Monthly Archives: December 2012

تضاد ۔ طاہرالقادری

بہت سے لوگ طاہر القادری صاحب کی 23 دسمبر کی تقریر کے سحر میں مبتلا ہیں اور سراپا تعریف ہیں ۔ طاہر القادری صاحب کو اللہ نے مسحور کُن تقریر کرنے کا فن عطا کیا ہے جس کے باعث سامعین ان کی تقریر میں موجود کمی کی طرف نظر نہیں کر پاتے ۔ طاہر القادری صاحب کی نیت پر شک کئے بغیر بھی اگر ان کے کہے الفاظ پر غور کیا جائے تو ان میں تضاد ملتا ہے

طاہر القادری صاحب نے پاکستان کے آئین کی تائید کرتے ہوئے اعادہ کیا کہ وہ سب کچھ پاکستان کے آئین کے تحت کرنا چاہتے ہیں مگر نہ صرف ان کا مطالبہ کہ ”نگران حکومت بنانے کیلئے فوج اور اعلٰی عدلیہ کو شامل کیا جائے“ آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ 25 دسمبر کا جلسہ بھی آئین کی خلاف ورزی تھا

طاہر القادری صاحب نے قرار دیا کہ اگر اُن کے مطالبہ پر عمل نہ کیا گیا اور موجودہ قوانین کے تحت انتخابات کرائے گئے تو انتخابات غیر آئینی ہوں گے
کوئی عمل اگر غیر آئینی ہو تو اس کے خلاف عدالتِ عظمٰی میں درخواست دی جاتی ہے لیکن ایسی کاروائی کی طرف کوئی اشارہ نہیں دیا

طاہر القادری صاحب نے کہا کہ وہ انتخابات ملتوی کرانے نہیں آئے اور یہ بھی کہا کہ پہلے ساری گندگی صاف کی جائے خواہ اس میں 90 دن سے زیادہ لگ جائیں
چیف جسٹس آف پاکستان واضح کر چکے ہیں کہ صرف ملک میں سول وار ہونے کی صورت میں انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔ 90 دن کی حد آئین نے مقرر کی ہے چنانچہ اسے عبور کرنا بھی آئین کی خلاف ورزی ہو گا

طاہر القادری صاحب نے کہا کہ اسلام آباد میں اکٹھے ہونے والے (بقول اُن کے) 40 لاکھ افراد وہ فیصلے کریں گے جو آج تک پارلیمنٹ کے ارکان نہیں کر سکے
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا آئین اس کی اجازت دیتا ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا 14 جنوری کو اسلام آباد میں ریفرنڈم ہو گا اور طاہر القادری صاحب کے حواریوں کی رائے پاکستان کے 18 کروڑ عوام کی رائے ہو گی ؟ آئین کے مطابق دونوں سوالوں کا جواب ” نہیں “ ہے

طاہر القادری صاحب نے 2 بڑی پارٹیوں (پی پی پی اور پی ایم ایل ن) کو رد بھی کیا ۔ طاہر القادری صاحب کو خیبر پختونخوا ۔ بلوچستان اور سندھ میں پذیرائی ملنے کی بہت کم توقع ہے البتہ اس اُمید میں کہ پنجاب میں گھسنے کا راستہ نکل آئے کراچی ۔ حیدر آباد یا سکھر میں ایم کیو ایم طاہر القادری صاحب کے جلسے کو کامیاب بنا سکتی ہے اور شاید اسی خیال سے ایم کیو ایم کا 50 رکنی وفد جس میں کچھ سنیئر رہنما بھی شامل تھے لاہور کے جلسے میں موجود تھا۔ پی پی پی کا کچھ نقصان ہوتا نظر نہیں آ رہا (ویسے سننے میں آیا ہے کہ 23 دسمبر کے جلسے میں پی پی پی کے کارکن بھی موجود تھے)۔ گو کہ طاہر القادری صاحب سیاست سے انکار کر رہے ہیں لیکن واقعات اور خود اُن کے الفاظ چُغلی کھا رہے ہیں کہ ساری مہم جوئی کا مقصد داہنے بازو کی جماعتوں جن کے رہنما نواز شریف بن سکتے ہیں کو حکومت بنانے سے روکنا ہے ۔ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری مل کر نواز شریف اور اس کی ہمخیال جماعتوں کے ووٹ توڑنے کی کوشش میں ہیں ۔ لگتا یہی ہے کہ طاہر القادری صاحب کو استعمال کرنے والے بھی وہی ہیں جو عمران خان کو استعمال کر رہے ہیں

طاہر القادری صاحب نے کبھی کسی آمر کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی یہاں تک کہ اسلام آباد کے لال مسجد اور جامعہ حفصہ للبنات پر فوج کشی جس میں سینکڑوں معصوم بچیاں ہلاک ہوئیں کے خلاف تحریک چلانا تو بڑی بات ہے کبھی احتجاج نہیں کیا

طاہر القادری صاحب نے 2 مارچ 2010ء کو جہاد کے خلاف فتوٰی دیا جو کتاب کی صورت میں اُردو میں 600 اور انگریزی میں 512 صفحات پر مشتمل ہے ۔ بظاہر یہ فتوٰی دہشتگردی کے خلاف ہے لیکن اصل میں فرنگیوں کو خوشی کرنے کی کوشش ہے ۔ مزید ۔ ۔ ۔

On 24 October 2010, Qadri was invited to deliver a speech entitled “Jihad: Perception and reality” to a gathering of thousands of British Muslims at the largest European multicultural gathering, the Global Peace and Unity event. Qadri stated in his speech: “Let me make it very clear and sound, let me remove any ambiguity that no leader or a group has any authority to declare jihad. If any leader or a group does that, it is terrorism and not jihad.” He added: “it is solely the prerogative of a state authority to declare jihad and only as a matter of last resort when diplomacy and all other efforts to make peace have failed.”

