اتوار 23 دسمبر کو جو ہوگا وہ تو بعد میں پتہ چلے گا لیکن اس سلسلہ میں پچھلے آٹھ دس دنوں سے جو ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر وقفے وقفے سے طاہر القادری صاحب کی مووی فلم بطور اشتہار دکھائی جا رہی ہے ۔ مزید برآں اخبارات میں رنگین اشتہار چھپ رہے ہیں اور اسلام آباد کی اہم سڑکوں پر (اور سُنا ہے لاہور میں بھی) نصب ہر کھمبے کے ساتھ کپڑے کے رنگین مشین پرنٹد اشتہار (banner) لٹکے ہوئے ہیں اور اہم چوراہوں پر بہت بڑے شاید 10 فٹ 12 فٹ کے بورڈ آویزاں ہیں جن سب میں طاہر القادری صاحب کی تصویر ہے اور اُن کی آمد اور 23 دسمبر کو لاہور میں جلسہ کا ذکر ہے ۔ موضوع ہے ”سیاست نہیں ۔ ریاست بچاؤ“۔
طاہر القادری صاحب اپنے آپ کو شیخ الاسلام کہلواتے ہیں ۔ اگر بات اپنے ایمان کو بچانے کی جاتی تو بھی اسے اسلامی کہا جا سکتا تھا مگر نعرہ ریاست بچانے کا لگایا گیا ہے جبکہ اسلام میں ریاست کا تصوّر ہے ہی نہیں ۔ اُمت کا تصوّر ہے ۔ پھر یہ جلسہ اور تقریر بہر طور سیاسی ہے اور یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ سیاست کے بغیر ریاست نہیں ہو سکتی ۔ خیر ۔ طاہر القادری صاحب تقریر کا فن جانتے ہیں ۔ اپنا جادو جگا لیں گے
دو تِیکھے سوال ذہن میں اُبھرتے ہیں
ایک ۔ طاہر القادری صاحب کئی سال قبل پاکستان کو خیرباد کہہ کر کنیڈا جا بسے اور وہاں کے شہری بن گئے تھے ۔ کئی عشروں بعد انہیں پاکستان اور وہ بھی لاہور (جو پاکستان کا دل ہے) میں تقریر کرنے کی کیا سُوجھی ؟
دو ۔ یہ لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ جو اشتہار بازی پر خرچ ہو رہا ہے کیا دین اسلام اس کی اجازت دیتا ہے ؟ اور یہ روپیہ کہاں سے آ رہا ہے ؟
یہاں کلک کر کے اسی سلسلہ میں ایک دلچسپ مضمون پڑھنا نہ بھولئے گا
آج تو 22 ہے۔ بازار کل سجے گا۔
سعود صاحب
شکریہ ۔ آئندہ محتاط رہوں گا ۔
سنا ہے کہ شیخ صاحب کنیڈا سے پاکستان تشریف لائے ہیں انقلاب برپا کرنے کے لئے۔۔۔ اور اس کے لئےمیڈیا پر کروڑوں روپے کی تشہیر ہو رہی ہے ۔ لندن والے انقلابی بھائی نے بھی ان کے انقلاب کی حمایت کی ہے۔
الیکشن کا موسم شروع ہونے والا ہے بھئی ۔۔۔ لہذا اب برساتی مینڈک تو نکلیں گے نا کونے کدروں سے ۔۔۔ !!!
مبین قریشی صاحب
آپ نے وہ تحریر پڑھی ہے جس کا میں نے حوالہ دیا ہے ؟
سمجھا کریں نا افتخار اجمل بھائی۔ ایک نئی سونامی برپا کرنے کی کوشش ہونے لگی ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ سونامی مینارَ پاکستان سے شروعات کرتی ہوتی ہے۔
پہلے والی سونامی گھس بلکہ گھس پٹ گئی تھی قریشیوں، قصوریوں، ترینوں وغیرہ کی نحوست کی بدولت۔ اب نئی سونامی تیار کی گئی ہے، جس کے لئے ڈاکٹر صاحب کا سیاسی مردہ زندہ کرایا گیا ہے۔
مال شاید ملک ریاض نے لگایا ہو گا یا حب الوطنی کے ٹھیکیدار “حلقوں” نے۔
یازغل صاحب
آپ نے بڑی پتے کی بات کی ۔ ریاض ملک کی طرف تو میرا دھیان ہی نہیں گیا تھا
معاف کیجیے گا پر سمجھا یہی جانے لگا ہے کہ پاکستانی جانوروں کو ہنکانے کے لیے ماسٹرز افرنگ سے ہی ملا کرتے ہیں
مسلک بریلوی کی کیا حیثیت ہے ، متحدہ نے مہر تصدیق ثبت کردی نا
فاروق ستار کہتے ہیں کہ قائد تحریک اور علامہ کے نظریات میں فلسفیانہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے
ہم آپ اپنی قسمتیں بنانے والے کون ہیں
ناصر صاحب
تشریف آوری کا شکریہ ۔ کیا یہ کسی قوم کی بدقسمتی نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہی نہیں پہچانتی ؟