پچھلے دنوں ارتقاءِ حیات پر استنجہ کے متعلق پڑھا تو مجھے پرانی بات یاد آئی
شروع مارچ 2012ء میں میرے ایک محترم قاری نے مجھے باعِلم اور بااعتماد ہونے کا اعزاز بخشا (جس کیلئے میں اُن کا ممنونِ احسان ہوں) اور اپنی ذاتی پریشانی سے متعلق مشورہ مانگا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اُسے کامل شفاء و صحت عطا فرمائے
محترم قاری کی پریشانی
مجھے ایک عرصے سے ایک شک سا ہے جو دُور کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا مطالعہ زیادہ ہے اس لیے تکلیف دے رہا ہوں۔ کبھی کبھار جنسی تحریک کی وجہ سے سفید رنگ کی رطوبت کا اخراج ہو جائے، میں منی کی بات نہیں کر رہا۔ یہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہاں آخری لائن میں یہی سوال ہے ۔ سفید رنگ یا شفاف کہہ لیں قسم کا مادہ جو دودھیا نہیں ہوتا، کسی بھی قسم کے ارادی فعل کی وجہ سے خارج نہیں ہوتا بلکہ غیر ارادی انداز میں، غالباً اس کی وجہ کمزوری ہوتی ہے۔ کیا اس کے اخراج کے بعد غسل کرنا واجب ہے؟
میں نے جواب لکھا
“میں نہ تو مُفتی ہوں اور نہ ماہرِ فقہ ۔ سکول کالج وغیرہ میں سائنس پڑھی ہے ۔ اسلئے میں ہر معاملے کو سائنسی لحاظ سے پرکھتا ہوں ۔ کسی چیز یا معاملہ کا مطالعہ کرنے کیلئے اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے یا محرکات کا ادراک ۔ منی کے خارج ہونے پر نہانا واجب ہے ۔ جس مادے کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کا محرک وہی ہے جو منی خارج ہونے کا ہے پھر اس مادے کے اخراج پر نہانا واجب نہ ہو ۔ یہ میری سمجھ سے باہر ہے ۔ جب اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے حرام اشیاء کا بتاتے ہوئے بتایا ہے “اور وہ چیز جس سے گھِن آ جائے” یعنی جی خراب ہو وہ بھی حرام ہے ۔ تو اس اصول سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ احتیاط لازم ہے ۔ اللہ مجھے سیدھی راہ پر قائم کرے”
جواب دینے کے بعد ایک نئے قاری نے میری ایک تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ پر مدعو کیا جو اسی قسم کے دین کے متعلق وضاحتی سوالات و جوابات تھے ۔ میں نے موصوف کو متذکرہ بالا سوال لکھ بھیجا تو اُن کا مندرجہ ذیل جواب آیا جو وہ قبل ازیں کسی اور سائل کیلئے اپنی ویب سائٹ پر لکھ چکے تھے
موصوف کا جواب
ایک بھائی نے پہلے بھی مذی سے متعلق سوال کیا تھا۔ وہی آپ کو بھیج رہا ہوں۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مذی یا ودی کے نکلنے سے غسل لازم نہیں ہوتا۔ صرف عضو تناسل کو دھونا اور وضو کرنا ہی لازم آتا ہے۔ غسل صرف اسی صورت میں واجب ہوتا ہے جب مادہ منویہ شہوت کے ساتھ نکلے
سوال جو اُن سے کیا گیا تھا ۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ بعض اوقات پیشاب کے بعد عضو سے ایک خاص قسم کی رطوبت جسے غالباً مذی کہا جاتا ہے خارج ہونے لگتی ہے اور یہ سلسلہ کچھ دیر تک وقفہ وقفہ سے جاری رہتا ہے جب دیکھ لیتا ہوں تو اسی وقت دھونے لگ جاتا ہوں مگر بعض اوقات معلوم بھی نہیں ہوتا اور وہی رطوبت خارج ہوجاتی ہے اور پھر جلد ہی خشک ہوجاتی ہے تو براہ کرم اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں کہ جب رطوبت خشک ہوجائے تو اس کو دھونے کی حاجت پڑتی ہے یا نہیں؟ میں اپنے اجتہاد کی بدولت خشک رطوبت جو کسی بھی صورت نظر نہیں آتی دھونے کی زحمت نہیں کرتا اور بار بار ڈریس بدلنے کی تکلیف سے جان چھڑانے کیلئے خشک ہونے کے بعد نہیں دھوتااور پھر مجھےمعلوم بھی نہیں ہوتا کہ رطوبت کہاں کہاں پر لگی ہے ۔۔۔۔براہ کرم آپ اس سلسلہ میں اپنا نقطہ نظر بیان فرمادیں