Qadri refutes the division of the world into two categories Dar al-Islam (the abode of Islam) and Dar al-harb (the abode of war) and that the west is the latter; Qadri instead divides the world into five categories. Qadri argues that the word “Dar al-Islam” actually implies “the abode of Peace” rather than the abode of Islam and that all countries under the United Nations (UN), whether Muslim or non-Muslim actually come under Dar al-Ahad (house of treaty) which Qadri says is the same as Dar al-Islam.

ساتویں کی ڈائری

اسلامیہ مڈل سکول سرکلر روڈ راولپنڈی (کب کا ہائی ہو چکا) سے میں نے ساتویں جماعت پاس کی تھی ۔ مجھے اس دور (1949ء۔1950ء) میں لکھی ڈائری سے پھٹا ایک ورق مل گیا تو میں نے سنبھال کر رکھ لیا تھا مگر ایسا سنبھالا کہ 2 دہائیاں بعد پچھلے دنوں کچھ اور تلاش کرتے ملا ۔ سوچا اسے کمپیوٹر میں محفوظ کیا جائے

مُلک ۔ ۔ ۔ آزادی دلانے والے ۔ ۔ ۔ آزادی کا دن

پاکستان ۔ ۔ ۔ محمد علی جناح ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 اگست 1947ء
بھارت ۔ ۔ کرمچند موہنداس گاندھی ۔ ۔ 15 اگست 1947ء
ترکی ۔ ۔ ۔ ۔ مصطفٰی کمال پاشا ۔ ۔ ۔ ۔ یکم نومبر 1923ء
مصر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سعد زغلول پاشا ۔ ۔ ۔ ۔ 12 جنوری 1924ء
امریکا ۔ ۔ ۔ ۔ ابراھیم لنکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4 جولائی 1776ء
چین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موزے تُنگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 اکتوبر 1948ء
فرانس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 جولائی
اٹلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 26 مارچ
یونان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 مارچ
پرتگال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 اکتوبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیدائش

چرچل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 1874 ء
علامہ اقبال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 نومبر 1876ء
قاعد اعظم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 دسمبر 1876ء
سر آغا خان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1877ء
محمد علی جوہر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 دسمبر 1878ء
مارشل سٹالن ۔ ۔۔ ۔ ۔ 1879ء

اتوار کو کیا ہو گا ؟

اتوار 23 دسمبر کو جو ہوگا وہ تو بعد میں پتہ چلے گا لیکن اس سلسلہ میں پچھلے آٹھ دس دنوں سے جو ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر وقفے وقفے سے طاہر القادری صاحب کی مووی فلم بطور اشتہار دکھائی جا رہی ہے ۔ مزید برآں اخبارات میں رنگین اشتہار چھپ رہے ہیں اور اسلام آباد کی اہم سڑکوں پر (اور سُنا ہے لاہور میں بھی) نصب ہر کھمبے کے ساتھ کپڑے کے رنگین مشین پرنٹد اشتہار (banner) لٹکے ہوئے ہیں اور اہم چوراہوں پر بہت بڑے شاید 10 فٹ 12 فٹ کے بورڈ آویزاں ہیں جن سب میں طاہر القادری صاحب کی تصویر ہے اور اُن کی آمد اور 23 دسمبر کو لاہور میں جلسہ کا ذکر ہے ۔ موضوع ہے ”سیاست نہیں ۔ ریاست بچاؤ“۔

طاہر القادری صاحب اپنے آپ کو شیخ الاسلام کہلواتے ہیں ۔ اگر بات اپنے ایمان کو بچانے کی جاتی تو بھی اسے اسلامی کہا جا سکتا تھا مگر نعرہ ریاست بچانے کا لگایا گیا ہے جبکہ اسلام میں ریاست کا تصوّر ہے ہی نہیں ۔ اُمت کا تصوّر ہے ۔ پھر یہ جلسہ اور تقریر بہر طور سیاسی ہے اور یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ سیاست کے بغیر ریاست نہیں ہو سکتی ۔ خیر ۔ طاہر القادری صاحب تقریر کا فن جانتے ہیں ۔ اپنا جادو جگا لیں گے

دو تِیکھے سوال ذہن میں اُبھرتے ہیں

ایک ۔ طاہر القادری صاحب کئی سال قبل پاکستان کو خیرباد کہہ کر کنیڈا جا بسے اور وہاں کے شہری بن گئے تھے ۔ کئی عشروں بعد انہیں پاکستان اور وہ بھی لاہور (جو پاکستان کا دل ہے) میں تقریر کرنے کی کیا سُوجھی ؟

دو ۔ یہ لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ جو اشتہار بازی پر خرچ ہو رہا ہے کیا دین اسلام اس کی اجازت دیتا ہے ؟ اور یہ روپیہ کہاں سے آ رہا ہے ؟

یہاں کلک کر کے اسی سلسلہ میں ایک دلچسپ مضمون پڑھنا نہ بھولئے گا

سانحہ 1971ء ۔ درست کیا ؟

سانحہ مشرقی پاکستان 1971ء کے متعلق جو اعداد و شمار اور واقعات ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پھیلائے گئے ہیں وہ اتنے غلط ہیں کہ جتنا زیادہ کوئی جھوٹ بول سکے ۔ درست اعداد و شمار قارئین تک پہنچانے کیلئے میں اپنے ذہن کو مجتمع کرنے کی تگ و دو میں تھا کہ ایسے ایسے مضامین نظر سے گذرے اور ٹی وی پروگرام و مذاکرے دیکھنے کو ملے کہ ذہن پریشان ہو کر رہ گیا

ہمارا ملک پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد صرف ایک نسل گذرنے پر صورتِ حال کچھ ایسی ہونا شروع ہوئی کہ میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ”کیا آزادی اس قوم کو راس نہیں آئی جو ہر دم اور ہر طور اس سلطنتِ خدا داد کے بخیئے اُدھیڑنے کے در پئے رہتی ہے“۔ اب تو حال یہاں تک پہنچا ہے کہ بھارت کو بہترین دوست اور شیخ مجیب الرحمٰن کو محبِ پاکستان ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

