Yearly Archives: 2012

کاش وہ آئے روزانہ ہماری گلی میں

آپ غلط سمجھے ۔ میں کسی خوبصورت دوشیزہ کی بات نہیں کر رہا ۔ میں نے تو کبھی جوانی میں بھی یہ تمنا نہ کی تھی ۔ پھر آیا کون ؟ ذرا تحمل سے پڑھیئے

ہمارے علاقے میں روزانہ بلا ناغہ 24 گھنٹے میں 6 بار بجلی ایک ایک گھنٹے کیلئے بند ہوتی ہے جسے فی زمانہ لوڈ شیڈنگ کہا جاتا ہے ۔ دن میں 7 سے 8 بجے تک ۔ 11 سے 12 بجے تک ۔ 3 سے 4 بجے تک ۔ رات میں بھی انہی اوقات میں ۔ بعض دن بونس کے طور پر زیادہ بار بجلی بند ہوتی ہے لیکن یکم مئی بروز منگل رات کو نہ 7 سے 8 بجے بجلی بند ہوئی اور نہ 11 سے 12 بجے ۔ وجہ یہ کہ ہمارے گھر کے سامنے جو مکان ہے اُس کے ساتھ والے مکان میں وزیرِ اعظم صاحب نے آنا تھا ۔ وزیرِ اعظم صاحب کی آمد کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ متذکرہ مکان میں رہائش پذیر بڑے سرکاری افسر جو وزیرِ اعظم صاحب کے رشتہ دار ہیں کی بیٹی کی شادی پچھلے ہفتہ ہوئی تھی ۔ وزیرِ اعظم صاحب اُس کی مبارک دینے آئے تھے

سوچتا ہوں کہ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم صاحب کو احساس نہیں کہ لوگوں کو بجلی بند ہونے سے کیا تکلیف ہوتی ہے کیونکہ جہاں وہ رہتے ہیں یا جاتے ہیں وہاں بجلی بند نہیں ہوتی

وزیرِ اعظم کی آمد سے کچھ قبل حکم دیا گیا کہ جو کوئی جہاں ہے وہیں رہے اور حرکت نہ کرے یعنی اگر کوئی کسی کمرے یا ٹائیلٹ میں رفع حاجت کیلئے گیا تھا تو وہ اس کمرے یا ٹائیلٹ ہی میں رہے اور جو کمرے یا ٹائیلٹ سے باہر تھا اور اندر جانا چاہتا تھا وہ اب باہر ہی رہے جب تک وی آئی پی آ کر واپس نہ چلے جائیں ۔ یہ حُکم اُس گھر میں رہنے والوں کیلئے بھی تھا جن کے ہاں وزیراعظم صاحب آ رہے تھے ۔ ہماری گلی کے ایک رہائشی اپنے بچوں کو لے کر آ رہے تھے اُنہیں رات 9 بجے کے بعد تک گلی میں گھُسنا تو کُجا گلی سے بہت دُور روکے رکھا گیا

گو شادی کچھ دن قبل ہو چکی تھی پھر بھی اہلِ خانہ نے وزیر اعظم صاحب کیلئے مناسب کھانے کا بندوبست کر رکھا تھا ۔ وزیراعظم صاحب کے ساتھ آئے ہوئے ایک صاحب نے کھانے کی تمام چیزوں اور پھلوں کے رس کا باقاعدہ ٹیسٹ کیا اور پھر سب کو خود چکھا ۔ اس کے باوجود وزیراعظم صاحب نے نہ کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا سوائے سادہ پانی کے جو نیسلے کی بند بوتل میں تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بوتل وزیراعظم صاحب کے ساتھ ہی آئی ہو

یہ سب کچھ سُنتے ہوئے میرے ذہن میں پرائمری سکول کے زمانے میں سُنی ہوئی شہنشاہ کی کہانی گُھوم رہی تھی ۔ کہانی کے مطابق شہنشاہ کے کوئی چیز کھانے یا پینے سے پہلے ان کا ملازم اسے چکھتا تھا

اِن لوگوں کو اپنی زندگی تو اتنی پیاری ہے لیکن عوام کی زندگیوں کو بے مُول کیوں سمجھتے ہیں ؟ کیا یہ عوام کے نمائندے کہلانے کے قابل ہیں ؟

