ذہن میں آیا کہ تعمیرِ اخلاق کی خاطر اہم عوامل کو صرف چند الفاظ میں بیان کیا جائے تاکہ بہت کم فرصت پانے والے قارئین بھی مستفید ہو سکیں ۔ چنانچہ میں نے چار پانچ سال قبل” چھوٹی چھوٹی باتیں “ کے عنوان کے تحت لکھنا شروع کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے اس سلسہ میں کئی درجن دو چار سطری عبارات لکھ چکا ہوں اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ایسی تحاریر دیکھنے کیلئے داہنے حاشیئے میں سب سے اُوپر بنے گوگل کے خانے میں چھوٹی چھوٹی باتیں لکھ کر Search پر کلِک کیجئے
حق حلال کہتے ہیں اپنی محنت کے پھل کو ۔ شاید 6 دہائیاں قبل ایک گانا ریڈیو پر سُنا تھا
محنت کی اک سُوکھی روٹی
ہاں بھئی ہاں رے
اور مفت کی دودھ ملائی
نہ بھئی نہ رے
یہ مجھے یوں یاد آیا ۔ ہمارے ہاں عام پاکستانی گھروں کی طرح بڑا دیگچہ اور چاول پکانے کا بڑا چمچہ ہیں کہ جب خاندان کے سب لوگ اکٹھے ہوں تو استعمال میں آتے ہیں ۔ چمچے کی دستی پر دونوں طرف لکڑی کی چفتیاں لگی ہیں ۔ اس کی دستی کی ایک چفتی غائب ہو گئی اور باہر نکلے ہوئے کیل ہاتھ کو چُبھتے ۔ بازار ٹھیک کرانے گیا تو (جدید) کاریگر نے کہا ،”یہ ٹھیک نہیں ہو سکتا“۔ میں نے خود بنا کر لگا دیا ۔ سفید رنگ کی لکڑی میں نے لگائی
کچھ دن قبل ہماری چائے بنانے والی دیگچی کی دستی جل کر اُتر گئی ۔ اسے ٹھیک کرانے گیا تو وہی پہلے والا جواب ملا ۔ سو خود ہی ٹھیک کرنا پڑی
یہ دونوں کام میں نے کیسے کئے ۔ اگر کسی کو دلچسپی ہوئی تو بتا سکتا ہوں
السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
محترم اجمل صاحب، میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اگرآپ شہر کراچی میں ہوتے تو آپ کو دونوں ہی کام بازار میں موجود پنجابی کاریگر کرکے دے دیتے۔ واضح رہے کہ اس بات کے کرنے سے میں کسی لسانی عصبیت کی طرف کوئی اشارہ نہیں کررہا ہوں۔
بحرحال اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی خوشی کا کوئی مول نہیں ہے۔
عبدالرؤف صاحب
کراچی اور لاہور دونوں جگہ ہر چیز مل جاتی ہے اور ہر کام بھی ہو جاتا ہے ۔ 2005ء کے بعد میں کراچی نہیں گیا ۔ پہلے کا میں یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ کہاں کیا ملے گا اور کہاں کونسا کام کروایا جا سکتا ہے ۔ یہی صورتِ حال لاہور کی بھی ہے ۔ اسی لئے میرا دل کراچی کے موجودہ حالات پر بہت کُڑھتا ہے
اتنے دنوں کے بعد میں آپ کے بلاگ پر آسکی اورہمیشہ کی طرح شوق سے آپ کا لکھاپڑھا تو کچھ تشنگی سی لگی بات ادوری جو چھوڑ دیے ہیں آپ ۔۔اب میں پوچھ رہی ہوں بھائی یہ ہی سوچ کر بات مکمل کردیجئے گا ۔ اللہ خوش رکھے آپ کو سدا
اب بتا دیجیے کیسے بنائی اور لگائی دستی آپ نے۔ ہمارے ہاں ضرورت پڑتی ہے۔