میں ذاتی معلومات پر مبنی واقعات پہلے لکھ چکا ہوں جو مندرجہ ذیل موضوعات پر باری باری کلک کر کے پڑھے جا سکتے ہیں ۔ آج صرف اعداد و شمار پیش کر رہا ہوں
بھولے بسرے واقعات ۔ پہلا سوال
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔1 ۔ دوسرا سوال اور ذرائع
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔2 ۔ معلومات
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔3 ۔ مشاہدہ اور تجزيہ

مارچ سے دسمبر 1971ء تک مشرقی پاکستان میں جو ہلاکتیں ہوئیں اور ان کے اسباب کے متعلق غلط اور انتہائی مبالغہ آمیز اعداد و شمار زبان زد عام رہے ہیں ۔ پچھلی 4 دہائیوں میں غیر جانب دار لوگوں کی تحریر کردہ کُتب اور دستاویزات سامنے آ چکی ہیں ۔ جن کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے

شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے حواریوں کا پروپیگنڈہ تھا کہ فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کو ہلاک کیا ۔ فوجی کاروائی ڈھاکہ اور اس کے گرد و نواح میں 26 مارچ 1971ء کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ چنانچہ یہ ہلاکتیں 265 دنوں میں ہوئیں ۔ اس طرح ہر ماہ 339630 یا ہر روز 11321 بنگالی ہلاک کئے گئے ۔ ایک سرسری نظر ہی اس استدلال کو انتہائی مبالغہ آمیز یا جھوٹ قرار دینے کیلئے کافی ہے

حمود الرحمٰن کمیشن کو فوج کے نمائندہ نے بتایا تھا کہ فوجی کاروائی کے دوران 26000 بنگالی ہلاک ہوئے لیکن کمیشن نے اس تعداد کو بہت مبالغہ آمیز قرار دیا تھا

شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں لکھا

“The three million deaths figure is so gross as to be absurd … [it] appears nothing more than a gigantic rumour. The need for ‘millions’ dead appears to have become part of a morbid competition with six million Jews to obtain the attention and sympathy of the international community.”

(ترجمہ ۔ تین ملین کا ہندسہ اتنا بھاری ہے کہ سرِ دست لغو لگتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ ایک قوی ہیکل افواہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ملینز کی تعداد چھ ملین یہودیوں کے ہمعصر ہونے کی ایک بھونڈی کوشش لگتی ہے تاکہ بین الاقوامی توجہ اور ہمدردی حاصل کی جا سکے)

مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے لوگوں میں پنجابی ۔ پٹھان ۔ کشمیری ۔ سندھی ۔ بلوچ اور اُردو بولنے والے شامل تھے ۔ ان میں سرکاری محکموں ۔ سکولوں ۔ کالجوں ۔ بنکوں اور دیگر اداروں کے ملازم ۔ تاجر ۔ کارخانہ دار اور مزدور شامل تھے ۔ ان کارخانہ داروں میں سہگل ۔ آدم جی ۔ بھوانی اور اصفہانی قابلِ ذکر ہیں ۔ بھارت کی تشکیل کردہ اور پروردہ مُکتی باہنی والے مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے تمام لوگوں کو پنجابی کہتے تھے اور یہی تخلص زبان زدِ عام ہوا

جونہی فوجی کاروائی شروع ہوئی مُکتی باہنی اور اس کے حواریوں نے غیر بنگالیوں کی املاک کی لوٹ مار اور نہتے بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیاتی اور قتلِ عام شروع کر دیا ۔ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں مغربی پاکستان کے ذرائع یا اس سے بے خبر تھے یا بیہوش پڑے تھے

یہ حقیقت بھی بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے نائبین پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ جمعہ 26 مارچ 1971ء کی صبح منظم مسلح بغاوت شروع کر دی جائے گی ۔ اس تیاری کیلئے بہت پہلے سے ڈھاکہ یونیورسٹی کو مکتی باہنی کا تربیتی مرکز بنایا جا چکا تھا

فوجی کاروائی 26 مارچ کو شروع ہوئی تھی ۔ مکتی باہنی نے یکم سے 25 مارچ تک ہزاروں مغربی پاکستان سے گئے ہوئے لوگ ہلاک کئے ۔ مُکتی باہنی کے ہاتھوں قتل و غارت کے غیر ملکی ذرائع کے شائع کردہ محتاط اعداد و شمار بھی رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں
بین الاقوامی ذرائع کے مطابق 200000 تک مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
امریکی کونسل کے مطابق 66000 مغربی پاکستانی ڈھاکہ اور گرد و نواح میں ہلاک کئے گئے
خود بنگالی ذرائع نے ڈھاکہ اور گرد و نواح میں 30000 سے 40000 مغربی پاکستانی ہلاک ہونے کا اعتراف کیا تھا
شروع مارچ 1971ء میں صرف بوگرہ میں 15000 مغربی پاکستانیوں کو ہلاک کیا گیا
وسط مارچ کے بعد چٹاگانگ میں 10000 سے 12000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
جیسور میں 29 اور 30 مارچ کو 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
دیناج پور میں 28 مارچ سے یکم اپریل تک 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
میمن سنگھ میں 17 اپریل سے 20 اپریل تک 5000 کے قریب مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
اس کے بعد مکتی باہنی نے قتل و غارتگری کا بازار پوری شدت کے ساتھ گرم کیا ۔ اس طرح کہ اعداد و شمار بتانے والا بھی کوئی نہ رہا

