ڈاکٹر نہیں مانتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو سائنس ایلوپیتھِک میڈیسن کے نام سے بنائی گئی ہے یہ ابھی تک نامکمل ہے ۔ میں اس کے نامکمل ہونے کی وجہ سے کئی بار تکلیف اُٹھا چکا ہوں ۔ حالیہ مثال 11 دسمبر 2012ء کی ہے ۔ ہوا یوں کہ کچھ دنوں سے پیٹ میں درد تھا اور عجیب سی گڑ بڑ تھی ۔ میں صبح ساڑھے 8 بجے معدہ کے معالج (Gaestroentrologist) کے پاس پہنچا اور اپنی حالت بیان کی ۔ ڈاکٹر صاحب نے 3 قسم کی گولیاں صبح شام کھانے کو کہا ۔ اُسی دن ایک ایک گولی صبح اور ایک ایک رات کو کھا کر سویا ۔ رات کے دوران نیند کھُل گئی اور بائیں آنکھ کے نیچے تکلیف محسوس ہوئی ۔ ہاتھ لگایا تو ایسے محسوس ہوا کہ کھال اُتر جائے گی ۔ باقی رات سو نہ سکا
اُوپر والی تصویر دوائی کے استعمال سے پہلے کی ہے ۔ 12 دسمبر کو تو کچھ سُوج نہ رہا تھا ۔ 13 دسمبر کی رات تک افاقہ ہوا تو رات 9 بجے کی تصویر کھینچی جو نیچے والی ہے (موبائل فون سے خود ہی لی ہے اسلئے واضح نہیں ہے) ۔ داہنی آنکھ کے نیچے کم سوجن ہے ۔ بائیں آنکھ کے نیچے زیادہ ہے جس میں درد ہے اور خون ملی رطوبت غیرمحسوس طور پر رِستی ہے اور جلد پر سخت چھلکا سا بن رہا ہے ۔ اُبھری سطح سُرخ سے کلیجی رنگ کی ہوتی ہوئی ایک نقطے پر کالی ہو گئی ہے ۔ آگے کیا ہو گا وہ اللہ جانتا ہے
میرے ساتھ یہ پہلا نہیں آٹھواں واقعہ ہے ۔ یوں کہنا چاہیئے کے ڈاکٹر صاحبان نے اب آٹھویں بار مجھے ہاتھ دکھایا ہے
پہلی بار تو میں بچہ تھا یعنی 1948ء میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے پنسلین کا ٹیکہ لگایا ۔ 10 منٹ بعد میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانا شروع ہوا ۔ بالآخر میں گر پڑا ۔ اُٹھا کر اُنہی ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے ۔ جب مجھے ہوش آیا تو اُنہوں نے کہا ”دل کا کمزور ہے ڈر گیا ہے”۔ میں بول پڑا ”اگر میں ڈر جاتا تو ٹیکہ لگنے کے 2 منٹ بعد ہی بیہوش ہو جاتا“۔ اگلے پندرہ سولہ سال میں جب ردِ عمل عام ہوا تو مانٹو ٹیسٹ کر کے پنِسلِیں کا ٹیکہ لگانا شروع کیا گیا ۔ پھر کچھ سال بعد پنسِلِین ہمیشہ کیلئے غائب ہو گئی
1957ء میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے سلفاڈایا زین شاید زیادہ دن کھِلا دی ۔ علاج کے بعد میں صاحب فراش ہوا ۔ انجیئرنگ کالج کی پڑھائی بھی غارت ہوئی ۔ پہلے میرے ہونٹ اور آنکھیں سُوج گئے ۔ اُس کے بعد چند ماہ میں میرے ہونٹوں ۔ ہونٹوں کے نیچے ۔ بازوؤں کے اندر کی طرف اور ٹانگوں کے اندر کی طرف جہاں جلد نرم ہوتی ہے کاسنی نشان (Violet pigments) بن گئے ۔ اس کے بعد میں جب بھی بیمار ہوتا متعلقہ ڈاکٹر صاحب سے عرض کرتا کہ ”مجھے سلفا نام کی کوئی دوا نہ دیں ۔ اس کا شدید ردِ عمل ہوتا ہے“ لیکن ڈاکٹر علم والے ہوتے ہیں اور مریض جاہل اور جاہل کی کون سُنتا ہے ؟ آخر 1962ء میں ان نشانوں کے علاج کے سلسلہ میں ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا ۔ اُنہوں نے کہا”یاد کرو کہ یہ نشان پڑنے سے ایک سال قبل تک تمہیں کیا بیماری ہوئی اور اس کیلئے کون کونسی دوا کھائی ۔ ایک ہفتہ بعد آ کر مجھے بتاؤ”۔ ایک ہفتہ بعد سب سُن کر ڈاکٹر صاحب نے ھدائت کی ”یاد رکھو ۔ ساری زندگی تم نے وہ دوائی نہیں استعمال کرنا جس میں سلفا آتا ہو”۔
دسمبر 1964ء میں مجھے بخار ہوا تو مجھے ملیریا کی دوا دی گئی نام اس وقت ذہن میں نہیں آ رہا ۔ 2 دن دوا کھانے کے بعد میری حالت غیر ہونے لگی ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو ٹیلیفون پر بتایا تو گویا ہوئے ”یہ دوا ایک مشہور امریکی کمپنی نے بڑی تحقیق کے بعد تیار کی ہے ۔ اس کا ردِ عمل ہو ہی نہیں سکتا ۔ اگر آپ علاج شروع نہ کرتے تو اس سے زیادہ بُرا حال ہوتا“۔ میں نے تیسرے دن بھی دوا کھا لی ۔ چوتھے دن صبح بہت مشکل سے اُٹھ کر پیشاب کرنے غسلخانہ گیا ۔ کموڈ پر بیٹھا نہیں کہ اُٹھنے کیلئے کوئی سہارا نہ تھا ۔ دیوار تھام کر کھڑے کھڑے پیشاب کرنے لگا ۔ دیکھا کہ پیشاب کلیجی رنگ کا ہے ۔ فارغ ہو کر گھر سے نکلا اور بڑی مشکل سے چل کر ٹانگے تک پہنچا اور ہسپتال گیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے لیبارٹری بھیجا ۔ جار میں پیشاب کیا تو جیسے جار خون سے بھرا ہو ۔ جار لیبارٹری میں دیا اور ڈاکٹر صاحب کی طرف رُخ کیا ۔ اس کے بعد کا معلوم نہیں ۔ جب آنکھیں کھولیں تو ہسپتال کے کمرے میں بستر پڑا تھا ۔ میرے ایک بازو میں نالی لگی تھی ۔ خون چڑھایا جا رہا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد نرسنگ سپاہی آیا اور بتایا کہ میں 3 دن سے بے سُدھ پڑا تھا۔ میں نے سر اُٹھانے کی کوشش کی تو دنیا پھر آنکھوں سے اوجھل ہو گئی ۔ مزید 7 دن اسی طرح گزرے ۔ ہو ش آیا تو گھنٹی کا تکیئے کے پاس پڑا بٹن دبایا ۔ ایک آدمی آیا ۔ اُسے ڈاکٹر صاحب کو بلانے کا کہا ۔ شام کا وقت تھا ۔ رات کی ڈیوٹی پر ڈاکٹر صاحب آئے ۔ وہ میرے دوست کیپٹن کرامت اللہ تھے (اب ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل) ۔ انہوں نے کافی خوش گپیاں کیں ۔ اللہ نے پھر بچا لیا ۔ 15 دن ہسپتال میں رہنے کے بعد 7 دن آرام کی ھدائت کے ساتھ گھر بھیج دیا گیا ۔ ہسپتال میں سوائے ایک بوتل خون چڑھانے کے اور کچھ نہ کیا گیااور نہ اُنہیں میری تکلیف کا سبب سمجھ میں آیا ۔ دسمبر 1965ء تک پاکستان میں کئی اور اسی طرح کے کیس ہوئے اور سب نے وہی دوا کھائی تھی جو مجھے دی گئی تھی ۔ حکومت حرکت میں آئی اور متعلقہ دوا کا استعمال ممنوع قرار دے دیا گیا اور دوا تمام ہسپتالوں اور دکانوں سے اُٹھا لی گئی