سرائیکی صوبہ ۔ حقیقت یا فریب کاری ؟

صدر ۔ وزیر اعظم صاحب اور اُن کے حواریوں نے سرائیکی صوبہ کا واویلا اس قدر مچا رکھا ہے جیسے سرائیکی صوبہ بننے سے پاکستانیوں کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور تمام مشکلات دُور ہو جائیں گی ۔ بجلی دُور دراز ہر گاؤں کو ملنے لگے گی ۔ بجلی ۔ پٹرول ۔ گیس اور دیگر اشیاء ضروریہ اتنی ارزاں ہو جائیں گی کہ غریب مزدور بھی نہال ہو جائیں گے

البتہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک ایسا صوبہ جس کیلئے اُس علاقے کے مکینوں نے کبھی آواز نہیں اُٹھائی وہ ان صاحبان کا محبوب کیوں بن گیا ہے سوائے اس کے کہ یہ لوگ اس شور شرابے سے عوام کی توجہ اپنی نا اہلی اور بدعنوانیوں سے ہٹانے کی کوششِ لاحاصل کر رہے ہیں ۔ ہزارہ صوبہ جس کیلئے وہاں کے مکینوں نے جلوس نکالے اور کراچی تک جا کر جلسے بھی کئے اُس کا نام نہیں لیا جا رہا ۔ یا پھر ان کے پاس پنجاب حکومت کے خلاف کچھ اور نہیں رہ گیا تو یہی سہی

اگر انتظامی بہتری کیلئے چھوٹے صوبے بنانا ضروری ہوں تو الگ بات ہے لیکن لسانی بنیادوں پر ایک نیا صوبہ اگر بنا دیا گیا تو پھر مزید صوبوں کیلئے اُٹھنے والی آوازوں کو کون روکے گا ؟ مزید یہ کہ سرائیکی بولنے والے صرف صوبہ پنجاب میں نہیں رہتے بلکہ خیبر پختونخوامیں ڈیرہ اسمٰعیل خان اور صوبہ سندھ میں پنجاب کی سرحد سے شکارپور تک سرائیکی علاقہ ہے ۔ اگر بنیاد سرائیکی ہے تو پھر ڈیرہ اسمٰعیل خان اور شکار پور تک کا سارا علاقہ بھی اس نئے صوبے میں شامل ہونا چاہیئے

اگر تاریخی حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو بہاولپور کا علاقہ پاکستان بننے سے قبل ایک علیحدہ ریاست تھی جس کے پاکستان میں شامل ہونے کے وقت اس علاقے کا علیحدہ تشخص قائم رکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا اور یہ وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا ۔ بہاولپور کا علاقہ 19 اپریل 1951ء کو ایک صوبہ قرار دیا گیا ۔ 1952ء میں وہاں اسی بنیاد پر انتخابات ہوئے اور صوبائی حکومت قائم ہوئی ۔ پاکستان کے آئین کا جو مسؤدہ 1954ء میں تیار ہوا اُس میں بھی بہاولپور کو ایک علیحدہ صوبہ دکھایا گیا تھا ۔ 1955ء میں وَن یونٹ (One Unit) کا اعلان کر کے بہاولپور کو مغربی پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا مگر اُس وقت بھی بہاولپور کو ایک وفاقی اکائی (Federal Unit) ظاہر کیا گیا تھا ۔ 1970ء میں فوجی آمر نے سیاسی رہنماؤں بشمول ذوالفقار علی بھٹو کے دباؤ میں آکر مغربی پاکستان کے 4 صوبے بنائے اور بہاولپور کو پنجاب کا حصہ بنا دیا ۔ اس کے بعد سے وہاں کے مکین گاہے بگاہے علیحدہ صوبہ بہاولپور کیلئے آواز اُٹھاتے رہے ہیں مگر وہ پنجاب سے علیحدہ ہو کر بہاولپور کی بجائے کسی اور صوبے کا حصہ نہیں بننا چاہتے

صدر ۔ وزیر اعظم اور پی پی پی کے وزراء بار بار آئین کی حکمرانی کا دعوٰی کرتے رہتے ہیں ۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 239 (4) کے مطابق کسی صوبے کی حدود بدلنے کیلئے لازم ہے کہ متعلقہ صوبے کی اسمبلی کی کم از کم دو تہائی اکثریت مجوزہ تبدیلی کی منظوری دے ۔ متعلقہ صوبہ پنجاب ہے جہاں پی پی پٌی کے پاس ایک تہائی نشستیں بھی نہیں ہیں ۔ پی پی پی کے بڑے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں پھر بھی سرائیکی صوبے کا شور مچائے جا رہے ہیں ۔ اس طرح مقصد صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے اور کیا ہو سکتا ہے ؟