پاکستان کے فوجیوں کی تعداد جو زبان زدِ عام ہے صریح افواہ کے سوا کچھ نہیں ۔ جن 93000 قیدیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں فوجیوں کے علاوہ پولیس ۔ سویلین سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ۔ تاجر ۔ عام مزدور ۔ دکاندار وغیرہ اور ان سب کے خاندان عورتوں اور بچوں سمیت شامل تھے ۔ ان قیدیوں میں درجنوں میرے ساتھی یعنی پاکستان آرڈننس فیکٹریز واہ کینٹ کے سویلین ملازمین اور ان کے اہلَ خانہ بھی تھے جنہیں 6 ماہ سے 3 سال کیلئے پاکستان آرڈننس فیکٹری غازی پور (ڈھاکہ) میں مشینیں سَیٹ کرنے اور مقامی لوگوں کی تربیت کیلئے بھیجا گیا تھا

مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی تعداد 20000 تھی جن میں پولیس ۔ میڈیکل اور دوسری نہ لڑنے والی نفری ملا کر کل تعداد 34000 بنتی تھی ۔ یہ پاکستانی فوج 9 ماہ سے مکتی باہنی کے 100000 جنگجوؤں سے گوریلا جنگ لڑتے لڑتے بے حال ہو چکی تھی ۔ ایسے وقت میں بھارت کی ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس 3 ڈویژن تازہ دم فوج سے مقابلہ کرنا پڑا ۔ پاکستانی فوج کی ہلاکتیں 4000 کے قریب ہوئیں ۔ بقول بھارتی لیفٹننٹ جنرل جے ایف آر جیکب بھارتی فوج کی ہلاکتیں 1477 اور زخمی 4000 ہوئے تھے

شیخ مجیب الرحمٰن کو اس کے خاندان سمیت 15 اگست 1975ء کو ہلاک کر دیا گیا ۔ ہلاک کرنے والے بنگلا دیش ہی کے فوجی تھے جو نہ پنجابی تھے نہ بہاری ۔ صرف ایک بیٹی حسینہ بچی جو ملک سے باہر تھی

مشرقی پاکستان شیخ مجیب الرحمٰن اور بھارت کی تیار کردہ مکتی باہنی کو پذیرائی نہ ملتی اگر حکومتِ پاکستان نے مشرقی پاکستان کی معیشت و معاشرت کی طرف توجہ دی ہوتی اور بے لگام بیورو کریسی کو لگام دے کر اُن کے فرض (عوام کی بہبود) کی طرف متوجہ کیا ہوتا ۔ پچھلے کم از کم 5 سال میں جو ملک کا حال ہے ۔ دل بہت پریشان ہے کہ کیا ہو گا ۔ اللہ محبِ وطن پاکستانیوں پر اپنا کرم فرمائے اور اس ملک کو محفوظ بنائے

مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی بڑی تعداد اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتی تھی جس کے نتیجہ میں مغربی پاکستانیوں کے ساتھ وہ بھی مکتی باہنی کا نشانہ بنے ۔ نہ صرف یہ بلکہ بنگلا دیش بننے کے بعد جن لوگوں نے وحدتِ پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی تھی انہیں طرح طرح سے تنگ کیا گیا اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے ۔ بہاریوں کو نہ شہریت دی اور نہ مہاجرین کا درجہ ۔ وہ ابھی تک کس مپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ جماعتِ اسلامی کے دلاور حسین سیّدی سمیت 6 لیڈر ابھی بھی بغاوت کے مقدمات بھگت رہے ہیں

یہ حقیقت ہے کہ اب بھی بنگلا دیش کے عوام کی اکثریت کے دل پاکستانی ہیں ۔ اس کا ایک ادنٰی سا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں مدِ مقابل ہوتی ہیں ۔ بنگلا دیش کے عوام جوش و خروش کے ساتھ پاکستانی ٹیم کے حق میں بول رہے ہوتے ہیں

ایک پریشانی جوانی کی

پچھلے دنوں ارتقاءِ حیات پر استنجہ کے متعلق پڑھا تو مجھے پرانی بات یاد آئی

شروع مارچ 2012ء میں میرے ایک محترم قاری نے مجھے باعِلم اور بااعتماد ہونے کا اعزاز بخشا (جس کیلئے میں اُن کا ممنونِ احسان ہوں) اور اپنی ذاتی پریشانی سے متعلق مشورہ مانگا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اُسے کامل شفاء و صحت عطا فرمائے

محترم قاری کی پریشانی
مجھے ایک عرصے سے ایک شک سا ہے جو دُور کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا مطالعہ زیادہ ہے اس لیے تکلیف دے رہا ہوں۔ کبھی کبھار جنسی تحریک کی وجہ سے سفید رنگ کی رطوبت کا اخراج ہو جائے، میں منی کی بات نہیں کر رہا۔ یہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہاں آخری لائن میں یہی سوال ہے ۔ سفید رنگ یا شفاف کہہ لیں قسم کا مادہ جو دودھیا نہیں ہوتا، کسی بھی قسم کے ارادی فعل کی وجہ سے خارج نہیں ہوتا بلکہ غیر ارادی انداز میں، غالباً اس کی وجہ کمزوری ہوتی ہے۔ کیا اس کے اخراج کے بعد غسل کرنا واجب ہے؟

میں نے جواب لکھا
“میں نہ تو مُفتی ہوں اور نہ ماہرِ فقہ ۔ سکول کالج وغیرہ میں سائنس پڑھی ہے ۔ اسلئے میں ہر معاملے کو سائنسی لحاظ سے پرکھتا ہوں ۔ کسی چیز یا معاملہ کا مطالعہ کرنے کیلئے اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے یا محرکات کا ادراک ۔ منی کے خارج ہونے پر نہانا واجب ہے ۔ جس مادے کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کا محرک وہی ہے جو منی خارج ہونے کا ہے پھر اس مادے کے اخراج پر نہانا واجب نہ ہو ۔ یہ میری سمجھ سے باہر ہے ۔ جب اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے حرام اشیاء کا بتاتے ہوئے بتایا ہے “اور وہ چیز جس سے گھِن آ جائے” یعنی جی خراب ہو وہ بھی حرام ہے ۔ تو اس اصول سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ احتیاط لازم ہے ۔ اللہ مجھے سیدھی راہ پر قائم کرے”