ایک دہائی قبل میں بیمار ہوا تو دوسری دوا کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے مجھے کئی چھوٹی سی نئی قسم کی گولیاں دیں رات سونے قبل ایک کھانے کا کہا ۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ طاقت کی دوا ہے ۔ پہلی رات میری نیند کچھ خراب رہی ۔ دوسری رات مجھ نیند نہ آئی ۔ تیسری رات نیند نہ آنے سے طبیعت بالکل اُچاٹ ہو گئی ۔ ایک عزیز ملنے آئے ۔ میرا حال سُن کر دوائیں دیکھنے لگے اور ایک گولی دکھا کر پوچھا ”یہ دوا کھائی تھی ؟“ میرے ہاں کہنے پر بولے ”کمال ہے ۔ یہ تو نیند آور گولیاں ہیں“۔ ڈاکٹر صاحب سے اگلے روز مل کر شکائت کی کہ میرے ساتھ جھوٹ کیوں بولا ۔ بولے ”آپ ہر قسم کے نشے کے بہت خلاف ہیں اسلئے میں نے سوچا تھا کہ نفسیاتی اثر نہ ہو“۔
سَیپٹرین ۔ سَیپٹران ۔ بَیکٹرین پہلے ہی بند کی جا چکی تھیں ۔ ایمپسلین کا ردِ عمل بھی بُرا ہوا ۔ کو ایکسیلین کا بھی غلط ردِ عمل ہوا ۔ اَوگمَینٹِن سے بھی بھاگنا پڑا ۔ قصور کس کا ہوا ؟ کیا یہ میرا قصور ہے ؟
قصور کسی کا بھی نہیں شاید آپکا جسم زیادہ حساس ہے ورنہ عام طور پر اتنی زیادہ دوائیوں سے الرجی شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ آگمینٹن میری پسندیدہ دوا ہے جس سے مریضوں کے ہاضمے تو ضرور خراب ہوتے ہیں لیکن الرجی میں نے ١٥ سال میں ایک آدھ ہی دیکھی ہے۔ ڈاکٹرز حضرات میں انا شاید زیادہ ہوتی ہے اسی لیے وہ بعض اوقات مریض کی الرجی کی پرواہ نہیں کرتے۔
آپ ان تمام دواؤں کی ایک لسٹ بنا کر اپنے پاس رکھ لیجیے جس میں دوا کے نام کے ساتھ ساتھ اسکا جینرک نیم یعنی دوا کا وہ نام جس سے وہ ساری دنیا میں پہچانی جاتی ہے۔ اور ہر بار وہ لسٹ نا صرف اپنے معالج کو دکھائیے بلکہ دوا لیتے وقت یہ اطمینان کرلیں کہ لسٹ کی کوئی بھی دوا آپکے نسخے میں نہیں ہے۔ متبادل طریقہ علاج بھی آزمایا جاسکتا ہے لیکن ایلوپیتھی سے مکمل فرار تقریباٰ ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ آپکو صحت و تندرستی عطا فرمائے۔
اجمل صاحب
ڈاکٹر جواد صاحب کی راءے زیادہ صائب ہے ۔ ہر طریقہ علاج کی اپنی کمزوریاں اور خوبیاں ہوتی ہیں ۔ ایلو پیتھی کے علاوہ بھی تو دوسرے طریقہ علاج میں یہی خطرہ موجود رہتا ہے مثلا طب یونانی میں اناڑی حکماء کی تیار کردہ ادویہ بھی اسی قسم کے مسائل پیدا کرتی ہیں
اللہ آپ کو صحت و عافیت کے ساتھ ہمیشہ رکھے ۔ کہتے ہیں بعض وقت دوا مضر بھی ہوا کرتی ہے مگر ڈاکٹر سے پھر رجوع ہونے پر انہیں دوا بدلا کر دینی جاہیے نہ کہ الٹی باتیں بنائے۔۔۔ایک بار مجھے آپریش کے لئے انجکشن دیا گیا جس کا اثر سات سے آتھ گھنٹے رہنا تھا مگر ڈھائی گھنٹے بھی نہیں ہوئے آپریشن کے آخری مرحلہ ہی میں مجھے حس آنے لگی اور آپریشن کے بعد تو اتنی تکلیف جلن کے دیکھنے والی بھی رو دیے مگر مزید بے حس یا بے ہوش کردینے کہا تو اب یہ نہیں کرسکتے یہ ممکلن نہیں بہت کم ایساکسی کسی کو ہی ہوتا ہے کہتے رہے۔۔افف اللہ میں آپ کی تکلیف کو سمجھ سکتی ہوں اللہ ہمیں ان ہی ڈاکٹر کے پاس پہچائے جن کے ہاتھ میں ہمارے لئے شفاء رکھی ہو ۔۔۔