سرائیکی لوگوں نے جو ابھی تک سرائیکی علاقہ میں مقیم ہیں بتایا کہ اگر سرائیکی علاقہ کے مکینوں کی رائے لی جائے تو علیحدہ صوبے کے حق میں بہت ہی کم رائے آئے گی ۔ جو چند لوگ سرائیکی صوبے کا راگ الاپ رہے ہیں اُس کا سبب یہ ہے کہ پچھلی آدھی صدی میں رُکن اسمبلی یا وزیر بن کر جتنا وہ لوٹتے رہے ہیں وزیر اعلٰی اور گورنر بن کر اور زیادہ لوٹنے کے خواہشمند ہیں اور عوام کو اپنا غلام بنانے کی سوچ رہے ہیں

زمینی حقائق کے مطابق مجوزہ سرائیکی صوبہ میں قدرتی وسائل بہت کم ہوں گے ۔ صنعت مفقود ہے ۔ اس کی آمدن صرف زرعی پیداوار ہو گی جو کہ بہت کم ہے ۔ چنانچہ اس مجوزہ صوبے کے عوام خوشحال ہونے کی بجائے مزید بدحال ہو جائیں گے ۔ آخر کیا بات ہے کہ حکمرانی کے 4 سال گذرنے کے بعد زرداری کو اچانک یہ صوبہ بنانے کا خیال آیا ؟ اس کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں

1 ۔ بیرونی طاقتوں کی خوشنودی جنہوں نے زرداری کو گدی نشین کیا ۔ اُنہوں نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بعد کراچی کا حال تو خراب کر ہی رکھا ہے ۔ اب پنجاب باقی رہتا ہے جو ہے بھی اصل خطرے کا سبب کیونکہ ایٹم بم اور فوجی ہیڈ کوارٹر دونوں پنجاب میں ہیں

2 ۔ تاریخ کی ستم ظریفی کے تحت مجوزہ صوبہ کے لوگوں کی خصلت میں وڈیروں کی تابعداری شامل ہو چکی ہے چنانچہ چند وڈیروں کو فائدہ پہنچا کر یہاں کی آبادی کو غلام بنایا جا سکتا ہے جس کے بعد معاشی بدحالی کو دُور کرنے کا لالچ دے کر مجوزہ صوبے کو صوبہ سندھ کے ساتھ ملا کر دریائے سندھ پر مکمل کنٹرول حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ راوی ۔ چناب اور جہلم پر پچھلی حکومت کی مہربانی سے بھارت کئی ڈیم بنا چکا ہے اور ایک اور بڑا ڈیم (بگلیہار) موجودہ حکومت کی مہربانی سے تیار ہونے کو ہے ۔ اس کے نتیجہ میں پنجاب پانی سے محروم ہو کر دوسرے صوبوں کے سامنے بھکاری بن سکتا ہے ۔ گیلانی جیسے رہنما جو مُلک سے زیادہ آقا کے خیر خواہ ہیں کی موجودگی میں یہ عمل بہت آسان ہو گا

3 ۔ ایم کیو ایم زرداری اینڈ کمپنی کے پاؤں میں چُبھنے والا ایسا کانٹا ہے جسے فی الوقت نکالنا خطرناک ہو سکتا ہے ۔ جبکہ مجوزہ صوبہ کو صوبہ سندھ میں شامل کر کے ایم کیو ایم کی حیثیت اقلیتی بنائی جا سکتی ہے اور اس کانٹے کو نکال پھینکا جا سکتا ہے

مندرجہ بالا منصوبہ پر عمل کرنے کے بعد زرداری قائدِ سندھ بن سکتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد گدی نشین ہو سکتی ہے

(مندرجہ بالا مضمون اس سلسلے میں شائع ہونے والے متعدد تجزیوں کا خلاصہ ہے)