جواب دینے کے بعد ایک نئے قاری نے میری ایک تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ پر مدعو کیا جو اسی قسم کے دین کے متعلق وضاحتی سوالات و جوابات تھے ۔ میں نے موصوف کو متذکرہ بالا سوال لکھ بھیجا تو اُن کا مندرجہ ذیل جواب آیا جو وہ قبل ازیں کسی اور سائل کیلئے اپنی ویب سائٹ پر لکھ چکے تھے

موصوف کا جواب
ایک بھائی نے پہلے بھی مذی سے متعلق سوال کیا تھا۔ وہی آپ کو بھیج رہا ہوں۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مذی یا ودی کے نکلنے سے غسل لازم نہیں ہوتا۔ صرف عضو تناسل کو دھونا اور وضو کرنا ہی لازم آتا ہے۔ غسل صرف اسی صورت میں واجب ہوتا ہے جب مادہ منویہ شہوت کے ساتھ نکلے

سوال جو اُن سے کیا گیا تھا ۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ بعض اوقات پیشاب کے بعد عضو سے ایک خاص قسم کی رطوبت جسے غالباً مذی کہا جاتا ہے خارج ہونے لگتی ہے اور یہ سلسلہ کچھ دیر تک وقفہ وقفہ سے جاری رہتا ہے جب دیکھ لیتا ہوں تو اسی وقت دھونے لگ جاتا ہوں مگر بعض اوقات معلوم بھی نہیں ہوتا اور وہی رطوبت خارج ہوجاتی ہے اور پھر جلد ہی خشک ہوجاتی ہے تو براہ کرم اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں کہ جب رطوبت خشک ہوجائے تو اس کو دھونے کی حاجت پڑتی ہے یا نہیں؟ میں اپنے اجتہاد کی بدولت خشک رطوبت جو کسی بھی صورت نظر نہیں آتی دھونے کی زحمت نہیں کرتا اور بار بار ڈریس بدلنے کی تکلیف سے جان چھڑانے کیلئے خشک ہونے کے بعد نہیں دھوتااور پھر مجھےمعلوم بھی نہیں ہوتا کہ رطوبت کہاں کہاں پر لگی ہے ۔۔۔۔براہ کرم آپ اس سلسلہ میں اپنا نقطہ نظر بیان فرمادیں

موصوف نے جو جواب دیا تھا ۔ یہ بہت سے لوگوں کا مسئلہ ہے۔ اسے مذی نہیں بلکہ ودی کہتے ہیں۔ مذی شہوت کے ساتھ نکلتی ہے جبکہ ودی پیشاب کے بعد آتی ہے۔ یہ دونوں ناپاک ہوتی ہیں۔ اس مسئلے کا سادہ سا حل یہ ہے کہ آپ اپنے انڈر ویئر کے اندر مخصوص مقام پر ایک ٹشو پیپر یا چھوٹا سا کپڑا رکھ لیا کریں۔ جو ودی نکلے گی، وہ اس میں جذب ہوتی رہے گی اور آپ کا لباس محفوظ رہے گا۔ ہر نماز سے پہلے آپ اسے نکال دیں۔ اگر عضو کو نہ بھی دھوئیں تو حرج نہیں کیونکہ یہ ٹشو وہی کام کرے گا جو مٹی کا ڈھیلا کرتا ہے یعنی رطوبت سے آپ کے عضو اور لباس کو پاک کر دے گا”۔

میں نے اُنہیں لکھا
مندرجہ ذیل استدلال میرے دماغ میں نہیں گھُس رہا
“اگر عضو کو نہ بھی دھوئیں تو حرج نہیں کیونکہ یہ ٹشو وہی کام کرے گا جو مٹی کا ڈھیلا کرتا ہے یعنی رطوبت سے آپ کے عضو اور لباس کو پاک کر دے گا”
میرے مطالعہ اور تعلیم کے مطابق
اوّل ۔ مٹی کا استعمال اس وقت کافی ہے جب پانی میسّر نہ ہو یا پانی کے استعمال سے صحت بگڑنے کا اندیشہ ہو
دوم ۔ مٹی کے ڈھلے سے خود صاف کرنے اور سامنے ٹِشُو پیپر رکھ دینے میں فرق ہے ۔ ٹِشُو رطوبت کو چُوس کر عضوء کی بیرونی سطح پر پہنچا دے گا جس کے باعث دھونا واجب ہو جاتا ہے ۔ یہ ٹِشُو جب گیلا ہو گا تو انڈر ویئر کو بھی گیلا نہیں کرے گا اس کا کیا ثبوت ہے ؟

موصوف کا جواب آیا
دین میں اتنی سختی نہیں ہے کہ انسان کی زندگی مشکل بن جائے۔ عہد رسالت میں پانی ذرا مشکل سے دستیاب ہوتا تھا اس وجہ سے عام طور پر لوگ استنجا کے لیے ڈھیلے ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ پانی سے دھونا ایک اضافی چیز تھی جسے ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اگر ٹشو سے احتمال ہو کہ یہ نجاست کو پھیلا دے گا تو پھر میں آپ سے متفق ہوں کہ دھونا ضروری ہے۔ ویسے اب اس قسم کے ٹشو آ گئے ہیں جو نجاست کو پھیلاتے نہیں ہیں بلکہ اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ انڈر ویئر کو گیلا کرنے کے معاملے میں بھی احتیاط کی جا سکتی ہے۔ مذی اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ وہ پیشاب کی طرح ہر چیز کو گیلا کر دے۔ ایک آدھ قطرہ ہی ہوتا ہے جو اگر مناسب انداز میں تہہ کیے ہوئے ٹشو ہوں تو انڈر ویئر کو متاثر نہیں کرتے۔ اس معاملے میں میں آپ کو یہ مشورہ دوں گا کہ دیگر اہل علم سے بھی ڈسکس کر لیجیے اور پھر جس رائے پر آپ کا ذہن مطمئن ہو، اسے اختیار کر لیجیے۔ اصل چیز ہمارا اطمینان ہے۔ اگر میری رائے سے آپ کا اطمینان نہیں ہو رہا تو آپ بلا تکلف وہ رائے اختیار کیجیے جس پر آپ کا اطمینان ہو۔ ہم میں سے کوئی بھی معصوم پیغمبر نہیں ہے اور غلطی کر سکتا ہے”۔

