Yearly Archives: 2012

بچوں کی 5 دل پسند عادات

رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم نے فرمايا “مجھے بچوں کی پانچ عادات بہت پسند ہيں”

1 ۔ وہ رو کر مانگتے ہيں اور اپنی بات منوا ليتے ہيں

2 ۔ وہ مٹی سے کھيلتے ہيں يعنی تکبّر اور غرور کو خاک ميں ملاتے ہيں

3 ۔ جھگڑتے ہيں لڑتے ہيں پھر صُلح کر ليتے ہيں يعنی دِل ميں کينہ بُغض نہيں رکھتے

4 ۔ جو مِل جائے وہ کھاتے ہيں اور کھلاتے ہيں ۔ زيادہ جمع کرنے اور ذخيرہ کرنے کی حرص نہيں رکھتے

5 ۔ مٹی کے گھر بناتے ہيں کھيل کر گرا ديتے ہيں يعنی بتاتے ہيں کہ يہ دُنيا مقامِ بقا نہيں ہے

انسان بھی کیا چیز ہے

دولت کمانے کیلئے اپنی صحت کھو دیتا ہے
پھر صحت بحال کرنے کیلئے دولت لگاتا ہے

مستقبل کی فکر میں مبتلا رہتا ہے
حال میں مستقبل کیلئے کچھ کرنے کی بجائے
ماضی کی یاد میں حال کو ضائع کرتا ہے

جِیتا ایسے ہے جیسے کبھی مرنا نہیں
مر ایسے جاتا ہے کہ کبھی جِیا ہی نہ تھا

کیوں نہ ایسے رہا جائے کہ
نہ فشارِ خون پیدا ہو ۔ نہ احتلاجِ قلب
نہ کوئی اُنگلی اُٹھائے ۔ نہ بد دعا دے
اور جب مر جائے تو لوگ یاد کریں تو دعا دیں

اللہ اللہ کیا کر
خود بھی جی اور دوسروں کو بھی جینے میں مدد دیا کر

بد دعا پر آمین ؟

حدیث ہے کہ رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ایک دن مسجد میں منبر پر پہلا قدم رکھتے ہوئے فرمایا ” آمین ”
پھر دوسرا قدم رکھتے ہوئے فرمایا ” آمین ”
تیسرا قدم رکھتے ہوئے پھر فرمایا ” آمین ”

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم منبر پر تشریف رکھ چکے تو موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا
” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم ۔ ہم نے ایسا پہلے کبھی نہیں سُنا ”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا “جب میں نے پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھا تو جبریل علیہ السلام وارد ہوئے اور کہا
‘ غارت ہو جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اسے بغیر مغفرت پائے جانے دیا ‘۔ میں نے اس پر آمین کہا ۔
جب میں نے دوسری سیڑھی پر پاؤں رکھا تو جبریل علیہ السلام نے کہا
‘ غارت ہو جس کے سامنے آپ کا نام لیا گیا اور اس نے آپ پر درود نہ بھیجا ‘۔ میں نے آمین کہا
جب میں نے تیسری سیڑھی پر پاؤں رکھا تو جبریل علیہ السلام نے اور کہا
‘ غارت ہو جس کے سامنے اس کے ماں باپ یا ان میں سے ایک بوڑھاپے کو پہنچا اور وہ (ان کی خدمت کر کے) جنت نہ کما سکا ‘۔ میں نے آمین کہا “۔

پچھتانے سے بچیئے

محاورے ہیں

گرے دودھ پر رونا کیا ؟
اب پچھتائے کیا ہوئے جب چِڑیاں چُگ گئیں کھیت

تین چیزیں کبھی ہاتھ نہیں آتیں

وہ لمحہ جو گذر گیا
وہ لفظ جو کہہ دیا
وہ وقت جو ضائع ہو گیا

کیوں نہ پہلے ہی احتمام کریں تاکہ پچھتانا نہ پڑے

سبق
جوانی ہی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اُٹھتے ہیں جو جانا دُور ہوتا ہے

اے بندے

اے بندے

کیا تم اس زندگی میں اپنی مرضی سے آئے تھے ؟

کیا تم اپنی مرضی سے اس دنیا کو چھوڑ کے جاؤ گے ؟

تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ” نہیں ”

پھر کیوں تم اپنی اس زندگی کو اُس اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں ڈھالتے
جس کی مرضی سے تم آئے اور جس کی مرضی سے تم جاؤ گے ؟

رمضان المبارک ۔ کچھ غور طلب باتیں

1 ۔ رمضان کا روزہ فاقہ کشی نہیں ہے کہ کھایا پیا کچھ نہیں اور وہ سب کچھ کرتے رہے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے

2 ۔ روزہ اسلئے نہیں رکھنا چاہیئے کہ اردگرد سب کا روزہ ہے یا نہ رکھوں گا تو لوگ کیا کہیں گے یا یہ کہ سلِمِنگ ہو جائے گی

3 ۔ روزہ صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے رکھنا چاہیئے

4 ۔ رمضان کوئی تہوار نہیں بلکہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں اپنی تطہیر کا موقع دیا ہے

5 ۔ یہ حدیث یاد رکھنا چاہیئے ۔ جبریل علیہ السلام نے کہا ” تباہی ہو اُس پر جس نے ماہِ رمضان پایا اور اُس کی بخشش نہ ہوئی” ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہا ” آمین”۔

6 ۔ سونے کیلئے گیارہ ماہ کافی ہیں ۔ رمضان میں فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نماز تراویح اور تہجد بھی پڑھنا چاہیئے اور جتنا ہو سکے تلاوتِ قرآن شریف بھی کرنا چاہیئے ۔ یہ برکات کا مہینہ ہے اس کا ایک پل ضائع نہیں ہونا چاہیئے ۔ ساری نمازیں نہ پڑھی جائیں تو صرف ستائیسویں پوری رات نماز پڑھتے رہنا کوئی فائدہ نہیں دے گا

