قسط ۔ 1 کیلئے یہاں کلک کیجئے
منقول ہیں پروفیسر حافظ محمد عبداللہ بہاولپوری کے کتابچہ(مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے نام) میں سے چند اقتباسات
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل۔81) ’’اور اعلان کردے کہ حق آچکا اور باطل نابود ہوگیا، یقیناًباطل تھا بھی نابود ہونے والا‘‘
اسلام میں خلافت کا تصور
خلافت کا تصور جس سے کفر خائف ہے یہ ہے کہ حاکم اعلیٰ اللہ ہے اور انسان جو حقیقت میں ایک صحیح مسلمان ہی ہو سکتا ہے روئے زمین پر اس کا خلیفہ ہے۔سب انسان اپنی خلقت کے اعتبار سے برابر ہیں۔کیونکہ سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔کسی کو کسی پر فوقیت نہیں۔فوقیت صرف نیکی اور تقویٰ سے ہے۔
جیسے اللہ کی حاکمیت وسیع ہے اسی طرح اس کے خلیفے کی خلافت بھی روئے زمین پر وسیع ہے۔اسلام کے لیے کوئی ملکی حدود نہیں۔روئے زمین پر اسلام پھیلانا خلیفہ کا فرض ہے۔خلافت کے اس تصور سے مسلمانوں میں وحدت اور ایک مرکز کا احساس پیدا ہوتا ہے۔جہاد کا جذبہ ابھرتا ہے ۔جب سب مسلمان برابر ہیں تو قومی اور علاقائی عصبیتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔خلافت کا یہ تصور کفر کے لیے الٹی میٹم ہے اور اسلام کے لیے توسیع کا پروگرام جس کے لیے جہاد کی ضرورت ہے اور جہاد کا حکم یہ ہے کہ جب تک کفر مٹ نہ جائے جہاد جاری رکھو ۔ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ (البقرۃ ۔193) ‘‘ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے۔ ’’
کفر جانتا ہے کہ خلافت الٰہیہ اور جہاد ایسے لفظ ہیں کہ ان سے مسلمانوں کی وہ دینی حس بیدار ہوتی ہے جو سب عصبیتوں کو ختم کر دیتی ہے اور مسلمان جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔اس لیے کفر خلافت کے تصور کو برداشت نہیں کرتا وہ اسے ہر صورت میں مٹانا چاہتا ہے،وہ جمہوریت کا سبق پڑھاتا ہے تاکہ مسلمان اللہ کو بھول کر اپنی حکمرانی کی دوڑ میں لگ جائیں۔مختلف عصبیتیں پیدا کر کے الیکشن لڑیں اور انتشار کا شکار ہوں۔اسلام کی توسیع اور جہاد کا جذبہ ان کے دلوں سے نکل جائے چھوٹی چھوٹی اپنی جمہوریتیں بنا کر دست و
گریباں رہیں۔جب کمزور ہو جائیں تو کفر کے دست نگر رہیں۔
جمہوریت
جمہوریت مستقل ایک علیحدہ نظام ہے اسلام ایک علیحدہ نظام ہے ۔جمہوریت کو کافروں نے ایجاد کیا ہے اسلام اللہ کا نظام ہے جو ساری کائنات میں جاری ہے ۔جمہوریت میں عوام ہی سب کچھ ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اللہ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔جمہوریت میں عوام ہی طاقت کا سر چشمہ سمجھے جاتے ہیں ،ان کی حکمرانی ہوتی ہے،وہ اپنے معاشرے کا خود ہی دستور بناتے ہیں،خود ہی قانون۔جو پارٹی اکثریت میں ہو حکومت کرتی ہے جو اقلیت میں ہو محکوم ہوتی ہے ،اس طرح انسان انسان پر حکومت کرتا ہے
اسلام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ کی ہوتی ہے ۔ اب انسان اس کے حکم کے تابع ہوتے ہیں راعی اور رعایا سب اللہ کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔اسلام میں قانون اللہ کاہوتا ہے کوئی انسان کسی انسان پر اپنے قانون کے ذریعے حکم نہیں کر سکتا ۔حکومت سب پر اللہ کی ہوتی ہے
جمہوریت میں اکثریت جو چاہتی ہے کرتی ہے۔جمہوریت میں حق نا حق جائز نا جائز اچھا برا فی نفسہ کوئی چیز نہیں۔ جو اکثریت منظور کر دے وہی حق اور جائز حتیٰ کہ اگر اکثریت فعل قوم لوط (sodomy) کو جائز قرار دے دے تو معاشرے میں وہ بھی جائز سمجھا جائے گا ۔جمہوریت میں اکثریت کو بالا دستی ہوتی ہے۔ اکثریت اپنی اکثریت کے بل بوتے پر جو چاہے کرے ،حلال کو حرام کر دے حرام کو حلال،جمہوری نظام میں سب کچھ روا ہے
اسلام میں اقلیت اور اکثریت کوئی چیز نہیں۔ اسلام میں طاقت حق کو حاصل ہوتی ہے جو اللہ کا قانون ہے۔حق اقلیت میں ہو یا اکثریت میں۔بالا دستی حق کی ہوتی ہے ۔جو حق نہیں خواہ وہ اکثریت میں ہو اسلام میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔ قرآن مجید میں ہے ۔ وَلَوْ اتَّبَعَ وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ (المومنون 71)”اگر حق ہی ان کی خواہشوں کا پیرو ہو جائے تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز درہم برہم ہو جائے“ یعنی اگر حق عوام کے تابع ہو جائے خواہ وہ اکثریت میں ہی ہوں تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے اس کاصاف مطلب ہے کہ اسلامی نظام میں جمہوریت چل ہی نہیں سکتی ۔ اسلام میں جوں ہی جمہوریت آئی اسلامی نظام درہم برہم ہوا۔اسلام حق کی برتری چاہتا ہے
جمہوریت میں مذہب (دین) کوئی چیز نہیں مذہب (دین) ہر آدمی کا اپنا ذاتی مسئلہ ہے اور پرائیویٹ مسئلہ ہے ۔ہر کوئی جو مرضی مذہب (دین) رکھے کوئی پابندی نہیں۔جمہوریت کی نظر میں اسلام اور کفر دونوں برابر ہیں۔جمہوریت لادینیت کا دوسرا نام ہے۔جمہوریت کا ذہنوں پر یہ اثر ضرور ہوتا ہے کہ آدمی سیکولر سا ہو جاتا ہے اور نہیں تو دینی غیرت تو ضرور ختم ہو جاتی ہے۔اسلام ایک مستقل مذہب (دین) ہے جسکی بنیاد اللہ ہی کے تصور پر ہے۔اسلام کی نگاہ میں مذہب (دین) صرف اسلام ہے،باقی سب باطل ہے ۔ فَذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ۖ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ (یونس 32) ”پھر حق کے بعد اور کیا رہ گیا بجز گمراہی کے“
اسلامی نظام میں باطل کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔باطل کو مٹانا اسلام کا فرض ہے اور یہی جہاد ہے جو قیامت تک جاری ہے۔جب جمہوریت اور اسلام میں اتنا تضاد ہے تو جمہوریت اسلامی کیسے ہو سکتی ہے ؟ نظام اسلام چلانے والوں کا انتخاب عوام کے ہاتھ میں دینا جمہوریت میں تو جائز ہو سکتا ہے ،اسلام میں جائز نہیں کیونکہ عوام تو کالانعام ہوتے ہیں۔ ان کو دھونس ،دھاندلی اور دھوکے سے ہر وقت ورغلایا جا سکتا ہے وہ کبھی صحیح انتخاب نہیں کر سکتے۔ یہ کام تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو صاحب کردار ہوں اور خود اسلام میں اجتہادی بصیرت رکھتے ہوں ۔ عوام کے سپر دیہ کام کر دینا ایسی ہی حماقت ہے جیسے کسی بڑے کارخانے کی تنصیب کا کام دیہاتیوں کے سپرد کر دینا۔ عوام کو یہ حق دینا گویا اسلام کو عوام کے تابع کرنا ہے کہ وہ جیسا اسلام چاہتے ہیں لائیں گے مزدوروں کا اسلام لائیں گے۔ عوام کا اسلام لائیں گے۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ اسلام ایک ہے۔ اصل میں یہ لوگ اپنی ذہن کی کجی کو بھی اسلام سمجھتے ہیں کیونکہ آج کل کے مسلمانوں کا اسلام کے بارے میں نظریہ بڑا عجیب ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ مسلمانوں میں چل جائے سب کچھ اسلام ہے۔ ان کے نزدیک مسلمان اسلام سے نہیں بلکہ اسلام مسلمانوں سے بنتا ہے۔ جو کچھ مسلمان کرتے جائیں وہ اسلام بنتا جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اسلام اللہ کا دین ہے مسلمانوں کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ اگر وہ خالص رہے ،ملاوٹ بالکل بھی نہ ہو تو اسلام ہے۔ ذرا بھی ملاوٹ یا رد و بدل ہو جائے تو وہ کفر ہو جاتا ہے۔ لوگ اسلام کے تابع رہیں تو مسلمان ہیں اسلام کو اپنا تابع بنائیں تو کافر ہیں
