بہت سے لوگ طاہر القادری صاحب کی 23 دسمبر کی تقریر کے سحر میں مبتلا ہیں اور سراپا تعریف ہیں ۔ طاہر القادری صاحب کو اللہ نے مسحور کُن تقریر کرنے کا فن عطا کیا ہے جس کے باعث سامعین ان کی تقریر میں موجود کمی کی طرف نظر نہیں کر پاتے ۔ طاہر القادری صاحب کی نیت پر شک کئے بغیر بھی اگر ان کے کہے الفاظ پر غور کیا جائے تو ان میں تضاد ملتا ہے
طاہر القادری صاحب نے پاکستان کے آئین کی تائید کرتے ہوئے اعادہ کیا کہ وہ سب کچھ پاکستان کے آئین کے تحت کرنا چاہتے ہیں مگر نہ صرف ان کا مطالبہ کہ ”نگران حکومت بنانے کیلئے فوج اور اعلٰی عدلیہ کو شامل کیا جائے“ آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ 25 دسمبر کا جلسہ بھی آئین کی خلاف ورزی تھا
طاہر القادری صاحب نے قرار دیا کہ اگر اُن کے مطالبہ پر عمل نہ کیا گیا اور موجودہ قوانین کے تحت انتخابات کرائے گئے تو انتخابات غیر آئینی ہوں گے
کوئی عمل اگر غیر آئینی ہو تو اس کے خلاف عدالتِ عظمٰی میں درخواست دی جاتی ہے لیکن ایسی کاروائی کی طرف کوئی اشارہ نہیں دیا
طاہر القادری صاحب نے کہا کہ وہ انتخابات ملتوی کرانے نہیں آئے اور یہ بھی کہا کہ پہلے ساری گندگی صاف کی جائے خواہ اس میں 90 دن سے زیادہ لگ جائیں
چیف جسٹس آف پاکستان واضح کر چکے ہیں کہ صرف ملک میں سول وار ہونے کی صورت میں انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔ 90 دن کی حد آئین نے مقرر کی ہے چنانچہ اسے عبور کرنا بھی آئین کی خلاف ورزی ہو گا
طاہر القادری صاحب نے کہا کہ اسلام آباد میں اکٹھے ہونے والے (بقول اُن کے) 40 لاکھ افراد وہ فیصلے کریں گے جو آج تک پارلیمنٹ کے ارکان نہیں کر سکے
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا آئین اس کی اجازت دیتا ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا 14 جنوری کو اسلام آباد میں ریفرنڈم ہو گا اور طاہر القادری صاحب کے حواریوں کی رائے پاکستان کے 18 کروڑ عوام کی رائے ہو گی ؟ آئین کے مطابق دونوں سوالوں کا جواب ” نہیں “ ہے
طاہر القادری صاحب نے 2 بڑی پارٹیوں (پی پی پی اور پی ایم ایل ن) کو رد بھی کیا ۔ طاہر القادری صاحب کو خیبر پختونخوا ۔ بلوچستان اور سندھ میں پذیرائی ملنے کی بہت کم توقع ہے البتہ اس اُمید میں کہ پنجاب میں گھسنے کا راستہ نکل آئے کراچی ۔ حیدر آباد یا سکھر میں ایم کیو ایم طاہر القادری صاحب کے جلسے کو کامیاب بنا سکتی ہے اور شاید اسی خیال سے ایم کیو ایم کا 50 رکنی وفد جس میں کچھ سنیئر رہنما بھی شامل تھے لاہور کے جلسے میں موجود تھا۔ پی پی پی کا کچھ نقصان ہوتا نظر نہیں آ رہا (ویسے سننے میں آیا ہے کہ 23 دسمبر کے جلسے میں پی پی پی کے کارکن بھی موجود تھے)۔ گو کہ طاہر القادری صاحب سیاست سے انکار کر رہے ہیں لیکن واقعات اور خود اُن کے الفاظ چُغلی کھا رہے ہیں کہ ساری مہم جوئی کا مقصد داہنے بازو کی جماعتوں جن کے رہنما نواز شریف بن سکتے ہیں کو حکومت بنانے سے روکنا ہے ۔ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری مل کر نواز شریف اور اس کی ہمخیال جماعتوں کے ووٹ توڑنے کی کوشش میں ہیں ۔ لگتا یہی ہے کہ طاہر القادری صاحب کو استعمال کرنے والے بھی وہی ہیں جو عمران خان کو استعمال کر رہے ہیں
