ايک حالت ہے

اللہ کے مہربان ہونے پر يقين کا نام اُميد ہے

سورت 39 الذُّمَر آيت 53 ۔ قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ

(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو ۔ جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ

مياں بيوی ۔ لمحہ فکریہ

6 ستمبر کی شام ہونے کو تھی ۔ عائشہ کا خاوند احمد ابھی دفتر سے واپس نہيں آيا تھا ۔ شادی دونوں کی پسند سے ہوئی تھی ليکن شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی حالات بدل گئے ۔ اب کوئی دن نہ جاتا جب ان ميں تُو تکرار نہ ہوتی ہو ۔ عائشہ سوچ رہی تھی کہ “احمد پہلے تو اُس کا بہت خيال رکھتا تھا ليکن اب چھ سات بجے دفتر سے لوٹتا ہے ۔ اُسے مجھ سے محبت نہيں رہی”

عائشہ اسی سوچ ميں گُم تھی ۔ 5 بجے تھے کہ باہر دروازے کی گھنٹی بجی ۔ عائشہ بھاگی ہوئی گئی ۔ دروازے پر احمد آج خلافِ معمول دفتر سے وقت پر لوٹ آيا تھا ۔ احمد کے ہاتھ ميں گلدستہ تھا اور وہ مسکرا رہا تھا ۔ عائشہ کو يوں محسوس ہوا کہ خواب ديکھ رہی ہے ۔ وہ دونوں اندر آئے ہی تھے کہ ٹيليفون کی گھنٹی بجی ۔ عائشہ بادلِ نخواستہ دوسرے کمرے ميں گئی ۔ ٹيلفون کا چَونگا [Receiver] اُٹھايا تو آواز آئی
“محترمہ ۔ ميں پوليس اسٹيشن سے بول رہا ہوں ۔ کيا يہ نمبر احمد ملک کا ہے ؟”

عائشہ کچھ پريشان ہو کر ” ہاں ۔ کيا؟”

” ايک شخص ٹريفک حادثہ ميں ہلاک ہو گيا ہے ۔ يہ نمبر اُس کے بٹوہ ميں سے ملا ہے ۔ آپ آ کر اُس کی شناخت کر ليں”

عائشہ ” کے يا ا ا ا ا ا ؟ مگر احمد صاحب تو ابھی ميرے پاس تھے ”

” مجھے افسوس ہے محترمہ ليکن يہ حقيقت ہے کہ بعد دوپہر 3 بجے ايک شخص بس پر چڑھنے کی کوشش ميں گر کر ہلاک ہو گيا ۔ ايک بٹوہ اُس کی جيب سے ملا جس ميں سے آپ کا يہ نمبر ملا”

عائشہ کا سر چکرانے لگا ۔ وہ اپنے دِل سے پوچھنے لگی ” کيا وہ ميرا وہم تھا ؟ وہ احمد نہيں تھا ؟”

عائشہ اُس کمرے کی طرف بھاگی جہاں احمد کو چھوڑ کر آئی تھی ۔ احمد کو وہاں نہ پا کر اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھيرا آ گيا اور وہ چکرا کر گر گئی

احمد جو باورچی خانہ ميں پانی پينے گيا تھا دھڑام کی آواز سْن کر بھاگا آيا ۔ بيوی کو اُٹھا کر بستر پر ڈالا اور اُس کے چہرے پر پانی کا چھينٹا ديا ۔ عائشہ نے آنکھيں کھوليں اور احمد کی طرف بِٹر بِٹر ديکھنے لگی

احمد نے مُسکرا کر کہا ” کيا ہوا ؟ کون تھا ٹيليفون پر ؟ کيا کہا تھا اُس نے ؟”

عائشہ نے اُسے بتايا تو احمد بولا ” مجھے معاف کر دو ۔ ميں تمہيں بتانے ہی والا تھا کہ آج ميں دفتر سے کسی کام کيلئے گيا تو کسی نے ميرا بٹوہ نکال ليا تھا”

اِس واقعہ نے عائشہ کو جھنجوڑ کے رکھ ديا ۔ اُسے احساس ہوا کہ وہ احمد سے اپنی محبت کو حقيقی دنيا سے بہت دُور لے گئی تھی ۔ اُس نے پہلی بار سوچا کہ احمد دفتر ميں محنت اور زيادہ وقت اُسی کی خاطر لگاتا ہے ۔ دونوں نے آپس ميں دُکھ سُکھ پھرولے ۔ احمد نے بھی وعدہ کيا کہ آئندہ وہ دفتر سے حتٰی المقدور جلدی واپس آنے کی کوشش کيا کرے گا يا کم از کم چہرے پر تھکاوٹ کی بجائے مسکراہٹ سجانے کی کوشش کرے گا