موصوف نے جو جواب دیا تھا ۔ یہ بہت سے لوگوں کا مسئلہ ہے۔ اسے مذی نہیں بلکہ ودی کہتے ہیں۔ مذی شہوت کے ساتھ نکلتی ہے جبکہ ودی پیشاب کے بعد آتی ہے۔ یہ دونوں ناپاک ہوتی ہیں۔ اس مسئلے کا سادہ سا حل یہ ہے کہ آپ اپنے انڈر ویئر کے اندر مخصوص مقام پر ایک ٹشو پیپر یا چھوٹا سا کپڑا رکھ لیا کریں۔ جو ودی نکلے گی، وہ اس میں جذب ہوتی رہے گی اور آپ کا لباس محفوظ رہے گا۔ ہر نماز سے پہلے آپ اسے نکال دیں۔ اگر عضو کو نہ بھی دھوئیں تو حرج نہیں کیونکہ یہ ٹشو وہی کام کرے گا جو مٹی کا ڈھیلا کرتا ہے یعنی رطوبت سے آپ کے عضو اور لباس کو پاک کر دے گا”۔
میں نے اُنہیں لکھا
مندرجہ ذیل استدلال میرے دماغ میں نہیں گھُس رہا
“اگر عضو کو نہ بھی دھوئیں تو حرج نہیں کیونکہ یہ ٹشو وہی کام کرے گا جو مٹی کا ڈھیلا کرتا ہے یعنی رطوبت سے آپ کے عضو اور لباس کو پاک کر دے گا”
میرے مطالعہ اور تعلیم کے مطابق
اوّل ۔ مٹی کا استعمال اس وقت کافی ہے جب پانی میسّر نہ ہو یا پانی کے استعمال سے صحت بگڑنے کا اندیشہ ہو
دوم ۔ مٹی کے ڈھلے سے خود صاف کرنے اور سامنے ٹِشُو پیپر رکھ دینے میں فرق ہے ۔ ٹِشُو رطوبت کو چُوس کر عضوء کی بیرونی سطح پر پہنچا دے گا جس کے باعث دھونا واجب ہو جاتا ہے ۔ یہ ٹِشُو جب گیلا ہو گا تو انڈر ویئر کو بھی گیلا نہیں کرے گا اس کا کیا ثبوت ہے ؟
موصوف کا جواب آیا
دین میں اتنی سختی نہیں ہے کہ انسان کی زندگی مشکل بن جائے۔ عہد رسالت میں پانی ذرا مشکل سے دستیاب ہوتا تھا اس وجہ سے عام طور پر لوگ استنجا کے لیے ڈھیلے ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ پانی سے دھونا ایک اضافی چیز تھی جسے ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اگر ٹشو سے احتمال ہو کہ یہ نجاست کو پھیلا دے گا تو پھر میں آپ سے متفق ہوں کہ دھونا ضروری ہے۔ ویسے اب اس قسم کے ٹشو آ گئے ہیں جو نجاست کو پھیلاتے نہیں ہیں بلکہ اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ انڈر ویئر کو گیلا کرنے کے معاملے میں بھی احتیاط کی جا سکتی ہے۔ مذی اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ وہ پیشاب کی طرح ہر چیز کو گیلا کر دے۔ ایک آدھ قطرہ ہی ہوتا ہے جو اگر مناسب انداز میں تہہ کیے ہوئے ٹشو ہوں تو انڈر ویئر کو متاثر نہیں کرتے۔ اس معاملے میں میں آپ کو یہ مشورہ دوں گا کہ دیگر اہل علم سے بھی ڈسکس کر لیجیے اور پھر جس رائے پر آپ کا ذہن مطمئن ہو، اسے اختیار کر لیجیے۔ اصل چیز ہمارا اطمینان ہے۔ اگر میری رائے سے آپ کا اطمینان نہیں ہو رہا تو آپ بلا تکلف وہ رائے اختیار کیجیے جس پر آپ کا اطمینان ہو۔ ہم میں سے کوئی بھی معصوم پیغمبر نہیں ہے اور غلطی کر سکتا ہے”۔
میں نے لکھا