طاہر القادری صاحب نے کبھی کسی آمر کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی یہاں تک کہ اسلام آباد کے لال مسجد اور جامعہ حفصہ للبنات پر فوج کشی جس میں سینکڑوں معصوم بچیاں ہلاک ہوئیں کے خلاف تحریک چلانا تو بڑی بات ہے کبھی احتجاج نہیں کیا
طاہر القادری صاحب نے 2 مارچ 2010ء کو جہاد کے خلاف فتوٰی دیا جو کتاب کی صورت میں اُردو میں 600 اور انگریزی میں 512 صفحات پر مشتمل ہے ۔ بظاہر یہ فتوٰی دہشتگردی کے خلاف ہے لیکن اصل میں فرنگیوں کو خوشی کرنے کی کوشش ہے ۔ مزید ۔ ۔ ۔
On 24 October 2010, Qadri was invited to deliver a speech entitled “Jihad: Perception and reality” to a gathering of thousands of British Muslims at the largest European multicultural gathering, the Global Peace and Unity event. Qadri stated in his speech: “Let me make it very clear and sound, let me remove any ambiguity that no leader or a group has any authority to declare jihad. If any leader or a group does that, it is terrorism and not jihad.” He added: “it is solely the prerogative of a state authority to declare jihad and only as a matter of last resort when diplomacy and all other efforts to make peace have failed.”
Qadri refutes the division of the world into two categories Dar al-Islam (the abode of Islam) and Dar al-harb (the abode of war) and that the west is the latter; Qadri instead divides the world into five categories. Qadri argues that the word “Dar al-Islam” actually implies “the abode of Peace” rather than the abode of Islam and that all countries under the United Nations (UN), whether Muslim or non-Muslim actually come under Dar al-Ahad (house of treaty) which Qadri says is the same as Dar al-Islam.
طاہر القادری صاحب بھی مدینہ کی ریاست والا قانون لانا چاہتے ہیں، عمران خان صاحب بھی اور دفاع پاکستان والے بھی۔ یہ سب آپس میں مل کیوں نہیں جاتے؟ یقیناََ ان سب کے اپنے اپنے مفاد ہوں گے جو ان کو مل کر کام کرنے سے روک رہے ہیں۔
محصور کُن۔۔۔
یعنی مسحور کن۔۔۔ہے نا؟
محترم ۔۔۔طاہر القادری آپ کے پاکستان کا اگلا وزیراعظم ہوگا۔کیونکہ اگر زراداری پاکستان کا صدر بن سکتا ہے تو طاہر القادری تو اس کے سامنے ابھی طفل مکتب دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔یاد رکھئے صرف طفل مکتب دکھائی دیتا ہے۔۔۔ہے نہیں
بس آپ یہ سوچیں کہ اگر طاہر القادری پاکستان کا وزیراعظم ہوا۔۔۔ ” جو کہ ہوگا ” تو پاکستان کیسا ہوگا۔
سر پہ ٹوپی نیچے سے ننگا۔۔