آپ کی تحریر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایلوپیتھی علاج غلط ہے بلکہ یہ ثابت ہوا کہ نالائق ڈاکٹروں یا آپ کی حساس جلد کی وجہ سے آپ کو ان تکالیف سے گزرنا پڑا۔ آپ نے دیکھا ہو جب ہومیوپیتھک ڈاکٹر یا حکیموں کی بیماری بگڑ جاتی ہے تو وہ بھی ایلاپیتھی ہسپتالوں میں داخل ہوتے ہیں۔
بہن کوثر بیگ صاحبہ
آپ مجھے اتنی دعائیں دیتی ہیں کہ اب میں آپ کی دعاؤں کا ہی منتظر رہنے لگا ہوں ۔ آپ نے درست کہا ہے جسے میں یوں بیان کرتا ہوں ”جس تن لاگے وہ تن جانے“۔
جاپان میں جب ڈاکٹر دوائی دیتا ہے تو اگر ذمہ دار ڈاکٹر ہے تو وہ پہلے پوچھ لیتا ہے جنرک یا سمپاٹس دوائی میں سے کون سی دوں؟
میں عموماً جب ڈاکٹر اس قسم کا سوال نا کرے تو خود ہی کہہ دیتا ہوں کہ جنرک دوائی مت دیجئے گا۔
جنرک اور سمپاٹس میں فرق کوئی خاص تو نہیں لیکن پاٹنٹ کی معیاد ختم ہونے کے بعد کس قسم کے مواد اور مراحل سے جنرک تیار کی جاتی ہے اس کا علم شاید نہیں ہوتا۔۔ہوتا بھی ہے تو جنرک دوائیں زیادہ ری ایکشن کرتی ہیں۔۔۔۔میرے کچھ جاپانی ڈاکٹر دوستوں نے مجھے تو یہی بتایا۔۔
ترقی پذیر ممالک میں جنرک ادویات سستی ہونے کی وجہ سے زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔۔جن کے ری ایکشن پر کوئی خاص تحقیق یا تصدیق نہیں کی ہوئی ہوتی۔۔ریاست جب ذمہ دار ہو تو اس قسم کا نالج عوام میں عام کیا جاتا ہے۔اور عوام بھی اگر شعور رکھتے ہوں تو خود سے تحقیق کرتے ہیں۔
بحرحال ہمارا سفر ابھی بہت لمبا ہے۔۔فی الحال جو میسر ہے اسی سےگذارہ کرنا ہے۔۔
ہماری دعا ہے اللہ آپ کو صحت عطا فرمائے۔
ڈاکٹر جواد احمد خان ۔ محمد ریاض شاہد اور افضل صاحبان
آپ سب درست کہتے ہیں لیکن اپنے اپنے تجربے کے مطابق ۔ میں اُن اطِباء کے قریب کبھی نہیں گیا جو نیم حکیم خطرہ جان ہوں سوائے اُن چند ڈاکٹروں کے جن کے پاس مجبوری کی حالت میں جانا پڑا ۔ میں نے واقعات کو بہت مختصر کر کے لکھ دیا تھا ۔ 1948ء میں ڈاکٹر نے مجھے ٹیکہ لگایا اور اس کا اثر دیکھنے کے باوجود تحقیق کی کوشش نہ کی ۔ 1957ء میں ڈاکٹر نے متواتر 2 ہفتے سلفا ڈایازین دی ۔ پھر جب ڈاکٹر کے بتائے ہوئے کھانے سے پیٹ خراب ہوا تو سلفا گوناڈین دی ۔ جبکہ اصول 5 دن سے زیادہ سلفا ڈرگ دینے کا نہیں تھا ۔ مجھے پتہ نہ چلا کیونکہ اُس زمانہ میں آجکل کی طرح پیٹنٹ بوتل بند یا بلِسٹر پَیک گولیاں نہیں ہوتی تھیں ۔ 1964ء میں جب ڈاکٹر نے ملیریا تشخیص کیا تو مین نے سمجھانے کی کوشش کی کہ مجھے ملیریا نہیں ہے پھر ایک دن دوائی کھانے کے بعد ڈاکٹر کو ٹیلیفون کیا کی میری طبیعت بہتر ہونے کی بجائے خراب ہو رہی ہے مگر اس نے دوائی جاری رکنے کا کہا ۔ 2 دن دوائی کھا کر پھر میں نے ٹیلیفون پر بات کی جو میں نے لکھا ہوا ہے ۔ جس ڈاکٹر نے مجھے طاقت کی دوا کہہ کر خواب آور دوا دی اسے نے ایک ماہ قبل سونے کی دوا کہہ کر مجھے دی مگر مجھے نیند نہ آئی اور میں نے ڈاکٹر کو جا کر بتایا تھا کہ دوا کا اُلٹا اثر ہوا ۔