قبل اس کے کہ میں مزید کچھ لکھوں میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں
میں نہ تو مُفتی ہوں اور نہ ماہرِ فقہ . میں طالب علم ہوں اور پچھلی سات دہائیوں سے علم سیکھنے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہوں . میں عملی زندگی میں یقین رکھتا ہوں اور دوسرے فرد سے وہی کہتا ہوں جس پر میں خود عمل کروں
میں آپ سے اختلاف کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ مجھ سے پوچھے جانے والے یا اپنے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کے جواب ڈھونڈ رہا ہوں
بلا شُبہ دین میں سختی نہیں ہے . سختی کی تعریف ذرا مُشکل ہے . آدمی سے آدمی تک بدل سکتی ہے اور اپنی اپنی سوچ کے مطابق بھی بدلی جاتی ہے
میں ایک سادہ سی مثال دیتا ہوں . مجھے سات سال قبل زمین پر بیٹھنے اور جھُکنے سے منع کر دیا گیا . میں نے فرض کے سامنے اس عُذر کو چھوٹا سمجھتے ہوئے اس پر عمل نہ کیا اور تکلیف برداشت کرتا رہا جو میری برداشت سے باہر نہ تھی ۔ ساڑھے تین سال قبل میں نے زمین پر بیٹھنا اور جھُکنا چھوڑ دیا ۔ تب سے میں کُرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں ۔ ایسا میں نے “دین میں سختی نہیں ہے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا
اب آتے ہیں ٹِشو پیپر کے استعمال کی طرف
ٹِشو پیپر جہاں آدمی رکھے گا کیا وہ بعین ہی وہیں رہے گا ؟
درست کہ آجکل بہت اچھے جاذب ٹشو پیپر ملتے ہیں ۔ بات صرف اتنی ہے کہ ٹی وی کے اشتہار والا وہ پیمپر بھی دنیا میں کہیں نہیں ملتا جو سوتے بچے کا سارا پیشاب یوں جذب کر لیتا ہے کہ بچہ گیلا نہیں ہوتا
مٹی سے صاف کرنے کے بعد پانی سے دھونا اضافی کیسے ہوا ؟ از راہِ کرم اس کا حوالہ قرآن یا حدیث یا صحابہ کرام یا تابعین سے دیجئے
مذی یا مدی کی مقدار جس کا ذکر ہوا وہ اتنی تھی کہ کپڑوں کو لگ جائے
آپ کے اس استدال سے میں متفق ہوں کہ وہی اختیار کیا جائے جس سے اطمینان ہو
موصوف کا جواب آیا
مٹی کے ڈھیلوں سے استنجا تو معروف عمل ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی “کتاب الطہارۃ” دیکھ لیجیے۔ اس پر بہت سی احادیث مل جائیں گی جن میں پتھروں سے استنجا کا عمل بیان ہوا ہے۔ ان سب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عربوں کے ہاں عام پریکٹس تھی۔
میں نے اُنہیں لکھ بھیجا
میں نے صرف مجموعہ حدیث مسلم سے چند حوالے دیئے ہیں ۔ مزید مسلم میں اور بخاری میں بہت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مٹی صرف مجبوری کی حالت میں استعمال کی جائے
References From Hadith Muslim
Chapter# 45, Book 7, Number : 2941
Kuraib, the freed slave of Ibn Abbas, narrated from Usama b. Zaid (Allah be pleased with him) that he had heard him saying: Allah’s Messenger (may peace be upon him) proceeded from Arafa, and as he approached the creek of a hill he got down (from his camel) and urinated, and then performed a light ablution. I said to him: Prayer, whereupon he said: The prayer awaits you (at Muzdalifa) So he rode again, and as he came to Muzdalifa, he got down and performed ablution well. Then Iqima was pronounced for prayer and he ‘observed the sunset prayer. Then every person made his camel kneel down there, and then Iqama was pronounced for ‘Isha’ prayer and he observed it, and he (the Holy Prophet) did not observe any prayer (either Sunan or Nawifil) in between them (He observed the Fard of sunset and ‘Isha’ prayers successively