7 ۔ سحری کھانا چاہیئے ۔ اگر کسی وجہ سے دیر ہو جائے تو امساک سے قبل پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے ۔ اور اگر آنکھ نہ کھلے اور امساک کا وقت ہو جائے تو بغیر کھائے پیئے روزہ پورا کرنا چاہیئے ۔ اگر روزہ نہ رکھا تو کفارہ لازم ہو گا

8 ۔ مغرب کا وقت ہوتے ہی روزہ افطار کر لینا چاہیئے ۔ تاخیر سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے ۔ اگر گھر سے باہر ہوں اور ڈر ہو کہ روزہ ایسی جگہ افطار ہو جائے گا جہاں افطار نہ کیا جا سکے تو اپنے پاس افطار کیلئے کچھ رکھ لینا چاہیئے

9 ۔ افطار کے وقت اتنی دیر تک نہیں کھاتے رہنا چاہیئے کہ مغرب کی نماز ہی قضا ہو جائے ۔ افطاری پارٹیوں میں ایسا دیکھنے میں آیا ہے

10 ۔ کسی کا روزہ افطار کرانا خواہ وہ رشتہ دار یا دوست ہو ثواب کا کام ہے لیکن شان و شوکت کیلئے افطاری پارٹی کرنا گناہ بن سکتا ہے کیونکہ اللہ نے نمائش اور اسراف دونوں سے منع فرمایا ہے

آج کی دنيا ۔ ایک غور طلب کہانی

ایک صاحب بہادر اپنے بیوی بچے لے کر سیر کو نکلے کہ دنیا کی رنگینیاں دیکھیں ۔ راستے میں ایک شخص کھڑا ملا
صاحب بہادر نے پوچھا “تم کون ہو؟”
اس نے کہا “میں مال ہوں”
” صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا خیال ہے ہم اسے ساتھ بٹھا لیں ؟
سب نے کہا “ضرور کیونکہ ہمیں اس سفر میں اس کی ضرورت پڑے گی اور اس کی موجودگی میں ہم سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں”
صاحب بہادر نے مال کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور آگے بڑھے ۔ جب تھوڑا آگے گئے تو ایک اور شخص کھڑا نظر آیا
صاحب بہادر نے پوچھا ” تم کون ہو ؟”
اس نے جواب دیا “میں منصب ہوں”
صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا خیال ہے اسے ساتھ بٹھا لیں ؟”
سب نے کہا “کیوں نہیں ۔ ہمیں اس سفر میں اس کی ضرورت پڑے گی اور دنیا کی لذتوں کا حصول اس کی موجودگی میں بہت آسان ہو جائے گا”
صاحب بہادر نے اسے بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا اور مزید آگے بڑھے ۔ اس طرح اس سفر میں طرح طرح کی لذتوں سے ملاقات ہوئی اور صاحب بہادر سب کو ساتھ بٹھاتے آگے بڑھتے رہے ۔ آگے بڑھتے بڑھتے ایک اور شخص سے ملاقات ہوئی
صاحب بہادر نے پوچھا “تو کون ہے ؟”
اس نے جواب دیا” میں دین ہوں”
صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا اسے بھی ساتھ بٹھا لیں ؟”
سب نے کہا “ابھی نہیں یہ وقت دین کو ساتھ لے جانے کا نہیں ہے ابھی ہم سیر کرنے اور انجوائے کرنے جارہے ہیں اور دین ہم پر بلاوجہ ہزار پابندیاں لگادے گا حلال حرام کو دیکھو نمازوں کی پابندی کرو وغیرہ وغیرہ اور ہماری لذتوں میں رکاوٹ بنے گا ہم انجوائے نہیں کر سکیں گے ۔ ایسا کرتے ہیں کہ سیر سے واپسی پر ہم اسے ساتھ بٹھا لیں گے”
اور اس طرح وہ دین کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں چلتے چلتے آگے چیک پوسٹ آ تی ہے ۔ وہاں کھڑا شخص صاحب بہادر سے کہتا ہے “گاڑی سے اترو”
صاحب بہادر گاڑی سے اترتے ہیں تو وہ شخص صاحب بہادر سے کہتا ہے “تمھارے سفر کا وقت ختم ہو چکا۔ مجھے تمھارے پاس دین کی تفتیش کرنا ہے”
صاحب بہادر نے کہا “دین کو میں کچھ ہی دوری پر چھوڑ آیا ہوں میں ابھی جاکر اسے ساتھ لے آتا ہوں”
” اُس شخص نے کہا ہے “اب واپسی ناممکن ہے تمہارا وقت ختم ہو چکا اب تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا
صاحب بہادر نے کہا “مگر میرے ساتھ مال منصب اور بیوی بچے ہیں”
اُس شخص نے کہا “اب تمہیں تمھارا مال منصب اور اولاد کوئی بھی نہیں بچا سکتے ۔ صرف دین تمھارے کام آسکتا تھا جسے تم پیچھے چھوڑ آئے”
” صاحب بہادر نے پوچھا “تم ہو کون ؟
اُس نے کہا “میں تمہاری موت ہوں جس سے تم مکمل غافل تھے اور عمل کو بھولے رہے”
صاحب بہادر نے ڈرتی نظروں اور ڈوبتے دل کے ساتھ گاڑی کی طرف دیکھا اس کے بیوی بچے اس کو اکیلا چھوڑ کر مال اور منصب کو لئے اپنے سفر کو مکمل کرنے کے لئے آگے بڑھ گئے اور کوئی ایک بھی صاحب بہادر کی مدد کے لئے اس کے ساتھ نہ اترا