جدید کاریگروں کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں اور عزائم بلند ہیں۔ وہ چھوٹی موٹی چیزوں میں ہاتھ نہیں ڈالتے۔یہ ہمارے دور کی کاروباری حکمت عملی ہے کہ جس کام میں پیسہ زیادہ نا ملے اس میں ہاتھ نا ڈالو۔
بہن کوثر بیگ صاحبہ ۔ السلام علیکم
ایک بات تو ثابت ہوئی کہ آپ اُسی دور کی پروردہ ہیں جس کا میں پروردہ ہوں ۔ اسی لئے آپ نے ادھوری بات پکڑ لی ۔ بات مکمل کرنے کے بھی میں نے 2 حصے بنائے ہیں ۔ ایک کیلئے آپ کو کچھ دن انتظار کی زحمت گوارا کرنا پڑے گی ۔ دوسرا حصہ بتانے کیلئے میں نے لکھ دیا تھا کہ پوچھنے پر بتاؤں گا اور گمان غالب ہے کہ آپ کا اشارہ اسی طرف ہے ۔ ۔چمچے کیلئے میں نے اپنے کباڑ خانے میں جستجو کی تو گلاس (انگریزی میں چیری) کا ڈبہ مل گیا اس کی ایک طرف کی چفتی اتاری اور دستی کی شکل کی کاٹی ۔ پھر ریتی سے رگڑ کر گولائی بمطابق پہلی چفتی پیدا کی اور چمچے کی دستی کے مطابق 2 سوراخ کر لئے ۔ دستی میں لگی کیلیں جو اگے سے چپٹی تھیں انہیں ریتی سے رگڑ کر باریک کیا اور پھر ہتھوڑی سے دوسری طرف باہر نکال دیا ۔ اپنے کباڑ خانے سے 2 چھوٹے چھوٹے قابلے مع ڈھبریاں تلاش کئے اور کیل جو اب ضائع ہو چکے تھے ان کی جگہ ڈال کر کس دیا ۔
دیگچی کی دستی میں 2 قابلے لگے تھے جن کی ڈھبریاں دستی میں پیوست تھیں ۔ ان قابلوں کو ایک چھوٹی سی آری کے ساتھ کاٹ کر نکال دیا پھر اپنے کباڑ خانے سے 2 کھڑپینچے تلاش کئے ۔ دستی میں 2 سوراخ کھڑپینچوں کی موٹئی سے کم موٹائی کے کئے اور دستی دیگچی کے ساتھ رکھ کر کھڑپینچے کس دیئے
سعود صاحب
آپ کے سوال کا جواب اُپر کوثر بیگ صاحبہ کے جواب میں لکھ دیا ہے
کیا آپ اسلام آباد میں رہائش رکھتے ہیں کہیں جی 9 میں ؟ یا آپ سعد صاحب ہیں ؟
جواد احمد خان صاحب
درست کہا آپ نے ۔ میری یہ تحریر اسی کی نشان دہی کیلئے ہے
ویسے ہم تو کچھ جگاڑو قسم کے ہیں
ان ایسے چمچے یا کیتلیوں پر ایسا کوئی کام نکل آئے تو ہم کپڑا لپیٹ دیا کرتے ہیں
گھر والے سمجھ ہی نہین پاتے کہ کوئی مسئلہ ہوا ہے
ویسے یہ کراچی ہے یہاں ہر کام ہو سکتا ہے بس قیمت دینا ضروری ہے
یہاں تو اکثر مرمت کرنے والے جمعہ بازاروں یا اب تو گھروں کے باہر آوازیں لگاتے پھرتے ہیں
ام تحریم صاحبہ
میں اسلام آباد میں رہتا ہوں جدید اور بہت پڑھے لکھے لوگوں کے شہر میں ۔ آپ نے مجھے بچپن اور نوجوانی کا زمانہ یاد کرا دیا جب ہم راولپنڈی شہر میں رہتے تھے ۔ محلوں میں خوانچے والے اور کاریگر آوازیں لگاتے تھے بہت سے کام گھر بیٹھے ہی ہو جاتے تھے ۔ لیکن بی بی جی ۔ میں نے مُفت کام تو نہیں کروانا تھا
جی محترم
میرا نام سعود ہی ہے اور ضلع ساہیوال میں رہائش ہے۔
سعود صاحب
میں صرف پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا ۔ میرا حافظہ مجروح ہو چکا ہے اسلئے یاد نہیں آ رہا تھا ۔ دماغ کے کسی خۃلیئے سے پیغام آ رہا تھا کہ میں آپ کے نام سے واقف ہوں لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا تھا