Book 7, Number: 2943
Usama b. Zaid (Allah be pleased with him) narrated: Allah’s Messenger (may peace be upon him) was on his way back from ‘Arafat and as he reached the creek (of a hillock) he got down and urinated (Usama did not say that he poured water), but said: He (the Holy Prophet) called for water and performed ablution, but it was not a thorough one. I said: Messenger of Allah, the prayer! Thereupon he said: Prayer awaits you ahead (at Muzdalifa). He then proceeded, until he reached Muzdalifa and observed sunset and ‘Isha’ prayers (together) there.
Book 4, Number: 1671
Ibn ‘Abbas reported: I spent a night with my maternal aunt (sister of my mother) Maimuna. The Apostle of Allah (may peace be upon him) got up during the night and relieved himself, then washed his face and hands and went to sleep. He then got up again, and came to the water skin and loosened its straps, then performed good ablution between the two extremes. He then stood up and observed prayer. (I also stood up and stretched my body fearing that he might be under the impression that I was there to find out what he did at night). So I also performed ablution and stood up to pray, but I stood on his left. He took hold of my hand and made me go round to his right side. The Messenger of Allah (may peace be upon him) completed thirteen rak’abs of his night prayer. He then lay down and slept and snored (and it was his habit to snore while asleep). Then Bilal came and he informed him about the prayer. He (the Holy Prophet) then stood up for prayer and did not perform ablution, and his supplication included there words:” O Allah, place light in my heart, light in my sight, light in my hearing, light on my right hand light on my left hand, light above me, light below me, light in front of me light behind me, and enhance light for me.” Kuraib (the narrator) said There are seven (words more) which are in my heart (but I cannot recall them and I met some of the descendants of ‘Abbas and they narrated these words to me and mentioned in them: (Light) in my sinew, in my flesh, in my blood, in my hair, in my skin, and made a mention of two more things”.
اُنہوں نے جواب دیا
Thanks for sharing Ahadith. I shall look into them and if found convincing evidence, will change my views. Anyway, thanks for sharing.
