اچھی طرح تحقیق یا تفتیش کر لیجئے میں نے ساری زندگی کبھی کسی سے قرض نہیں لیا لیکن کل یعنی 15 نومبر 2012ء کو مجھے معلوم ہوا کہ میں 242683 روپے کا مقروض ہوں یعنی میری بیوی ۔ بیٹی اور مجھ پر فی کس 80894 روپے قرض چڑھ چکا ہے ۔ کیا یہ ظُلم نہیں ؟
آپ کیوں بغلیں بجا رہے ہیں ؟ اگر آپ پاکستانی ہیں تو آپ پر بھی 80894 روپے قرض چڑھ چکا ہے اور آپ کے گھر کے ہر فرد پر بھی اتنا ہی اور ہاں اتنا ہی ہر بچے پر بھی خواہ وہ ایک دن کا ہو
پاکستان کی اگست 1947ء میں آزادی سے لے کر جون 2008ء تک یعنی پیپلز پارٹی کی رواں حکومت بننے سے پہلے 60 برس میں مجموعی قرضے اور واجبات 6691 ارب روپے تھے جو پیپلز پارٹی کے موجودہ 4 سالہ دور میں بڑھ کر 14561 ارب روپے ہو گئے ہیں ۔ مطلب حکمران پیپلز پارٹی کے رواں دور حکومت میں قرضوں کے بوجھ میں 7870 ارب روپے کا اضافہ ہوا
ان اعداد و شمارکی روشنی میں پاکستان کی 18کروڑ کی آبادی جس میں شیر خوار بچے بھی شامل ہیں کا ہر فرد 80894 روپے کا مقروض ہے۔
جبکہ پیپلز پارٹی کے موجودہ دور سے قبل قرضوں کا یہ بوجھ 37172 روپے فی کس تھا
ایک ایسا ملک جہاں خود حکومت کی رپورٹ کے مطابق غربت کی شرح آبادی کا 58 فیصد ہو گئی ہے اور اسے خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے ۔ یہ مزید بوجھ ملک کی آئیندہ نسلوں کیلئے مصائب اور مشکلات میں مزید اضافہ کردیگا۔ حکومت جو روزانہ کی بنیاد پر بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے لے رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ مجموعی قرضے اور واجبات 16000 ارب روپے سے تجاوز کرجائیں گے۔ گزشتہ مالی سال 12۔2011 کے دوران حکومت نے 2000 ارب روپے کے قرضے لئے جو یومیہ 5.5 ارب روپے بنتے ہیں
ان 14561 ارب روپوں میں سے حکومت کا مقامی روپوں میں قرضہ 7638 ارب روپے اور بیرونی یعنی زرِ مبادلہ کا قرضہ 4365ارب روپے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ 694 ارب روپے ۔ بیرونی واجبات 227 ارب روپے ۔ نجی شعبے میں بیرونی واجبات 575 ارب روپے ۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائز بیرونی قرضہ 144ارب روپے ۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائز مقامی قرضہ 281ارب روپے اور کموڈٹی آپریشنز 438 ارب روپے ہیں
ماہرین کے خیال میں کرپشن ۔ خراب حکمرانی ۔ بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری اور ناقص اقتصادی طرزِ عمل کی وجہ سے موجودہ دور حکومت میں قوم پر قرضوں کا غیر معمولی بوجھ پڑا
رواں مالی سال کیلئے حکومت نے وفاقی بجٹ میں صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے 926 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ تاہم خدشہ ہے کہ سود کی یہ رقم مالی سال کے اختتام تک بڑھ کر 1100 ارب روپے تک پہنچ جائے گی
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