اللہ وہ وقت نہ لائے کیونکہ وہ وقت محبِ وطن پاکستانیوں بالخصوص پنجابیوں اور مہاجروں کیلئے بہت بُرا دن ہو گا اور سب سے بڑھ کر اس مُلک پاکستان کیلئے بُرا ہو گا جس کیلئے ہمارے بزرگوں نے جان و مال کی بے بہا قربانیاں دیں تھیں اور ہم لوگ لُٹے پُٹے قافلوں میں اپنے گھروں اور اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کو پیچھے چھوڑ کر اس وطن کو آباد کرنے آئے تھے

زندہ رہے گا پاکستان تو زندہ رہے گا
اِن شاء اللہ پاکستان زندہ رہے گا
یہ مُلک پاکستان جو کُل کائنات کو پیدا کرنے اور اس کا نظام چلانے والے اللہ وحدہُ لا شریک لہ نے ہمیں عطا کیا تھا وہی اس کی حفاظت کرے گا

دعا کی درخواست

میری بڑی بہن جس نے میری ماں کی 1980ء میں وفات کے بعد میرے ۔ میری بیوی بچوں اور پوتیاں اور پوتے کیلئے میری ماں کا سایہ فراہم کئے رکھا ۔ وہ کچھ دنوں سے سخت نگہداشت کے کمرے میں آکسیجن کے سہارے لیٹی ہے

اے میرے مالک و خالق الرّحمٰن و الرّحیم و قادر و کریم ۔ میرا تیرے سِوا کوئی نہیں ہے ۔ میں کس کے پاس جاؤں اور کس سے فریاد کروں ؟
اے اللہ گناہوں کی بخشش دینے والے ۔ میرے کردار کی طرف نظر کرنے کی بجائے اپنی رحمت کی طرف نظر کر کہ تیری تو صفت ہی یہی ہے
ہم سب کی دعاؤں کو قبولیت بخش دے اور میری بہن کو جس نے میرے علم اور مشاہدے کے مطابق کبھی کسی کا بُرا کرنا تو کیا کبھی بُرا سوچا بھی نہیں اُسے صحت عطا کر دے

اے میرے پیارے اللہ سب تیرے علم میں ہے کہ میری یہ بہن یتیم بچیوں کی شادیوں کے پورے پورے اخراجات اُٹھاتی رہی ۔ ناداروں کی امداد کرتی رہی اور میرے سمیت سب چھوٹے بہن بھائیوں کو ان کاموں پر اُکساتی رہی ۔ آج وہ ہسپتال میں بے بس پڑی ہے
میرے اچھے اللہ ۔ مرنا تو بر حق ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے اُس نے واپس لوٹنا ہے ۔ میری صرف اتنی استدعا ہے کہ میری پیاری بہن کے عضؤ اور احساسات بحال کر دے

تمام قارئین سے دعا کی درخواست ہے

کیا ؟ ؟ ؟

ایک عکس چلتا چلتا میرے پاس پہنچا ہے
سوچتا ہوں اگر یہ وہی ہے تو اسے منتخب کرنے والے کیا ہیں ؟
جانتے ہیں اسے کس نے مُنتخب کیا ؟
پارلیمنٹ کے اُن ارکان نے جنہیں عوام نے مُنتخب کیا تھا
(پورا خط دیکھنے کیلئے عکس پر کلِک کیجئے)

ایسا کب ہو گا ؟

یہ ایک غزل بھی چلتی چلتی آن پہنچی ہے

لڑکپن کی باتيں قسط 3۔ افسانہ يا حقيقت

اس سلسلے کی پہلی قسط باد نما اور دوسری قسط وطن لکھ چکا ہوں
مجھے انجينئرنگ کالج ميں اپنے طالب علمی کے زمانہ کا لکھا ہوا ايک افسانہ بھی ان کاغذات ميں ملا جو نقل کر رہا ہوں

ايک صبح

دھند معمول سے کچھ زيادہ تھی پھر بھی ميں اپنی عادت سے مجبور سير کو نکل پڑا ۔ جونہی دروازے سے باہر قدم رکھا سردی کاٹتی ہوئی محسوس ہوئی سارا بدن ٹھٹھر کر رہ گيا ليکن ميں ارادہ کر چکا تھا اور اس کا التواء مُشکل تھا ۔ برفانی ہوا نتھنوں کو چيرتی ہوئی پھيپھڑوں کی گہرائی تک پہنچنے لگی ۔ ہوا کے يخ آلودہ جھونکوں سے آنکھوں سے آنسو اُبھر آئے ۔ کُہر نے سبزے پر سفيد چادر تھی اور ہر طرف سيميں فرش بچھا تھا مگر ميں بڑھتا گيا ۔ ميں آگے بڑھتا گيا ۔ ہاتھ پاؤں اب سُن ہو چکے تھے اسلئے سردی کا احساس کم ہو گيا تھا ۔ صبح صادق ہو چکی تھی اور بڑھتی ہوئی روشنی آفتاب کے اُبھرنے کا پيغام دے رہی تھی

