پاکستان میں نام نہاد روشن خیال لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک مسلم ریاست بنانا چاہتے تھے اسلامی نہیں ۔ اس سلسلہ میں محمد آصف بھلّی صاحب کی تحریر جو نوائے وقت مورخہ 29 اگست 2012ء میں شائع ہوئی تھی کے اقتباسات
جن نام نہاد دانشوروں اور صحافیوں کی مُٹھی بھر تعداد کو پاکستان کا اسلامی تشخص ہضم نہیں ہوتا، وہ کبھی کبھار اس طرح کا شگوفہ بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ پاکستان ایک مسلم ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا، ایک اسلامی ریاست کے طور پر نہیں اور قائداعظم کا منشاء و منصوبہ بھی ایک مسلم ریاست کا قیام تھا۔ سیکولر ازم کے علمبردار طبقہ کی فتنہ انگیزی اور عیاری دیکھیئے کہ جب انہیں پاکستان میں سیکولر ازم کی دال گلتی نظر نہیں آتی تو وہ اسلامی ریاست سے خوفزدہ ہو کر اپنے پاس سے مسلم ریاست کا نظریہ گھڑ لیتے ہیں حالانکہ جس ریاست میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہوگی وہاں یقینا قانون سازی اور دستور سازی کرتے ہوئے دین اسلام کو پیش نظر رکھا جائے گا۔ ایک سادہ سی بات ہے کہ اگر ایک آزاد مسلم ریاست میں مسلمانوں نے اپنی اجتماعی زندگی کو اسلام کے مطابق بسر کرنے کا اہتمام نہیں کرنا اور اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں نہیں لانا تو پھر وہ مسلم ریاست کیوں کر کہلائے گی؟ کیا قائداعظم نے صرف ایک برائے نام مسلم ریاست کی سُرخی استعمال کرنے کیلئے پاکستان بنایا تھا ؟ میرے خیال میں پاکستان کا بطور ایک اسلامی ریاست کے جتنا واضح اور صاف تصوّر قائداعظم کے ذہن میں موجود تھا۔ اتنا واضح تصوّر اُس دور کے کسی بڑے عالم دین کے ذہن میں بھی نہیں تھا۔ علامہ اقبال نے بھی بار بار اپنے خطبہ الہ آباد میں اسلامی ریاست کے الفاظ استعمال کئے تھے، مسلم ریاست کے نہیں
اب بانیءِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا بھی تصوّر اسلام دیکھیئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ
”اسلامی حکومت کے تصوّر کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیئے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہوگی“
اب اگر قائداعظم کے ارشاد کے مطابق پاکستان میں صدر، وزیراعظم، پارلیمنٹ اور دیگرادارے قرآن کے اصول و احکام کے پابند بنا دیئے جائیں اور افراد کی بجائے قرآن کی حکمرانی تسلیم کرلی جائے تو یہ ایک اسلامی ریاست ہوگی یا محض نمائشی مسلم ریاست ؟ قائداعظم نے 1945ء میں اپنے پیغام عید میں ایسے سخت الفاظ استعمال کئے کہ شاید ہی انہوں نے اپنی زندگی میں اس طرح کے سخت الفاظ بولے ہوں۔ یہ الفاظ انہوں نے کن لوگوں کے بارے میں استعمال کئے۔ آپ کو قائداعظم کا پیغام عید پڑھ کر خود ہی معلوم ہو جائے گا
پاکستان کے لئے سیکولر ریاست کے بارے بار بار الفاظ استعمال کرنے والے گمراہ طبقہ کو بھی قائداعظم کی یہ تقریر یاد رکھنی چاہئے کہ
”جاہلوں کی بات الگ ہے ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ایک ہمہ گیر ضابطہءِ حیات ہے۔ قرآن محض دینیات نہیں بلکہ سول اور تعزیری قوانین کی بھی بنیاد ہے۔ وہ قوانین جن سے بنی نوع انسان کے اعمال اور حقوق کی حدبندی ہوتی ہے۔ وہ بھی اللہ کے نہ تبدیل ہونے والے احکام سے متعین ہوتے ہیں“