مندرجہ ذیل عنوان پر کلک کر کے اس سلسلے کا ایک اور مضمون پڑھیئے
رشتہ ازدواج

جو پيدا ہوا ہے اُس نے مرنا بھی ہے ليکن جب تک زندہ ہيں کيوں نا ايک دوسرے کی مجبوریوں کا احساس کيا جائے اور زندگی پيار محبت سے گذاری جائے

سُبحان اللہ

قدم قدم پر لمحہ بہ لمحہ پيش آنے والے واقعات اور مناظر انسان کو قائل کر ديتے ہيں کہ اس کائنات کو بنانے اور چلانے والی ايک بہت بڑی ہستی ہے جو عقلِ کُل اور ہر لحاظ سے کامل ہے اور جس کا کوئی ثانی نہيں ہو سکتا ۔ انسان اپنے تئيں بہت کار پرداز خيال کرتا ہے ليکن چرند و پرند بھی اللہ تعالٰی نے کچھ کم کرتبی نہيں بنائے

طوطے کا ناچ

کرتبی شير

باکسر بلی

ذہين جانور

کہانی اور حقيقت ۔ ہمارا قومی کردار

بچپن میں کہانیاں بڑے شوق سے سنا کرتے تھے ۔ يہ کہانياں گو مبالغہ آميز ہوتيں ليکن اپنے اندر ايک سبق لئے ہوئے بچوں اور بڑوں کيلئے بھی تربيت کا ايک طريقہ ہوتی تھيں

ايک کہانی جو عام تھی يہ کہ ايک ملک کا بادشاہ مر گيا ۔ شورٰی نے فيصلہ کيا کہ جو شخص فلاں دن صبح سويرے سب سے پہلے شہر ميں داخل ہو گا اُسے بادشاہ بنا ديا جائے گا ۔ اس دن سب سے پہلے ايک فقير داخل ہوا سو اُسے بادشاہ بنا ديا گيا ۔ فقير کو کبھی حلوہ نصيب نہيں ہوا تھا ۔ اس نے حلوہ پکانے کا حُکم ديا اور خوب حلوہ کھايا ۔ دوسرے دن پھر حلوہ پکوايا اور خوب کھايا ۔ فقير حلوہ پکوانے اور کھانے ميں لگا رہا ۔ سلطنت کے اہلکار حلوے کا بندوبست کرنے ميں لگے رہے اور ملک تباہ ہو گيا ۔ فقير نے اپنا کشکول پکڑا اور پھر بھيک مانگنے چل پڑا

اس کہانی کا مقصد تو يہ تھا کہ فيصلے عقل سے ہونے چاہئيں اور ہر آدمی کو اجتماعی بہتری کا کام کرنا چاہيئے نہ کہ ايک شخص [بادشاہ] کی چاپلوسی
ليکن عوام فقير کو ہی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہيں
اُنہيں کوئی قصوروار نہيں کہتا جو ملک و قوم کو بھول کر حريص بادشاہ کی خوشامد ميں لگے رہے اور اپنے مناصب کا کام نہ کيا جس سے ملک تباہ ہوا اور قوم بدحال
نہ اُس بادشاہ کی رعايا کو کوئی کچھ کہتا ہے جو سوئی رہی اور تباہی کو روکنے کيلئے کچھ نہ کيا

آج پورے ملک میں امن و امان کی حالت خراب ۔ کمر توڑ مہنگائی اور قومی دولت کی لُوٹ مار ہے ۔ لاکھوں گھروں میں نہ بجلی ہے نہ پانی اور نہ ہی گیس ۔ کارخانوں کے لاکھوں مزدور اور ہُنر مند دو وقت کی روٹی اور پانی بجلی گیس کے بلوں کی ادائیگیوں کیلئے ذلت کی انتہائی گہرائیوں میں گر چکے ہیں ۔ سرکاری دفاتر ميں بغیر رشوت دیئے جائز کام بھی نہیں ہوتے ۔ نہ گھروں میں لوگ چوروں ڈاکوؤں سے محفوظ ہیں اور نہ ہی سڑکوں بازاروں میں

غریب آدمی سے ملک کی موجودہ بد تر حالت کو تبدیل کرنے کیلئے باہر نکلنے کو کہیں تو وہ کہتے ہیں ہم میں تو طاقت ہی نہیں ہے
مڈل کلاس والوں سے کہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس تو وقت ہی نہیں ہے
اور امیر کہتے ہیں کہ ہمیں باہر نکلنے کی کوئی ضرروت ہی نہیں ہے
سب شائد یہ بھول گئے ہیں کہ جب آگ بھڑک اُٹھے اور سب مل کر اسے نہ بجھائیں تو وہاں رہنے والے سب بھسم ہو جاتے ہیں