میں نے لکھا
قبل اس کے کہ میں مزید کچھ لکھوں میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں
میں نہ تو مُفتی ہوں اور نہ ماہرِ فقہ . میں طالب علم ہوں اور پچھلی سات دہائیوں سے علم سیکھنے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہوں . میں عملی زندگی میں یقین رکھتا ہوں اور دوسرے فرد سے وہی کہتا ہوں جس پر میں خود عمل کروں
میں آپ سے اختلاف کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ مجھ سے پوچھے جانے والے یا اپنے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کے جواب ڈھونڈ رہا ہوں
بلا شُبہ دین میں سختی نہیں ہے . سختی کی تعریف ذرا مُشکل ہے . آدمی سے آدمی تک بدل سکتی ہے اور اپنی اپنی سوچ کے مطابق بھی بدلی جاتی ہے
میں ایک سادہ سی مثال دیتا ہوں . مجھے سات سال قبل زمین پر بیٹھنے اور جھُکنے سے منع کر دیا گیا . میں نے فرض کے سامنے اس عُذر کو چھوٹا سمجھتے ہوئے اس پر عمل نہ کیا اور تکلیف برداشت کرتا رہا جو میری برداشت سے باہر نہ تھی ۔ ساڑھے تین سال قبل میں نے زمین پر بیٹھنا اور جھُکنا چھوڑ دیا ۔ تب سے میں کُرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں ۔ ایسا میں نے “دین میں سختی نہیں ہے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا
اب آتے ہیں ٹِشو پیپر کے استعمال کی طرف
ٹِشو پیپر جہاں آدمی رکھے گا کیا وہ بعین ہی وہیں رہے گا ؟
درست کہ آجکل بہت اچھے جاذب ٹشو پیپر ملتے ہیں ۔ بات صرف اتنی ہے کہ ٹی وی کے اشتہار والا وہ پیمپر بھی دنیا میں کہیں نہیں ملتا جو سوتے بچے کا سارا پیشاب یوں جذب کر لیتا ہے کہ بچہ گیلا نہیں ہوتا
مٹی سے صاف کرنے کے بعد پانی سے دھونا اضافی کیسے ہوا ؟ از راہِ کرم اس کا حوالہ قرآن یا حدیث یا صحابہ کرام یا تابعین سے دیجئے
مذی یا مدی کی مقدار جس کا ذکر ہوا وہ اتنی تھی کہ کپڑوں کو لگ جائے
آپ کے اس استدال سے میں متفق ہوں کہ وہی اختیار کیا جائے جس سے اطمینان ہو

موصوف کا جواب آیا
مٹی کے ڈھیلوں سے استنجا تو معروف عمل ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی “کتاب الطہارۃ” دیکھ لیجیے۔ اس پر بہت سی احادیث مل جائیں گی جن میں پتھروں سے استنجا کا عمل بیان ہوا ہے۔ ان سب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عربوں کے ہاں عام پریکٹس تھی۔

میں نے اُنہیں لکھ بھیجا
میں نے صرف مجموعہ حدیث مسلم سے چند حوالے دیئے ہیں ۔ مزید مسلم میں اور بخاری میں بہت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مٹی صرف مجبوری کی حالت میں استعمال کی جائے

References From Hadith Muslim
Chapter# 45, Book 7, Number : 2941
Kuraib, the freed slave of Ibn Abbas, narrated from Usama b. Zaid (Allah be pleased with him) that he had heard him saying: Allah’s Messenger (may peace be upon him) proceeded from Arafa, and as he approached the creek of a hill he got down (from his camel) and urinated, and then performed a light ablution. I said to him: Prayer, whereupon he said: The prayer awaits you (at Muzdalifa) So he rode again, and as he came to Muzdalifa, he got down and performed ablution well. Then Iqima was pronounced for prayer and he ‘observed the sunset prayer. Then every person made his camel kneel down there, and then Iqama was pronounced for ‘Isha’ prayer and he observed it, and he (the Holy Prophet) did not observe any prayer (either Sunan or Nawifil) in between them (He observed the Fard of sunset and ‘Isha’ prayers successively

Book 7, Number: 2943
Usama b. Zaid (Allah be pleased with him) narrated: Allah’s Messenger (may peace be upon him) was on his way back from ‘Arafat and as he reached the creek (of a hillock) he got down and urinated (Usama did not say that he poured water), but said: He (the Holy Prophet) called for water and performed ablution, but it was not a thorough one. I said: Messenger of Allah, the prayer! Thereupon he said: Prayer awaits you ahead (at Muzdalifa). He then proceeded, until he reached Muzdalifa and observed sunset and ‘Isha’ prayers (together) there.

Book 4, Number: 1671
Ibn ‘Abbas reported: I spent a night with my maternal aunt (sister of my mother) Maimuna. The Apostle of Allah (may peace be upon him) got up during the night and relieved himself, then washed his face and hands and went to sleep. He then got up again, and came to the water skin and loosened its straps, then performed good ablution between the two extremes. He then stood up and observed prayer. (I also stood up and stretched my body fearing that he might be under the impression that I was there to find out what he did at night). So I also performed ablution and stood up to pray, but I stood on his left. He took hold of my hand and made me go round to his right side. The Messenger of Allah (may peace be upon him) completed thirteen rak’abs of his night prayer. He then lay down and slept and snored (and it was his habit to snore while asleep). Then Bilal came and he informed him about the prayer. He (the Holy Prophet) then stood up for prayer and did not perform ablution, and his supplication included there words:” O Allah, place light in my heart, light in my sight, light in my hearing, light on my right hand light on my left hand, light above me, light below me, light in front of me light behind me, and enhance light for me.” Kuraib (the narrator) said There are seven (words more) which are in my heart (but I cannot recall them and I met some of the descendants of ‘Abbas and they narrated these words to me and mentioned in them: (Light) in my sinew, in my flesh, in my blood, in my hair, in my skin, and made a mention of two more things”.