درست کہ مجھ میں غیر معمولی حساسیت ضرور ہے لیکن یہ معاملات غیر معمولی حساسیت کے نہیں تھے ۔ پنسلین کے متعلق وہ حقیقت پہلے سے معروف تھی لیکن اس کے عام طور پر اچھے اثرات کی وجہ سے اس خامی کو نظرانداز کیا گیا ہوا تھا ۔ سلفا کے کیس میں میرے خون کے سرخ خُلیئے پھٹنا شروع ہوئے تھے ۔ سلفا کی یہ خاصیت بہی اول روز سے موجود تھی ۔ ملیریا کی دوا کا میں واضح کر ہی دیا تھا ۔ خواب آور دواؤں کے متعلق بھی معلوم تھا کہ جن کے خاندان میں کوئی تمباکو نوشی نی کرتا ہو اُن پر اس کا اثر عجیب و غریب ہوتا ہے ۔ پھر جب پڑھا لکھا ڈاکٹر ہٹ دھرمی پر اُتر آئے تو میرے جیسا 2 جماعت پاس ناتجربہ کار مریض کیا کرے
میری رائے میں یہ دراصل دوا ساز کمپنییوں کا قصور ہے جو دوا کی تشہیر میں اس دوا کے فوائد تو بہت گنواتی ہیں مگر اس کے برے اثرات یا سائیڈ ایفیکٹس بتانے کے بارے میں اتنی تندہی نہیں برتتیں۔
سعود صاحب
قصور کچھ تو ڈاکٹر صاحبان کا ہے جو پیٹنٹ دواؤں پر انمدھا اعتبار کرتے ہیں اور زیادہ دوا ساز کمپنیوں کا ہے ۔ سقم یہ ہے کہ دوا کی دریافت کے سلسلہ میں پہلی تحقیق صرف چند گِنی پِگز پر کی جاتی ہے اور پھر اس کے اثرات چند ہزار انسانوں پر دیکھے جاتے ہیں جو کمپنی کی پہنچ میں ہوتے ہیں مگر دوا ساری دنیا کو سپلائی کر دی جاتی ہے ۔ اصولی طور پر ہر دوا پر ہر ملک میں تحقیق ہونا چاہیئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی ملک پاکستان میں جو غذا گلگت بلتستان میں کھائی جاتی ہے وہ لاہور میں رہنے والے کھائیں تو بیمار ہو جائیں گے ۔ اسی طرح جو غذا کراچی والے کھاتے ہیں وہ اسلام آباد والے کھائیں تو بیمار ہو جائیں اور اس کا اُلٹ بھی درست ہے ۔ اس سے بھی چھوٹے دائرے میں آ جائیں ۔ ایک ہی شہر میں رہنے والے کچھ لوگ مرچ مصالحے کھاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں کہ مرچ مصالحہ کھا لیں تو بیمار ہو جاتے ہیں
اللہ تعالٰٰی آپ کو مکمل شفا دے ۔
عام طور پہ سخت سردیوں کے موسم میں ٹھنڈی اشیاء پینے کی وجہ سے گلے کے انفکیشن کی ضورت میں ماضی میں آگمینٹن Clamoxyl میرے فیملی ڈاکٹر استعمال کرواتے رہے ہیں۔ جس کے کھانے سے مجھے ماضی میں کبھی مسئلہ نہ ہوا۔ مگر ایک دن کیپسول لیتے ہی ہاتھ کی ہتیلیوں میں شدید کجھلی، سر کا درد ، اور جلد پہ سرخ رنگ کے دھبے نمودار ہونے شروع ہوگئے۔ میں نے فورا ہسپتال کا رخ کیا۔ چند گھنٹوں میں خود بخود آرام آگیا۔ پھر کبھی آگیمنٹن استمعال نہیں کی ۔ میری میڈیکل ہسٹری میں میں لکھ دیا گیا ہے کہ مجھے آگمینٹن سے الرجی ہے۔ اب جب کبھی انفیکشن ڈیسائز کی صورت میں میری فیملی ڈاکٹر اور دیگر اسپیشلسٹ پینٹا ماسین استعمال کوراتے ہیں۔ انفیکشن جو عام طور پہ میری اپنی بے احتیاطی کی وجہ سے گلے کا ہوتا ہے۔