پاکستان میں ٹیکسوں کی ادائیگی اور وصولی کے لنگڑے لولے نظام کا شمار دنیا بھر کے سب سے ناکارہ ترین مالیاتی نظاموں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ کے قریب ہے لیکن ایف بی آر کے مطابق ایسے پاکستانی شہری جنہوں نے گزشتہ تین سال کے دوران ہر سال باقاعدگی سے ٹیکس دیا ہو، ان کی تعداد صرف دو لاکھ 60 ہزار بنتی ہے۔اس کے علاوہ گزشتہ برس پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تناسب صرف 9.1 فیصد بنتا تھا۔
ویسے افتخار صاحب آپ کا فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا کے اس اعلان کے بارے میں کیا خیال ہے جس میں ٹیکس چوروں کو عام معافی دیا جانا متوقع ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا کہنا ہے کہ وہ ٹیکس چوروں کے لیے عام معافی کا اعلان کر کے تیس لاکھ کے قریب پاکستانی باشندوں کو ٹیکسوں کی ادائیگی کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ ان تیس لاکھ افراد کا شمار ان پاکستانیوں میں ہوتا ہے، جنہیں ٹیکس ادا کرنے چاہئے لیکن وہ ایسا نہیں کرتے۔اس فیصلے کے تحت صرف ایک مرتبہ 40 ہزار روپے یا 420 امریکی ڈالر کے برابر ادائیگی کر کے کوئی بھی ایسا پاکستانی بے قصور ہو جائے گا جس نے چاہے اس سے پہلے ساری عمر کبھی کوئی ٹیکس ادا نہ کیا ہو۔ لیکن ساتھ ہی ایسے تمام افراد کو یہ وعدہ بھی کرنا ہو گا کہ اگلے سال سے وہ باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنا شروع کر دیں گے۔
آخر میں ایک چھوٹی سی خبر آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہونگا شائد آپ کی نظر سے نہ گذری ہو پڑھئیے اور سر دھنئے ۔۔۔۔
http://tinyurl.com/cbhhdw7
ارے جناب
اتنا تو میں تاوان فی سبیل اللہ دیتا ہوں۔
آپ تو پاکستان کے شہری ہیں۔آپ کا رونا حق ہے۔
لیکن محترم مجھے گزشتہ کل چوبیس سال پورے ہو گئے ملک بدر ہوئے۔
ابھی تک آپ پاکستانیوں کی دیکھ بھال کرنے کیلئے جان مار رہا ہوں
مبین قریشی صاحب
تبصرے کیلئے مشکور ہوں ۔ جب عدل مٹ جائے تو نظام لولا لنگڑا ہی ہو سکاتا ہے ۔ ٹیکس اُن لوگوں پر تو بڑھتا رہتا جن سے لینا نہیں چاہیئے یا جو باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر اُن سے وصول نہیں کیا جاتا جنہیں زیادہ دینا چاہیئے ۔ میں پنشنر ہوں مجھ پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا لیکن میرے بجلی ٹیلیفون اور گیس کے بلوں سے ہر ماہ انکم ٹیکس کاٹا جاتا ہے ۔
جو حوالہ خبر کا آپ نے دیا ہے یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔ شہنشاہِ اعظم غیر ملکی دوروں پر بھی اپنے شہزادے کو لے کر جاتے ہیں اور غیرملکی اعلٰی حکام کے ساتھ میٹنگوں میں اُسے ساتھ بٹھاتے ہیں
یاسر صاحب
آپ تو جنت کما رہے ہیں اور ہم بدمعاشوں کے اللوں تللوں کے نیچے دبے جا رہے ہیں
مشکلیں اتنی پڑی مجھ پہ کہ آسان ہوگئی
افتخار صاحب خراماں خراماں زندگی گزارو۔ کونسا یہ لوگ صبح شام دروازے کے آگے کھڑے ہوتے ہیں کہ جی قرض لوتا دو۔
یہ بات ہمیں پہلی بار جبان سرمے والی سرکار جرنل ضیاع صاحب نے بتائی تھی کہ بھٹو کی وجہ سے ساری قوم سترہ سترہ روپے کی مقروض ہے