سب سے بڑی حیرانی یہ ہے کہ دائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کے مقابلے میںدائیں بازو والی جماعتیں اتحاد کے بارےمیں سوچ تک نہیں رہیں۔ بغیر اتحاد کے دائیںبازو کی جماعتوں کا الیکشن جیتنا بہت مشکل ہو گا۔ یہ سچ ہے کہ عمران خان کی طرح طاہرالقادری صاحب نے بھی تھوڑی جلدبازی کا مظاہرہ کیا۔ اگر یہ جلسہ انتخابات کے دنوں میںکرتے تو زیادہ بااثر ہوتا۔
ویسے طاہر القادری جیسے پڑھے لکھے اور عقل مند آدمی کے بارے میں ایسے تضادات کی خبریں حیران کن ہیں۔ کہیں ناں کہیں کوئی خرابی ہے۔
اسد حبیب صاحب
اگر یہ لوگ دین اور نیکی کی رٹ لگانے کی بجائے واقعی نیکی کرنا شروع کر دیں جس میں حقوق العباد اول ہے تو ملک و قوم سنور جائے
احمد عرفان شفقت صاحب
بالکل
پردیسی صاحب
تشریف آوری کا شکریہ ۔ لوگوں کو تقریروں کی کمائی کھانے کی عادت پڑ گئی ہے ۔ لیکن ان کا یعنی عوام کا کیا کریں جو دھواں دار مگر کھوکھلی تقریروں سے محصور ہوتے ہیں
افضل صاحب
موصوف سے میری صرف ایک ہی ملاقات ہوئی تھی 1990ء میں انتخابات سے پہلے اور اسی میں ان کا تضاد سامنے آ گیا تھا ۔ اُس کے بعد جب بھی کسی نے توجہ دلائی ایک نیا تضاد سامنے آیا
جناب اجمل صاحب
مجھے یاد ہے کہ آپ کا ایک فیس بک اکاونٹ بھی تھا وہ کیا ہوا ۔ ڈھوندا لیکن ملا نہیں
جناب پاکستان کی سیاست میں بھانت بھانت کی بولیاںبولنے والے گروپس ہیں۔سیاسی پارٹیاں اپنے اندر جمہوری اقدر کو فروغ نہیں دے پائیں۔ جسے ہم جمہوریت سمجھے بیٹھے ہیں وہ حقیقت میں بادشاہت کی بد ترین شکل کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ یہاں پر ہر ایک نےجمہوریت کے نام پر مداری تماشہ دکھایا ہے۔ طاہرالقادری بھی انہی مداریوں میں سے ایک مدارری ہے اور بس ۔ جہاں تک عمران کو کو آپ نے ایجنسیوںکا ہتھیار کہا۔شائد آپ کی بات درست ہو مگر بہت ہی نا انصافی ہوگی کہ آپ اس کی وجوہات کو زیر نظر نہ رکھیں ۔ جس کو آپ دائیں بازو کا علمبردار ظاہر کر رہے ہیں وہ کاروبار کے گُر جاننے والا شخص اس خطے میں سے نظریاتی سیاست کے خاتمے کا قاتل شخص ہے ۔ اب ہمارے ہاںنہ کوئی رائٹ ہے اور نہ کوئی لیفٹ بچا ہے بس مُفادات ہیں۔ کاروباری سیٹھ اور مُلا کا اَتحاد 1990 میں بھی بنا تھا تفصیل بتانے کی ضرورت نہیںہے۔ جب سیٹھ لگائے گا پیسہ اور مُلا لگائے گا فتوی غریب تو پھر بھی رگڑا ہی جائے گا ۔ ہاتھ سیٹھ کے غُلام اور عقل مُلا کی ملکیت۔
اصل اعترض آپ کو یہ ہے کہ یہ سارا تام جھام نواز لیگ کے ووٹ بانٹنے کی سازش ہے …
یہ بھی آپ نے خوب کہی…
آج کل پاکستان میں کوئی بھی سیاسی یا غیر سیاسی کام ہوتا ہے .. شریف لیگ کے تنخواہ دار کالمنسٹ ..بلاگست اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کو اسٹبلشمنٹ کی سازش لگتی ہے …
اب خدا جانے اسٹبلشمنٹ ہے کون…. فوج سے تو نواز لیگ کے لیڈر راتوں کو چھپ چھپ کے ملتے ہیں ..
….عدلیہ ان کی مٹھی میں ہے ..جسٹس شریف تو ایک مثال تھا
صحافت انکے گھر کی لونڈی ہے ..