اُس وقت حدیث کا حوالہ تھا تو حدیث سے ہی دلیل پیش کی تھی ۔ قرآن شریف کو بیچ میں لانا مناسب نہ سمجھا تھا ۔ اب یہ 2 حوالے ضروری سجمھتا ہوں
سورت 4 النّسآء ۔ آیت 43 ۔ اے ایمان والو ۔ تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ حالتِ جنابت میں (نماز کے قریب جاؤ) تا آنکہ تم غسل کر لو سوائے اس کے کہ تم سفر میں راستہ طے کر رہے ہو، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے لوٹے یا تم نے (اپنی) عورتوں سے مباشرت کی ہو پھر تم پانی نہ پاسکو تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مسح کر لیا کرو، بیشک اللہ معاف فرمانے والا بہت بخشنے والا ہے
سورت 6 المآئدۃ ۔ آیت 6 ۔ اے ایمان والو! جب نماز کیلئے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو ۔ پس اس سے اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کا مسح کر لو ۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ
تبصرہ بلاگر ۔ سورت المآئدہ کی آیت 6 کے آخر میں اللہ کا فرمان ہے ”اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے“۔ لیکن اس سے پہلے جو اللہ کا فرمان ہے اس پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ نرمی بحالتِ مجبوری ہے نہ کہ اپنی مرضی سے جو چاہا نرمی کے تحت کر لیا
یہ کن باتوں پر آپ اتنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے اگر بیماری کی وجہ سے کپڑے ناپاک ہوتے ہیں تو ان کو بچانے کی کوشش کیجیے مگر بیماری کی وجہ سے ایسی ناپاکی قابل معافی بھی ہے۔ مذی اکثر پیشاب کے بعد نکلتی ہے ناں کہ سارا دن وقفے وقفے سے۔ اگر وقفے وقفے سے نکلتی ہے تو پھر اس کا علاج کرانا چاہیے۔ سب سے بہتر علاج شادی ہے۔ اگر شادی کیلیے وسائل نہیں ہیں تو پھر کپڑوں کو پاک رکھنے کی اپنی سی سعی کرتے رہنا چاہیے۔ ہم نے تو یہ بھی سن رکھا ہے کہ پیشاب یا مذی کی مقدار کا تعین بھی کیا گیا ہے یعنی اگر ایک حد سے زیادہ ہو تو پھر ناپاکی کا خدشہ ہے۔ ساری بات نیت کی ہے اگر آپ نے جان بوجھ کر اپنے کپڑے ناپاک نہیں کیے تو پھر آپ کو معافی ہے۔
ویسے اب تو پیمپر بھی بازار میں دستیاب ہیں جو مجبوری یا بیماری کی صورت میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
مجبوری کی حالت میں بہت ساری رعائتیں ہیں اور اسی وجہ سے دین میں سختی نہیں ہے۔ ہم جہاں کام کرتے ہیں وہاں وضو کا بندوبست نہیں ہے۔ باتھ روموں میں پاؤں دھونے کی سخت ممانعت ہے۔ اب ہم مسلمان ملازمین کی اکثریت کام پر یا تو پاؤں کا مسہ کر لیتی ہے یا دھوتی ہی نہیں۔ اگر دین کی سختی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پاؤں دھوئے بغیر کسی کا وضو مکمل نہیں ہوتا۔ مگر دین میں آسانی کی وجہ سے یہاں کام کرنے والے تمام مسلمان بھائی امام سمیت وضو کے اس طریقے پر متفق ہیں۔
افضل صاحب
قطرہ دو قطرے کسی ایک جگہ پر لگیں تو اسی جگہ کو دھونا ہوتا ہے ۔ اگر پیشاب ادھر ادھر لگ جائے تو نہانا ہوتا ہے ۔ پانی نہ ملنے یا بیماری کی صورت میں مسہ کیا جاتا ہے ۔ جو مسئلہ دفتر کا آپ نے بتایا ہے اس کیلئے صبح وضو کر کے جایئے اور دفتر میں پاؤں یا جرابوں پر مسہ کر کیجئے
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 135 حدیث مرفوع مکررات 55 متفق علیہ 6
مسدد، عبداللہ بن داؤد، اعمش، منذر، ثوری، محمد بن حنفیہ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھے جریان کا مرض تھا، جس سے مذی نکلا کرتی تھی، میں نے مقداد سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس کا حکم) پوچھیں، چنانچہ انہوں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اس (کے نکلنے) میں وضو (فرض ہوتا) ہے۔
سعود صاحب
تائید کا شکریہ
http://alifta.com/Fatawa/Fatآآپ نے اس آسان سے مسعلے کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ اس لنک کو جیک کریں۔ حوالاجات کے لیے ایک اور لنک بیجتا ہوں۔awaDetails.aspx?languagename=ur&View=Page&PageID=11582&PageNo=1&BookID=3
اس لنک میں سب حوالاجات ہیں