اسلام کا تو یہ حکم ہے کہ عوام کے کسی حق پر خلیفہ کو ہٹایا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ اللہ کا نائب ہے۔ لیکن جمہوریت کہتی ہے کہ ہر پانچ سال بعد ضرور الیکشن ہو گا تاکہ خلیفہ کو بدلاجا سکے اس کا کوئی قصور ہو یا نہ ہو۔ لہٰذا ہر پانچ سال بعد والے الیکشن کروانے میں اسلام کے اس حکم کی صریح مخالفت ہے۔ اللہ کی حاکمیت کا ابطال ہے۔ نظریہ خلافت الٰہیہ کا استیصال ہے۔ آپ احادیث کو دیکھیں پھر اندازہ کریں کہ اس الیکشن بازی میں اسلام کی کتنی مخالفت ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے اسلام میں الیکشن بازی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام میں الیکشن نہ پہلی بار جائز ہے نہ پانچ سال بعد۔ جب اسلام عوام کی حکومت کے حق کو ہی تسلیم نہیں کرتا تو الیکشنوں کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟ عوام کو الیکشنوں کی اجازت دینے کے معانی یہ ہیں کہ حکومت عوام کا حق ہے۔ عوام کو حکومت کا حق دینے کے معانی یہ ہیں کہ اللہ علی الاطلاق حاکم نہیں۔ زمین پر حکومت عوام کی ہے۔ جب زمین پراللہ کی حاکمیت نہ رہی تو اللہ کے احکام ماننے کا سوال کہاں رہا۔ تو پھر اسلام کہاں رہا اور یہی کفر چاہتا ہے کہ جمہوریت کے ذریعے مسلمانوں کو ملحد اور لا دین بنائے۔ الیکشنوں میں صریحاً اسلام کی مخالفت ہے
1 ۔ الیکشن جمہوری نظام کا ایک عمل ہے تو الیکشن کروانے میں جمہوری نظام کی ترویج ہے۔ چونکہ جمہوری نظام کفر کا نظام ہے لہٰذا الیکشن کروانا گویا کفر کے نظام کو رواج دینا ہے
2 ۔ الیکشن جمہوری عمل ہے اور جمہوریت کفر کا نظام ہے اس نظام کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ اللہ اور اسکی حاکمیت کوئی چیز نہیں۔ خلافت الٰہیہ کا تصور ملوکیت کا استبدادی تصور ہے۔حکومت عوام کا حق ہے عوام ہی سب کچھ ہیں ۔عوام کو چاہیے کہ الیکشن کے ذریعے اپنے اس حکومت کے حق کو استعمال کریں ۔لہٰذا الیکشن کروانا گویا اس کفریہ عقیدے کو تسلیم کرنا ہے
3 ۔ الیکشنوں کی بنیاد یہ عقیدہ ہے کہ حکومت عوام کا حق ہے اللہ کا حق نہیں،الیکشن کروانا گویا عوام کے اس حق کو تسلیم کرنا ہے۔جس سے اللہ کی حاکمیت کی نفی ہوتی ہے
4 ۔ اسلام کہتا ہے حکومت اللہ کا حق ہے کیونکہ ہر چیز کا خالق و مالک وہی ہے ۔زمین پر بھی حکومت اللہ ہی کی ہے ۔زمین پر اللہ کا نائب خلیفہ ہوتا ہے۔ اس نائب کا کام اللہ کے احکام کو نافذ کرنا ہوتا ہے ۔اس نائب کے لیے عوام کا نمائندہ ہونا ضروری نہیں ،وہ چند ایک کا مقرر کردہ بھی ہو سکتا ہے، وہ غیر ملکی بھی ہو سکتا ہے ،وہ خود قابض بھی ہو سکتا ہے۔جو اللہ کے دین کو نافذ کرے وہ نائب ہے۔عوام اسے منتخب کر سکتے ہیں نہ معزول ۔الا یہ کہ وہ اللہ کا باغی ہو جائے ،عوام اپنے کسی حق کی وجہ سے اسے نہیں ہٹا سکتے۔
اسلامی سیاست
اسلامی سیاست کی راہ اسلامی جمہوریت کی طرح عافیت کی راہ نہیں ، بہت کھٹن ہے ، پر خطر ہے ، جان لیوا ہے ، صبر آزما ہے لیکن ہے یقینی کیونکہ جہاد کی راہ ہے، جب پہنچائے گی خواہ دیر سے پہنچائے، پہنچائے گی ٹھکانے پر۔ جمہوریت کی طرح لٹکائے ٹرخائے گی نہیں۔ اسلامی تاریخ دیکھ لیں۔ اسلام جب آتا ہے کفر کو پچھاڑ کر آتا ہے ۔ یہ نہیں کہ کفر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کفر کے ساتھ آئے۔ اس کے آنے کا انداز قرآن بیان کرتا ہے وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۔ ”حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا“۔ اسی لیے جمہوریت خواہ اسلامی ہو اسلام نہیں لا سکتی۔ اگر جمہوریت اپنی بے بسی میں کبھی اسلام لائے بھی تو کفر کے ہاتھوں سمجھوتہ کر کے لائے گی۔ تاکہ کفر کے لیے کاروائی کا موقعہ رہے۔