ميں بے خيالی ميں مشرق کی جانب چل ديا کہ جيسے ميں نے آفتاب کا استقبال کرنا ہو ۔ سردی کی شدّت سے بے نياز دماغ ميں قلعے بناتا اور مسمار کرتا نمعلوم ميں کتنا دور جا چکا تھا ۔ ايک عجيب سی ادھيڑ بُن تھی جس ميں محو ميں گرد و پيش کو بھول چکا تھا ليکن خيالات تھے کہ ايک تانتا بندھا آ رہا تھا ۔ زمہرير ميں بھی تخيّل تيز رفتاری سے کام کر رہا تھا ۔ خيالات ذہن پر آ آ کر محو ہو رہے تھے

ديکھتا کيا ہوں کہ ميں ندی کے کنارے پہنچ گيا ہوں جو برفانی پہاڑوں سے نکل کر يخ بستہ چٹانوں کے بيچ رينگتی چلی آ رہی ہے اور اپنے ساتھ برف کے تودے جھاگ کی طرح بہائے لئے جا رہی ہے ليکن ندی کی روانی ميں موسمِ گرما کے برعکس سکوت ہے ۔ برف کے تودے گاہ بگاہ ايک دوسرے سے ٹکرا کر مدھم آواز پيدا کر ديتے ہيں ليکن فضا ميں وہ ارتعاش نہيں جو پہاڑی ندی کو پيدا کرتے سنا تھا ۔ سکون ہے اور ہر طرف ہُو کا عالم ہے ۔ کوئی ذی روح چرند پرند دکھائی نہيں پڑتا ۔ ايک شہرِ خموشاں ہے جہاں نہ شہنائی کی مدھر آواز نہ پہاڑی لوگوں کی دلربا تانيں ۔ گڈريا بھی اپنی بانسری پھينک کر گھاس پھوس پر دبکا پڑا ہے ۔ غزالوں کی چاپ اور چکوروں کے راگ کا نام و نشان نہيں ۔ ہاں کبھی کبھی برف کا تودا ندی ميں گر کر سکون کو چند لمحوں کيلئے مکّدر کر ديتا ہے

چلتا جا رہا تھا کہ کچھ دور نيچے کی طرف سے ندی ميں ہلکا سا شور سنائی ديا ۔ ميں اپنے خيالات سے چونک اُٹھتا ہوں اور کان لگا کر سنتا ہوں پھر تيزی سے قدم اُٹھانے لگتا ہوں ۔ آواز جو لگاتار آ رہی تھی کچھ واضح ہوتی ہے ۔ “کسی کے تيرنے کی آواز معلوم ہوتی ہے” ميں اپنے آپ سے مشورہ کرتا ہوں ۔ “ليکن اتنی سردی اور پھر برفانی پانی ميں تيرنا ناممکن ہے” ميرا ذہن جواب ديتا ہے اسی طرح کی سوچيں لئے ہوئے ميں آگے بڑھتا ہوں اور ديکھ کر ميری حيرت کی انتہاء ہو جاتی ہے اور اپنی آنکھوں پر يقين نہيں آتا ۔ ايک شخص بڑی جد و جہد کے ساتھ پانی کے بہاؤ کے خلاف تير رہا ہے ۔ تيز بہتی ہوئی ندی کی لہريں اسے پيچھے کو دھکيل رہی ہيں ۔ برف کے تودے اسے اپنے آگے بہا کر لے جانے کی کوشس ميں ہيں ۔ ليکن وہ تودوں کو اِدھر اُدھر کر کے پوری جاں فشانی سے اپنی منزل کی طرف بڑھنے کی تگ و دو ميں ہے ليکن اس کی آگے بڑھنے کی رفتار سُست پڑ چکی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سُست تر ہوتی جا رہی ہے ۔ وہ شخص ہار ماننے کو تيار نظر نہيں آتا کيونکہ بجائے کنارے کی طرف آنے کے ندی کے بہاؤ کے خلاف اُوپر جانے کی کوشش ميں ہے ۔ تمامتر دِقتوں کے باوجود وہ بلند حوصلگی اور اولالعزمی کے ساتھ تگ و دو جاری رکھے ہوئے ہے

