علامہ اقبال کا یومِ پیدائش مناتے ہوئے آج پورے مُلک میں چھٹی کے مزے لئے گئے ۔ کوئی ہے جس نے سوچا ہو کہ جو مشعل علامہ اقبال دکھا گئے تھے اُس پر عمل کیا جائے ۔ ملاحظہ ہو چند ارشادات
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ۔ ۔ ۔ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذر گاہ کا ۔۔۔۔۔ اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا ۔۔۔۔۔ آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا ۔۔۔۔۔ زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئي ۔ اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر ۔ چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مردہ ۔ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق ۔ عقل بے ربطیء افکار سے مشرق میں غلام
خودی کی موت سے مغرب کا اندرون بے نور ۔۔۔۔۔ خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذّام
خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب ۔۔۔۔۔ بدن عراق و عجم کا ہے بے عرق و عظّام
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر ۔۔۔۔۔ قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور ۔۔۔۔۔ کہ بیچ کھائے مسلمانون کا جامہء احرام
ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ ۔۔۔۔۔ اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میّسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو ۔۔۔۔۔ نہیں ہے بندہء حر کے لئے جہاں میں فراغ
فروغ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے ۔۔۔۔۔ تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ
وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس ۔۔۔۔۔ چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا ۔۔۔۔۔ صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ
گلستاں میں نہیں حد سے گذرنا اچھا ۔۔۔۔۔ ناز بھی کر تو باندازہء رعنائی کر
پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے ۔۔۔۔۔ پھر جہاں میں ہوس شوکت دلدائی کر
نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو ۔۔۔۔۔ آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ۔۔۔۔۔ ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
آج کا دن نہ صرف اقبال کے پیام کا احیا کا دن ہے بلکہ مزید اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس امر کا بھی تجزیہ بھی کریںکہ بحیثت قوم ہم نے گزشتہ سالوں کا کھویا اور کیا پا پا ۔
علامہ اقبال کی مشعل کو روشن کرنے کا شکریہ
اب تو سکولوں میںبھی قومی شخصیات کے دن جوش و خروش سے نہیںمنائے جاتے۔ عوام اب ایسے دنوں کو چھٹی کا ذریعہ سمجھتے ہیں بس اور کچھ نہیں۔ حکومتیں بھی ایسے دنوں کو سرکاری سطح پر منانے سے گریز کرنے لگی ہیں تا کہ ان عظیم شخصیات کے سامنے وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے شرمندگی سے بچ سکیں۔
محمد انور صاحب
جن بدقسمت لوگوں کو اللہ کا فرمان یاد نہیں وہ علامہ اقبال کا کہا کیسے یاد رکھیں گے ۔ قرآن ہمیں خود احتسابی سکھاتا ہے ۔ رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ نے خود احتسابی کی اور ہمیں اس کی ھدائت کی ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خود احتسابی کی ۔ ہم خود کو بدلتے نہیں چاہتے ہیں اسلام بدل جائے
افضل صاحب
ہماری قوم کی اکثریت یو سوچتی ہے ” انگریزوں نے ترقی نہیں کرنا تو کس نے کرنا ہے ۔ اُن کا بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے “