میرا حافظہ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد بہت مجروح ہو چکا ہے ۔ کچھ عمر کا تقاضہ بھی ہو سکتا ہے ۔ پھر بھی کچھ خاص واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ذہن پر کبھی کبھی اُبھرتے رہتے ہیں
ایوب خان جب سیاسی جماعتوں کے مطالبات مان چکے تھے تو اصغر خان نے مجیب الرحمٰن (جو اگرتلہ سازش کیس میں قید کاٹ رہا تھا) کو رہا کرنے کی ضد کی ۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ اگرتلہ سازش ایک حقیقت تھی
دسمبر 1970ء کے انتخابات میں مجیب الرحمٰن کی جماعت نے اکثریت حاصل کی جسے ذوالفقار علی بھٹو نے قبول نہ کیا ۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہونے کی مخالفت ان الفاظ میں کی ”جو ڈھاکہ جائے گا ہم اُس کی ٹانگیں تو ڑ دیں گے“۔ پھر ایک جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے کہا ”اُدھر تُم اِدھر ہم“۔
بھارت کے پاکستان پر حملے کے دوران 12 دسمبر 1971ء کو اعلان ہوا کہ صدر محمد یحیٰ خان قوم سے خطاب کریں گے ۔ یہ تقریر نشر نہ ہوئی ۔ 16 دسمبر 1971ء کو بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل ہونے کے بعد یحیٰ خان کی ایک تقریر نشر کی گئی جس کا زمینی حقائق کے ساتھ کوئی ربط نہ تھا ۔ اگر متذکرہ تقریر 12 دسمبر کو نشر ہوتی تو بامعنی قرار دی جاتی ۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ”ہم خون کا آخری قطرہ بہنے تک لڑیں گے”۔ اس وقت تک سارے ملک کی اعلٰی سطح پر تشویش پھیل چکی تھی کہ ”یحیٰ خان کہاں ہے ۔ 12 دسمبر کے بعد نہ کسی نے اُسے دیکھا اور نہ وہ اپنا ٹیلیفون اُٹھاتا ہے ۔ اس کی بجائے کوئی عورت غیرملکی لہجہ میں انگریزی میں جواب دیتی ہے کہ صدر مصروف ہیں“۔
ابھی بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل نہیں ہوئی تھی کہ پولینڈ نے سوویٹ یونین کی ایماء پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کرانے اور فوجوں کے اپنی اپنی سرحدوں کے اندر واپس جانے کی قرارداد پیش کی ۔ مقتدر طاقت نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں شرکت کیلئے بھیجا ۔ بھٹو صاحب امریکا پہنچ کر زکام کے بہانے ہوٹل میں رہے اور اجلاس میں شرکت کیلئے مشرقی پاکستان پر بھارت کا قبضہ ہو جانے کے بعد پہنچے اور ایک بے ربط جذباتی تقریر کر کے اپنے کچھ کاغذات پھاڑ کر غُصہ دکھاتے ہوئے اجلاس سے باہر نکل گئے
صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں 7 دسمبر 1970ء کو ہونے والے انتخابات میں پی پی پی کا ایک آدھ نمائندہ منتخب ہوا تھا ۔ بعد میں وہاں کی منتخب حکومت کو ختم کر کے پی پی پی کی حکومت بنا دی گئی اور حیات محمد شیر پاؤ کو وزیرِ اعلٰی بنا دیا گیا جو بعد میں بم دھماکے میں ہلاک ہوئے ۔ سُنا گیا تھا کہ حیات محمد شیر پاؤ کا ذوالفقار علی بھٹو سے کچھ ذاتی اختلاف ہوا تھا جس کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے
29 مئی 1988ء کو محمد خان جونیجو کی حکومت بلا جواز توڑ دی گئی تھی جس کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی تھی ۔ اس کا فیصلہ محمد خان جونیجو کے حق میں دیا گیا لیکن جونیجو کی حکومت کو بحال نہ کیا گیا جو ناقابلِ فہم تھا