ميں سوچتا ہوں “نجانے کب سے وہ اس کاروبار ميں مصروف ہے”۔ مجھ سے رہا نہيں جاتا اور ميں اپنی پوری قوت مجتمع کر کے آواز ديتا ہوں
“تم کون ہو جو اتنی سردی ميں بھی پيراکی کی مشق کر رہے ہو ؟”

“اے تماشائی ۔ تو نے مجھے مذاق سمجھا ہے ۔ ميں بہت بڑا پيراک تھا ۔ ميرے بازوؤں ميں لامتناہی قوت تھی ليکن اب ميرے بازو شل ہو گئے ہيں ۔ ميں طاقتور تھا ليکن زمانے نے مجھے نحيف اور کمزور بنا ديا ہے ۔ ليکن اے بنی آدم ۔ مجھے ديکھ اور عبرت پکڑ کہ اس عالَم ميں بھی ثابت قدمی کا دامن نہيں چھوڑتا ہوں”

ميں پوچھتا ہوں “آخر تمہارا نام کيا ہے ؟”

” ميرا نام پوچھتے ہو ؟ ميرا نام ہے نيکی اب جو کمزور ہے جس کے بازو شَل ہيں اور اب اس دنيا سے رُخصت ہونے کو ہے ۔ اور اے بنی آدم ۔ يہ ندی سيلِ زمانہ ہے جس کے بہاؤ کے خلاف جد و جہد ميری قسمت ميں لکھی جا چکی ہے ۔ ليکن ميں اپنے ارادہ کا پکا ہوں ۔ مجھے بڑی سے بڑی لہر بھی ميرے مقصد سے عليحدہ نہيں کر سکتی ۔ اس جد و جہد ميں جان دے دوں گا مگر ہتھيار ڈالنا ميرے لئے مشکل ترين کام ہے”

يہ جواب پا کر ميں نے اُسے اس کی حالت پر چھوڑ ديا مگر اس خيال نے ميرے ذہن کو مضبوطی سے پکڑ ليا اور اب ميرا دماغ مختلف خيالوں کی بجائے صرف اس ندی ۔ اس کے بہاؤ اور اس کے خلاف جد و جہد ميں اُلجھ کر رہ گيا ۔ اور ميں پھر سے ان خيالات ميں گم گھر لوٹ رہا تھا ۔ سردی کتنی تھی ؟ ميں بھول چکا تھا ۔ ميرے ذہن ميں خيالات اور تصورات کا تانتا بندھا چلا آ رہا تھا ليکن اب ميری سوچ اور غور و فکر ايک مختلف نہج پر تھے ۔ بالکل مختلف ۔ برفانی ندی ۔ بہاؤ ۔ پيراکی

اب جب بھی کبھی تنہائی ميسّر آتی ہے تو اپنے آپ کو اسی صبح ميں گم پاتا ہوں ۔ ندی ميں اس کے بہاؤ کے خلاف جد و جہد کا منظر سامنے آ جاتا ہے

تازہ خبر ۔ آخر کار

پاکستان کي فضائی حدود ميں غير قانونی طور پر داخل ہو نے والے غير ملکی فوجی جہاز کو پاکستانی ہوائی فوج نے جبری کراچی ايئر پورٹ پر اُتار لیا ہے

فوجی طيارہ بگرام ايئر بيس سے متحدہ عرب امارات کے المکتوم ايئر پورٹ جارہاتھا ۔ ايئر پورٹ ذرائع کے مطابق طيارہ انتانوف 124 اور پرواز نمبر وی ڈی اے 1455 ہے

ذرائع کے مطابق بگرام سے المکتوم ايئرپورٹ جانيوالے طيارے نيٹو رسد کيلئے استعمال ہوتے ہيں ۔ مذکورہ غيرملکی فوجي مال بردار طيارے کو بعض خفيہ اطلاعات پر کراچی ميں اتارا گيا اور اس کی چيکنگ کی جارہی ہے.