رہی بات ٤٠ لاکھ لوگوں کے فیصلہ کی تو جناب یہ ٢٠ کروڑ کا فیصلہ نہیں ہو گا .. لیکن پاکتان میں صحیح ہوتا کب ہے …
اب پنجاب میں ہی آپ کے ممدوح کی حکومت ہارس ٹریڈنگ سے ٥ سال پورے کر رہی ہے … لیکن کوئی نوٹس نہیں لیتا …
اگر آپ اتنے شد و مد کے ساتھ نواز سہریف کی فیملی لیگ کی حمایت جاری رکھیں گے تو لوگ یہ پوچھنے پہ مجبور ہوں گے آپ قاسمی صاحب کی طرح ایک سفیر بنانے پی رازی ہوئے یا عرفان صدیقی کی طرح صدر کا سیکریٹری
بننے پہ
آپ کی قیمت کیا ہے …؟
ویسے جو لوگ اپنی جماعت میں جمہوریت نہیں لا سکتے وہ پاکستان میں کیا لائیں گے …
ہاں اس دفعہ شاید شریف فیملی کا کاروبار اور ترققی کر جاۓ
گا
محمد ریاض شاہد صاحب
فیس بُک اکاؤنٹ مجھ سے سنھالنا مشکل ہو گیا تھا اس لئے اسے بلکل محدود کرتے ہی بنی
حسیب حیات صاحب
آپ کا خیال درست ہے کہ ہمارے ہاں سیاست نہیں بدترین بادشاہت ہے ۔ عمران خان کو میں نے ایجنسیوں کا آدمی نہیں کہا ۔ صرف اتنا کہا ہے کہ طاہر القادری صاحب کے محرک وہی ہیں جو عمران خان کے ہیں ۔ میں نے داہنے اور بائیں بازوں کے الفاظ قرآن شریف کے حوالے سے نہیں کہے ۔ صرف وہ کہا ہے جو لوگ عام طور پر کہتے ہیں ۔
بلاشبہ میں نے ۔ میرے بچوں اور بہن بھائیوں نے عمران خان کو کینسر ہسپتال کیلئے بہت چندہ دیا لیکن وہ عمران خان کیلئے نہیں تھا اس اچھے مقصد کیلئے تھا جسے عمران خان نے یا اس کے حواریوں نے سیاست میں آنے کیلئے خوب استعمال کیا ۔ اس کے مقابلے میں میاں شریف خاندان نے اتفاق ہسپتال بہت پہلے بنایا اور پھر شریف سٹی ہسپتال بنایا اور چلا رہے ہیں ان کیلئے اُنہوں نے کسی سے چندہ نہیں لیا اور نہ کبھی سیاست میں ان کا ذکر کیا ۔ میں عمران خان کو باعمل آدمی نہیں سمجھتا ۔ بطور کپتان اس نے اپنی ٹَیں قائم رکھنے کیلئے جاوید میاں داد کا کیریئر تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ جب ورلڈ کپ جیتا تو جس ٹیم نے جیتا تھا اسے بھول کر کہا
“It was my obsession Shaukat Khanum Memorial which I got”.
عمران خان نے پرویز مشرف کے خلاف زبان نہ کھولی ۔ الطاف حسین کے خلاف لندن میں مقدمہ لڑنے کا بہت شور مچایا تھا مگر الطاف حسین کی سپورٹ سے کراچی میں اپنا جلسہ کیا ۔ موجودہ سیاستدانوں کو کرپٹ کہہ کر ان سے بات کرنے کو تیار نہ تھا پھر انہی کو گلے لگایا ۔ کہا کہ جس نے تحریکِ انصاف میں آنا ہے پہلے اسمبلی سے مستعفی ہو مگر لغاریوں کو بغیر مستعفی ہوئے سینے سے لگا رکھا ہے ۔ شیخ رشید کے ساتھ خود راولپنڈی میں جلسہ کیا جس میں 1000 آدمی بھی اکٹھے نہ ہوئے ۔ اب کہتا پھرتا ہے کہ نواز شریف شیخ رشید کی مسلم لیگ ن میں آنے کیلئے منت کر رہا ہے
غریب جب خود اپنے سر میں خاک ڈالنا پسند کرتا ہے تو کون ہے جو اسے نہلاتا رہے ؟
کتنے فیصد ووٹ ڈالنے جاتے ہیں ؟ اوسط 40 فیصد سے کم ۔ ان 40 فیصد کی اکثریت اپنے غلط مقاصد کی تکمیل کی اُمید میں یا وقتی امداد کے نتیجے میں لُٹیروں یا دھوکے بازوں کو ووٹ دیتے ہیں
60 فیصد جو پڑھے لکھے ہیں گھر پر آرام کرتے ہیں اگلے 5 سال باتیں بنانے اور نصائح کی تقریریں کرنے کیلئے