اُنہوں نے جواب دیا

Thanks for sharing Ahadith. I shall look into them and if found convincing evidence, will change my views. Anyway, thanks for sharing.

اُس وقت حدیث کا حوالہ تھا تو حدیث سے ہی دلیل پیش کی تھی ۔ قرآن شریف کو بیچ میں لانا مناسب نہ سمجھا تھا ۔ اب یہ 2 حوالے ضروری سجمھتا ہوں

سورت 4 النّسآء ۔ آیت 43 ۔ اے ایمان والو ۔ تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ حالتِ جنابت میں (نماز کے قریب جاؤ) تا آنکہ تم غسل کر لو سوائے اس کے کہ تم سفر میں راستہ طے کر رہے ہو، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے لوٹے یا تم نے (اپنی) عورتوں سے مباشرت کی ہو پھر تم پانی نہ پاسکو تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مسح کر لیا کرو، بیشک اللہ معاف فرمانے والا بہت بخشنے والا ہے
سورت 6 المآئدۃ ۔ آیت 6 ۔ اے ایمان والو! جب نماز کیلئے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو ۔ پس اس سے اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کا مسح کر لو ۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ

تبصرہ بلاگر ۔ سورت المآئدہ کی آیت 6 کے آخر میں اللہ کا فرمان ہے ”اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے“۔ لیکن اس سے پہلے جو اللہ کا فرمان ہے اس پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ نرمی بحالتِ مجبوری ہے نہ کہ اپنی مرضی سے جو چاہا نرمی کے تحت کر لیا

ڈاکٹر نہیں مانتے

ڈاکٹر نہیں مانتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو سائنس ایلوپیتھِک میڈیسن کے نام سے بنائی گئی ہے یہ ابھی تک نامکمل ہے ۔ میں اس کے نامکمل ہونے کی وجہ سے کئی بار تکلیف اُٹھا چکا ہوں ۔ حالیہ مثال 11 دسمبر 2012ء کی ہے ۔ ہوا یوں کہ کچھ دنوں سے پیٹ میں درد تھا اور عجیب سی گڑ بڑ تھی ۔ میں صبح ساڑھے 8 بجے معدہ کے معالج (Gaestroentrologist) کے پاس پہنچا اور اپنی حالت بیان کی ۔ ڈاکٹر صاحب نے 3 قسم کی گولیاں صبح شام کھانے کو کہا ۔ اُسی دن ایک ایک گولی صبح اور ایک ایک رات کو کھا کر سویا ۔ رات کے دوران نیند کھُل گئی اور بائیں آنکھ کے نیچے تکلیف محسوس ہوئی ۔ ہاتھ لگایا تو ایسے محسوس ہوا کہ کھال اُتر جائے گی ۔ باقی رات سو نہ سکا

اُوپر والی تصویر دوائی کے استعمال سے پہلے کی ہے ۔ 12 دسمبر کو تو کچھ سُوج نہ رہا تھا ۔ 13 دسمبر کی رات تک افاقہ ہوا تو رات 9 بجے کی تصویر کھینچی جو نیچے والی ہے (موبائل فون سے خود ہی لی ہے اسلئے واضح نہیں ہے) ۔ داہنی آنکھ کے نیچے کم سوجن ہے ۔ بائیں آنکھ کے نیچے زیادہ ہے جس میں درد ہے اور خون ملی رطوبت غیرمحسوس طور پر رِستی ہے اور جلد پر سخت چھلکا سا بن رہا ہے ۔ اُبھری سطح سُرخ سے کلیجی رنگ کی ہوتی ہوئی ایک نقطے پر کالی ہو گئی ہے ۔ آگے کیا ہو گا وہ اللہ جانتا ہے

میرے ساتھ یہ پہلا نہیں آٹھواں واقعہ ہے ۔ یوں کہنا چاہیئے کے ڈاکٹر صاحبان نے اب آٹھویں بار مجھے ہاتھ دکھایا ہے

پہلی بار تو میں بچہ تھا یعنی 1948ء میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے پنسلین کا ٹیکہ لگایا ۔ 10 منٹ بعد میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانا شروع ہوا ۔ بالآخر میں گر پڑا ۔ اُٹھا کر اُنہی ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے ۔ جب مجھے ہوش آیا تو اُنہوں نے کہا ”دل کا کمزور ہے ڈر گیا ہے”۔ میں بول پڑا ”اگر میں ڈر جاتا تو ٹیکہ لگنے کے 2 منٹ بعد ہی بیہوش ہو جاتا“۔ اگلے پندرہ سولہ سال میں جب ردِ عمل عام ہوا تو مانٹو ٹیسٹ کر کے پنِسلِیں کا ٹیکہ لگانا شروع کیا گیا ۔ پھر کچھ سال بعد پنسِلِین ہمیشہ کیلئے غائب ہو گئی