پہلے کبھی آگیمٹین سے الرجی نہیں ہوئی تھی تو پھر بعد میں کیوں؟ ۔ اسکا آسان الفاظ میں کچھ اسطرح سے جواب آتا ہے۔ کہ پہلے میرے جسم کے مخصوص مدافعتی نظام کو آگمینٹن سے خدشہ نہیں تھا ۔ مگر اب میرے جسم کا مدافعتی نظام آگمینٹن کو اپنے لئیے ایک بیرونی حملہ آور سمجھتا ہے۔اور جوابی دفاعی کوشش کرتا ہے جو الرجی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
انسانی جسم میں کیمکل اور مدافعتی نظام کی ایک دنیا آباد ہے جن کا ایکشن اور ری ایکشن کا ایک چین چلتا رہتا ہے اور کبھی کبھار انسانی جسم میں ان مادوں اور مدافعتی نظام میں کچھ اسطرح رد و بدل ہوتا ہے کہ جو پہلے اشیاء موافق تھیں اب نا موافق ہو جاتی ہیں۔
یہاں جہاں میں اقامت پذییر ہوں یہاں ہر فرد خواہ وہ بڑا ہے یا چھوٹا اسے بنک کے کریڈٹ و ڈیبٹ کارڈ کی شکل کا ایک کارڈ جاری ہوتا ہے۔ اور اسکے بغیر ہسپتال اور ڈاکٹرز وغیرہ ماسوائے ہنگامی حالات کے مریض کا چیک اپ نہیں کرتے اور نہیں کر پاتے۔ کارڈ مفٹ بنتا ہے یعنی کوئی بھی بنوا سکتا ہے ۔ یہ ذاتی ہوتا ہے۔ اس پہ کاربن فلم میں مریض کا سارا بائیو میڈیکل ڈاٹا فیڈ ہوتا ہے اور ہر دفعہ ڈاکٹر کے چیک اپ کرنے سے یہ ڈاٹا ڈاکٹڑ کے کپیوٹر سے کارڈ پہ اور کارڈ سے کمپیوٹر پہ منتقل و درج ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر اپنے مریض کو دیکھنے کے بعد اسے نسخہ لکھ دیتا ہے اور میڈیکل اسٹور سے دوائی لیتے وقت آپکا کارڈ یا اسکا نمبر کمپیوٹر پہ فیڈ ہوجاتا ہے۔ یوں ہر ہر وقت مکمل درستگی سے ڈاکٹر اور میڈیکل اسٹاف کو یہ پتہ چلتا رہتا ہے کہ انکے مریض نے کون کون سی دوا اور کسقدر سخت یا نرم یا کتنے ملی گرام کی دوائیاں خرید رکھی ہیں اور استعمال کر رکھی ہیں۔یوں صرف ڈاکٹر کی صوابدید اینٹی بیکس دوائیاں مریض کو دی جاتی ہیں۔ ڈاکٹرز عام طور پہ اپنے مریضوں بہت کم اور کبھی کبھار انٹی بیکس دوائی استعمال کرواتے ہیں۔ کیونکہ ان ادویات کے ناجائز اور بے جا استعمال سے جسم کی قوت مدافعت کم ہوتی جاتی ہے۔ اسلئیے میڈیکل اسٹور سے ڈاکٹر کے نسخے اور میڈیکل کارڈ کے بغیر پنسلین فیملی اور دیگر اسطرح کی دوائیاں کسی بھی شہری یا مریض کو جاری نہیں کی جاتیں۔اسلئیے یہاں عام طور پہ کم پوٹینشی کی ادویات اپنا اثر دکھاتیں ہیں۔یہاں میڈیکل اسٹور ۔ ڈاکٹرز اور ہسپتال کمپیٹر کے ذرئعیے باہمی منسلک ہیں۔ اور ڈاکٹرز کے پاس مریض کا ریکارڈ سرعت ست رئیل ٹائم میں پہنچ جاتا ہے۔
اللہ تعالٰی آپ کو صحت دے۔
جاوید گوندل صاحب