اللہ کا فرمان اٹل ہے
سورت 53 النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (ترجمہ ۔اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی
سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ (ترجمہ ۔ اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے)
نعمان صاحب
محترم میں نے کسی انسان کا دیا نہیں کھایا ۔ اللہ کا دیا اپنی محنت سے کھایا ہے ۔ میں کسی کی تعریف کرتا ہون تو ماضی کے تجربہ کی بنا پر کرتا ہوں ۔ فرنگی کے بنائے جمہوری نظام کی سیاست کے خمیر میں ہی جوڑ توڑ ہے ۔ سو ہوتا رہے گا ۔ ہمارے ہان نطام کی خرابی مین نے مختصر حسیب حیات صاحب کے جواب میں لکھ دی ہے ۔
یہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا ”اندھوں میں کانا راجہ“۔ اس لحاظ سے نواز شریف باقی سب بڑے لیڈرون سے بہتر ہے ۔ اگر موجودہ سیاستدانوں میں مقابلہ کیا جائے تو لیاقت بلوچ ۔ خواجہ سعد رفیق ۔ اسحاق ڈار ۔ خواجہ آصف اچھے سیاستدان ہوتے ہوئے باکردار لوگ ہیں ۔ کچھ اور لوگ بھی ہوں گے لیکن کیا عوام ان میں سے کسی کو وزیرِاعظم بنائیں گے ؟ ایک اہم مثال دیتا ہوں عظیم احمد طارق ایک اچھا سیاستدان اور باکردار آدمی تھا ۔ پہلے کامیاب جلسہ پر اس ہلاک کروا دیا گیا ۔ دوسرا اچھا آدمی کاظمی تھا جسے ایم این اے ہوتے ہوئے جان کے لالے پڑے مگر ایک ہمدرد اعلٰی افسر نے بچا لیا پھر اس نے گم نام زندگی اختیار کی ۔ ایم کیو ایم میں تیسرا اچھا آدمی عمران فاروق تھا ۔ مجبور ہو کر سیاست چھوڑ گیا لیکن ظالمون نے اسے معاف نہ کیا ۔ بینطیر بھٹو بحیثیت انسان اپنے باپ سے بہتر تھی جانتے ہیں اسے کسی نے ھلاک کروایا تھا ؟
بجائے دوسروں تنخواہ دار بنانے سے قبل سوچیئے کہ آپ کا اپنا کردار کیا ہے ؟
جناب نواز سحریف کو اندھوں میں کانا راجہ … یا کم برا لیڈر …
کہ کر آگے لانا
یہ سب نواز لیگ کے اوچھے ہتھکنڈے ہیں …
اب لوگ ان سے بیوقوف نہیں بنیں گے …
عمران خان کم از کم کوئی فیملی انکارپوراٹڈ لیگ شروع کرنے نہیں جا رہا ہے …
جہاں بھائی .. بہنوئی ، داماد .. بیٹے بیٹی لیڈر ہوں .. اور بزرگ سیاستدانوں کو انکی ہاں میں ہاں ملانی پڑے …
پوری نواز لیگ میں ایک لیڈر نہیں ہے شریف خاندان کے باہر جسسے وزیر علی یا وزیر ا عظم بنایا جا سکے … ہان ہے تو ضرور نواز لیگ کا سمدھی اسحاق ڈار …
ہمارا المیہ یہ ہے کے ہم پہلے لیڈر چنتے ہیں پھر اس میں خوبیاں دھھونڈتے ہیں … اگر لیڈر میں خوبیاں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں تو …
یہ کہ کر دل بہلا لیتے ہیں کہ ہمارا لیڈر اندھوں میں کانا راجہ ہے …
رہی بات لوٹوں سے ہاتھ ملانے کی تو مشرف کے سارے بھائی بینڈ تو نواز فیملی لیگ میں اکٹھا ہو گے ہیں
یہان تک کے گوہر ایوب بھی جو کہتا تھا کہ نواز تو ایٹمی دھماکے ہی نہیں کرنا چاھتا تھا .. بلکہ فوج کی دھمکی پر دھماکے کیے …
نواز فیملی لیگ نے اس بیان کی تصدیق کر دی بغیر کسی وضاحت کے گوہر ایوب کو فیملی لیگ میں لیکر ….