دوسری کہانی
کہتے ہیں کہ کسی گاؤں کے کسان کی حویلی کے صحن میں ایک درخت تھا جس کے نیچے وہ اپنی گائے اور بکری کو باندھا کرتا تھا ۔ اس نے ایک مرغا بھی پالا ہوا تھا ۔ ایک دن کسان کی بيوی نے کہا کہ “سردیاں آرہی ہیں ۔ کل اس درخت کو کاٹ کر لکڑیاں بنا لیں گے”۔ کسان نے کہا کہ “یہ درخت ميرے باپ کی لگائی ہوئی نشانی ہے ۔ اسے مت کاٹو”۔ لیکن کسان کی بیوی نے ضد کرتے ہوئے اسے کاٹنے کا فیصلہ سنا دیا

درخت نے جب یہ سنا تو اس نے اپنی ٹہنی پر بیٹھے ہوئے مرغے سے کہا “تم سُن رہے ہو کہ مجھے مارنے اور کاٹنے کا منصوبہ بن رہا ہے ۔ میری کسی طرح مدد کرو ۔ اگر میں نہ رہا تم کس ٹہنی پر بیٹھا کروگے ؟”
مرغے نے یہ کہہ کر منہ دوسری طرف کر لیا کہ “تم جانو اور تمہار اکام ۔ میں پوری حویلی میں بھاگتا پھروں گا”
درخت نے مرغے سے مایوس ہو کر پہلے گائے اور پھربکری کی منتیں کیں کہ “کسی طرح حویلی کے مالکوں کو سمجھاؤ کہ وہ مجھے مت کاٹیں ۔ میں تم سب کو سانس لینے کیلئے آکسیجن دیتا ہوں ۔ تپتی گرمیوں میں اس حویلی والوں کو گرم لُو سے بچاتا ہوں اور جب تمہیں زیادہ بھوک لگتی ہے تو میرے پتے تمہارے کام آتے ہیں”۔ لیکن بکری اور گائے نے بھی کہا کہ “میاں اپنی جان بچانے کا بندو بست تم خود کرو ۔ تمہارے کٹ جانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ ہمیں تو روزانہ باہر لے جایا جاتا ہے اور تمہارے پتوں کی ہمیں اتنی ضرورت بھی نہیں ہے”

اگلی صبح کسان کی بیوی نے اس درخت کو کٹوا کر اس کی لکڑیاں بنوا لیں اور ایک کچے کوٹھے میں اس کا ڈھیر لگا دیا ۔ جب سردیاں شروع ہوئیں تو ایک رات کسان کی بیوی لکڑیاں لینے کیلئے گئی ۔ چند لمحوں بعد اس کی تیز اور خوفناک چیخوں سے ساری حویلی گونجنے لگی ۔ سب بھاگ کر گئے تو دیکھا کہ اُسے لکڑیوں میں چھپے ہوئے سانپ نے ڈس لیا تھا اور وہ اپنی ٹانگ پکڑے بُری طرح تڑپ رہی تھی ۔ فوری طور پر گاؤں کے حکیم کو بلایا گیا جس کے فوری علاج سے عورت بچ تو گئی لیکن اس پر کمزوری چھانے لگی ۔ حکیم صاحب نے کہا کہ “اسے دوائی کے ساتھ ساتھ مرغ کی گرم گرم یخنی پلائی جائے”۔

فوری طور پر مُرغے کو ذبح کیا گیا اور وقفے وقفے سے اس کی یخنی کسان کی بیوی کو پلائی جانے لگی لیکن زہر نے کمزوری سارے جسم میں پھیلا دی تھی ۔ اس پر حکیم صاحب نے کہا کہ “مریضہ کو بکرے کی یخنی پلائيں اور ساتھ گوشت بھُون کر روزانہ کھلایا جائے”۔ چنانچہ بکری کو ذبح کیا گیا ۔ جب کسان کے رشتہ داروں اور اس کے سسرال والوں تک اس کی بیوی کو سانپ کے کاٹنے کی خبر پہنچی تو ان کے پاس تیمارداری کیلئے آئے ہوئے رشتہ داروں کا جمگھٹا ہو گیا ۔ ان مہمانوں کیلئے کسان کو اپنی گائے ذبح کرنا پڑی

آج ہماری قوم کا بھی کچھ ايسا ہی حال ہے ۔ ملک اپنے ہی کرتُوتَوں کی وجہ سے تباہی کی طرف تيزی سے گامزن ہے اور جسے ديکھو وہ صرف اپنا دامن بجانے کی فکر ميں ہے ۔ اجتماعی فکر کسی کو نہيں ہے

سب بھُولے بيٹھے ہيں کہ ” يہ مُلک سلامت رہے گا تو ہم بھی سلامت رہيں گيں اور يہ مُلک ترقی کرے گا تو ہماری تکاليف دور ہوں گی”