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل۔81) ۔ ”اور اعلان کردے کہ حق آچکا اور باطل نابود ہوگیا، یقیناًباطل تھا بھی نابود ہونے والا“۔ والی بات نہ بنے اور جو اسلام اسکے انداز سے نہیں آتا وہ نہیں رہتا
پاکستان کب سے اسلامی بنا ہے؟ قرار داد مقاصد کو پاس ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے؟ لیکن چونکہ درمیان میں جمہوریت کا ہاتھ رہا ہے اس لیے آج تک پاکستان کو اسلام کے پاؤں نہیں لگ سکے۔ اسلام کبھی نہیں آتا جب تک کفر کو پچھاڑ نہ دے کفر پر چڑھ نہ جائے کفر کو مسل نہ دے کہ وہ پھر اٹھنے کے قابل نہ رہے اور یہ جمہوریت کے تحت کبھی نہیں ہو سکتا۔ اسلامی سیاست ہی ایسا کر سکتی ہے۔ اسلامی سیاست کیا چیز ہے؟ اسلام لانے کی اسلامی کوشش جو بھٹو اور ایوب جیسے کفر کے آئینوں سے آزاد ہو کر اسلام لانے کی نیت سے کی جائے اور اسلام پر منتج ہو۔ یہ ذہن کا بگاڑ ہے ، یہ جمہوریت کا اثر ہے کہ آئین بھٹو اور ایوب بنائیں اور ہم اسلامی بن کر ان آئینوں کی پابندی کرتے رہیں ۔ اسلام کفر کے آئینوں کے دماغ توڑنے سکھاتا ہے نہ کہ ان کی پابندی کرنا۔قرآن کہتا ہے ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ (الانبیاء 18) ۔ ”بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے۔ اور اسی وقت نابود ہو جاتاہے، تم جو باتیں بناتے ہووہ تمہارے لئے باعث خرابی ہیں“۔
ہمیں اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھنا ہوگا ۔جمہوریت کو چھوڑ کر انکی سیاست اور تدابیر کو اپنانا ہو گا ۔ان جیسے کارنامے انجام دینے ہوں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمیں ان شاء اللہ کامیابی ہو گی اور اگر ہم اپنے اسلاف کو چھوڑ کر کفر کے نظام جمہوریت کے پیچھے پڑے رہے تو خسر الدنیا و الآخرۃ والا ہمارا انجام ہو گا۔
أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ (الحدید 16)
”کیا اب تک ایمان والوں کیلئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہو جائیں، اور انکی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی، پھرجب ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے ،اور ان میں بہت سےفاسق ہیں“ ۔
ایک دوسرے اہلِ عِلم کی تحریر اِن شاء اللہ چند دن بعد
واہ کیا مضمون آپ نے لکھا، میں تودو تین بار اسے ایک ساتھ پڑھتی رہی ۔بہت اچھے سے اسلامی حکومت اور جمہوری حکومت کا فرق اور پوری طرح سے کفر کے جانے اور اسلامی حکومت کا قائم ہونا ضروری ہے نہیں تو نظام یوں ہی درہم برہم ہوتے رہے گا۔الیکشن کے بارے میں جو سمجھایا ہے وہ بھی بہت زبردست ہے اور بھی کئی باتوں کی جانکاری ملی اللہ آپ کے علم اور لکھنے کی صلاحیّت میں خوب اضافہ فرمائے تاکہ ہم بھی مستفید ہوتے رہیے۔
،
میں عرصہ دراز سے یہی کہہ رہی ہوں کہ
اسلامی اور جمہوریہ یہ دونوں متضاد ہیں
اسلامی قانون کوئی ایک بھی ہو تو بتلائے
ہر قانون کو اپنی مرضی میں تبدیل کرلیتے ہیں
ہر ایک کو استثنا حاصل ہے
عوام کو بے دینی میں لذت ملتی ہے پر انہیں مسلمان بھی کہا جائے
حد ہو گئی