نعمان صاحب
عمران خان جسے آپ پسند کرتے ہیں اُس نے آج تک کونسا عوام کی بہبود کا یا ملک کی بہتری کا کام کیا ہے ؟ اور اس کی پارٹی کے اندر کونسی جمہوریت قائم ہو گئی ہے ؟ جو آپ فدا ہوئے جا رہے ہینں ۔ اگر اسے حکومت مل گئی تو اللہ جانے کیا کرے گا ۔ وہی نہیں کرے گا جو وہ کرکٹ مین بحثیت کپتان کرتا رہا ؟ اگر اسحاق ڈار نواز شریف کا سمدھی ہے تو اس مطلب یہ نہیں ہے کہ برا آدمی ہے ۔ دوسری مخالف پارٹیوں والے بھی اسحاق ڈار کی تعریف کرتے ہیں ۔ اور خواجہ آصف پی پی پی کے فاروق ایچ نائیک کا بہنوئی ہے اور وہ دونوں بالک مختلف کردار کے مالک ہیں
آپ ہی بتا دۓن نواز فیملی لیگ میں کون سی اچھائی ہے …
سواۓ اس بات کے نواز شریف تصدیق شدہ کم برا آدمی ہے …
جس میں اسکے آپ جیسے چاہنے والوں کو بھی خوبی نظر نہیں آتی لہذا “اندھوں میں کانا راجہ ” کہ کر تعریف کے نام پر اسکی کرپشن/برائی پہ مہر ثبت کر دیتے ہیں
نعمان صاحب
آپ مائنس (جرمنی) یا اس کے جوار میں بیٹھے ہیں ۔ پاکستان میں ووٹ دینے آنا نہیں ۔ بیکار کی بحث کرتے جا رہے ہیں ۔ بات کسی کی بھی ہو آپ نواز شریف کو لے کے بیٹھ جاتے ہیں ۔ جیسا کہ انتباہ جلی حروف مین لکھا ہوا ہے مجھے چاہیئے کہ غیر متعلقہ تبصرے حذف کر دوں ۔
جناب ہر انسان میں بُرائیاںبھی ہوتی ہیں اور پھر کُچھ اچھائیاں بھی ۔ عمران نے ورلڈ کپ اپنے نام کیا بقول آپ کے بہت سوںکا حق مارا بشمول میاں داد۔ اگرا آپ 1992 کی ٹیم اور اُس کی سپرٹ پر نظرثانی کریں تو آپ کو واضح محسوس ہوگا کہ وہ فقط ایک چالیس سالہ بندے کی یکجا کی ہوئی تھی۔ جہاں تک شوکت خانم کا ذکر ہے تو یہ ایک بہت بڑا کام تھا اور بہت بڑی ہمت کا مُتقاضی ۔ میری کی ہوئی کوشش کُچھ معنی نہیں رکھتی اگر اُس کو ایک بہت بڑی اور مضبوط تحریک نہ مل جائے اور وہ تمام کی تما م تحریک فقط عمران خان سے ملی۔ شوکت خانم ایک اجمتائی کاوش کا نتیجہ ہے اور اس پر ہم سب کو فخر ہے ۔ شریف میڈیکل ہا سپٹل سے اس کا کوئ موازنہ نہیں ہے جو کہ ایک بادشاہ کی خُدا ترسی کا یک نمونہ ہے اور ایسے نمونے تاریخ میں ہزاروں پیش کیئے جاسکتے ہیں۔ مُجھے بہت خوشی ہوتی کہ آپ نواز شریف کی اُصولی سیاست کا بھی اُنہی اُصولوں پر کچا چٹھا کھولتے جن اُصولوں کے تحت آپ نے عمران کی سیاست اور تاریخ بیان فرمائی ہے ۔
جناب میں نواز شریف کو لیکر نہیں بیٹھا …
بلکہ آپکی تحریر کا لب لباب ہی یہ تھا
” واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری مل کر نواز شریف اور اس کی ہمخیال جماعتوں کے ووٹ توڑنے کی کوشش میں ہیں ۔ لگتا یہی ہے کہ طاہر القادری صاحب کو استعمال کرنے والے بھی وہی ہیں جو عمران خان کو استعمال کر رہے ہیں”