1957ء میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے سلفاڈایا زین شاید زیادہ دن کھِلا دی ۔ علاج کے بعد میں صاحب فراش ہوا ۔ انجیئرنگ کالج کی پڑھائی بھی غارت ہوئی ۔ پہلے میرے ہونٹ اور آنکھیں سُوج گئے ۔ اُس کے بعد چند ماہ میں میرے ہونٹوں ۔ ہونٹوں کے نیچے ۔ بازوؤں کے اندر کی طرف اور ٹانگوں کے اندر کی طرف جہاں جلد نرم ہوتی ہے کاسنی نشان (Violet pigments) بن گئے ۔ اس کے بعد میں جب بھی بیمار ہوتا متعلقہ ڈاکٹر صاحب سے عرض کرتا کہ ”مجھے سلفا نام کی کوئی دوا نہ دیں ۔ اس کا شدید ردِ عمل ہوتا ہے“ لیکن ڈاکٹر علم والے ہوتے ہیں اور مریض جاہل اور جاہل کی کون سُنتا ہے ؟ آخر 1962ء میں ان نشانوں کے علاج کے سلسلہ میں ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا ۔ اُنہوں نے کہا”یاد کرو کہ یہ نشان پڑنے سے ایک سال قبل تک تمہیں کیا بیماری ہوئی اور اس کیلئے کون کونسی دوا کھائی ۔ ایک ہفتہ بعد آ کر مجھے بتاؤ”۔ ایک ہفتہ بعد سب سُن کر ڈاکٹر صاحب نے ھدائت کی ”یاد رکھو ۔ ساری زندگی تم نے وہ دوائی نہیں استعمال کرنا جس میں سلفا آتا ہو”۔

دسمبر 1964ء میں مجھے بخار ہوا تو مجھے ملیریا کی دوا دی گئی نام اس وقت ذہن میں نہیں آ رہا ۔ 2 دن دوا کھانے کے بعد میری حالت غیر ہونے لگی ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو ٹیلیفون پر بتایا تو گویا ہوئے ”یہ دوا ایک مشہور امریکی کمپنی نے بڑی تحقیق کے بعد تیار کی ہے ۔ اس کا ردِ عمل ہو ہی نہیں سکتا ۔ اگر آپ علاج شروع نہ کرتے تو اس سے زیادہ بُرا حال ہوتا“۔ میں نے تیسرے دن بھی دوا کھا لی ۔ چوتھے دن صبح بہت مشکل سے اُٹھ کر پیشاب کرنے غسلخانہ گیا ۔ کموڈ پر بیٹھا نہیں کہ اُٹھنے کیلئے کوئی سہارا نہ تھا ۔ دیوار تھام کر کھڑے کھڑے پیشاب کرنے لگا ۔ دیکھا کہ پیشاب کلیجی رنگ کا ہے ۔ فارغ ہو کر گھر سے نکلا اور بڑی مشکل سے چل کر ٹانگے تک پہنچا اور ہسپتال گیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے لیبارٹری بھیجا ۔ جار میں پیشاب کیا تو جیسے جار خون سے بھرا ہو ۔ جار لیبارٹری میں دیا اور ڈاکٹر صاحب کی طرف رُخ کیا ۔ اس کے بعد کا معلوم نہیں ۔ جب آنکھیں کھولیں تو ہسپتال کے کمرے میں بستر پڑا تھا ۔ میرے ایک بازو میں نالی لگی تھی ۔ خون چڑھایا جا رہا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد نرسنگ سپاہی آیا اور بتایا کہ میں 3 دن سے بے سُدھ پڑا تھا۔ میں نے سر اُٹھانے کی کوشش کی تو دنیا پھر آنکھوں سے اوجھل ہو گئی ۔ مزید 7 دن اسی طرح گزرے ۔ ہو ش آیا تو گھنٹی کا تکیئے کے پاس پڑا بٹن دبایا ۔ ایک آدمی آیا ۔ اُسے ڈاکٹر صاحب کو بلانے کا کہا ۔ شام کا وقت تھا ۔ رات کی ڈیوٹی پر ڈاکٹر صاحب آئے ۔ وہ میرے دوست کیپٹن کرامت اللہ تھے (اب ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل) ۔ انہوں نے کافی خوش گپیاں کیں ۔ اللہ نے پھر بچا لیا ۔ 15 دن ہسپتال میں رہنے کے بعد 7 دن آرام کی ھدائت کے ساتھ گھر بھیج دیا گیا ۔ ہسپتال میں سوائے ایک بوتل خون چڑھانے کے اور کچھ نہ کیا گیااور نہ اُنہیں میری تکلیف کا سبب سمجھ میں آیا ۔ دسمبر 1965ء تک پاکستان میں کئی اور اسی طرح کے کیس ہوئے اور سب نے وہی دوا کھائی تھی جو مجھے دی گئی تھی ۔ حکومت حرکت میں آئی اور متعلقہ دوا کا استعمال ممنوع قرار دے دیا گیا اور دوا تمام ہسپتالوں اور دکانوں سے اُٹھا لی گئی

ایک دہائی قبل میں بیمار ہوا تو دوسری دوا کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے مجھے کئی چھوٹی سی نئی قسم کی گولیاں دیں رات سونے قبل ایک کھانے کا کہا ۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ طاقت کی دوا ہے ۔ پہلی رات میری نیند کچھ خراب رہی ۔ دوسری رات مجھ نیند نہ آئی ۔ تیسری رات نیند نہ آنے سے طبیعت بالکل اُچاٹ ہو گئی ۔ ایک عزیز ملنے آئے ۔ میرا حال سُن کر دوائیں دیکھنے لگے اور ایک گولی دکھا کر پوچھا ”یہ دوا کھائی تھی ؟“ میرے ہاں کہنے پر بولے ”کمال ہے ۔ یہ تو نیند آور گولیاں ہیں“۔ ڈاکٹر صاحب سے اگلے روز مل کر شکائت کی کہ میرے ساتھ جھوٹ کیوں بولا ۔ بولے ”آپ ہر قسم کے نشے کے بہت خلاف ہیں اسلئے میں نے سوچا تھا کہ نفسیاتی اثر نہ ہو“۔

سَیپٹرین ۔ سَیپٹران ۔ بَیکٹرین پہلے ہی بند کی جا چکی تھیں ۔ ایمپسلین کا ردِ عمل بھی بُرا ہوا ۔ کو ایکسیلین کا بھی غلط ردِ عمل ہوا ۔ اَوگمَینٹِن سے بھی بھاگنا پڑا ۔ قصور کس کا ہوا ؟ کیا یہ میرا قصور ہے ؟