اب جو لوگ اپنا شمار جاہلوں میں نہیں کرنا چاہتے، انہیں قرآن کو ایک ہمہ گیر ضابطہءِ حیات تسلیم کرنا ہوگا۔ قرآن کی تعلیمات ہمارے مذہبی، سماجی، سیاسی، معاشی، فوجی، سول، عدالتی اور قانونی تمام معاملات زندگی پر محیط ہے۔ قرآن حکیم میں سیرت رسول کے حوالے سے ایک انتہائی مختصر اور جامع حکم ہے کہ ”یقیناً تمہارے واسطے اللہ کے رسول میں زندگی کا بہترین نمونہ ہے“۔
قرآن کے اس ارشاد کی روشنی میں اب سبی دربار بلوچستان سے قائداعظم کے خطاب کا ایک مشہور اقتباس پڑھئے
”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہءِحیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے قانون دینے والے عظیم پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمارے لئے قائم کر رکھا ہے، ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے طے کیا کرو“
قائداعظم نے جمہوریت کا سبق اسلام اور قرآن سے لیا تھا۔ ان کے نزدیک اسلام صرف چند رسوم، روایات اور مذہبی اصولوں کا نام نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے سیاسی، اقتصادی اور دیگر مسائل کی راہبری کے لئے اسلام ایک مکمل ضابطہ ءِ حیات تھا۔ انہوں نے اپنے ان خیالات کا اظہار متعدد بار بڑے بڑے عوامی جلسوں میں کیا، اس کے باوجود اگر کچھ لوگ پاکستان کے اسلامی تشخص کے منکر ہیں تو یہ ان کی اپنی عقل کا قصور ہے ورنہ قائداعظم کے تصورات میں تو کہیں ابہام موجود نہیں
قائداعظم نے فروری 1948ءمیں امریکی نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ
”پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس دستور کی حقیقی شکل کیا ہوگی
لیکن ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہو گا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ اسلامی اصولوں کا اطلاق ہماری آج کی عملی زندگی پر بھی ویسے ہی ہوسکتا ہے جس طرح 1300 سال قبل یہ اصول قابل عمل تھے۔ اسلام نے ہمیں انسانی مساوات، انصاف اور ہر ایک سے رواداری کا درس دیا ہے۔ ہم ان عظیم الشان روایات کے وارث اور امین ہیں اور پاکستان کے آئیندہ دستور کے معمار کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے اچھی طرح آگاہ ہیں“
قائداعظم کے ان فرمودات کے مطالعہ کے بعد بھی اگر کوئی مخصوص گروہ پھر بھی یہ اصرار کرتا ہے کہ قائداعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے تو میں ان کی خدمت میں صرف یہی عرض کروں گاکہ جھوٹ بولتے ہوئے کچھ تو شرم محسوس کرو ۔ تمہارے نظریات اور تمہاری گمراہی تمہیں مبارک لیکن یہ قوم تمہیں قائداعظم کے افکار و تعلیمات اور قیام پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنے کا تمہارا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا
السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
اجمل صاحب، ایک بہترین تحریر کی تشہیر کرنے کا شکریہ قبول فرمایئے۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
پاکستان کی تعمیر میں جہاں کئی ایک خامیاں رہ گئیں۔ وہیں ایک خرابی پاکستان کو ملنے والی سیکولر اور لادین لوگوں کا ورثہ ہے ۔ جو پاکستان کی وجود میں انے سے قبل انگریزوں اور دیگر کا نمک خوار تھا۔ اور اگر دین اسلام کا لیوا تھا تو محض رسمی حد تک۔ تانکہ مسلمانوں میں رہ کر اپنی مسلمانی کا بھرم رکھتے ہوئے مسلمانوں سے وابستہ اپنے مفادات کی حفاظت بہتر طور پہ کی جائے۔