17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کی ہوائی حادثہ میں موت کے وقت آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے وہی کردار ادا کیا تھا جو بینظیر بھٹو کے سکیورٹی ایڈوائزر رحمٰن ملک نے 27 دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے وقت ادا کیا
1988ء کے انتخابات کے بعد آئین کے مطابق قومی اسمبلی نے پہلے سپیکر کا انتخاب کرنا تھا پھر مُنتخب سپیکر نے وزیر اعظم کا انتخاب کرانا تھا مگر سپیکر کا انتخاب کرانے سے قبل ہی بینظیر بھٹو کو وزیر اعظم نامزد کر کے کامیاب کرایا گیا جبکہ پی پی پی کے پاس اکثریت نہ تھی ۔ اکثریت بنانے کیلئے ایم کیو ایم اور فاٹا کے اراکین کو ساتھ ملایا گیا
بھارت کے وزیر اعظم راجِیو گاندھی نے بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت (1988ء تا 1990ء) میں اسلام آباد کا دورہ کیا ۔ جس کے دوران راولپنڈی اور اسلام آباد میں جہاں کہیں بھی جموں کشمیر لکھا تھا وہ مٹا دیا گیا یا بورڈ ہی اُتار یا اُکھاڑ دیا گیا حتٰی کہ کشمیر ہاؤس اور منسٹری آف کشمیر افیئرز کے بورڈ بھی اُکھاڑ کر چھپا دیئے گئے ۔ یہی نہیں ۔ راجِیو گاندھی نے بینظیر بھٹو کے پہلو میں بیٹھے پریس کانفرنس کی جس میں ایک صحافی کے جموں کشمیر کے متعلق سوال پوچھنے پر راجِیو گاندھی نے بہت غُصے میں کہا کہ ”جموں کشمیر نام کا کوئی اِیشو نہیں ہے اور کسی کو اس کے متعلق بات کرنے کا کوئی حق نہیں“ ۔ اس دوران بینظیر بھٹو اپنا چہرہ دوسری طرف کر کے ہنستی رہی
راجِیو گاندھی کے اِسی دورے کے دوران بینظیر بھٹو نے اُسے یقین دہانی کرائی کہ یورینیم کی افسودگی روک دی جائے گی اور بینظیر بھٹو کی حکومت خالصہ تحریک کے خلاف بھارت کی مدد کرے گی ۔ چنانچہ یورینیم کی آسودگی روک دی گئی تھی اور خالصہ تحریک کے سینکڑوں رہنماؤں کی فہرست ایک وزیر کے ہاتھ بھارت بھیجی گئی ۔ بھارت نے چُن چُن کر سکھ راہنما ہلاک کرنے کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر میں مسلمانوں پر ظُلم و استبداد کے پہاڑ توڑنے شروع کئے
جنگ بندی لائین جسے ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بھارت اور امریکا کی اِیماء پر لائین آف کنٹرول مان لیا تھا مقبوضہ جموں کشمیر میں رہنے والے اسے پار کر کے اپنے رشتہ داروں کو ملنے آزاد جموں کشمیر آیا کرتے تھے ۔ سُننے میں آیاتھا کہ بینظیر حکومت نے اُن راستوں کی اطلاع بھارتی حکومت کو دے دی تھی جس کے نتیجہ میں بھارتی فوج نے 1989ء میں 500 سو کے قریب کشمیری ہلاک کئے
بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے دورِ حکومت (1988ء تا 1990ء) میں جنرل اسلم بیگ کو ”تمغہ جمہوریت“ سے نوازا تھا
آئی جے آئی کی تخلیق 1988ء میں ہوئی تھی ۔ اس کے سربراہ غلام مصطفٰی جتوئی تھے جو 1988ء میں منتخب نہ ہوئے ۔ 1989ء میں پنجاب میں ایک نشست خالی کرا کے اسے جتوا کر قومی اسمبلی میں لایا گیا حالانکہ اس کا تعلق اور رہائش صوبہ سندھ کی تھی
وسط 1990ء میں اپوزیشن کی طرف سے بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد آنے کی خبر تھی لیکن حکومت ختم کر دی گئی اور غلام مصطفٰی جتوئی کو نگران وزیرِ اعظم بنا دیا گیا تھا