اب آپ یہ نہ کہ دیجیے گا کہ یہ آپ نے نہیں کہا …
اب کچھ کہوں تو آپ فرماتے ہیں کہ میں جرمنی میں ہوں ..تو جناب ووٹ تو میرا بھی ایک ہے اور آپ کا بھی ایک ہے …
…ویسے حیرت ہے آپ خود ہی بھول گے کے آپکی تحریر کا مرکزی خیال کیا تھا …
اگر طاہر القادری کی حمایت آپکے مقامی لیڈر کے گڑھ /علاقے میں نہیں ہو رہی ہوتی تو آپ اور دوسرے ن لیگ کے ما ہران قلم خاموش رہتے …
ویسے آپ ،میرے تبصرے حذف کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ویسے بھی خاص آپکے لئے ہی ہوتے ہیں
حسیب حیات صاحب
آپ اگر سمجھتے ہیں کہ نواز شریف بادشاہ اور عمران خان فقیر ہے تو الگ بات ہے لیکن آپ کچھ اور لوگون کو بھول رہے ہیں جو عمران خان کی دولت کا چوتھائی بھی نہیں رکھتے تھے اور ایسے بھی جن کے پاس بمشکل دو وقت کا کھانا ہوتا تھا اُنہوں نے ہسپتال بنائے ۔ ابرار الحق ۔ مرحومہ بیگم سرادار کے بیٹے جنہوں نے اپنی ماں کے نام ہسپتال بنایا ۔ اور سب سے بڑھ کر منشی خان جس نے اپنی زمیں اور بیوی کا زیور بیچ کر ہسپتال بنانا شروع کیا اور پھر اس کے رشتہ دار اور گاؤں والوں نے بھی اسی طرح اس کا ساتھ دیا ۔ اور آپ شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ شہزاد رائے کیا کر رہا ہے
عمران خان جو اپنی پسند کی شادی کر کے نباہ نہ سکا وہ ملک کیسے چلائے گا ۔ اس کی پارٹی کے اندر کی سیاست بھی اجارہ داری کا ایک نمونہ ہے ۔ چلیئے فرض کرتے ہیں کہ عمران خان ہر فن مولا ہے ۔ ذرا بتایئے کہ اس کی پارٹی میں کتنے بے لوث محبِ وطن محنتی سیاست دان ہیں جن کی بنا پر وہ حکومت کا تانا بانا بنائے گا ؟ اصغر خان کے ساتھ بھی اسی طرح ہجوم اکٹھا ہوا تھا جب اس نے عمران خان جیسے نعرے لگائے تھے مگر ایک ہی امتحان میں اُس کی سمجھ بوجھ سامنے آ گئی تھی ۔
میں نے ایوب خان سے لے کر آج تک کے سارے سیاستدانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد نواز شریف کو بہتر قرار دیا تھا ۔ آپ پر کوئی زور نہیں ہے کہ آپ مانیں ۔ ویسے میں صرف پارٹی کے سربراہ کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیا کرتا بلکہ سربراہ کے ساتھ امیدوار کے ماضی کو بھی دیکھ کر ووٹ دیتا ہوں
نعمان صاحب
قیافہ آرائیاں آپ خوب کرتے ہیں ۔ کیا ایم کیو ایم سکھر حیدرآباد اور کراچی کے باہر کہیں ہے ؟ تو پھر میں اس کے متعلق کیوں لکھتا رہا ہوں ۔ آپ آزاد ہیں طاہرالقادری کو ووٹ دیجئے بلکہ آیئے اور 14 جنوری کو اسلام آباد میں احتجاج شروع کیجئے