آپ میرے اس تحریر لکھنے کے مقصد کو درست سمجھے ہیں اور نہائت معقول تبژرہ کیا ہے ۔ ہسپانیہ کی تہذیب بہت پرانی ہے اور لگتا ہے کہ فرنینڈو اور حواریوں کی فوجیں قتلِ عام کے باوجود ہسپانیہ کی تہذیب کو نقصان نہیں پہنچا سکیں ۔ ہمارے ہاں تو ہر کوا ہنس کی چال چلنے کی ناکام کوشش میں اپنا آپ گنوانے پہ تُلا رہتا ہے ۔ کاش عوام کے غمخوار ہونے کے دعویدار ہمارے یہ حکمران بینظیر انکم سپورٹ اور اس جیسے دوسرے پروگراموں کے نام پر گُلچھڑے اُڑانے کی بجائے ہسپانیہ کی طرح اپنے عوام کا کچھ خیال کریں
چونکہ میں بھی ایک ‘پرانا’ قسم کا ڈاکٹر ہوں کچھ نہ کچھ کہنا چاہتا ہوں
پاکستان میں نہیں لیکن انگلینڈ اور امریکہ جہاں ہر جگہ کام کیا ہے یہ لازمی پوچھا جاتا ہے کہ الرجی کس کس چیز کی ہے خصوصاً پنسلین کے معاملے میں کیونکہ پنسلین الرجی عام ہے اور سلفا بھی
جواد صاحب جب میری عمر کو پہںچیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس قسم کی مختلف الرجیاں ایک ہی آدمی میں ایسا اچنبھا نہیں بہت سے مریض ملیں گے آپ کو
آپ کو اللہ تعلےا صحتیاب کرے لیکن آپ ڈاکٹر سے بےدھڑک پہلے اپنی الرجی کی داستان نیان کیا کریں کچھ ڈاکٹر پھر بھی غلطی کرتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں
دوسری بات آپ کی درست ہے کہ یہ میڈیسن نامکمل ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر ضابطہ طب نا مکمل ہے مگر آپ کی داستان غیر تکمیلی حالت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ جتنا علم پہلے موجود ہے اس پر دھیان نہین دیا گیا
مجھے ریٹایر ہوءے دس برس ہونے کو ہیں ہسپتالوں سے زیادہ واسطہ نہیں رہا مگر محسوس ہو رہا ہے کہ ڈاکٹر اس قسم کی احتیاط نہیں برت رہے جس کی ہمیں بہت تعلیم دی گئ تھی اور میں خود ڈر رہا ہوں کہ کسی مشکل کے وقت کیا ہوگا میرے پاس بھی بھائ اجمل آپ کی طرح کے تجربے ہیں باوجود اس کے کہ میں اور میری بیگم دونوں ڈاکٹر رہے ہیں
بھائی وھاج الدین احمد صاحب
آپ نے درست کہا کہ موجود معلومات سے استفادہ نہیں کیا جاتا ۔ دوسری طرف جو دوا امریکا کی ایک ریاست میں ٹیسٹ کی گئی ہے ضروری نہیں کہ وہ ساری دنیا میں وہی اثر دکھائے جو اس نے امریکا کی اس ریاست میں دکھایا
aaj ke docter aur futpath ke hakeem mein koi farq nehe
hum ne taraqqi karne ke bajay tanazali ki hai aajkal tashkhees ka zima b mareez ka hai q k khoon test peshab test xray altra sound waghaira tashkhees k zraay hain jin ki repote ka mareez ko koi faida nehe iin sab ke zariy docter ko btaya jata hai k mareez ko kea bimari hai lekin paisay mareez se liay jatay hain
قربان حسین صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ ویسے میرا تجربہ ہے کہ سب ڈاکٹر ایسا نہیں کرتے ۔ تازہ ترین یہ ہے کہ سوائے اموکسِل کے ٹائی فائڈ کے علاج کی تمام دوائیوں کا بھی بُرا ردِ عمل ہو چکا ہے
قربان حسین صاحب
میرے بلاگ کے حاشیئے میں مندرجہ ذیل پر کلک کر کے انسٹال کر لیجئے تو آپ بآسانی اردو لکھ سکیں گے
Install Urdu