پاکستان میں حکومتی نظام کے قسما قسمی کے تجربات کے دوران یہ طبقہ چاپلوسی اور عیاری سے پاکستان کے ذمہ دار مناصب ۔ اور اہم عہدوں پہ قابض ہوتا چلا گیا۔ اور پاکستان میں ہر اہم اور بااثر شعبے میں اثر رسوخ کا مالک بنتا گیا۔ جس میں پاکستان ریڈیو ۔ ٹی وی اور دیگر سرکاری ذرائع ابلاغ بھی شامل ہیں۔ اب یہ لوگ ایک مافیا کارٹیل کی صورت میں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اور باہم غم غلط کرتے ہیں کہ بقول ایسے لوگوں کے اگر پاکستان میں اسلامی اور دیانتدار نظام اور جسکے فطری نتیجے میں دیانتدار اور شفاف ماحول قائم ہوگیا تو سب سے پہلے ایسے طبقے کے تہہ در تہہ مفادات پہ براہ راست اثر پڑے گا۔ اور ایسے لوگوں کو اپنے اعمال اور اثاثوں کا جواب دینا پڑے گا اور نیک راستی اپنانی پڑے گی یا پاکستان سے فرار ہونا پڑے گا۔ پاکستان سے فرار کی صورت میں مغربی آقاؤں کے نزدیک انکی افادیت ختم ہوکر رہ جائےگی ۔ ویسے بھی مغربی قومیں اپنے اندر غداروں کا وجود برداشت نہیں کرتیں ۔ اسلئیے پاکستان میں ہر قسم کے نسلی۔ لسانی ۔ صوبائی علاقائی۔اور دیگر تعصبات اور امتیاز سے بالا اسلامی اور حلال حکومتیں بننے کی صورت میں پاکستان کی سیکولر ۔ لادین اور معتفن لوگوں کو نیک راستی یا پاکستان سے فرار دونوں صورتیں منظور نہیں۔
اس لئیے انکا سارا زور اسلام اور پاکستان کے بارے میں عام عوام کو مشکوک کرنے پہ ہے۔ اور اس میں وہ پچھلے پینسٹھ سالوں سے کافی کامیاب بھی ہیں۔
عبدالرؤف و جاوید گوندل صاحبان
اللہ آپ دونوں کو ہر نیکی کا کئی گنا اجر دے ۔ آپ نے درست فرمایا ہے لیکن گُستاخی معاف ۔ ان لوگوں کو پنپنے میں ہم لوگوں نے مدد کی ہے اپنی ضرورت سے زیادہ صُلح جُو عادت کے باعث جبکہ اللہ کا حۃکم ہے تعاونو علی البر و تقوٰی و لا تعاونو علی الاثم و العدوان
ماشاء اللہ بہت عمدہ بلاگ ہے۔۔۔اللہ مزید توفیق عطا فرمائے۔۔۔بھائی! کیا میں آپ کے بلاگ میں دیئے گئے اسماء الحسنٰی اپنے بلاگ پے استعمال کر سکتا ہوں؟
اسماعیل شاہ صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ حضور یہ خوبصورت اور عظیم نام میری ملکیت نہیں ہیں ۔ آپ ضرور لیجئے اور ورد رکھیئے ۔ اللہ شاید مجھے بھی کچھ اچھا اجر دے دے ۔ اس کیلئے آپ کو اس کی ایچ ٹی ایم ایل آپ کے دیئے ہوئے ای میل پتہ پر بھیج رہا ہوں جسے آپ وِیجِیٹ میں نقل کر کے محفوظ کر لیں تو آپ کے بلاگ کے حاشیئہ میں اسی طرح نظر انے لگے گا
You have shed a ray of suihsnne into the forum. Thanks!
sir kindly share the Book references of the speeches of Quaid e Azam you mentioned in the blog. thanks
شاہ فیصل صاحب
پہلی بات تو یہ ہے کہ مین نے متعلقہ تحریر یکم نومبر 2012ء کو شائع کی تھی ۔ اس کا مسؤدہ وسط 2012ء میں لکھا ہو گا کیونکہ ایسی تحاریر کو میں کئی ماہ زیرِ نظر رکھنے کے بعد شائع کرتا ہوں
آپ نے یہ سوال پوچھ کر مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آپ واقعی بادشاہ ہیں ۔ محترم قائد اعظم کی تقاریر کا مجموعہ انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں حکومتِ پاکستان نے 1980ء کی دہائی میں شائع کیا تھا ۔ آپ جب بھی پاکستان آئیں کسی معروف کُتب فروش سے خرید سکتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے پاس بھی ہو ۔ میں پاکستان سے باہر ہوں ورنہ خرید کر آپ کو تحفہ کے طور بھیج دیتا ۔ ویسے ایک پاکستانی کے منہ سے یہ الفاظ افسوناک ہیں