اور یہ کسی نے بھی نہیں باتئی تھی کہ
جب سرمے والی سرکار جرنل ضیاع کو مکے والی سرکار اصلی تے سچی تے وڈی سرکار نے بذریعہ عزرائیل بمع ساتھیوں کے اپنے پاس بلا لیا تھا
تو
قوم کا پر فرد چھیالیس سو ورپے کا مقروض تھا
اس لئے قرضوں کی مقدار اور خرچوں کے شمار بتا بتا کر بلڈی سویلین کو بد نام کرنے کے
فوجی منصوبوں کا اآلہ کار بننے والے لکھاری لوگ بھی ہوتے ہیں
اور ان مو مغالطہ یہ ہوتا ہے کہ
قوم کو بڑے پتےکی چیز بتا رہے ہیں
اور پتہ ان کو خود بھی کم ہی ہوتا ہے
جی!!!!۔
درویش خراسانی صاحب
مجھے اپنی فکر نہیں ۔ میں تو جیسی کیسی بھی تھیں 7 دہائیاں گذار چکا ۔ فکر آپ جوانوں کی کرتا ہوں
خاور کھوکھر صاحب
بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ پینتیس پنتالیس سال پیچھے کیوں چلے گئے ۔ جو میں نے لکھا ہے یہ خلاصہ اس رپورٹ کا ہے جو موجودہ حکومت کے ادارے نے اپنی حکومت کو پیش کی ہے اور جس میں مبالغہ آرائی کا سوال نہیں ۔
البتہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا زمانہ مجھے یاد ہے کہ نہ گھی ملتا تھا نہ چینی سوائے چور بازار کے جہاں 2 یا 3 گنا قیمت پر ملتا تھا ۔ پیاز ایک روپے کا 2 کلو سے اچانک 5 روپے کلو ہو گیا تھا ۔ میں سینیئر افسر تھا اس کے باوجود تنخواہ میں گذارہ کرنے کیلئے گوشت اور پھل کھانا بند کر دیا تھا ۔ ضیاء الحق بُرا آدمی سہی لیکن اس کے زمانے میں خوردنی اجناس کی قیمتیں کم ہوئی تھیں اور 10 سال قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا تھا
Dear Blogger,
How are you? Your blogger is one of those who motivated me to start an Urdu website for Pakistani-Canadian community. I am very interested to have a dynamic young voice on our advisory board. Please allow us to have you as a blogger on our Canadian websitewww.awazcanada.com
To save Urdu language we need a lot of talented folks in our team. I am looking forward hearing from you.
Regards,
Najmi
Web Editor
آواز کینیڈا
نجمی صاحب ۔ السلام علیکم
خوش آمدَید ۔ میں اُردو زبان کی خدمت کیلئے تیار ہوں بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق ساری عمر کرتا ہی رہا ہوں ۔ میں ادیب یا شاعر یا صحافی نہیں ہوں اور اردو بطور مضمون میں نے آٹھویں جماعت پاس کرنے تک۔ ہی پڑھا ۔ دیگر میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے قوتِ عمل رکھنے والا جوان بنا دیا ۔ میں زندگی کی 7 دہائیاں گذار چکا ہوں ۔ میرے تجربے نے مجھے بتایا ہے کہ آدمی عمر سے بوڑجھا نہیں ہوتا ۔ بوڑھا ہونا ایک سوچ کانام ہے ۔ ہاں ۔ عمر زیادہ ہونے سے آدمی ضعیف یعنی جسمانی لحاظ سے کمزور ضرور ہو جاتا ہے ۔ جوانوں کی طرح بھاگ دوڑ نہیں سکتا لیکن تجربے کی بنا پر پائیدار سوچ رکھتا ہے ۔
ویسے مجھے حیرت ہوئی ہے کہ آپ نے مجھے اُردو کے فروغ کیلئے پیغام انگریزی میں دیا ہے