آجکل جسے مہران بنک سکینڈل کہا جا رہا ہے وہ دراصل حبیب بنک سکینڈل ہے ۔ 1990ء میں تو مہران بنک کہیں کاغذوں میں بھی نہیں آیا تھا ۔ البتہ اس کا مجرم یونس حبیب ہی ہے جو بعد میں وقوع پذیر ہونے والے مہران بنک سکینڈل میں بھی ملوّث تھا
غلام مصطفٰی جتوئی نے نگران وزیرِ اعظم ہونے کے باوجود انتخابات کے عمل میں حصہ لیا ۔ راولپنڈی سے ایک جلوس کی سربراہی کی جو ملتان جانا تھا مگر جلوس لاہور کے قریب پہنچنے پر نواز شریف کے نعرے لگنے شروع ہو گئے اور جتوئی جلوس سے الگ ہو گئے ۔ عوام نے کھیل بگاڑ دیا اور نواز شریف وزیرِ اعظم بن گئے
جو واقعہ کئی ذہنوں نے قبول نہ کیا یا اس پر ذہن حیران تھے وہ جام صادق کا وزیرِ اعلٰی سندھ بننا تھا کیونکہ اُسے کسی لحاظ سے بھی نواز شریف کا ساتھی نہیں کہا جا سکتا تھا
کراچی میں ستمبر 1991ء کے آخری حصے میں گورنر سٹیٹ بنک کا بیٹا دفتر اور گھر کے راستے میں اغواء ہو گیا ۔ انگلیاں جام صادق کی طرف اُٹھیں مگر بغیر آواز کیونکہ وہ اس کا خطرناک ماہر سمجھا جاتا تھا
جام صادق علی کے (جبری) حکم سے گورنر سٹیٹ بنک نے یونس حبیب کو مہران بنک کا لائسنس 1992ء کے اوائل میں جاری کر دیا
نواز شریف نے اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے کئی ماہ قبل ہی آصف نواز جنجوعہ کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تقرری کا اعلان کر دیا تھا
مہران بنک جسے بنانے کا لائسنس یونس حبیب کو 1992ء میں ملا تھا کچھ ہی سال بعد دیوالیہ ہو گیا تھا ۔ ستمبر 1992ء اور جون 1993ء کے درمیان مہران بنک سے 59 کروڑ روپے نکلوا کر متعلقہ افسران اور ان کے لواحقین میں تقسیم کئے گئے تھے ۔ پھر مہران بنک کے اربوں روپے نواز شریف کی جماعت کے وزیرِ اعلٰی صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) پیر صابر شاہ کی حکومت گرانے کیلئے استعمال کئے گئے ۔ خبر تھی کہ 10 کروڑ آفتاب شیر پاؤ کو دیئے گئے تھے
جب 1993ء میں نواز شریف کی حکومت مع اسمبلی توڑ دی گئی تو اس کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی گئی ۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت اور اسمبلی بحال کر دی مگر طاقت رکھنے والوں نے چلتا کر دیا اور غلام اسحاق خان کو بھی فارغ کر دیا
جب 1996ء میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور حکومت کے درمیان چپقلش ہوئی تو اصغر خان نے نصیر اللہ بابر کے اخباری بیانات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی ۔ یہ کیس اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کی حکومت ختم ہونے تک چلتا رہا ۔ اس کے بعد نہ پرویز مشرف کی حکومت نے اور نہ موجودہ حکومت نے اس کیس کی خبر لی مگر پچھلے سال سے پی پی پی نے اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اب تک جاری ہے
اصغر خان نے دسمبر 2011ء میں تحریکِ استقلال کو عمران خان کی تحریکِ انصاف میں ضم کر دیا تھا
ان حقاءق کو دیکھ کر یاد آ رہا ہے خصوصا” آپ کا حافظہ سمجھتے ہوئے
یاد ماضی عذاب ہے یارب – چھین لے مجھ سے حافظہ میرا